Category Archives: گذارش

ماہرین انٹرنیٹ کی مدد درکار ہے

السلام علیکم خواتین و حضراتFlag-1
صرف ماہرین نہیں وہ بھی مدد فرمائیں جو اپنے آپ کو ماہر نہیں سمجھتے کیونکہ ” مہمان فقیروں کے ہوئے ہیں بادشاہ اکثر“۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سب ایجادات ماہرین کی نہیں ہیں بلکہ متعدد ایسے لوگوں کی ہیں جو متعلقہ مضمون جانتے ہی نہ تھے

میرا مسئلہ
میرے کمپیوٹر میں کسی طرح وائرس گھُس گئی اور ونڈوز کو ناقص کر دیا ۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میرے پاس جاپان کا بنا ہوا ایپسن ایل ایکس 800 پرنٹر ہے جو سیریل پورٹ سے جوڑا جاتا ہے ۔ ونڈوز 7 پر یہ پورٹ نہیں چلتی چنانچہ مجھے ونڈوز ایکس پی ہی انسٹال کرنا پڑتی ہے ۔ میں نے اسے انسٹال کیا ہے تو نامعلوم مجھ سے کچھ غلطی ہوئی ہے یا کچھ اور سبب ہے کہ میں ایکسپلورر کا بٹن دباتا ہوں تو بعض اوقات ایکسپلورر کھُلنے کا انتظار ہی کرتا رہ جاتا ہوں پھر کیا دیکھتا ہوں کہ درجن بھر ٹَیب (Tab) نمودار ہو جاتے ہیں لیکن ویب سائیٹس نہیں کھُلتیں یا یُوں کہیئے کہ کھُلنے میں بہت زیادہ وقت لیتی ہیں اور میں کچھ کام نہیں کر سکتا جب تک ان سب کو حذف (delete) نہ کر لوں ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو تین بن بُلائے مہمان ویب سائٹس کھُل جاتی ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل زیادہ بار کھُلتی ہے ۔ میں موزِلّافائرفوکس استعمال کرتا ہوں
http://free.gamingwonderland.com

یہ عمل میرے اعصاب پر بھاری ہے ۔ اسلئے سب سے درخوست ہے کہ اس مرض سے نجات حاصل کرنے کیلئے میری مدد فرمائیں ۔ ممنونِ احسان ہوں گا

کل سے میں پریشان ہوں

مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ عرض ہے

یا رب ۔ میں سمجھا ہوں نہ سمجھوں گا اُن کی بات
دے اور سمجھ مجھ کو ۔ جو نہ دے اُن کو دماغ اور

قارئین جانتے ہں کہ میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں ۔ اب پتہ چلا ہے کہ تعلیم کی کمی کے ساتھ میری سمجھ میں بھی کمی ہے ۔ اسی لئے میں کل سے پریشان ہوں کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جب متعلقہ آدمی موجود نہ ہوں تو اُن کے شناختی کارڈوں کے عکس دیکھ کر کاغذات پر کوئی کیسے اُن کے انگوٹھوں کے نشانات لگا سکتا ہے ؟

تفصیل اس مشکل کی یہ ہے کہ کل ایک دیانتدار ۔ عقلمند اور ہوشیار سیاستدان نے دعوٰی کیا کہ نادرا کے 3 آدمی کامسَیٹ کی عمارت کے تہہ خانے میں کمپیوٹر سے لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر بیلَٹ پیپرز پر انگوٹھوں کے نشان لگا رہے ہیں

قارئین پڑھے لکھے ۔ سمجھدار ۔ ہوشیار اور جوان دماغ کے مالک ہیں ۔ میں قارئین سے التماس کرتا ہوں کہ از راہِ کرم مجھے سمھجا دیجئے کہ یہ کیسے ہوتا ہے ؟
تاکہ میری پریشانی ختم ہو ۔ ورنہ آپ جانتے ہیں کہ پریشانی صحت پر بُرا اثر ڈالتی ہے اور میری صحت پہلے ہی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے
میری صحت (اللہ نہ کرے) بگڑی تو اس کی ذمہ داری آپ پر بھی ہونے کا خدشہ ہے

