Category Archives: گذارش

وقت کی پُکار ؟؟؟

مایوسی گناہ ہے اور یہ آدمی کی اپنی کمزوریوں سے جنم لیتی ہےMy Id Pak
فرشتے آسمانوں پر ہوتے ہیں اس دنیا میں بہتر انسان کو تلاش کیجئے

دوسروں سے بھلائی کی اُمید میں وقت ضائع نہ کیجئے
”میں اکیلا کیا کروں“ کو ذہن سے نکال دیجئے

جو کرنا ہے آپ نے کرنا ہے

ایک اکیلا ہوتا ہے
اگر اپنے خلوص اور محنت سے وہ ایک ساتھی بنا لے تو 11 کے برابر ہوتے ہیں
اگر یہ دونوں اپنے خلوص اور محنت سے ایک اور ساتھی تلاش کر لیں تو 111 کے برابر ہو جاتے ہیں
11 مئی کو ووٹ ڈالنے ضرور جایئے اور ووٹ اُس اُمیدوار کو دیجئے جو آپ کے حلقہ کے اُمیدواروں میں سب سے زیادہ سچا ہو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تم وطن کے شیر ہو ۔ شیر ہو دلیر ہو
تم اگر جھپٹ پڑو تو آسماں بھی زیر ہو

تمہارے دم سے ہے وطن یہ مرغزار یہ چمن
دہک اُٹھے دمن دمن وہ گیت گاؤ ساتھیو

یہ زمیں یہ مکاں ۔ یہ حسین کھیتیاں
ان کی شان تم سے ہے تُمہی ہو ان کے پاسباں

بچاؤ ان کی آبرو ۔ گرج کے چھاؤ چار سُو
جو موت بھی ہو روبرو تو مسکراؤ ساتھیو

ظلم کو پچھاڑ کے ۔ موت کو لتاڑ کے
دم بدم بڑھے چلو صفوں کو توڑ تاڑ کے

گھڑی ہے امتحان کی ۔ دکھاؤ وہ دلاوری
دہک رہی ہو آگ بھی تو کود جاؤ ساتھیو

قدم بڑھاؤ ساتھیو ۔ قدم بڑھاؤ ساتھیو

تبدیلی ؟ کیسے ؟

آجکل تبدیلی کا بہت غُوغا ہے ۔ ہر سمت سے تبدیلی کے آوازے سُنائی دے رہے ہیں ۔ My Id Pak
بڑے بڑے جلسوں میں تبدیلی کا دعوٰی کیا جاتا ہے ۔ کہیں سونامی سونامی کیا جا رہا ہے ۔ کیا ماضی قریب میں آنے والے سونامی کو تباہی مچاتے نہیں دیکھا یا یہ کہ بہتری کی بجائے تباہی لانے والی تبدیلی لانا چاہتے ہیں

کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہتے ”ہم جہالت کے خلاف جہاد کر کے خلفائے رسول اللہ ﷺ کا دور واپس لائیں گے

تبدیلی کا نعرہ لگانے والے شاید خود بھی نہیں جانتے کہ تبدیلی کیسے لانا ہے اور اس کیلئے کیا کرنا پڑے گا

دیکھا جائے تو تبدیلی کا آغاز تو 2007ء میں ہو گیا تھا ۔ یہ تبدیلی آہستہ آہستہ اپنی منازل طے کر رہی ہے
ضرورت ہے اس تبدیلی کو جاری رکھنے کی اور اس کی رفتار قدرے تیز کرنے کی

کیا پہلے کبھی گدی پر بیٹھے پاکستان کے وزیر اعظم کو عدالت نے 5 سال کیلئے نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا تھا ؟
کیا کبھی پاکستان کے وزیر اور پھر وزیر اعظم بننے والے پر کرپشن کے مقدمات چلائے گئے تھے ؟
کیا کبھی جعلی ڈگری پیش کرنے پر اسمبلیوں کے اراکین یا سینیٹرز کو جیل بھیجا گیا تھا ؟

تبدیلی نعروں سے کبھی نہیں آئی اور نہ آئے گی ۔ اس کیلئے تحمل کے ساتھ پُرخلوص لگاتار محنت کی ضرورت ہوتی ہے

تبدیلی لانے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ
ہر ووٹر پچھلی غلطیوں پر نادم ہو اور آئیندہ غیرقانونی اور غیر اخلاقی عوامل سے اپنے آپ کو بچائے رکھے
ووٹ ایسے اُمید وار کو دے جو موجود اُمیدواروں میں سب سے زیادہ دیانتدار اور سچا ہو
لیکن ووٹ ضرور دے ۔ یہ سوچ کر نہ بیٹھا رہے کہ سب چور ہیں ۔ فرشتے الیکشن لڑنے نہیں آئیں گے ۔ اسلئے اُمیدواروں میں جو سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دے
یہ خیال بھی رہے کہ ووٹ سیاسی جماعت کے سربراہ کو نہیں دینا بلکہ اپنے علاقہ سے جو اُمیدوار ہیں اُن میں سے ایک کو دینا ہے اسلئے اس کی دیانت اور سچائی کو دیکھیئے نہ کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی

وقتِ عمل

میں 6 ماہ قبل یہ پیغام شائع کر چکا ہوں ۔ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئیMy Id Pak

نہ تو پہلی تصویر میں کھڑے آدمی کی طرح بے فکر بنیئے یعنی سب چور ہیں کہہ کر گھر نہ بیٹھے رہیئے ۔ بُروں میں سے جو اُمیدوار باقیوں سے بہتر ہے اُسے ووٹ دیجئے
اور
نہ دوسری تصویر میں دکھایا گیا راستہ اختیار کیجئے

وقتِ عمل ہے اور سوچ سمجھ کر عمل کیجئے تاکہ مستقبل سکون سے گذار سکیں

11 مئی 2013ء کو آپ کا فیصلہ ہی آپ کے مستقبل کو اچھا یا بُرا بنائے گا ۔ جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر عقل اور تجربے سے کام لے کر فیصلہ کیجئے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ غَلَطی

My Id Pak

کوئی شخص ایک ہی غَلَطی دو بار نہیں کرتا
کیونکہ
دوسری بار غلطی نہیں ہوتی بلکہ انتخاب ہوتا ہے

اب بھی سنبھل جائیں تو سب کچھ درست ہو سکتا ہے

عقلمندی کا ثبوت دیجئے اور 11 مئی کو ہونے والے قومی اور صوبائی انتخابات میں پچھلی غلطی نہ دہراتے ہوئے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفاد سے مبرّا ہو کر صرف مُلک کی بہتری کیلئے ایسے اُمیدواروں کو ووٹ دیجئے جنہوں نے آپ کی اپنی نظر میں پچھلے کم از کم 5 سال میں دیانتدار ہونے کا ثبوت دیا ہو اور قوم کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں

دیر نہ کیجئے

23 مارچ 2013ء کو دوپہر کے 12 بجنے کو تھے کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ۔ اُٹھایا تو آواز آئی ”میں الف نظامی بول رہا ہوں ۔ بلاگ کے حوالے سے آپ سے بات کرنا ہے“۔ میرے کان ہی نہیں رونگھٹے بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید میں نے انجانے میں کوئی گستاخی کردی ہے ۔ لیکن اُنہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بڑی پتے کی بات کہی جو میرے لئے ایک امتحان ہی بن گئی ۔ فرمانے لگے ”درخت انسانی زندگی کیلئے بہت اہمیت رکھتے ہیں مگر ہمارے ہاں لوگ درخت کاٹنے پر تُلے رہتے ہیں ۔ آپ اپنے بلاگ پر شجرکاری کی صلاح دیں“۔

الف نظامی صاحب تحمکانہ فرمائش کر کے چلے گئے اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میرے سامنے ایک اُونچا پہاڑ ہے جسے میں نے اس بڑھاپے میں سر کرنا ہے

میں مضمون کا سِرا تلاش کر رہا تھا تو یاد آیا کہ میں جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں کناروں پر باٹل برش کے 2 ۔ سوہانجنا کا ایک اور امرود کے 3 درخت تھے ۔ میں نے ان میں ایک لوکاٹ کا ۔ 2 آلو بخارے کے 3 خوبانی کے درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دور دور سے منگوائے تھے ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے وہ بھی انجنیئر تھے ۔ میں 1995ء میں کسی کام سے اُن کے ہاں گیا تو میدان صاف تھا ۔ بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے ہیں“۔ مجھے یوں لگا کہ کسی نے میرا دل کاٹ دیا ہے ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے اور درجن بھر ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھتک طریقہ علاج میں موجود نہیں

متذکرہ واقعہ ایک نمونہ ہے میرے ہموطنوں کی عمومی ذہنی حالت کا ۔ جدھر دیکھو درخت کاٹنے پر زور ہے

آج دنیا کی ترقی یافتہ سائنس ماحولیات پر سب سے زیادہ زور دیتی ہے اور ساتھ ہی شجر کاری کو صحتمند ماحول کا لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔ دین اسلام کے حوالے سے بات کریں تو سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ ”اگر مسلمان ایک درخت لگائے یا فصل بوئے جس میں سے ایک پرندہ یا انسان یا درندہ بھی کھائے تو اس خیرات کا بڑا اجر ہے (صحیح بخاری 2320 ۔ صحیح مُسلم 1553)

درخت گرمی کی حدت کو کم اور بارش برسانے میں کردار ادا کرتے ہیں جبکہ بارش اپنے اندر کئی صحتمند فوائد لئے ہوتی ہے
درخت ہوا میں اُڑتے کئی قسم کے ذرّات کو روک کر فضا کو صحتمند کرتے ہیں
کئی درخت انسان کو مختلف بیماریوں سے محفوظ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر گھر کے ارد گرد نِیم کے درخت لگا دیئے جائیں تو مچھروں اور کئی اور پتنگوں سے نجات مل سکتی ہے ۔ اگر دیسی سفیدے کے درخت گھر کے گرد لگا دیئے جائیں تو زکام سے نجات کا ذریعہ بنتے ہیں

مارچ کا مہینہ درخت لگانے کیلئے موزوں ترین ہے درخت لگایئے اپنی اچھی صحت کیلئے اور ساتھ اللہ سے انعام بھی حاصل کیجئے

دوسرے ممالک میں درخت لگانے کا حال کچھ اس طرح ہے کہ میں پہلی بار 1975ء میں متحدہ عرب عمارات گیا تو صرف العین میں ایک کیلو میٹر لمبی سڑک پر کچھ درخت نظر آئے تھے ۔ ابو ظہبی ۔ دبئی شارقہ وغیرہ میں کہیں درخت نظر نہ آئے ۔ مگر سُنا تھا کہ کوشش ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے درخت اُگانے کیلئے مٹی تک دوسرے ملکوں سے بحری جہازوں پر درآمد کر کے بچھائی ۔ پھر ماہرین نے بتایا کہ درختوں کی افزائش کیلئے چڑیاں اور دوسرے چھوٹے پرندے ضروری ہیں تو اُنہوں نے چڑیاں اور چھوٹے پرندے ہزاروں کی تعداد میں درآمد کئے ۔ شروع میں چڑیاں مرتی رہیں مگر اُنہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ میں 2008ء سے اب تک 4 بار دبئی جا چکا ہوں ۔ اب تو وہاں ہر طرف ہریالی اور درخت نظر آتے ہیں

جس زمانہ میں میں جرمنی میں تھا تو معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایک درخت کاٹ دے تو اُسے جرمانہ ادا کرنے کے علاوہ ایک کے بدلے 10 درخت لگا کر اُن کی حفاظت بھی کرنا ہو گی

ہم لوگ غیرملکیوں کی برائیاں تو اپنانے میں بڑے تیز ہیں ۔ اپنانا تو اُن کی اچھایاں چاہئیں

اُمید

میں نہیں جانتا لکھنے والا کون ہے ۔ میں نے کہیں یہ نظم پڑھی ۔ بار بار پڑھی ۔ اور ہر دم دل کی گہرائیوں سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا نکلتی رہی ”یا میرے مالک و خالق ۔ ایسا ہو جائے ۔ یا رب ذوالجلال والاکرام ۔ ایسا جلد ہو جائے ۔ اور یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرما“۔
اُمید کرتا ہوں کہ قارئین بھی صدق دل سے یہی دعا کریں گے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔ اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔ اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔ اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔ اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔ اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔ اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے ۔ دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔ جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔ یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اک بستی بسنے والی ہے