Category Archives: یادیں

قارئین کی فرمائش پر

امریتا پرتم 31 اگست 1919ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہوئی تھی ۔ وہ 1947ء میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔31 اکتوبر 2005ء کو بھارت میں فوت ہو ئی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی 100 کے لگ بھگ کُتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ پنجابی میں مندرجہ ذیل نظم امریتا پریتم نے 1947ء کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں بھارت میں اُسے زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہندوستان کے باقی علاقوں کی نسبت پنجاب اور جموں (ریاست جموں کشمیر) میں بہت زیادہ قتلِ عام ہوا تھا ۔ مسلمانوں کے کھیتوں میں کھڑی فصلیں اور محلوں کے محلے جلا دیئے گئے تھے
مجھے یاد نہیں کہ میں نے یہ نظم کب پڑھی تھی مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ قارئین کی فرمائش پر ہر شعر کے متصل اُردو ترجمہ لکھا ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کِتَھوں قَبراں وِچَون بَول ۔ ۔ ۔ آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول
تے اَج کتابِ عشق دا ۔ کوئی اگلا ورقہ پھَول ۔ ۔ ۔ اور آج کتابِ عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لِکھ لِکھ مارے وَین ۔ ۔ ۔ ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین
اج لَکھاں دِھیآں رَودیاں ۔ تَینُوں وارث شاہ نُوں کَیہن ۔ ۔ ۔ آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں
اُٹھ دردمَنداں دیا دردِیا ۔ اُٹھ تک اپنا پنجاب ۔ ۔ ۔ اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہُو دی بھری چناب ۔ ۔ ۔ آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتی زہر رَلا ۔ ۔ ۔ کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا
تے اَوہناں پانَیاں نے دَھرت نُوں دِتا پانی لا ۔ ۔ ۔ اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب
ایس زرخیز زمین تے لوُں لوُں پھُٹیا زہر ۔ ۔ ۔ اِس زرخیز پر جا بجا کونپلیں پھُوٹی زہر کی
گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں فُٹ فُٹ چڑھیا قہر ۔ ۔ ۔ بالِشت بالِشت چھڑھی سُرخی اور فُٹ فُٹ چڑھا قہر
ایہو ولی سی واء فیر وَن وَن وَگی جھَگ ۔ ۔ ۔ ایسی چلی تھی ہوا پھر طرح طرح کی نکلی جھاگ
اوہنے ہر اِک بانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا ۔ ۔ ۔ اُس نے ہر ایک بانس کی بانسری دی سانپ بنا
پہلا ڈنگ ماردیاں ۔ منتر گئے گواچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار ہی ڈَسنے سے ۔ جوگی مَنتر بھول گئے
دوجے ڈنگ دی لگ گئی جانے خانے نُوں لاگ ۔ ۔ ۔ دوسری بار ڈسنے سے جیسے گھروں کو جاگ لگ گئی
ناگاں کِلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ ۔ ۔ ۔ سانپوں کے زہریلے دانت منہ میں اور بس ڈَسنا ہی ڈَسنا
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ ۔ ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھے پنجاب کے سارے اعضاء نیلے پڑ گئے
وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر، ترکّلے اوں ٹُٹی تند ۔ ۔ ۔ حلق سے گیت نکنے بند ہوئے اور ترکّلے کی تانی بھی ٹوٹ گئی
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرَکھّڑے کُوکر بند ۔ ۔ ۔ علاقے کی دوستاں ختم ہوئیں اور چرکھّڑی کی آواز بھی بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ ۔ ۔ ۔ سیج سمیت کِشتیاں بہا دی گئیں
سنے ڈالیاں پینگ اج ۔ پِپلاں دِتی توڑ ۔ ۔ ۔ مع ٹہنیوں کے جھولے پیپل کے درختوں نے توڑ دیئے
جِتھے وَجدی پھُوک پیار دی اَو وَنجلی گئی گواچ ۔ ۔ ۔ جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم
رانجھے دے سب ویر ۔ اج بھُل گئے اَوس دی جاچ ۔ ۔ ۔ رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانا
دھرتی تے لہو وسیا ۔ تے قَبراں پَیّئاں چَون ۔ ۔ ۔ دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے
پرِیت دِیاں شہزادیاں ۔ اج وِچ مزاراں رَون ۔ ۔ ۔ پیار کی شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھی روئیں
اج تے سبے کیدو بن گئے حُسن عشق دے چور ۔ ۔ ۔ آج تو سب ہی کیدو بن گئے حسن و عشق کے چور
اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور ۔ ۔ ۔ آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور

میری ڈائری ۔ اَج آکھاں وارث شاہ نُوں

برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی آزادی کا قانون 18 جولائی 1947ء کو منظور کیا لیکن جب وائسرائے ہِند لارڈ مؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو پاکستان بنانے کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے تقسیم کا فارمولا تیار کرنے کا حُکم دے دیا تو ہندو مہاسبھہ ( ہِندِتوا)۔ راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) اور اکالی دَل نے مسلمانوں کا کُشت خُون شروع کر دیا ۔ پنجاب میں اِن کی مار دھاڑ زوروں پر تھی ۔ امریتا پریتم نے اس حال پر ایک پُر درد نظم لکھی تھی جو میں نے شاید 1956ء میں پڑھی تھی ۔ جنوری 1965ء تک جتنی مجھے یاد رہی میں نے اپنی ڈائری میں لکھ لی تھی
1965, Amrita

میری ڈائری ۔ کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں

میں پہلے بھی اپنی ڈائری سے فیض احمد فیض کے اشعار نقل کر چکا ہوں ۔ میں دسمبر 1964ء اور جنوری 1965ء میں ایک دوائی کے شدید ردِ عمل کے سبب 4 ہفتے ہسپتال میں صاحبِ فراش تھا ۔ وقت گذارنے کیلئے ایک ڈاکٹر صاحب نے فیض احمد فیض کا مجموعہ اشعار ”زنداں نامہ“ لا دیا تھا کہ وقت بھی گذرے اور ذہن پر بوجھ بھی نہ پڑے ۔ فیض احمد فیض نے یہ اشعار جیل میں عمر قید کی سزا کاٹتے ہوئے اپنی یورپین بیوی کی یاد میں لکھے تھے ۔ اہم بات یہ ہے کہ 1972ء میں شروع ہونے والے دور میں علامہ اقبال ۔ الطاف حسین حالی وغیرہ کو تعلیمی نصاب اور ذرائع ابلاغ سے نکال کر فیض احمد فیض صاحب کے اشعار کو وطن کی محبت قرار دیتے ہوئے ٹی وی اور دوسرے ذرائع پر پیش کیا جاتا رہا
1965, 130-132

تاریخی حقائق ۔ سابق سینیٹر کی زبانی

میں خود اس معاملہ میں ذاتی طور پر شریک تھا اور اس معاہدہ کو برادرم محمد خان جونیجو صاحب اور ان کے وزیر خارجہ اور دوسرے رفقائے کار کی ہمالیہ سے بڑی غلطی سمجھتا ہوں

آج افغان جہاد اور اس کے مضمرات کے بارے میں جس کا جو دل چاہتا ہے گوہر ا فشانی کرتا ہے لیکن انہیں تاریخی حقائق اور پالیسی کے اہم امور اور دلائل دونوں سے اتنی بے اعتنائی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے

جنیوا معاہدہ پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بحث ہوئی تھی ۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی بریفنگ کے لئے بھی ان کیمرہ (in camera) اہتمام کیا گیا تھا اور اس میں اصل پیش کار (Presentator) مرحوم جنرل حمید گل صاحب تھے جس کو جونیجو صاحب نے درمیان میں اچانک مداخلت (Abraptly intercept) کرکے رکوادیا تھا جس پر ہم نے احتجاج بھی کیا تھا۔ اس پرِیزینٹیشن (Presentation
) میں جو دلائل اور حقائق بڑے محکم انداز میں پیش کئے جارہے تھے وہ جونیجو صاحب کی خواہش کے خلاف تھے اور ارکان پارلیمنٹ پر اس کا گہرا اثر دیکھا جارہا تھا ۔ جینوا معاہدہ کے سلسلے میں ان کے موقف کو سراسر غلط اور ملک اور پورے علاقے کے لئے تباہ کن سمجھتا تھا اور سمجھتا ہوں مگر ان کی نیت پر شبہ نہیں کرتا۔ ان کو غلط مشورہ دیا گیا۔ ان کو خود ان معاملات کا وہ ادراک نہیں تھا جو ایک وزیر اعظم کو ہونا چاہئے اور وہ ملک کو مارشل لاء اور فوج کی بالا دستی کے نظام سے نکالنے میں جلدی میں تھے جس کا دوسروں نے فائدہ اٹھایا۔

صاحبزادہ یعقوب خان صاحب ان معاملات پر بے حد مضطرب پریشان اور دل گرفتہ تھے۔ لیکن بڑے دکھ سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم صاحب نے ان کی رائے کو کوئی وزن نہ دیا۔ حد یہ ہے کہ جنیوا معاہدہ کا اصل مسودہ بھی ان کو نہ دیا گیا۔ دفتر خارجہ کے لوگ بلاشبہ ان کا بہت احترام کرتے تھے لیکن ان میں یہ خوش خلقی (Courtesy) نہیں تھی کہ اپنے سابق وزیر خارجہ کو وہ مسودہ دے سکیں

جنیوا معاہدہ افغانستان میں تنازع کے اصل فریقوں کے درمیان نہیں تھا بلکہ ان کو الگ (Side step) کرکے کیا جارہا تھا۔ تحریکات آزادی میں حکومت وقت اور مزاحم قوتوں کا کردار اصل ہوتا ہے۔ جنیوا معاہدہ میں اصل کردار اقوام متحدہ، روس، امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کا تھا مگر مسئلہ کے اصل فریق اس میں بھی نہ تھےجس نے سارے مجوزہ انتظام کو صرف روس اور امریکہ کے مذاکرات کے تابع کردیا۔ پاکستان اور افغان عوام اور مجاہدین کے مفاد کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ ہم نے بار بار متوجہ کیا اور صاحبزادہ صاحب اس میں پیش پیش تھے اور یہی موقف جنرل ضیاء الحق کا اور آئی ایس آئی کا تھا کہ اصل مسئلہ صرف روسی فوجوں کے انخلاء کا نہیں۔ بلاشبہ وہ بہت ہی اہم اور اولین ضرورت ہے مگر یہ کافی یا لازمی نہیں ہے

دوسرا مرکزی مسئلہ جو شاید سب سے اہم افغانستان میں حکمرانی کے نئے بندوبست کا ہے اور اس کے طے کئے بغیر فوجوں کا انخلاء نئے مصائب کا باعث ،خانہ جنگی کا سبب اور پورے علاقے کے لئے تباہی کا باعث ہوگا اور سب سے زیادہ پاکستان کے لئے مسائل پیدا کرے گا جس کی زمین پر اس وقت تیس سے چالیس لاکھ افغان مہاجر موجود تھے ۔ ہمیں یقین تھا کہ کابل میں نئے اور اصل فریقین کے درمیان سیاسی انتظام کے بغیر نہ افغانستان میں امن آسکتا ہے اور نہ پاکستان سے مہاجرین کی واپسی ممکن ہوگی

لیکن جنیوا معاہدہ میں ان تمام پہلوئوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا اور افغانستان میں تصادم، خلفشار اور خانہ جنگی کے جاری رہتے ہوئے پاکستان کے لئے آزمائش اور جو کچھ حاصل ہوا تھا اس کو نہ صرف خاک میں ملانے بلکہ نئی دشمنیاں پیدا کرنے اور دوستوں کو دشمنوں میں اور محسنوں کو مخالفین میں تبدیل کرنے کا نسخہ تھا جس پر اس وقت کی قیادت نے امریکی اور روسی منصوبہ میں شریک کار بن کر فاش
غلطی کی اور آج تک اس کے نتائج کو پاکستان اور افغانستان دونوں مظلوم قومیں بھگت رہی ہیں

بشکریہ ۔ حامد میر