یا اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھا

میرے عِلم میں اضافہ فرمایئے

میں دو جماعت پاس ناتجربہ کار ہوں لیکن عِلم کے حصول کی کوشش ضرور کرتا ہوں

رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو موزِیلا فائرفوکس چاروں شانے چِت ہوا اور اُٹھنے نہیں پا رہا تھا ۔ من بے صبرے نے گوگل کروم سے کام لیا ۔ ایسا کرنے کہ بعد کیا دیکھا کہ میرے بلاگ کی پوسٹ کی لکھائی کا تھوڑا سا حصہ بلاگ کے حاشیئے کی لکھائی پر چڑھ گیا ہے

عِلم والوں کی خدمت میں درخواست ہے کہ وسعتِ قلب یعنی دریا دِلی سے کام لیتے ہوئے اور رمضان المبارک میں کئی گنا ثواب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے سمجھائیں کہ اسے کیسے درست کیا جائے کہ گوگل کروم ۔ موزیلا فائرفوکس ۔ انٹرنیٹ ایکسپلورر سب میں درست نظر آئے

بندہ ہر مدد گار کا تہہ دل سے مشکور ہو گا

دعا کی استدعا

جسمانی لحاظ سے سن 2014ء ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا
اس حوالے سے میں دعا کرتا ہوں

اے اس کُل کائنات کے خالق و مالک
بلاشُبہ تیرے اختیار میں ہے بنانا ، بگاڑنا ، اُبھارنا ، بگڑے کو بنانا ، سیدھی راہ دکھانا ، سیدھی راہ پر چلانا اور دِلوں کی قدورتوں کو دُور کر کے باہمی محبت پیدا کرنا
تو نے 1947ء میں مسلمانانِ ہند کے دِلوں میں ایسی محبت اور نصب العین کی لگن ڈال دی تھی کہ وہ سب کچھ بھُلا کر ایک ہو گئے تھے اور مل کر ایسی تحریک چلائی جس کے نتیجہ میں تو نے ہمیں اپنی نعمتوں سے مالامال یہ ملک پاکستان عطا کیا
ہم نے تیری دی ہوئی آزادی کی قدر نہ کی اور تیری عطا کردہ نعمتوں کا ناجائز استعمال کیا اور آج ہم اس حال کو پہنچ گئے ہیں
تو رحیم ہے رحمٰن ہے کریم ہے عفو و درگذر تیری صفت ہے
ہماری خطاؤں اور نالائقیوں سے درگذر فرما اور ہمیں پھر سے ایک قوم بنا دے
ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما
ہمیں اس مُلک کی خاطر جو تو نے ہی عطا کیا تھا محنت اور لگن کی توفیق عطا فرما

میں چشم تر کے ساتھ آخر میں خواجہ الطاف حسین حالی صاحب کی لکھی دعا کو بطور ہر پاکستانی کی دعا کے دہراتا ہوں

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے ۔ ۔ ۔ اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے ۔ ۔ ۔ اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے ۔ ۔ ۔ اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب ۔ ۔ ۔ اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں ۔ ۔ ۔ پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے ۔ ۔ ۔ اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی ۔ ۔ ۔ پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر ۔ ۔ ۔ مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں ۔ ۔ ۔ بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں ۔ ۔ ۔ خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے ۔ ۔ ۔ نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ۔ ۔ ۔ ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے

میں فقیر نہیں ہوں

راشد ادریس رانا صاحب نے اپنے بلاگ پر ایک تحریر نقل کی جسے میں نیچے دُہرا رہا ہوں ۔ میری تمام قارئین کی خدمت میں عرض ہے کہ دولت کسی وقت بھی چھن سکتی ہے اور زندگی کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کہ کب اچانک ختم ہو جائے اسلئے آج ہی سے اپنے عزیز و اقارب ۔ محلے داروں ۔ ملنے والوں اور چلتے پھرتے نظر آنے والوں کو ذیل میں درج واقعہ کے راوی کی نظر سے دیکھا کیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ سے قریب ہی کوئی خاندان ایسا ہو گا جو بظاہر ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہیں یعنی اپنا بھرم کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں لیکن وہ فوری مدد کے مستحق ہیں ۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جلد مدد کیلئے آگے بڑھیئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ خاموشی سے کی ہوئی آپ کی امداد آپ کی دسترس میں کمی کرنے کی بجائے اِن شاء اللہ اسے اور بڑھا دے گی کیوں کہ اللہ ایک کے بدلہ میں 10 سے 100 تک دیتا ہے ۔ اُنہیں تو اللہ نے پال ہی دینا ہے تو کیوں نا اس نیکی کو آپ اپنے نام لکھ لیں
درجِ ذیل واقعہ کو اِنہماک سے پڑھیئے اور اپنا مستقبل درست کرنے کی کوشش کیجئے لیکن اس سے پہلے میری 3 دسمبر 2013ء کی تحریر پر نظر ڈال لیجئے

واقعہ
مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے ہوئے ایک معصوم سے چہرے پر نظر پڑی ۔ عمر یہی کوئی 14 یا 15 سال ہوگی ۔ پر پتہ نہیں ایسی کیا بات تھی اس کے چہرے پر کہ میں رُک کر اُسے دیکھنے لگا اور ایسی جگہ کھڑا ہو گیا جہاں سے مجھے وہ نہ دیکھ پائے ۔ وہ بچہ باہر نکلتے ہوئے جھجک رہا تھا ۔ نمازیوں نمازیوں کی طرف قدم بڑھاتا پھر پیچھے ہو جاتا ۔ میں سمجھ گیا کہ اس لڑکے کو ضرور کوئی ممسئلہ درپیش ہے ۔

خیر آہستہ آہستہ نمازی مسجد سے باہر نکل گئے ۔ وہ لڑکا دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر پیٹھ گیا اور زمین پر اپنی اُنگلیوں سے آڑھی ترچھی لکیریں بنانے لگا ۔ میری بے صبری طبیعت بھی اب مجھے اس کا حال احوال پوچھنے کیلئے اُکسانے لگی تھی سو اسکے پاس جا کر زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔ مجھے دیکھ کر وہ اُٹھ کر جانے لگا تو میں نے ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور پوچھا ”کیا ہو گیا ہیرو ؟ کیوں پریشان ہو ؟“

جواب ملا ”کچھ نہیں بھائی ۔ میں گھر جا رہا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ پھر جانے لگا تو میں بھی اُس کے پیچھے ہو لیا اور تھوڑی دور جانے کے بعد پھر سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا اور کہا ”دیکھو ۔ میں تمہارا بھائی ہوں ۔ تم مجھے جانتے ہو گے (دراصل آس پاس محلے کے لڑکے میرے بہت اچھے دوست ہیں اور تقریباً سب ہی مجھے نام سے جانتے ہیں)۔

میں نے کہا ”بھائی سے تو بات نہیں چھپایا کرتے ۔ میں جانتا ہوں تم کسی پریشانی میں ہو ۔ دیکھو ۔ تمہارا بھائی اتنے پیسے والا تو نہیں کہ تمہارے مسائل حل کر سکے ۔ پر جتنا ہو سکا اتنا ضرور کروں گا ۔ اس کی آنکھیں تو شاید کب سے برسنا چاہ رہی تھیں میری ان باتوں سے تو وہ ساون کی بپھری ہوئی برسات کی طرح برس پڑیں ۔ یہ 14 ، 15 سال کی عمر بہت حساس ہوتی ہے ۔ بچہ اس عمر مین نئی نئی چیزیں اور انسانی عادت سمجھتا ہے ۔ محسوسات میں اضافہ ہوتا ہے ۔ دُکھ یا خوشی کا مطلب سمجھنا شروع کرتا ہے ۔ میں نے اسے بہت مشکل سے چُپ کرایا پھر اسے کُریدنا شروع کیا تو جو کچھ اُس نے کہا وہ آپ لوگوں سے شیئر کرتا ہوں

”میں فقیر نہیں ہوں ۔ اللہ قسم میں فقیر نہیں ہوں ۔ کچھ عرصہ پہلے جب ابو سکول کی کتابیں لینے جا رہے تھے تو اُنہیں کسی نے گولی مار دی ۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ تمہارے ابو کی ”ٹارگٹ کِلِنگ“ ہو گئی ۔ امی نے فیکٹری مین کام کرنا شروع کر دیا لیکن جب وہ بیمار ہو گئیں تو کام چھوڑ دیا ۔ ابھی امی بہت بیمار ہین ۔ ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاتیں ۔ شام مین نے کہا ”امی ۔ اگر آپ ڈاکٹر کے پاس نہیں جائیں گی تو میں روزہ نہیں کھولوں گا ۔ پھر امی رونے لگی ۔ کہہ رہی تھیں کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں ڈاکٹر کے پاس چلی گئی تو رات کھانا کیا کھائیں گے ؟ اب تو دکان والا اُدھار بھی نہیں دیتا ہے ۔ عرصہ ہوا تمہارے چچا تایا وغیرہ بھی نہیں آئے ۔ مین نے امی سے کہا کہ میں کھیلنے جا رہا ہوں ۔ عصر کی نماز پڑھی تو مسجد میں ایک بندہ پیسے مانگ رہا تھا اور سب اسے پیسے دے رہے تھے ۔ وہاں سب مجھے جانتے ہیں تو پھر میں ادھر آپ لوگوں کے علاقے میں آ گیا کہ مجھے بھی پیسے ملیں گے تو میں امی کو ڈاکٹر کے پاس لیجاؤں گا ۔ لیکن جب مین نے مانگنے کی کوشش کی تو میں نہ تو ہاتھ پھیلا سکا اور نہ ہی میری آواز نکلی ۔ مجھے ابو یاد آ گئے وہ کسی سے بھی کچھ مانگنے سے منع کرتے تھے ۔ ابو بہت اچھے تھے ۔ سکول سے ایک بھی چھٹی نہیں ہونے دیتے تھے ۔ اب مین نے سکول بھی چھوڑ دیا ۔ اب اگر بھیک مانگوں گا تو ابو اور خفا ہو جائین گے ۔ پر پیسے نہ ہوئے تو امی ڈاکٹر کے پاس نہیں جائین گی پھر وہ بھی مر جائیں گی ۔ پھر میرا کیا ہو گا ؟ میں کہاں جاؤں گا ؟

شاید اس سے زیادہ مجھ میں بھی سننے کی ہمت نہیں تھی ۔ میں نے اپنے آنسو روکے اور اسے گلے سے لگا لیا ۔ جیب میں پاکٹ منی کی تھوڑی سی رقم تھی سو اسکے گھر گیا ۔ وہاں اس کی والدہ سے ملا اور پھر اپنے ننھے شیر کی ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے ۔ اس کے بعد ایک طویل کہانی ہے کہ کس طرح میں نے اپنے والد صاحب کو قائل کیا کہ ان کی مستقل مدد کرنا چاہیئے ۔ اس وقت بھی میری آنکھیں بھیگ رہی ہیں ۔ آنسوؤں سے ناجانے کتنی ہی معصوم کلیاں مجبوری کے پتھروں تلے کُچلی جاتی ہوں گی

میری ان تمام لوگوں سے گذارش جنہیں اللہ تعالٰی نے مناسب مال عطا کر کے ایک آزمائش مین ڈالا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں کہ کسی کو ہاتھ پھیلانے کا موقع نہ ملے ۔ یہ آپ کا احسان نہیں آپ کی ذمہ داری ہے ۔ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حلات خود سمجھیئے ۔ ڈھائی فی صد تو فرض ہے ۔ اپنے ہاتھ کھولیئے اور کثرت سے صدقہ و خیرات کیجیئے ۔ میں دروازے پر مانگنے والوں کی بات نہیں کررہا ہوں ۔ باہر نکلئیے اور مستحق لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کیجیئے ۔ یقین کیجیئے سب کچھ یہیں رہ جائے گا سوائے اُس (الباقیات الصالحات) کے جو آپ نے آگے بھیجا

یہ پیسہ اور مال کسی کام کا نہیں اگر اس سے کسی دکھی دل کی خدمت نہ ہو ۔ میں آپ کو وہ سکون اور خوشی کبھی بھی کسی بھی طرح نہیں بتا سکتا جو سچے دل سے اور بنا کسی بدلے کی اُمید کے کسی کا دکھ بانٹ کر ملتی ہے ۔ یہ بچپن بہت قیمتی ہوتا ہے ۔ خدا راہ کسی کا بچپن بچا لیجئے ۔ کسی کے موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی آنسو مٹی تک نہ پہنچنے دیجئے ورنہ یہ نمی مٹی تک پہنچنے سے پہلے بہت تیزی سے عرش تک جا پہنچتی ہے ۔ اس سے پہلے کہ اللہ تعالٰی کی بے آواز لاٹھی وار کرے اُٹھین اور دوسروں کی مدد کریں

ذمہ داری پوری کیجئے

اگر آپ اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے پوری نہیں کرتے تو آپ کو اپنے حقوق کی بات کرنے کا حق نہیں ہےMy Id Pak

ملک کے 18 کروڑ عوام جن میں بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ مرد ۔ لڑکیاں اور لڑکے سب شامل ہیں کی قسمت کا اختیار کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ گویا نہ صرف اپنے ماں ۔ باپ ۔ بہن ۔ بھائی ۔ خاوند یا بیوی ۔ بیٹا ۔ بیٹی بلکہ خود اپنی گردن بھی کسی کے ہاتھ میں دینا ہے ۔ اسلئے یاد رکھیئے کہ

انتخابات کھیل تماشہ نہیں اور نہ ہی چھٹی آرام کرنے کیلئے دی جاتی ہے ۔ خواہ کتنے ہی لاغر یا بیمار ہوں ۔ آپ ووٹ ڈالنے ضرور جائیے

فرشتے تلاش نہ کیجئے ۔ آپ کے علاقہ کے اُمید واروں میں سے جو کردار کے لحاظ سے سب سے بہتر ہو اُسے ووٹ دیجئے

تمام رنجشیں ۔ تمام دوستیاں ۔ تمام لالچ ۔ تمام اثر و رسوخ بھُلا کر ووٹ اُسے دیجئے جس کا ماضی باقی اُمیدواروں کے مقابلے میں زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

ووٹ ڈالنے کیلئے خواہ کوئی بھی لے کر جائے ۔ ووٹ اسے دیجئے جس کا ماضی زیادہ دیانتدار ہو اور بے لوث عوامی خدمت کرتا ہو

جس آدمی سے آپ ڈرتے ہوں اسے بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ آپ ووٹ کس کو دیں گے ۔ کہہ دیجئے ” آپ بالکل فکر نہ کریں ”

اپنے اہلِ خاندان اور دوسرے احباب کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش کیجئے

ورنہ اگلے 5 سال بھی پچھتانے میں گذریں گے

دوا بھی کیجئے

دعا کے ساتھ ساتھ دوا بھی کیجئے کہ 11 مئی 2013ء کو ہونے والی کاروائی کے نتیجے میں My Id Pak

خدا کرےکہ میری ارضِ پاک پہ اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہِ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھِلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں سے بھی روئدگی محال نہ ہو

خدا کرے کہ وقار اس کا غیر فانی ہو
اور اس کے حُسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے میرے ایک بھی ہموطن کیلئے
حیات جرم نہ ہو ۔ زندگی وبال نہ ہو