Category Archives: سیاست

دعوے اور عمل ؟ ؟ ؟

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرَر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا

یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے

آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ میں نے پچھلے سال ستمبرمیں دوسرے بلاگ [حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے] میں لکھا تھا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989ءمیں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے آزاد جموں کشمیر میں آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی مزید جن دشوار گزار راستوں سے یہ لوگ آزاد جموں کشمیر میں داخل ہوتے تھے اُن کی بھارت کو نشان دہی کر دی گئی جس کے نتیجہ میں بھارتی فوج نے 500 کے قریب بے خبر مجبور کشمیریوں کو شہید کر دیا ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990ء کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔

اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947ء میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔

قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔

قائداعظم اور قرآن ۔ 3

جہاں تک شراب پر پابندی کا تعلق ہے قائداعظمؒ نے 7 جولائی1944ء کو ہی راولپنڈی کی ایک تقریب میں ایک سوال کے جواب میں اعلان کردیا تھا کہ پاکستان میں شراب پر یقیناً پابندی ہوگی (بحوالہ قائداعظمؒ کے شب و روز، خورشید احمد خان مطبوعہ مقتدرہ قومی اسلام آباد صفحہ 10)
یہی وہ بات ہے جس سے روشن خیال بدکتے اور پریشان ہو کر سیکولرزم کا پرچار کرنے لگتے ہیں۔ قائداعظمؒ ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔ وہ وہی کہتے جوخلوص نیت سے محسوس کرتے اور جس پر یقین رکھتے تھے۔ 19اگست 1941ء کو ایک انٹرویو میں قائداعظم ؒ نے کہا ”میں جب انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے باہمی رابطہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کا یہ تصور محدود نہیں ہے۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ ماہر دینیات، البتہ میں نے قرآن مجید اوراسلامی قوانین کامطالعہ کیاہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا ہے۔
کوئی شعبہ ایسا نہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات سے باہرہو“ (گفتار ِقائداعظمؒاحمد سعید صفحہ 261)
قائداعظمؒ نے اسلام کو مکمل ضابطہ حیات اور قرآن حکیم پر غور کا ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا اور اگر وہ قرآن مجید کا مطالعہ اوراس پر غور کرنے کے عادی نہ ہوتے تو کبھی ایسی بات نہ کرتے۔ 12جون 1938ءکو انہوں نےجو کہا اسے وہ مرتے دم تک مختلف انداز سے دہراتے رہے ۔ ان کے الفاظ پر غور کیجئے ۔مسلمانوں کے لئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کا سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اسی قانون الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلام الٰہی کی تعمیل ہے۔ (ہفت روزہ انقلاب 12جون 1938ءبحوالہ احمد سعید صفحہ 216)
قرآن فہمی کا فیض ہوتا ہے روشن باطن، جوابدہی کاخوف اور زندہ ضمیر۔ قائداعظمؒ نے ایک بار اپنے باطن کو تھوڑا سا آشکارہ کیا۔ ان الفاظ میں اس کی جھلک دیکھئے اور محمد علی جناح قائداعظم کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ آل انڈیامسلم لیگ کونسل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”مسلمانو! میں نے دنیا میں بہت کچھ دیکھا۔ دولت، شہرت اور عیش و عشرت کے بہت لطف اٹھائے۔ اب میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد سربلند دیکھوں۔ میں چاہتاہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میراخدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض ادا کردیا۔ میں آپ سے داد اور صلہ کا طلب گار نہیں ہوں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ مرتے دم میرا اپنا دل، میرا ایمان اور میرا ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعت اسلام کا حق ادا کر دیا۔ جناح تم مسلمانوں کی تنظیم، اتحاد اور حمایت کا فرض بجا لائے۔ میرا خدا یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے(انقلاب لاہور 22اکتوبر 1939 بحوالہ احمد سعید صفحہ 233)
قائداعظمؒ کے الفاظ کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ یہ روشن باطن، زندہ ضمیر، اسلام اورمسلمانوں سے محبت اور خوف ِ الٰہی قرآ ن فہمی ہی کا اعجاز تھا اور مسلمانان ہند و پاکستان کتنے خوش قسمت تھے جنہیں ایسا رہنما ملا۔ اسی لئے تو اقبالؒ، جیسا عظیم مسلمان فلسفی، مفسر قرآن اور زندہ کلام کاشاعر قائداعظمؒ کو اپنا لیڈر مانتا تھا۔

