Category Archives: سبق

حُکمرانوں کے لئے

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے
اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم
یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ
کلام ۔ علامہ محمد اقبال

یہودی لڑکا ”جاد“ سے کیسے ”جاد اللہ قرآنی“ بنا؟

یہ تقریباً 1957ء کی بات ہے کہ فرانس میں کہیں ایک رہائشی عمارت کی نکڑ میں ترکی کے ایک پچاس سالہ بوڑھے آدمی نے چھوٹی سی دکان بنا رکھی تھی۔ اردگرد کے لوگ اس بوڑھے کو ”انکل ابراہیم“ کے نام سے جانتے اور پکارتے تھے۔ انکل ابراہیم کی دکان میں چھوٹی موٹی گھریلو ضروریات کی اشیاء کے علاوہ بچوں کیلئے چاکلیٹ ۔ آئسکریم ۔ گولیاں اور ٹافیاں دستیاب تھیں

اسی عمارت کی ایک منزل پر ایک یہودی خاندان آباد تھا جن کا ایک 7 سالہ بچہ جاد تقریباً روزانہ انکل ابراہیم کی دکان پر گھر کی چھوٹی موٹی ضروریات خریدنے کیلئے آتا تھا۔ دکان سے جاتے ہوئے انکل ابراہیم کو کسی اور کام میں مشغول پا کر جاد ایک چاکلیٹ چوری کرنا نہ بھولتا ۔ ایک دب دکان سے جاتے ہوئے جاد چاکلیٹ چوری کرنا بھول گیا
انکل ابراہیم نے جاد کو پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا ” جاد ۔ آج چاکلیٹ نہیں اُٹھاؤ گے کیا ؟ “
انکل ابراہیم نے یہ بات محبت میں کی تھی یا دوستی سے مگر جاد کیلئے ایک صدمے سے بڑھ کر تھی۔ جاد یہی سمجھتا تھا کہ اس کی چوری ایک راز تھی مگر معاملہ اس کے برعکس تھا
جاد نے گڑگڑاتے ہوئے انکل ابراہیم سے کہا ” آپ اگر مجھے معاف کر دیں تو آئیندہ میں کبھی چوری نہیں کروں گا “۔

انکل ابراہیم نے جاد سے کہا ” اگر تم وعدہ کرو کہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کی چوری نہیں کرو گے تو روزانہ کا ایک چاکلیٹ میری طرف سے تمہارا ہوا ۔ ہر بار دکان سے جاتے ہوئے لے جایا کرنا “۔
اس بات پر جاد اور انکل کا اتفاق ہو گیا

وقت گزرتا گیا اور اس یہودی بچے جاد اور انکل ابراہیم کی محبت گہری سے گہری ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ جاد کو جب کبھی کسی مسئلے کا سامنا ہوتا یا پریشانی ہوتی تو انکل ابراہیم سے ہی کہتا ۔ انکل ابراہیم میز کی دراز سے ایک کتاب نکالتے اور جاد سے کہتے ”کتاب کو کہیں سے بھی کھول کر دو“۔ جاد کتاب کھولتا اور انکل وہیں سے 2 صفحے پڑھتے اور جاد کو مسئلے کا حل بتاتے ۔ جاد کا دل اطمینان پاتا اور وہ گھر چلا جاتا

اس طرح 17 سال گزر گئے۔ 17 سال کے بعد جب جاد 24 سال کا ایک نوجون بنا تو انکل ابراہیم 67 سال کے ہوچکے تھے ۔ داعی اجل کا بلاوا آیا اور انکل ابراہیم وفات پا گئے ۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کے پاس جاد کیلئے ایک صندوقچی چھوڑی تھی ۔ اُن کی وصیت تھی کہ اُن کے مرنے کے بعد صندوقچی اس یہودی نوجوان جاد کو تحفہ میں دیدی جائے ۔ جاد کو جب انکل کے بیٹوں نے صندوقچی دی اور اپنے والد کے مرنے کا بتایا تو جاد بہت غمگین ہوا کیونکہ انکل ابراہیم ہی اسکے غمگسار اور مُونس تھے۔ جاد نے صندوقچی کھول کر دیکھی تو اندر وہی کتاب تھی جسے کھول کر وہ انکل کو دیا کرتا تھا ۔ انکل کی نشانی گھر میں رکھ کر جاد دوسرے کاموں میں مشغول ہو گیا۔ ایک دن اُسے کسی پریشانی نے آ گھیرا ” آج انکل ہوتے تو وہ کتاب کھول کر 2 صفحے پڑھتے اور مسئلے کا حل سامنے آجاتا”۔ جاد کے ذہن میں انکل کا خیال آیا اور اُس کے آنسو نکل آئے ۔ ”کیوں نا آج میں خود کوشش کروں“۔ کتاب کھولتے ہوئے وہ اپنے آپ سے مخاطب ہوا ۔ لیکن کتاب کی زبان اور لکھائی اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔ وہ کتاب اُٹھا کر اپنے تیونسی عرب دوست کے پاس گیا اور اُسے کہا ”مجھے یہ 2 صفحے پڑھ کر سناؤ“۔ پھر مطلب پوچھا اور اپنے مسئلے کا اپنے تئیں حل نکالا۔ واپس جانے سے پہلے اُس نے اپنے دوست سے پوچھا ”یہ کیسی کتاب ہے ؟”
تیونسی نے کہا ” یہ ہم مسلمانوں کی کتاب قرآن ہے“۔
جاد نے پوچھا ”مسلمان کیسے بنتے ہیں ؟“
تیونسی نے کہا ”کلمہ شہادت پڑھتے ہیں اور پھر شریعت پر عمل کرتے ہیں“۔
جاد نے کہا ” تو پھر سُن لو میں کہہ رہا ہوں

