Category Archives: مزاح

ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

ايک گيت بہت مشہور ہوا تھا ۔ کسی نے اُس کا سوانگ (parody) لکھا تھا ۔ نیچے پہلے اصل گیت اور پھر اس کا سوانگ

اصل گیت

اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم ۔ ۔ ۔ معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن ۔ ۔ ۔ رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں ۔ ۔ ۔ آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام ۔ ۔ ۔ اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری ۔ ۔ ۔ لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں ۔ ۔ ۔ تو مرے غم کو لا دوَا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے ۔ ۔ ۔ اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں ۔ ۔ ۔ جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خُوشی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔آنے والے دِنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے ۔ ۔ ۔ میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا ۔ ۔ ۔ اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے ۔ ۔ ۔ اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رکوں ۔ ۔ ۔ جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے ۔ ۔ ۔ تو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں ترا شیر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے ۔ ۔ ۔ وقتِ رُخصت ،سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے ۔ ۔ ۔ تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی ۔ ۔ ۔ تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے ۔ ۔ ۔ کل کِسی وقت شام سے پہلے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

سوانگ

اس سے پہلے کہ گھر کے پردوں سے ۔ ۔ ۔ ٹيڈی پتلون میں سِلوا لوں
اس سے پہلے کہ تجھ کو دے کر دل ۔ ۔ ۔ ترے کُوچے ميں خود کو پِٹوا لوں
اس سے پہلے کہ تيری فُرقت ميں ۔ ۔ ۔ خُود کُشی کی سکِيم اپنا لوں
اس سے پہلے کہ اک تيری خاطر ۔ ۔ ۔ نام غنڈوں ميں اپنا لکھوا لوں
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا

اس سے پہلے کہ وہ عدُو کمبخت ۔ ۔ ۔ تيرے گھر جا کر چُغلياں کھائے
اس سے پہلے کہ دیں رَپٹ جا کر ۔ ۔ ۔ تيرے ميرے شريف ہمسائے
اس سے پہلے کہ تيری فرمائش ۔ ۔ ۔ مجھ سے چوری کا جُرم کروائے
اس سے پہلے کہ اپنا تھانيدار ۔ ۔ ۔ مرغ تھانے ميں مجھ کو بنوائے
ميں تيرا شہر چھوڑ جاؤں گا

تجھ کو آگاہ کيوں نہ کر دوں ميں ۔ ۔ ۔ اپنے اس انتظام سے پہلے
مشورہ بھی تجھی سے کرنا ہے ۔ ۔ ۔ اپنی مَرگِ حرام سے پہلے
کوئی ايسی ٹرين بتلا دے ۔ ۔ ۔ جائے جو تيز گام سے پہلے
آج کے اس ڈِنر کو بھُگتا کر ۔ ۔ ۔ کل کسی وقت شام سے پہلے
ميں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا ۔ ۔ ۔ دل کی گردن مروڑ جاؤں گا

گھر گرہستی بناون دے ڈھاڈے اصول

1 ۔ زنانی اِک ای چنگی
دو آپس وِچ ؒلڑ بھِڑ کے وَل ہو جاون گِیئاں ۔ پر مرد اَندروں اَندر ای گھُل جائے گا

2 ۔ زنانی تَوں ہَٹ کے ہور کوئی شے اِک نیئں ہونی چہی دی
نیئں تے مرد تنگ پے کے دُوجی زنانی دا سوچے گا

3 ۔ گھر وِچ سُگھڑ زنانی دے نال مرد وی سُگھڑ ہونا چہی دا اے
مرد سُگھڑ نہ ہوے تے زنانی ہر شے الماری وِچ اَیوَیں تُنی جائے گی جِیویں الماری نیئں تھانہ اے
جے زنانی سُگھڑ نہ ہوے تے ہَور کُج نیئں ہَوے گا بس مرد ذیابیطس تے دِل دی بیماری دا مریض ہو جاوے گا
رَب نہ کرے اگر دَوے جی سُگھڑ نہ ہَوَن تے گھر نُوں محلے دار ای سانبھن گے

انتباہ ۔ میں شاعر نہیں اور بے ادب بھی ہوں یعنی ادیب بھی نہیں ۔ یہ میرے دماغ کے مزاحیہ حصے کی اختراع ہے ۔ اسلئے ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ۔ شاعر نے کہا تھا
کوئی آئے کوئی جائے میلہ رُکنے نہ پائے
میلہ جگ والا ساتھی رے ۔ چلتا رہے

چَوندا چَوندا یعنی تازہ گرم گرم

پروفیسر انور مسعود صاحب کے کلام کا کمال ہے کہ روتوں کو ہنسا دے ۔ اور کبھی کبھی ہنستوں کو رُلا بھی دیتے ہیں
آج اِن کا تازہ مزاح پارہ ملاحظہ فرمایئے

اتنا آسان بھی نہیں ہے اہتمامِ ازدواج
کامیابی کیلئے محنت مشقت کیجئے
سیکھیئے عمران خان سے خانہ آبادی کا راز
آپ کو شادی کرانا ہو تو دھرنا دیجئے

بلاگستان کی پی پی

میرا معمول ہے کے صبح سویرے پھر دوپہر اور پھر شام کو بلاگستان کھول کر نظر ڈالتا ہوں کیا نیا ہے

آج جو صبح سویرے کھولا تو پی پی (PP) نظر پڑی ۔ آگے بڑھا تو اور پی پی (PP) ۔ آگے اور پھر اور پی پی (PP) ۔

میں بھی ہمت نہ ہارا اور آگے بڑھتا گیا حتٰی کہ وہ تحاریر شروع ہو گئیں جو گذشتہ شام کو دیکھی تھیں

چنانچہ اس حد تک مبلغ ڈیڑھ درجن پی پی (PP) یعنی پوری 18 عدد پی پی (PP) تحاریر گِن چکا تھا نصف جن کے 9 ہوتے ہیں

شاید اسلئے کہ آج پی پی (PP) کی ایک بڑی لیڈر کا یومِ وصال ہے

اس وقت تک میری پی پی (PP) بول گئی

کچھ لطیفے زمانہ حال کے

بیوی واپس گھر میں داخل ہوتے ہی خاوند سے ”کار کے کاربُوریٹر میں پانی ہے”
خاوند ”کیا کہہ رہی ہو ۔ تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کاربُوریٹر ہوتا کیا ہے“۔
بیوی ”مجھ پر یقین کیوں نہیں کرتے ۔ میں کہہ رہی ہوں کاربُوریٹر میں پانی ہے“
خاوند ”میں خود دیکھتا ہوں ۔ کہاں ہے کار ؟“
بیوی ” پانی کے تالاب میں“

اُستاد ” زین ۔ پانی کا کیمیائی کُلیہ کیا ہے ؟“
زین ” ایچ آئی جے کے ایل ایم این او (H I J K L M N O)“۔
اُستاد ” یہ کیا بول رہے ہو ؟“
زین ” کل آپ ہی نے تو بتایا تھا ۔ ایچ ٹُو او (H2 O)“

اُستاد ایک 9 سالہ طالب علم سے ” ایسی ایک اہم چیز کا نام بتاؤ جو آج ہمارے پاس ہے لیکن 10 سال قبل نہیں تھی “
طالب علم ” میں “۔

اُستاد ایک چھوٹے سے لڑکے سے ” شہزاد ۔ تمارے کپڑے ہمیشہ میلے کیوں ہوتے ہیں ؟“
شہزاد ” کیونکہ میں آپ کی نسبت زمین کے بہت قریب ہوں“۔

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” “Afghanistan war not in our interests”, president Karzai “

ایک نیا مرض

ایک نیا مرض جو بڑھتا جا رہا ہے اور کچھ خاندانوں کیلئے پریشانی کا باعث بن بھی چکا ہے
مُشکل یہ ہے کہ اس مرض کا علاج بڑے سے بڑے ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے
اچنبے کی بات ہے کہ اس مرض سے پریشان اکثر وہی ہیں جو اس کے جراثیم بصد شوق خود ہی لے کر آئے تھے

کہیں آپ بھی اس مرض میں مبتلاء تو نہیں ؟
کیا ہے وہ نیا مرض ؟ خود ہی دیکھ لیجئے

ابتداء یعنی جب مرض کے جراثیم گھر میں آئے خوشی بخوشی

پھر دلچسپی بڑھی

جب شوق عشق میں ڈھل گیا

نوبت یہاں تک پہنچی

انجامِ کار

پھر کمپیوٹر کا استعمال ؟