Category Archives: معاشرہ

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔ میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں
میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی کئی مضامین یاد کئے سال میں ان گنت ٹیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ 10 سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مشکل ہوتی گئی ۔ 10 سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔
میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمشکل روزانہ ایک وقت کی سوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اُٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوئے کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ 6 سال بعد بی ایس انجنئرنگ کا سرٹیفیکیث مل گیا ۔
پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوئے ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔
سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سارا دن محنت کی پھر بھی باس کم ہی خوش ہوئے ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوئے پورا دن نوکری کی ۔ جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔
عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوٰی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے سجدہ غیر الله کو کروں یا نماز روزہ کی پابندی نہ کروں یا صرف نماز. روزہ. زکوٰة. حج کر لوں مگر حقوق العباد کا خیال نہ کروں جس کے متعلق الله سُبحانُهُ و تعالٰی کا فرمان ہے کہ اگر متعلقہ شخص معاف نہ کرے تو معافی نہیں ہو گی یعنی سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں
کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟
مگر افسوس ہمارے مُلک میں ایسا ہی ہوتا ہے چونکہ دِین کے بارے میں ہماری سوچ ہی ناپختہ ہے
پاکستان کے سکولوں میں کئی عیسائی لڑکے اور لڑکیاں بائبل کی بجائے اسلامیات پڑھتے ہیں کیونکہ اسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن مجید کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں ۔ 22 سال قبل بھرتی کے لئے انٹرویو لیتے ہوئے مجھے چند عیسائی امیدواروں نے حیران کیا کیونکہ انہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان امیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ لیکن اس سے وہ مسلمان تو نہیں بن جاتے ۔
غالباً 1981ء کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل افیئرز تھے ۔ میں نے اُنہیں تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ؟ اُنہوں نے کہا
اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
میری حیرانی پر اُس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں نے لبنان میں مسلمانوں کو فارغ وقت میں یہ تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں
کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سوائے اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور مُحمد صلی الله عليه و آله وسلم اس کے پیامبر ہیں ۔ اگر کلمہ اس طرح پڑھا جائے جیسے فکشن سٹوری پڑھتے ہیں تو اس کا کیا فائدہ ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔
زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

استقلال کامیابی کی چابی ہے

آج آپ بھلائی کریں
ہو سکتا ہے وہ کل کلاں بھُلا دی جائے
پھر بھی بھلائی کرتے رہیئے
آپ کے بھلائی کرنے پر
ہو سکتا ہے لوگ الزام لگائیں کہ اس کا مُحرّک خودغرضی اور پوشیدہ عزائم ہیں
پھر بھی بھلائی کرتے جایئے
دیانت داری آپ کو مخدُوش کر سکتی ہے
پھر بھی آپ دیانت دار ہی رہیئے
آپ نے جو سالوں میں بنایا وہ لمحوں میں تباہ کیا جا سکتا ہے
پھر بھی آپ بناتے جایئے

مٹی کا انسان

گا میرے مَن وا گاتا جا رے ۔ جانا ہے ہم کا دُور
ٹھُمک ٹھُمک ناہیں چل رے بَیَلّ وا اپنی ڈگریا ہے دُور
دُکھ سُکھ ساتھی ہیں جیون کے ۔ نہ گھبراؤ پیارے
آج نہیں تو کل جاگیں گے ۔ سوئے بھاگ ہمارے
جھُوٹے ناتے ہیں اِس جَگ کے سوچ ارے ناداں
جانا ہوگا تَوڑ کے اِک دن دنیا کے دَستُور
رہ جائے گا پِنجرہ خالی مٹی کے انسان
مالک پہ تُو چھوڑ دے ڈَوری جو اُس کو منظُور

بڑائی کِس میں ہے؟

بڑائی اِس میں ہے کہ
آپ نے کِتنے لوگوں کو اپنے گھر میں خوش آمدَید کہا۔ نہ کہ آپ کا گھر کِتنا بڑا ہے۔
آپ نے کِتنے لوگوں کو سواری مہیّا کی۔ نہ کہ آپ کے پاس کِتنی اچھی سواری ہے
آپ کِتنی دولت دوسروں پر خرچ کرتے ہیں۔ نہ کہ آپ کے پاس کِتنی دولت ہے
آپ کو کِتنے لوگ دوست جانتے ہیں۔ نہ کہ کِتنوں کو آپ دوست سمجھتے ہیں
آپ سب سے کِتنا اچھا سلوک کرتے ہیں۔ نہ کہ کِتنے عالِیشان محلہ میں رہتے ہیں
آپ نے کِتنا سچ بولا اور کِتنے وعدے پورے کئے۔ نہ کہ آپ نےکِتنے لوگوں کو بُرے ناموں سے پُکارا

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دُکھ بھُلا دیں اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں اور ان میں خُوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کُن اور اطمینان بخش یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے اور الله کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے