Category Archives: منافقت

القاب و خطابات

میں اپنی ایک دہائی پرانی تحریر معمولی رد و بدل کے ساتھ دُہرانے لگا ہوں کیونکہ آج اس کی ضرورت 2006ء کی نسبت شاید زیادہ ہے

پيرس فرانس ميں رہنے والے خاور صاحب آئے دن ہميں ياد کراتے رہتے ہيں کہ وہ کميار (کُمہار) ہيں
(خاور صاحب کب کے جاپان منتقل ہو چکے ہیں)

کميار يا کُمہارجو کوئی بھی ہے ایک ایسا ہُنرمند اور کاريگر ہے جس نے انسان کو مہذب بنايا ۔ اگر کميار يا کُمہار برتن نہ بناتا تو انسان آج بھی جانوروں کی طرح کھانا کھا رہا ہوتا ۔ اِسی طرح بڑھئی ۔ لوہار ۔ درزی ۔ تيلی ۔ جولاہا وغيرہ سب ہُنرمند اور کاريگر ہيں ۔ اگر یہ نہ ہوتے تو انسان آج تک قدرتی غاروں میں یا درختوں پر رہ رہا ہوتا ۔ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہوتا اور گھاس یا پتے کھا کر گذارہ کر رہاہوتا
بدقسمت ہيں وہ لوگ جو جھوٹی شان دِکھانے کے لئے اِن ہُنرمندوں کو اپنے سے کمتر سجھتے ہيں

ہمارے مُلک ميں بہت سے القاب و خطابات رائج ہيں
سردار ۔ خان ۔ نواب ۔ نوابزادہ ۔ ملک ۔ پير ۔ پيرزادہ ۔ رئيس ۔ صاحبزادہ وغيرہ
کُمہار ۔ دھوبی ۔ درزی ۔جولاہا ۔ لوہار ۔ تيلی ۔ ميراثی وغيرہ

اوْلالذکر اعلٰی سمجھے جاتے ہيں اور ان پر فخر و تکبّر کيا جاتا ہے اور يہ القاب و خطابات قابض برطانوی حُکمرانوں نے زيادہ تر اُن لوگوں کو ديئے جنہوں نے قابض برطانوی حُکمرانوں کی خوشنوُدی حاصل کرنے کيلئے اپنے ہموطنوں کے خلاف کام کيا
جبکہ آخر الذکر گھٹيا سمجھے جاتے ہيں ۔ اس رویّئے کو بھی برطانيہ کی غلامی کے دور ميں ہندوستان میں بسنے والے ہُنرمندوں کی تحقیر کیلئے رائج کیا گیا ۔ آج اِن لوگوں کو کمتر سمجھنے والوں کو فائيو سٹار ہوٹلوں ميں انسانيت کا پرچار کرتے شرم نہيں آتی

عبدالواحد کھوکھر صاحب انجیئرنگ کالج لاہور میں مجھ سے ایک سال آگے تھے مگر ایک ہی ہوسٹل میں رہنے کی وجہ سے دوستی ہو گئی تھی ۔ وہ ہنس کر کہا کرتے تھے ”ہم ہیں تو ترکھان ہی ۔ سچ میرے بڑے ترکھان کا کام کرتے تھے“۔ ان صاحب نے انجنیئر بننے کے بعد پڑھانے کا پیشہ اپنایا ۔ 1962ء میں وہ پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر تھے ۔ وہ پروفیسر تک بنے مگر جب بھی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ماحول پراگندہ ہوتا محسوس ہوتا کہتے ”ہم ہیں تو ترکھان ہی ۔ سچ میرے بڑے ترکھان کا کام کرتے تھے“۔

جب ميں ليبيا کی حکومت کا الخبير لِلمصانع الحربی (Adviser Defence Industry) تھا (مئی 1976ء تا فروری 1983ء) تو ايک بہت بڑے ادارے کے نائب رئيس (Vice Chairman) عبدالرحمٰن براملی ايک دن ميرے پاس آکر کہنے لگے ” آپ نے کبھی پوچھا نہيں کہ براملی کا کيا مطلب ہے ؟” سو ميں نے پوچھا تو کہنے لگے ” برمِيل (Barrel / Drum) کا ترجمہ ہے اور برامِل اس کی جمع ہے ۔ ميرے بزرگ برامِل بنايا کرتے تھے ۔ اُس زمانہ ميں برامِل لکڑی سے بنتے تھے چنانچہ ميرے آباؤاجداد بڑھئی يا ترکھان تھے” گويا ايم ايس سی انجنيئرنگ اور اعلٰی عہدے پر فائز شخص اپنے آباؤاجداد کے بڑھئی يعنی ہُنرمند ہونے پر فخر کر رہا تھا