قائداعظم اور قرآن ۔ 2

اس حوالے سے ایک عینی شاہد کاا ہم اِنٹرویو منیر احمد منیر کی کتاب ”دی گریٹ لیڈر“ حصہ اوّل میں شامل ہے۔ یہ اِنٹرویو عبدالرشید بٹلر کا ہے جو ان دنوں گورنر ہائوس پشاور میں بٹلر تھا جب قائداعظمؒ گورنر جنرل کی حیثیت سے سرحد کے دورے پر گئے اور گورنر ہاؤس پشاور میں قیام کیا۔ انٹرویو کے وقت عبدالرشید بٹلر بوڑھا ہو کر کئی امراض میں مبتلا ہوچکا تھا ۔ اس عینی شاہد کا بیان پڑھئے اور غور کیجئے ”میری ڈیوٹی ان کے کمرے پر تھی اور قائداعظمؒ کے سونے کے کمرے کے سامنے میرا کمرہ تھا اس لئے کہ جب وہ گھنٹی بجائیں اور انہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں فوراً پہنچ جاؤں۔
سوال: انہوں نے کوئی چیز طلب کی ؟
جواب:اس اثنا میں انہوں نے کبھی پانی اور کبھی چائے مانگی
سوال: جب آپ ان کے لئے پانی چائے لے کر گئے وہ کیا کر رہے تھے؟
جواب: وہ بیٹھے خوب کام کر رہے تھے ۔دن بھر کی مصروفیات کے باوجود انہوں نےآرام نہیں کیا۔ جب کام کرتے کرتے تھک جاتے توکمرے میں اِدھر اُدھر جاتے۔ میں نےخود دیکھا کہ انگیٹھی (مینٹل پیس) پر رحل میں قرآن پاک رکھا ہوا ہے، اس پر ماتھا رکھ کر رو پڑتے تھے
سوال: قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں، رو پڑتے ہیں اس دوران کوئی دعا بھی مانگتے تھے؟
جواب: میری موجودگی میں نہیں
سوال: اس موقع پر ان کا لباس ؟
جواب: شلوار اچکن
سوال:لیکن میں نے جو سنا ہے کہ رات گئے ان کے کمرے سے ٹھک ٹھک کی آواز آئی۔ شبہ ہوا کوئی سرخ پوش نہ کمرے میں گھس آیا ہو؟ جواب:اسی رات۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ ہر کوئی گہری نیند سو رہا تھا۔ ڈیوٹی پر موجود پولیس اپنا فرض ادا کر رہی تھی کہ اچانک ٹھک ٹھک کی آواز گورنمنٹ ہاؤس کا سناٹا چیرنے لگی۔ آواز میں تسلسل اور ٹھہراؤ تھا۔ میں فوراً چوکس ہوا۔ یہ آواز قائداعظمؒ کے کمرے سے آرہی تھی۔ ہمیں خیال آیا اندر شاید کوئی چورگھس گیا ہے۔ ڈیوٹی پرموجود پولیس افسر بھی ادھر آگئے۔ پولیس اِدھر اُدھرگھوم رہی تھی کہ اندر کس طرح جھانکا جائے؟ ایک ہلکی سی در شیشے پر سے پردہ سرکنے سے پیدا ہوچکی تھی۔ اس سے اندر کی موومنٹ دیکھی جاسکتی تھی۔ ہم کیا دیکھتے ہیں کہ قائداعظم انگیٹھی پر رکھے ہوئے قرآن حکیم پر سر جھکائے کھڑے ہیں۔ چہرہ آنسوؤں سے تر ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں ٹہلنا شروع کردیتے ہیں۔ پھر قرآن حکیم کی طرف آتے ہیں اس کی کسی آیت کا مطالعہ کرنے کے بعد پھر چلنے لگتے ہیں۔ جب ان کے پاؤں لکڑی کے فرش پر پڑتے ہیں تو وہ آواز پیدا ہوتی ہے جس نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ آیت پڑھ کر ٹہلنا یعنی وہ غور کر رہے تھے کہ قرآن کیا کہتاہے۔ اس دوران میں وہ کوئی دعابھی مانگ رہے تھے۔ (صفحات 239 و 240)۔
غور کیجئے جنرل اکبر سے گفتگو کے دوران بکس منگوانا اوراس سے قرآن مجید نکالنا کا مطلب ہے قائداعظمؒ قرآن مجید اپنے ساتھ رکھتے تھے اور پھر فوراً نشان زدہ صفحہ نکالنے کا مطلب ہے وہ قرآن حکیم پڑھتے، غور کرتے اور نشانیاں بھی رکھتے تھے۔ یہی باتیں عبدالرشید بٹلر نے بھی بتائیں