أَشْهَدُ أَنّ لَّا إِلَٰهَ إِلَّإ الله و أَشْهَدُ اَنَّ محمد رسول الله“۔

جاد مسلمان ہو گیا اور اپنے لئے ”جاد اللہ القرآنی“ کا نام پسند کیا۔ نام کا اختیار اس کی قرآن سے والہانہ محبت کا کھُلا ثبوت تھا۔ جاد اللہ نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ دین کو سمجھا اور دین کی تبلیغ شروع کی ۔ یورپ میں اس کے ہاتھ پر 6 ہزار سے زیادہ لوگوں نے اسلام قبل کیا۔ ایک دن پرانے کاغذات دیکھتے ہوئے جاد اللہ کو انکل ابراہیم کے دیئے ہوئے قرآن میں دنیا کا ایک نقشہ نظر آیا جس میں براعظم افریقہ کے اردگرد لکیر کھینچی ہوئی تھی اور انکل کے دستخط تھے۔ ساتھ میں انکل کے ہاتھ سے ہی یہ آیت کریمہ لکھی ہوئی تھی

ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة

اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ

جاد اللہ کو ایسا لگا جیسے یہ انکل کی اسی کیلئے وصیت ہو۔ جاد اللہ نے اس وصیت پر عمل کرنے کی ٹھانی اور یورپ کو خیرباد کہہ کر کینیا ۔ سوڈان ۔ یوگنڈہ اور اس کے آس پاس کے ممالک کو اپنا مسکن بنایا ۔ دعوتِ حق کیلئے ہر مشکل اور پُرخطر راستے پر چلنے سے نہ ہچکچایا اور الله تعالٰی نے اس کے ہاتھوں 60 لاکھ انسانوں کو دین اسلام کی روشنی سے نوازا ۔ جاد اللہ نے افریقہ کے کٹھن ماحول میں اپنی زندگی کے 30 سال گزار دیئے۔ 2003ء میں افریقہ میں پائی جانے والی بیماریوں میں گھِر کر 54 سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی کو جا ملا

جاد اللہ کی محنت کے ثمرات اس کی وفات کے بعد بھی جاری رہے۔ وفات کے ٹھیک 2 سال بعد اس کی ماں نے 70 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا ۔ جاد اللہ اکثر یاد کیا کرتا تھا کہ انکل ابراہیم نے اس کے 17 سالوں میں کبھی بھی اسے غیر مسلم محسوس نہیں ہونے دیا اور نہ ہی کبھی کہا کہ اسلام قبول کر لو مگر اس کا رویہ ایسا تھا کہ جاد کا اسلام قبول کئے بغیر چارہ نہ تھا

آپ کے سامنے اس واقعے کے بیان کرنے کا فقط اتنا مقصد ہے کہ کیا مجھ سمیت ہم میں سے کسی مسلمان کا اخلاق و عادات و اطوار و کردار ”انکل ابراہیم“ جیسا ہے کہ کوئی غیر مسلم ”جاد“ ہم سے متاثر ہو کر ”جاداللہ القرآنی“ بن کر ہمارے مذہب اسلام کی اس عمدہ طریقے سے خدمت کر سکے

الله تعالٰی مجھ گناہ گار سمیت سب مسلمانان عالم پر رحم فرمائے اور عین صراط مستقیم پر چلنے کی کامل توفیق عطا فرمائے

فرق صرف سوچ کا ہے

فرق صرف سوچ کا ہے
ہر شخص کی 10 فیصد زندگی حقیقی ہوتی ہے ۔ 90 فیصد اُس کی سوچ ہوتی ہے یعنی بجائے اِس کے کہ کہنے والے کی بات کو صاف ذہن کے ساتھ سُنا جائے اگر ذہن میں ہے کہ دوسرا آدمی یہ چاہتا ہے اور وہ بات جو بھی کر رہا ہے اُس کا مطلب یہ ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بات سُننے والا اپنی سوچ کے مطابق سمجھ لیتا ہے وہ کہنے والے نے کہی ہی نہیں ہوتی اور نہ کہنے والے کے وہم و گمان میں ہوتی ہے
چنانچہ اگر سوچ 100 فیصد مَثبَت ہو تو زندگی 100 فیصد حقیقی ہوتی ہے اور دُنیا حسین لگتی ہے بصورتِ دیگر دوسروں میں عیب نظر آتے ہیں اور یہ عیب اپنی سوچ کی وجہ سے ہمیشہ قائم رہتے ہیں

اب سُنیئے ایک شخص کا واقعہ جس نے اُس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیا
میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ ٹیکسی لی اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ ٹیکسی شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتی جا رہی تھی کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پَتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک ٹیکسی کے سامنے آ گئی ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے ٹیکسی کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا

بجائے اس کے کہ دوسری گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا لیکن اس نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا

میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا ” اُس نے تو تمہاری ٹیکسی کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور تم نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا “۔

ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں یا کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے“۔

میں نے اُس دن سے ایسے لوگوں کے بے جا سلُوک پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے اور میرے دن اب بہتر گذرتے ہیں ۔ یہ مجھ پر اُس ٹیکسی ڈرائیور کا احسان ہے

میری 10 ستمبر 2008ء کی تحریر کچھ ترمیم کے ساتھ

خلیفہ ثانی کی ذہانت

خلیفہ الثانی عمر ابن الخطاب رضي الله عنه امیرالمؤمنین تھے ۔ خلیفہ احباب مین بیتھے تھے کہ ایک بوڑھی عورت دربار مین حاضر ہوئی اور کہا ” میرے گھر میں کیڑے مکوڑے نہیں ہیں“۔
خلیفہ نے اس عورت سے گھر کا پتہ پوچھا اور یہ کہہ کر رُخصت کر دیا ” تمہاری شکائت دُور کر دی جائے گی“۔
بوڑھی عورت کے جانے کے بعد ہر کوئی حیرت کا پہاڑ بنا ہوا تھا کہ خلیفہ کی آواز گونجی

”امیر بیت المال ۔ اس عورت کے پہنچنے سے قبل اس کا گھر کھجور ۔ شہد اور اناج سے بھر دو“۔
پھر خلیفہ نے فرمایا ” حیرت سے دیکھنے والی آنکھو ۔ سُنو ۔ جس گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو اس میں کیڑے مکوڑوں کا کیا کام ؟
الله کریم ایسے سمجھدار حکمران ہمیں بھی عطا فرمائے ۔ آمین

ہمیں اِس کی اشد ضرورت ہے


آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے
لیکن
سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے ایسے لوگوں کو شاید پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

یہ تحریر میں 16 مئی 2013ء کو شائع کر چکا ہوں

گوٹھ نوّں پوترا کے مکینوں کا یادگار کردار

غالباً 29 جون 2018ء کو 27 اَپ شالیمار ایکسپریس کراچی سے لاہور جاتے ہوئے جب تیز رفتاری سے سفر کر رہی تھی تو محراب پور سے چند کلو میٹر آگے گوٹھ نوّں پوترا کے پاس اکانومی کلاس کی ایک بوگی کے پہیئے ٹرین سے تقریبآَ الگ ہو گئے ۔ ٹرین ڈرائیور نے بروقت بریک لگا کر ٹرین کو روک لیا اور الحمدللّہ ٹرین ایک بڑے حادثہ سے بال بال بچی

سواریوں کو اس بے آباد جگہ پر عجب بے بسی کا احساس تھا اور کچھ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اچانک نہ جانے کدھر سے قریبی دیہات کے باسی قطار اندر قطار آنا شروع ہو گئے ۔ سُبحان اللہ عجیب منظر تھا ۔ کسی نے پانی کا کولر اُٹھایا ہوا ہے ۔ کسی نے مٹکا ۔ کوئی جگ اُٹھائے ہے تو کوئی دودھ کا برتن ۔ کوئی بزرگ اپنی پگڑی میں برف لا رہا ہے اور کچھ نوجوان بوریاں بھر کر برف لا رہے ہیں ۔ ایک عمر رسیدہ شخص کپڑے میں ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لائے ۔ غرض بے لوث خدمت کے جذبہ سے سرشار اپنی استداد کے مطابق ہر کوئی کچھ نا کچھ لئے چلا آ رہا تھا ۔ چند منٹوں میں چنے چاول پلاؤ کی دیگ ایک رکشہ پر لائی گئی ۔ دیہاتیوں کے پاس قیمتی برتن نہ تھے ۔ چاول کھلانے کے لئے مٹی کی پلیٹیں لے آئے ۔ آتے ہی سب کھانے پینے کی چیزیں بانٹنا شروع کر دیں
ہمدردی کے جذبہ سے سرشار گاؤں کے نیک سیرت سادہ دل لوگ بے حد خوش نظر آ رہے تھے کہ اُنہیں خدمت کا موقع ملا ۔ نہ مدد کرنے والے جانتے تھے کہ جس کی وہ مدد کر رہے ہیں وہ کس صوبے ۔ کس ذات برادری ۔ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور نہ پریشان حال مسافر جانتے تھے کہ ان کی مدد کرنے والے فرشتہ صفت لوگ کہاں سے آئے ہیں ؟ بس ایک ہی رشتہ تھا ۔ انسانیت کا ۔ پاکستانیت کا اور احسان کا کہ اللہ کا فرمان ہے
اللّہ تعالٰی ان سب کو جزائےعظیم دے ۔ ان کے رزق میں وسعت وبرکت عطا فرمائے اور ان کو دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرمائے ۔ آمین

اسی دوران ریلوے کی امدادی کاروائیاں مکمل ہوئیں تو ٹرین کو واپس محراب پور لانے کا فیصلہ ہوا ۔ ٹرین کی روانگی کے وقت ان دیہاتوں کے امدادی کارکن اس طرح ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے جیسے اپنے کسی بہت خاص عزیز کو رُخصت کیا جاتا ہے

االلہ اللہ ۔ یہ واقعہ پڑھتے ہوئے باری تعالٰی کی حمد کے ساتھ میری آنکھوں سے اشک جاری ہو گئے ۔ فَبِاَىِّ اٰلَاۤءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبٰنِ
مجھے اپنے دیہاتی بھائیوں کی ہمدردی اور مہمانداری کا تجربہ ہے ۔ میں جوانی میں سیر و سیاحت کا شوقین تھا ۔ جہاں بھی جاتا بڑے شہروں سے نکل کر قصبوں اور دیہات کی طرف چلا جاتا ۔ قصبہ یا گاؤں کے اندر سارا سفر پیدل ہی ہوتا تھا ۔ میں نے خیبر پختون خواہ اور پنجاب کے میدانی علاقوں کی سیر کی اور پہاڑوں کی بھی ۔ ہر قصبہ ہر گاؤں کے باسیوں کو میں نے مُخلص ہمدرد پایا ۔ اُن کی ایک اور عادت بڑے شہروں میں رہنے والوں سے مُختلف تھی ۔ وہ برملا سیدھی بات کرتے تھے ۔ کسی لفظ یا فقرے پر مٹھاس چڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تھے ۔ مجھے یہ طور پسند آیا کیونکہ مجھے بھی آج تک کسی بات پر ملمع چڑھانا نہیں آیا ۔ میں محسوس کرتا رہا کہ وہ بھی میرے انداز سے خوش تھے

ہمارے مُلک سلطنتِ خدا داد پاکستان کے اکثر عوام ہمدرد ۔ دُکھ درد بانٹنے والے ۔ مصیبت میں کام آنے والے ۔ اپنا پیٹ کاٹ کر دوسروں کی مدد کرنے والے اور فرض شناسی اور جذبہءِ خدمت و ایثار سے سرشار ہیں

جب میں اپنے مُلک کے بڑے شہروں کے پڑھے لکھے اور اچھی مالی حالت والے لوگوں کی زبان سے سُنتا ہوں
”یہ مُلک کوئی رہنے کے قابل ہے“۔
”سب چور ہیں“۔
”سب بے ایمان ہیں“۔
تو میرا کلیجہ کٹ کے رہ جاتا ہے ۔ اِن پڑھے لکھے جاہلوں کے ذہنوں میں ہالی وُڈ کی بنی مووی فلموں ۔ ٹی وی ڈراموں اور غیر مُلکی معاندانہ پروپیگنڈہ نے گھر کیا ہوا ہے ۔ یہ نہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور نہ اپنے دماغ سے سوچتے ہیں
اللہ ہم سب کو کریم ایسے ہموطنوں کو نیک ھدائت دے