يہ نام نہاد اعلٰی اور گھٹيا القابات و خطابات انگريزوں نے ہندوستانی مُسلمانوں ميں تفرقہ ڈال کر ہندوستان پر اپنی حکومت مضبوط کرنے کيلئے باقائدہ طور پر رائج کئے تھے جن سے ہماری قوم اب تک چِمٹی ہوئی ہے ۔ لوگ اِن القابات و خطابات کے معاشرہ پر بلکہ اپنی عاقبت پر مُضر اثرات سے بے خبر اِن کا اِستعمال کرتے ہيں ۔ نمعلوم کيوں لوگ بھول جاتے ہيں کہ سب انسان برابر ہيں اور اُن کی اچھائی اُن کے نيک اعمال ہیں نہ کہ پيشہ يا دولت يا بڑے باپ کی اولاد ہونا ۔ کتنے ہی انقلاب آئے مگر کسی کو سمجھ نہ آئی

مجھے ہُنر سیکھنے کا بچپن سے ہی شوق رہا ۔ ميں جب آٹھ نو سال کا تھا تو شہر کے کنارے ايک کُمہار صاحب کے پاس بيٹھ کر ديکھتا رہتا کہ وہ برتن کيسے بناتے ہيں ۔ ايک دن کُمہار صاحب نے مجھے پوچھا “برتن بناؤ گے ؟“ ميں تو کھِل گيا ۔ کُمہار صاحب نے تھوڑی سی مٹی چکّے پر لگائی اور ميرا ہاتھ پکڑ کر اُس سے لگايا اور اُوپر نيچے کيا تو چھوٹا سا گُلدان بن گيا

جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو میں نے بڑھئی کا کام سیکھ کر ایک لکڑی کی مسجد بنائی ۔ لوہار کا کام سیکھ کر ایک چھینی (Chisel) بنائی ۔ جب میں اسسٹنٹنٹ ورکس منیجر تھا (1963ء) تو میں نے گیس ویلڈنگ سیکھی ۔ میں نے درزی کا کام سیکھ کر اپنی قمیض اور شلوار سی ۔ میں نے کار کی ڈینٹنگ 1977ء میں سیکھی جب میں لبیا کی حکومت کا پاکستان کی حکومت کی طرف سے ایڈوائزر تھا اور ایک دوست کی کار کی ڈینٹنگ کی ۔ موٹر مکینک کا کام میں نے 1983ء میں سیکھا جب میں جنرل منیجر تھا

بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے افسر کا وڈیو بیان

یہ وڈیو ہے بھارتی خفیہ ادارے را کے افسر (بھارتی بحریہ کے کمانڈر) کلبھوشن یادیو کے اعترافِ جرم کی ۔ کمانڈر کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں گرفتار کیا گیا ۔ مکمل معلومات یہاں کلک کر کے پڑھیئے

پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا

ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں محاورے پڑھائے گئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ جنگ میں یا آپس میں دُشمنی ہو تو کوئی سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے پیچھے سے آ کر حملہ کر دے تو اُسے کہتے ہوں گے ”پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا“۔
بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کر لینے کے بعد 1962ء میں ملازمت شروع کی تو سمجھ میں آیا کہ دُشمن نہیں بلکہ یہ فعل دوست یا دوست کے بھیس میں دُشمن کرتا ہے ۔ اپنے ساتھ بِیتے کئی ایسے واقعات میں سے 4 بطور نمونہ نذرِ قلم کر رہا ہوں
کیا منافقت اس سے کسی فرق چیز کا نام ہے ؟

1 ۔ دسمبر 1962ء سے اپریل 1963ء تک 5 ماہ میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سینیئر لیکچرر تھا ۔ ایک دن میں صبح سویرے پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذر کر اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سینیئر لیکچرر مسٹر ”م“سامنے سے آتے ہوئے ملے جنہوں نے گارڈن کالج میں گیارہویں جماعت میں ہمیں فزکس پڑھائی تھی ۔ پوچھنے لگے ”آپ پرنسپل صاحب کو مل کر آ رہے ہیں ؟“ میں نے ”نہیں“ کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ایک دوسرے سینیئر لیکچرر جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے اور پوچھا ”آج صبح دیر ہو گئی تھی کیا ؟“ میرے ”نہیں“ کہنے پر بولے ”مجھے پرنسپل صاحب سے کام تھا تو صبح پہنچتے ہی اُن کے دفتر میں چلا گیا تھا ۔ بعد میں وہاں مسٹر ”م“ نے آ کر پوچھا کہ کیا بھوپال صاحب آج چھٹی پر ہیں ؟ میں نے سارا انسٹیٹیوٹ دیکھ لیا مگر نہیں ملے“۔

2 ۔ میں نے مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر ملازمت اختیار کر لی ۔ پہلے 6 ماہ ہمیں مختلف فیکٹریوں میں مشینوں اور ان کے کام کے مطالعہ کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ میں پہلے ماہ سمال آرمز گروپ میں تھا ۔ میرے ساتھ بھرتی ہونے والے 9 میں سے ایک مسٹر ”خ“ جو میری دوستی کا دم بھرتے تھے ایک قریبی فیکٹری میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون آیا ”جلدی آؤ تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے“۔ میں نے کہا ”چھٹی کے بعد ملوں گا“۔ بولے ”میں نے چائے منگوائی ہے اور چائے کے ساتھ کھانے کیلئے باہر سے کچھ منگوایا ہے ۔ اتنی بے مروّتی تو نہ کرو“۔ میں اپنے ورکس منیجر کے دفتر گیا ۔ وہ نہیں تھے تو میں دوسرے مجھ سے سینیئر اسسٹنٹ ورکس منیجر کو بتا کر چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو تو مجھے بٹھایا ساتھ ہی چائے آ گئی مگر مسٹر ”خ“ مجھے یہ کہہ کر دوسرے دفتر میں چلا گیا ”تم چائے پینا شروع کرو میں ضروری ٹیلیفون کر کے آتا ہوں“۔ میں نے چائے نہیں پی اور اُس کا 10 منٹ انتظار کرنے کے بعد واپس آ گیا ۔ میں 20 منٹ میں واپس پہنچ گیا ۔ واپس آنے پر سیدھا ورکس منیجر کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے پوچھا ”تم کہاں تھے ؟“ میرے بتانے پر بولے ”اس دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں میری شکل پسند نہیں ۔ اسی طرح ایسے بھی ہوں گے جنہیں تمہاری شکل پسند نہیں ۔ ہر آدمی کو دوست مت سمجھو“۔ میں حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگا تو اپنی گھڑی دیکھ کر بولے ”10 منٹ قبل مسٹر ”خ“ کا ٹیلیفون آیا تھا کہ مجھے اجمل سے ضروری کام ہے میں آدھے گھنٹے سے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مل نہیں رہا ۔ کیا وہ چھٹی پر ہے ؟“

3 ایک انجنیئر مسٹر ”ب“ صاحب نے پی او ایف میں ملازمت شروع کی ۔ اُنہیں 2 سال بعد اسسٹنٹ منیجر بنایا جانا تھا لیکن 3 سال سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی نہ بنایا گیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ میری محنت اور کارکردگی کی وجہ سے ٹیکنیکل چیف مجھ سے خوش تھے ۔ کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے ایک اسسٹنٹ کی منظوری ہو چکی تھی ۔ میں نے ایک اچھا موقع دیکھ کر اُن سے بات کی جس کے نتیجے میں پرانی تاریخ یعنی 2 سال کے بعد سے مسٹر ”ب“ کی ترقی ہو گئی اور اُسے ہماری فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا ۔ مسٹر ”ب“ میری دوستی کا دم بھرنے لگے
پھر 1973ء میں ہماری فیکٹری سے چوری ہوئی تو مسٹر ”ب“ کو گھر سے اُٹھا کر کسی تفتیشی مرکز میں رکھ دیا گیا ۔ میں نے اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل حتٰی کہ اپنی جان کی بازی لگا کر قانونی چارہ جوئی اور دیگر اقدامات کئے اور اللہ کے فضل سے اُنہیں 5 دن بعد رہا کر دیا گیا ۔ میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مسٹر ”ب“ نے کہا ”میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ جو آپ نے میرے لئے کیا ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو نہیں کر سکتا تھا“۔
اس کے بعد ذاتی مفاد کی خاطر مسٹر ”ب“ میرے خلاف من گھڑت کہانیاں بڑے باس تک پہنچاتے رہے جس کے نتیجے میں بڑے باس نے جو پہلے ہی غلط احکام نہ ماننے کی وجہ سے مجھ سے ناراض رہتے تھے کئی سال میری ترقی روکے رکھی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملی

4 ۔ پی او ایف میں ہر آفیسر کی سالانہ خُفیہ رپورٹ کی ابتداء اُس کا سیئنر آفیسر کرتا تھا ۔ اس فارم میں پہلا صفحہ وہ آفیسر خود پُر کرتا تھا جس کے متعلق رپورٹ ہوتی تھی ۔ میں پچھلے 8 سال سے جرمنوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اُن کی جرمن سمجھنا اور بولنا پڑتی تھی ۔ کئی ڈرائینگز بھی جرمن زبان میں ہوتی تھیں ۔ رپورٹ میں ایک خانہ تھا کہ کون کونسی زبان جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن صرف بول لیتا ہوں ۔ میرے سینیئر افسر مسٹر” گ“ نے مجھے بُلا کر کہا ”دو لفظ جرمن کے بول لیتے ہو تو یہاں لکھ دیا ہے ۔ اسے کاٹو“۔ میں نے کاٹ دیا ۔ دوسرے دن ایک مسٹر ”ع“ جو پی او ایف میں بھرتی ہونے سے لے کر منیجر ہونے تک میرے ماتحت رہے تھے میرے پاس آئے ۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ”باس مسٹر ” گ“ نے بُلایا تھا”۔
میں نے وجہ پوچھی تو بولے ”کہہ رہے تھے کہ رپورٹ فارم پر لکھو کہ تم جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھ دیا“۔
میں نے کہا ”آپ تو جرمن کا ایک حرف بولنا بھی نہیں جانتے اور آپ نے لکھ دیا“۔
بولے ”باس نے کہا تھا سو میں نے لکھ دیا ۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔
جرمن جاننے کی بناء پر مسٹر ”الف“ کو جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا جبکہ اس اسامی کیلئے میرے نام کی 3 سال قبل منظور دی گئی تھی جب مجھ سے سینیئر افسر کو تعینات کیا گیا تھا

تہمت اور عمل

آج صبح ساڑھے سات بجے ایک خبر پڑھی تو سلطان باہو کا کلام دماغ میں گھوم گیا جو قارئین کی نظر کر دیا تھا
جی چاہا تھا کہ دماغ میں پیدا ہونے والے جن الفاظ نے سلطان باہو کے کلام کی یاد دلائی تھی وہ بھی اُس کے ساتھ ہی لکھ دوں لیکن اسے سلطان باہو سے گستاخی سمجھتے ہوئے اپنا قلم اور کلام روک لیا جو متعلقہ خبر کے ساتھ پیشِ خدمت ہے

دوسرے نُوں راہ ہر کوئی دسے
آپے راہ تے سدھی چلنا اَوکھا
غیر دی اَکھ وِچ تنکا وِی دِسے
اپنی اَکھ دا شہتِیر نہ دِسدا
لوکاں نوں کرپٹ کہنا سوکھا
پر اپنے آپ نوں بچانا اَوکھا
کوئی کِسے دی گل نئیں سُندا
لوکاں نُوں سمجھانا اَوکھا
(آخری شعر سلطان باہو کا ہے)

خیبر پختونخوا کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اس سال میں عمران خان نے 4 بار سرکاری ہیلی کاپٹر بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ سے بنوں ۔ کوہاٹ ۔ منگورہ اور پشاور جانے کیلئے استعمال کیا

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں

ہاتھی کے دانت ۔ کھانے کے ۔ دکھانے کے اور

امریکی نیوز سائٹ اینٹی وار نے 27 جولائی 2014 کو لکھا کہ

رواں برس امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے 8 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی
اسرائیل کی طرف سے جن 4 مسلمان ممالک پر بمبار ی کی گئی یہ سوڈان ، فلسطین ، شام اور لبنان ہیں
جبکہ امریکہ کی طرف سے پاکستان ، یمن ، افغانستان اور صومالیہ پر بم برسائے گئے

سال 2014ء سے قبل امریکہ نے عراق اور لیبیا پر بھی بمباری کی ۔ اس طرح حالیہ برسوں میں امریکا اور اسرائیل کی طرف سے 10 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی

رپورٹ کے مطابق آج دنیا بھر میں ایک ارب 60 کروڑ مسلمان ہیں ۔ 49 ممالک زیادہ تر مسلمان آبادی پر مشتمل ہیں ۔ صرف اس سال ان ممالک میں سے 4 پر اسرائیل کی طرف سے اور 4 پر امریکہ کی طرف سے بمباری کی گئی

سال 2014ء میں امریکہ کی طرف سے جن 4 مسلمان ممالک پر بمباری کی گئی ان میں پاکستان 19 کروڑ 61 لاکھ آبادی کا ملک جہاں 96 فی صد مسلمان ہیں ۔ امریکا کی طرف سے حالیہ ڈرون حملہ 19 جولائی کو کیا گیا جس میں 11 افراد جاں بحق ہوئے ۔ امریکہ نے پاکستان پر 300 سے زائد حملے کئے جن میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے ۔ ان میں 168 بچے بھی شامل ہیں

یمن جس کی آبادی 2 کروڑ 60 لاکھ ہے جن میں 99 فی صد مسلمان ہیں ۔ 19 اپریل کو امریکہ نے یمن پر فضائی حملہ کیاجس میں 21 افراد جاں بحق ہوئے ۔ اس ملک پر 2009ء سے امریکہ نے ڈرون حملے شروع کر رکھے ہیں

افغانستان 3 کروڑ 18 لاکھ آبادی کا ملک جہاں 80 فی صد مسلمان ہیں ۔ امریکہ نے حالیہ بمباری 19جولائی کو کی جس میں 4 افرا جاں بحق ہوئے ۔ افغانستان پر 2001ء سے امریکہ نے 38100 فضائی حملے کئے اور 17500 بم گرائے

صومالیہ ایک کروڑ چار لاکھ آبادی کا ملک جہاں 99 فی صد مسلمان بستے ہیں ۔ امریکہ نے رواں برس جنوری میں اس پر حملہ کیا ۔

اسرائیل کی طرف سے جن 4 ممالک پر بم برسائے گئے ۔ ان میں سوڈان جو 3 کروڑ 54 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس میں مسلمان آبادی کا تناسب96.7 فی صد ہے

21 جولائی کو اسرائیل نے سوڈان میں ایک مشتبہ ہتھیاروں کے گودام پر بم گرا دیا ۔ اسرائیل نے الزام لگایا کہ یہ حماس کے لئے ہتھیار ذخیرہ کئے گئے تھے ۔ 2009ء اور 2012ء میں بھی اسرائیل نے سوڈان پر حملے کئے

فلسطین کی آبادی 18لاکھ ہے جن میں 98 فیصد مسلمان ہیں ۔ وہاں اسرائیل نے آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام سے بمباری کررکھی ہے اور شہید فلسطینیوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ 2012 میں بھی اسرائیل نے غزہ پر بمبار ی کی، اور 2008ء ۔ 2009ء میں بھی حملہ کیا جس میں 300 بچوں سمیت 1400 شہادتیں ہوئیں

شام ایک کروڑ 79لاکھ آبادی کا ملک جہاں87 فی صد مسلمان ہیں ۔ رواں برس 23 جنوری کو اسرائیلی حملوں میں 4 افراد کو شہید کیا گیا ۔

لبنان 59 لاکھ آبادی کے ملک میں 54 فی صد مسلمان ہیں ۔ 25 فروری کو اسرائیلی جنگی طیاروں نے ایک قافلے پر بمباری کی اور یہ الزام لگایا کہ وہ میزائل لے جا رہا تھا

الزامات اور حقیقت

Flag-1الزام ۔ 1 ۔ الیکشن ٹربیونلز دھاندلی کے متعلق درخواستوں کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گئے
حقیقت ۔ مئی 2013 کے الیکشن کے بعد ہارنے والے امیدواروں میں سے 410 نے 14 الیکشن ٹربیونلز میں پٹیشنز دائر کیں ۔ جولائی تک 292 پٹیشنز جو کُل درخواستوں کا 73 فیصد بنتا ہے پر فیصلے دے دیئے گئے تھے ۔ ماضی کے الیکشنز کے مقابلہ میں موجودہ الیکشن ٹربیونلز کی یہ کارکردگی بہترین ہے

الزام ۔ 2 ۔ الیکشن ٹربیونل کے متعصب ججوں کو الیکشن کمیشن نے ناقص طریقہ کار کے ذریعہ تعینات کیا
حقیقت ۔ ماضی میں ہائی کورٹ کے جج حضرات کو ہی انتخابی دھاندلی سے متعلق درخواستیں نمٹانے کا فریضہ سونپا جاتا تھا جس کے لئے وہ اپنے معمول کے مقدمات سننے کے بعد ٹائم نکالتے تھے۔ اس بار ریٹائرڈ ججوں کو الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا اور ان کا کام صرف اور صرف الیکشن پٹیشنز کو سننا ہے تا کہ فیصلے جلدی ہوں ۔ ان ججوں کو چُننے میں الیکشن کمیشن کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ متعلقہ صوبائی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس حضرات کی سفارش پر انہیں الیکشن ٹربیونلز کا جج مقرر کیا گیا

الزام ۔ 3 ۔ الیکشن ٹربیونلز جان بوجھ کر سست روی کا شکار ہیں
حقیقت ۔ یہ حقیقت ہے کہ الیکشن ٹربیونل مقررہ 120 دن میں اپنا کام مکمل نہ کر سکے مگر اس کی ایک اہم وجہ ہارنے والے امیدواروں کا اپنا رویہ ہے ۔ مثال کے طور پرتحریک انصاف کے عثمان ڈار بمقابلہ خواجہ آصف کیس میں ٹربیونل نے اپنے فیصلہ میں لکھا ہے کہ درخواست گزار (عثمان ڈار) عدالت کے سامنے پیش ہونے سے کتراتے رہے ۔ عدالتی احکامات کے جواب میں وہ بیرون ملک کاروباری دوروں کا بہانہ بنا کر پیش نہ ہوئے ۔ اس پر عدالت نے محسوس کیا کہ درخواست گزار کی کیس میں دلچسپی باقی نہیں۔ اس بنا پر عدالت نے درخواست گزار کو 30000 روپے جرمانہ جمع کرانے کا کہا مگر یہ رقم بھی جمع نہ کرائی گئی ۔ درخواست گزار کی عدم دلچسپی کی وجہ سے اس درخواست کو الیکشن کمیشن نے خارج کر دیا

الزام ۔ 4 ۔ اگر الیکشن ٹربیونل پی ٹی آئی کے کیسوں کا فیصلہ دے دیں تو ن لیگ کی حکومت ختم ہو جائے گی
حقیقت ۔ قومی و صوبائی انتخاب ہارنے والے تحریک انصاف کے امیدواروں میں سے صرف 58 امیدواروں نے الیکشن ٹربیونلز میں دھاندلی کی درخواستیں دائر کیں۔ ان درخواستوں میں سے 39 کیسوں میں الیکشن ٹربیونل فیصلہ دے چکے ہیں اور کسی ایک بھی کیس میں تحریک انصاف کا کوئی بھی امیدوار اپنا الزام ثابت نہ کر سکا ۔ تحریک انصاف کی صرف 19 درخواستوں کا فیصلہ آنا باقی ہے اور اگر ان تمام کا فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں بھی ہو جائے تو بھی سیاسی صورت حال بدلنے کا کوئی امکان نہیں

الزام ۔ 5 ۔ چار حلقوں میں بے مثال قسم کی دھاندلی ہوئی
حقیقت ۔ حلقہ این اے 110 ان چار حلقوں میں شامل ہے ۔ فیفن کے مطابق اس حلقہ میں کوئی ایک بھی انتخابی خلل اندازی نہیں ہوئی ۔ اس کے برعکس حلقہ این اے 1 میں جہاں سے عمران خان جیتے تھے فیفن کے مطابق 58 انتخابی خلل اندازیاں ریکارڈ کی گئیں
مزید یہ کہ اب تک الیکشن پیٹیشنز کے جو فیصلے ہو چکے ہیں ان کے مطابق صرف دو ارکان اسمبلی کے الیکشن کو دھاندلی کی بناء پر کلعدم قرار دیا گیا ہے اور یہ دونوں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے
الف ۔ صوبائی اسمبلی سندھ کے حلقے پی ایس 93 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے حفیظ الدین منتخب ہوئے تھے ۔ جماعتِ اسلامی کے عبدالرزاق نے الیکشن ٹربیونل میں پٹیشن داخل کی کہ حفیظ الدین الیکشن میں دھاندلی کی بنیاد پر جیتے ہیں ۔ دھاندلی ثابت ہو گئی اور الیکشن ٹربیونل نے حفیظ الدین کے انتخاب کو کلعدم قرار دے کر عبدالرزاق کو مُنتخب قرار دے دیا
ب ۔ این اے 19 ہری پور سے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر راجہ میر زمان جیتے تھے ۔ ہارنے والے نے ڈاکٹر راجہ میر زمان پر دھاندلی۔ جعلی ووٹوں اور جعلی پیلٹ پیپروں کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن ٹربیونل میں پیٹیشن دائر کی ۔ ٹربیونل نے صرف دوبارہ گنتی کا حُکم دیا تو پٹیشنر کو کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ پٹیشنر نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی کہ ووٹ اور بیلٹ پیپر چیک کئے جائیں جو کہ جعلی ہیں اور ان کا کوئی سرکاری رہکارڈ نہیں ۔ ثابت ہوا کہ 6 پولنگ سٹیشنوں پر لاتعداد جعلی ووٹ ڈالے گئے تھے ۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر راجہ میر زمان کی رُکنیت معطل کر دی اور ان 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا

الزام ۔ 6 ۔ الیکشن ٹربیونل مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلے دے رہے ہیں
حقیقت ۔ اب تک الیکشن درخواستوں کے نتیجے میں ن لیگ کے 10 اراکین کو ناکام قرار دیا جا چکا ہے ۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اراکین کو انہیں ناکام قرار نہیں دیا گیا ۔ اس کے برعکس تحریک انصاف کے صرف 3 اراکین کے خلاف فیصلے دے کر انہیں ناکام قرار دیا گیا ۔ ان فیصلوں سے سب سے زیادہ فائدہ آزاد امیدواروں کو ہوا جن کی تعداد 8 ہے جبکہ اس کے بعد پی پی پی کے 6 درخواست گزاروں کے حق میں فیصلے کئے گئے
جیسا کہ الزام ۔ 5 میں لکھا ہے ۔ پی ایس 93 میں الیکشن ٹریبیونل نے ووٹوں میں دھاندلی کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار دے کر پٹیشنر جو پی ٹی آئی کی ساتھی جماعت اسلامی کا ہے کو کامیاب قرار دے دیا ۔ جبکہ این اے 19 ہری پور میں جہاں پٹیشنر مسلم لیگ ن کا ہے ووٹوں میں دھاندلی کے باوجود الیکشن ٹربیونل نے پی ٹی آئی کے اُمیدوار کا الیکشن کلعدم قرار نہیں دیا اور سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کلعدم قرار نہ دیا اور صرف 6 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حُکم دیا ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اُمیدوار نے پی ایس 93 کے تمام پولنگ سٹیشنوں پر دھاندلی کی تھی

الزام ۔ 7 ۔ اگر دال میں کچھ کالا نہیں تو حکومت تحریک انصاف کی طرف سے 4 حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ پورا کیوں نہیں کرتی
حقیقت ۔ ان 4 حلقوں کا معاملہ پہلے ہی عدلیہ کے سامنے پیش کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں الیکشن ٹربیونل ہی عدالتی انکوائری کے ذریعہ کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں یا الیکشن ٹربیونل کے بعد سپریم کورٹ فیصلہ دے سکتی ہے ۔ حکومت اس معاملہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی

الزام ۔ 8 ۔ ن لیگ نے دھاندلی کر کے تحریک انصاف کے جہانگیر ترین کو ہرا دیا
حقیقت ۔ جہانگیر ترین کا حلقہ 154 متنازعہ 4 حلقوں میں شامل ہے ۔ اگرچہ الزام ن لیگ پر لگایا گیا کہ اُس نے دھاندلی کر کے جہانگیر ترین کو ہرایا مگر دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس حلقہ سے ن لیگ کا امیدوار ہارنے والوں میں بھی تیسرے نمبر پر رہا جبکہ جیتنے والے آزاد امیدوارمحمد صدیق بلوچ ہیں

الزام ۔ 9 ۔ پی پی پی نے بھی 4 حلقوں کو کھولنے کے مطالبہ کی حمایت کی
حقیقت ۔ پی پی پی اس بات پر خوش ہے کہ تحریک انصاف کی دھاندلی سے متعلق تمام تر توجہ پنجاب میں ہے جہاں گزشتہ انتخابات میں
پیپلز پارٹی بُری طرح ناکام ہوئی ۔ متنازعہ 4 حلقوں میں پی پی پی کو ملنے والے کل ووٹوں کی تعداد ایک فیصد ۔ 1 اعشاریہ 6 فیصد ۔ 2 اعشاریہ 9 فیصد اور 5 فیصد تھی جس کی بنا پر اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط کر دی گئی ۔ ان حالات میں پی پی پی کیوں نہ چاہے گی کہ ان حلقوں میں الیکشن کے نتائج کو کالعدم قرار دے دیا جائے

الزام ۔ 10 ۔ احتجاجی تحریک شروع کرنے سے پہلے تحریک انصاف نے تمام قانونی و آئینی تقاضے پورے کر لئے
حقیقت ۔ قانون کے مطابق الیکشن سے متعلق دھاندلی کا مسئلہ صرف الیکشن ٹربیونل کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے ۔ الیکشن میں دھاندلی سے متعلق کل درخواستوں کے 73 فیصد کیسوں کا فیصلہ ٹربیونل دے چکے ۔ ان فیصلوں کے خلاف کوئی بھی پارٹی قانونی طور پر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر سکتی ہے

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پچھلے 2 ہفتوں سے روزانہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کے خلاف جس قدر تضحیک اور ذلّت آمیز زبان استعمال کر رہا ہے اور جو بے بنیاد گٹیا الزامات اُن پر لگا رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھُپی بات نہیں ہے ۔ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری صاحب کی طرف سے بھیجے گئے ہتکِ عزت اور ہرجانہ کے قانونی نوٹس کے جواب میں عمران خان نے جو لکھا ہے واضح کرتا ہے کہ عمران خان کتنا سچا اور کس کردار کا مالک ہے ۔ ملاحظہ ہو جواب کی نقل ۔ ۔ ۔

عمران خان نے لکھا ہے ”عدلیہ کے خلاف کوئی توہین آمیز یا بدنیتی پر مبنی الفاظ استعمال نہیں کئے ۔ جو کچھ کہا وہ صرف مایوسی کا اظہار تھا کیونکہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے کوئی انصاف نہیں مل سکا۔ امید ہے آپ (افتخار محمد چوہدری) ذاتی مقدمہ بازی کے فیصلے پر نظرثانی کریں گے۔ آپ کے عہد ساز فیصلوں کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی “۔

عمران خان نے مقدمہ بعنوان ”سندھ ہائی کورٹ بار بنام وفاق پاکستان“ کے فیصلے کی تعریف بھی کی اور لکھا ”مستقبل میں جب کبھی کسی فوجی بلکہ کسی سولین مُہِم جُو کے دل میں اقتدار پر شب خون مارنے کی خواہش اُٹھے گی ۔ آپ کا وہی فیصلہ اس کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہو گا ۔ جس طرح آپ نے اپنی متحرک عدالتی قیادت کے ذریعے مُلک کے پس ماندہ طبقوں کو سستا اور فوری انصاف دلانے کی بھرپور کوششیں کیں ہم آج اس کا بھی اعتراف کرتے ہیں ۔ آپ کی عظیم خدمات کے معترف ہیں“ ۔

مزید لکھا ہے ” آپ نے ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی اورعدلیہ کی آزادی کیلئے کام کیا ہے ۔ 9 مارچ اور 3 نومبر 2007ء کو آپ ایک ایسے شخص سے لڑے جو ملک کے اقتدار پر غیر آئینی اور غیر قانونی حربوں سے قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لڑائی میں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی تھی ۔ آپ نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور فوجی آمر کا مقابلہ کیا ۔ پوری قوم آپ کو سلام پیش کرتی ہے ۔ میں بھی اس پر آپ کو سلام پیش کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ آپ یقیناً ان تمام اعزازات اور تمغوں کے شایان شان ہیں جو آپ کو ملے ۔ بلاشبہ آج بھی پوری قوم کا سر آپ کے کارہائے نمایاں پر فخر سے بلند ہے ۔ الفاظ کے چناؤ میں غلطی ہوئی ہے مگر اُمید ہے کہ آپ درگزرسے کام لیں گے اوربردباری کا ثبوت دیں گے“۔