اُردو قومی زبان کیسے بنی ؟ بہتان اور حقیقت

آج سے 72 سال 9 ماہ قبل 21 مارچ کو ایک واقعہ ہوا تھا جسے درست بیان کرنے کی بجائے نامعلوم کس مقصد کیلئے قوم کو خود تراشیدہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں اور اب تک سنائی جاتی ہیں ۔ جن صاحب نے سب سے پہلے خود تراشیدہ کہانی کو کتابی صورت میں پیش کیا وہ عطا ربانی صاحب (میاں رضا ربانی کے والد) تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا
”قائداعظم نے مارچ 1948ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران مشرقی بازو کی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو محض 2 فیصد آبادی کی زبان تھی اور وہاں ہنگامہ ہوگیا جس میں 3 طلباء مارے گئے“۔
عطا ربانی صاحب نے جو لکھا وہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ ڈھاکہ کے اس جلسے میں بطور اے ڈی سی قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ سات ماہ قائداعظم کے ساتھ رہے اور 19 مارچ 1948ء کو واپس ایئرفورس میں چلے گئے تھے جبکہ قائداعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ سے 21 مارچ 1948ء کو خطاب کیا۔ مزید یہ کہ اس جلسہ میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا
قائداعظم کی اس جلسہ میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ” قائداعظم، اعتراضات اور حقائق“ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ء کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رُکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے سپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رُکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔
ایک اور کانگریسی رُکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی ۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اُردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد متذکرہ مطالبہ مسترد کردیا گیا ۔ یہ مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی ۔ نور الامین ۔ اے کے فضل الحق ۔ ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے ۔ چنانچہ اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا
قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے ۔ بعدازاں صوبائی حکومت نے اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا
بنگالی عوام قائداعظم سے ناراض ہوتے تو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جنرل ایو ب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ میں جیت گئی تھیں جہاں اِن کے چیف پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمان تھے“۔

کیا قائدِاعظم پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟

دانشوروں کا ایک منظم گروہ گزشتہ 2 دہائیوں سے یہ ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے کہ قائداعظم سیکولر ذہن کے مالک تھے اور وہ پاکستان میں سیکولر نظام نافذ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ حضرات قائداعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کو اپنا سیکولر ایجنڈا آگے بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ قائداعظم کی دیگر سینکڑوں تقاریر جو شاید انہوں نے پڑھی نہیں میں مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کی بنیاد اسلام کو ہی بتایا گیا ہے ۔ متذکرہ تقریر دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قائداعظم کا پہلا خطاب تھا ۔ یہ تقریر نہ تو لکھی ہوئی تھی اور نہ تیار کردہ بلکہ فی البدیہہ تھی۔ اس تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے کہا تھا
”ہمیں اسی لگن کے ساتھ کام کا آغاز کرنا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کی حصہ داری ، ہندو طبقہ اور مسلم طبقہ کیونکہ مسلمانوں میں بھی پٹھان پنجابی شیعہ سُنّی وغیرہ اور ہندوؤں میں برہمن وشنواس کھتری اور بنگالی مدراسی وغیرہ ختم ہو جائیں گے ۔ درحقیقت اگر آپ مجھ سے پوچھیں، یہ ہندوستان کی آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی اگر یہ نہ ہوتا تو ہم بہت پہلے آزاد ہو گئے ہوتے ۔ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم کو خاص کر 400 ملین نفوس کو محکومیت میں نہیں رکھ سکتی ۔ نہ کوئی قوم آپ کو زیر کر سکتی تھی اور نہ مغلوب رکھ سکتی تھی سوائے متذکرہ گروہ بندی کے ۔ اسلئے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ۔ آپ آزاد ہیں ۔ آپ کو اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے ۔ آپ اپنی مساجد میں جانے کیلئے آزاد ہیں یا پاکستان کی اس ریاست میں کسی بھی دوسری عبادت کی جگہ ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا مسلک سے ہو اس کا ریاست کے کاروبار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے“۔ (پوری تقریر کا متن اِن شاء الله چند دن بعد)
بتایئے اس میں سے سیکولر کیسے اَخذ کیا گیا ؟
قائد اعظم نے باقی باتوں کے علاوہ جس طرح مذہبی اقلیتوں کو برابری کے درجے کا وعدہ کیا اور مذہبی آزادی کا پیغام دیا وہ دراصل اسلامی تعلیمات کا ہی ایک جزو ہے
قائداعظم نے تقسیم ہند سے قبل لگ بھگ 100 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام کی بنیاد اسلامی اصولوں پر اُٹھائی جائے گی اور قیام پاکستان کے بعد 4 بار یہ واضح کیا کہ پاکستان کے نظام، آئین اور مُلکی ڈھانچے کو اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے گا۔ اُنہوں نے لاتعداد بار کہا کہ قرآن ہمارا راہنما ہے اور ہمیں قرآن ہی سے راہنمائی کی روشنی حاصل کرنی چاہیئے۔ ان سینکڑوں اعلانات اور وعدوں کے باوجود سیکولر حضرات اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے ذہن کے دریچے کسی اختلافی بات پر کھولنے کے لئے تیار نہیں
جنرل اکبر کے مطابق قائداعظم سے ملاقات میں اُس (جنرل اکبر) نے فوجی میسوں میں انگریز حکومت کی شروع کی گئی شراب نوشی کی رسم کو ختم کرنے کی تجویز دی جس کے جواب میں قائداعظم نے اپنے اے ڈی سی کو بلایا اور کانفیڈریشن بکس لانے کو کہا۔ قائداعظم نے بکس کو کھول کر چمڑے سے جلد بند ایک کتاب نکالی ۔ انہوں نے اسے کھولا اور فرمایا ”جنرل یہ قرآن مجید ہے ۔ اس میں لکھا ہے کہ شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے عرض کیا کہ ”آپ ایک حُکم جاری کریں اور افسروں کو مُتنبہ کریں کہ شراب حرام اور منع ہے“۔ قائداعظم مسکرائے اور فرمایا کہ ”کیا تم سمجھتے ہو کہ قائداعظم کا حُکم قرآن مجید کے احکامات سے زیادہ موثر ہوگا ؟“
پھر سٹینو کو بُلایا گیا اور قائداعظم نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں قرآنی آیات کی جانب توجہ دلا کر فرمایا کہ ”شراب و منشیات حرام ہیں“۔ میں (جنرل اکبر) نے اس مسودے کی نقل لگا کر شراب نوشی بند کرنے کا حُکم جاری کر دیا کہ جس پر میری (جنرل اکبر کی) ریٹائرمنٹ تک عمل ہوتا رہا

گلگت بلتستان کی آزادی

گلگت کا علاقہ انگریزوں نے پٹے پر لیا ہوا تھا اور اسکی حفاظت گلگت سکاؤٹس کے ذمہ ہوا کرتی تھی جو سب مسلمان تھے ۔ گلگت سکاؤٹس کے صوبیدار میجر بابر خان آزادی کے متوالے تھے ۔ جموں کشمیر کے راجہ نے گلگت سے 50 کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر چھاؤنی اور ریزیڈنسی بنائی ہوئی تھی جہاں چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کے فوجی تعینات ہوتے تھے ۔ چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کے مسلمان آفیسروں میں کرنل عبدالمجید جموں میں ہمارے ہمسایہ تھے ۔ کرنل احسان الٰہی ۔ میجر حسن خان جو کیپٹن ہی جانے جاتے رہے ۔ کیپٹن سعید درّانی ۔ کیپٹن محمد خان ۔ کیپٹن محمد افضل اور لیفٹیننٹ غلام حیدر شامل تھے ۔ پٹے کی معیاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی آزادی معرضِ وجود میں آ گئی اور انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنا شروع کر دیا چنانچہ جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے گھنسار سنگھ کو گلگت کا گورنر مقرر کر کے بونجی بھیجا ۔ یہ تعیناتی چونکہ نہائت عُجلت میں کی گئی تھی اسلئے گورنر گھنسار سنگھ کے پاس علاقہ کا انتظام چلانے کے کوئی اختیارات نہ تھے سو وہ صرف کاغذی گورنر تھا

ہوا یوں کہ چھٹی جموں کشمیر اِنفینٹری کی رائفل کمپنی کے کمانڈر میجر حسن خان کو اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانگی کا حُکم ملا ۔ یکم ستمبر 1947ء کو وہ کشمیرسے روانہ ہوا تو اُس نے بآواز بلند پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے اُس کا ساتھ دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے جموں کشمیر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور اس کے باوجود جموں شہر میں آزادی کے متوالے مسلمان جلوس نکال رہے تھے جس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے

میجر حسن خان کی کمپنی جب استور پہنچی تو شہری مسلمانوں کی حمائت سے نیا جوش پیدا ہوا اور آزادی کے متوالوں نے دل کھول کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ اس کمپنی نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اور باقی آزادی کے متوالوں کو ساتھ ملاتے اپنا سفر جاری رکھا ۔ گلگت پہنچنے تک گلگت سکاؤٹس بھی ان کے ساتھ مل چکے تھے

بھارتی فوجوں کے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں میں زبردستی داخل ہونے کی اطلاع گلگت بلتستان میں 30 اکتوبر 1947ء کو پہنچی ۔ 31 اکتوبر کو صوبیدار میجر بابر خان نے بونجی پہنچ کر گلگت سکاؤٹس کی مدد سے گورنر گھنسار سنگھ کے بنگلہ کا محاصرہ کر لیا ۔ گورنر کے ڈوگرہ فوجی محافظوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک سکاؤٹ شہید ہو گیا ۔ گھنسار سنگھ کو حسن خان اور اس کے ساتھیوں کی استور میں نعرے لگانے کا علم ہو چکا تھا ۔ اُس نے 31 اکتوبر کوصبح ہی ٹیلیفون پر چھٹی اِنفینٹری کے کمانڈر کرنل عبدالمجید کو ایک سِکھ کمپنی فوراً بونجی بھجنے اور خود بھی میجر حسن خان کو ساتھ لے کر بونجی پہنچنے کا کہا ۔ کرنل عبدالمجید خود بونجی پہنچا اور میجر حسن خان کو اپنی کمپنی سمیت بونجی پہنچنے کا حکم دیا مگر سکھ کمپنی کو کچھ نہ کہا ۔ کرنل عبدالمجید کے بونجی پہنچنے سے پہلے گلگت سکاؤٹس کی طرف سے گھنسار سنگھ تک پیغام پہنچایا جا چکا تھا کہ ہتھیار ڈال دو ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ کرنل عبدالمجید نے میجر حسن خان اور صوبیدار میجر بابر خان سے گھنسار سنگھ کی جان کی ضمانت لے لی اور گھنسار سنگھ نے گرفتاری دے دی

گلگت بلتستان میں آزاد حکومت
میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947ء کو گلگت اور بلتستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کی اور قائد اعظم اور صوبہ سرحد کے خان عبدالقیّوم خان کو گلگت بلتستان کا عنانِ حکومت سنبھالنے کے لئے خطوط بھجوائے ۔ یہ گلگت اور بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا

3 نومبر 1947ء کو بونجی میں گورنر کے بنگلے پر ایک پُروقار مگر سادہ تقریب میں آزاد ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ اس طرح سوا صدی کی غلامی کے بعد گلگت بلتستان میں پھر مسلمانوں کی آزاد حکومت باقاعدہ طور پر قائم ہو گئی ۔ 15 نومبر 1947ء کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا