Category Archives: انتباہ

آج کچھ اشتہار

تعلیم کیا ہوتی ہے
Education
تعلیم کیسے ؟
Brave Boy
یہ اشتہار اسلام آباد میں ایک بنک میں لگا ہوا ہے
نوسر باز
تکے کباب ہوں یا میکڈونلڈ یا کے ایف سی ۔ پِزّا ہَٹ ہو یا بروسٹ ۔ دماغ کی آنکھیں کھول کے رکھیئے ۔ اور ہاں ایسا صرف پنجاب میں نہیں ہوتا ۔ فرق یہ ہے کہ پنجاب محرک ہے
Food
یہ صرف پنجاب نے اعلان کیا ہے ۔ ہم نے اسلام آباد میں اپنا رہائشی مکان والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے نام کرانے کی کوشش کی تھی تو معلوم ہوا کہ لاکھوں روپے فیس ہے تو چُپ کر کے بیٹھ گئے تھے کہ گھر سے نکالے گا تو کوئی نہیں ۔ البتہ 1996ء میں 11077 روپے فیس لے کر سی ڈی اے والوں نے ہم آٹھوں بہن بھائیوں کے نام کر دیا تھا ۔ پرویز مشرف کے دور میں کسی نے ایک 7 مرلہ کا مکان باپ کی وفات کے بعد اپنے نام کرایا تھا تو ہزروں روپےفیس دی تھی
وراثت
پاکستانی اور پاکستانی نژاد مسلمان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستانی مسلمانامریکی مسلمانامریکن مسلمان

۔

۔

۔
تبدیلی مگر کیسے ؟
تبدیلی ؟
اسے کون تبدیل کرے گا ؟
کتابیں اور جوتے

میاں بیوی ایک دوسرے کی بات کم سمجھتے ہیں

میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں

ہر شوہر (اور ہر بیوی) یہ دعوٰی کرتا (یا کرتی) ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا (یا جانتی) ہے ۔ اس کے باوجود اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ شوہر ان کی بات نہیں سُنتے ۔ اس کے برعکس اکثر شوہروں کو یہ شکائت ہوتی ہے کہ ان کی بیگم ان کی بات دھیان سے نہیں سُنتی ۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نہ جاننا ہے

اکثر میاں بیوی طے کر لیتے ہیں کہ ان کی (یا کے) شریکِ حیات ان کے بارے میں سب کچھ جانتی (یا جانتے) ہیں لہٰذا آپس میں کچھ بتاتے ہوئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن جب کسی دوسرے سے بات ہوتی ہے تو اُسے بات تفصیل سے بتائی جاتی ہے چنانچہ عام طور پر میاں بیوی کی نسبت دوسرے بات سمجھ لیتے ہیں ۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کر لینا کی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت نکلتا ہے

قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے اشارے کنائے یا مختصر جُملے سے کام لیتے ہیں اس گمان میں کہ سمجھ آجائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ذہن کو جھٹکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس جب ہم کسی اجنبی سے بات کرتے ہیں تو ہم ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اُسے ہر چیز اچھی طرح سے سمجھاتے ہیں

یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں گہرے دوستوں کا بھی ہے جو اسی زعم میں ہوتے ہیں کہ دوسرا اُسے اچھی طرح جانتا ہے اور بات وضاحت کے ساتھ نہیں کرتا ۔ نتیجہ غلط فہمیوں اور جھگڑوں میں نکلتا ہے

بلاگر خواتین و حضرات متوجہ ہوں

میں نے 25 مارچ 2015ء کو محترمات بلاگرات و محترمان بلاگران (Ladies and gentlemen bloggers) متوجہ ہوں کے عنوان سے 19 اپریل 2015ء کو سہ پہر 5 بجے اسلام آباد میں بلاگران کی مجلس کے انعقاد کی اطلاع دی تھی

اُمید تھی کہ میٹرو بس پروجیکٹ 19 اپریل سے قبل مکمل ہو جائے گا اور راولپنڈی و اسلام آباد کی متعلقہ سڑکوں پر ٹریفک خوش اسلوبی سے چلنے لگے گی ۔ باقی کام تو تقریباً مکمل ہو گیا ہے لیکن پشاور موڑ انٹرچینج مکمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کے باعث راولپنڈی شہر ۔ کوہ مری اور جہلم کی طرف سے مجلس میں شرکت کیلئے تشریف لانے والوں کو دقت کا سامنا ہو سکتا ہے
مزید یہ کہ پروجیکٹ مکمل ہونے پر میٹرو بس تشریف لانے والوں کیلئے سہولت کا باعث بن سکتی ہے

اسلئے مجلس 19 اپریل کی بجائے اِن شاء اللہ 3 مئی 2015ء کو بوقت 5 بجے سہ پہر ہو گی اور اِن شاء اللہ یہ تاریخ بدلی نہیں جائے گی

تشریف لا کر شکریہ کا موقع دیجئے
کچھ استفسارات ہوں تو بلاتامل پوچھیئے ۔ بندہ تشریح کی پوری کوشش کرے گا

آمد کی اطلاع جمعہ یکم مئی تک بذریعہ اس تحریر پر تبصرہ
یا ای میل
یا ٹیلیفون دیجئے

iftikharajmal@gmail.com
0321-5102236

مقام انعقاد اور راستہ

مکان نمبر 14 بی ۔ سٹریٹ نمبر 31 ۔ سیکٹر ایف 8 ۔ اسلام آباد

یہ گھر سٹریٹ نمبر 31 کے آخر میں بائیں جانب ہے ۔ آخری سے پہلے والے گیٹ کے بائیں ستون پر لگی قندیل پر B۔14 لکھا ہے اور ستون پر میرا اور میرے دونوں بیٹوں (زکریا اور فوزی) کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے نیچے گھنٹی کا بٹن ہے

سٹریٹ نمبر 31 سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر واقع ٹریفک پولیس کے دفتر کے سامنے ہے ۔ ایف 8 کے ساتھ نائنتھ اوینیو (9th Avenue) کے ایک طرف فاطمہ جناح پارک (ایف 9 پارک) ہے اور دوسری طرف سروس روڈ ویسٹ ایف 8 متوازی چلتی ہے

نائنتھ اوینیو پر آتے ہوئے جناح اوینیو عبور کرتے ہی داہنی طرف ناظم الدین روڈ پر مُڑ کر فوراً بائیں جانب سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر مُڑ جایئے

موٹر وے سے اسلام آباد آتے ہوئے آپ سیدھے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر پہنچیں گے ۔ چلتے جایئے اور جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی صدر یا ٹیکسلا سے آنے کیلئے جی ٹی روڈ سے شاہراہ کشمیر پر مُڑ جایئے پھر جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی شہر سے آنے کیلئے مری روڈ سے بائیں جانب سٹیڈیم روڈ پر مُڑ کر سیدھے نائنتھ اوینیو پر چلے جایئے

جہلم کی طرف سے آنے کیلئے اسلام آباد ایکسپریس وے پر چلے جایئے ۔ زیرو پوائنٹ انٹر چینج سے بائیں جانب شاہراہ کشمیر پر چلے جایئے پھر جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

کوہ مری کی طرف سے آنے کیلئے شاہراہ کشمیر پر چلتے ہوئے جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

موجودہ حالات کی جڑ کہاں ہے ؟

اگر آپ کو پاکستان سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے تو کچھ وقت نکال کر مندرجہ ذیل اقتباس پڑھ کر اندازہ لگایئے کہ ہمارا یہ مُلک موجودہ حال کو کیسے پہنچا اور فکر کیجئے کہ اسے درست کیسے کرنا ہے
خیال رہے کہ بنی عمارت کو گرانا آسان ہوتا ہے لیکن نئی عمارت کی تعمیر وقت اور محنت مانگتی ہے اور گری عمارت کی بحالی کیلئے زیادہ وقت ۔ زیادہ محنت اور استقلال ضروری ہوتا ہے
مت بھولئے کہ آپ کا مُستبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور اسے آپ ہی نے بنانا ہے

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیر (جو نہ صرف پرویز مشرف کو قریب سے جانتے تھے بلکہ اُس دور میں روشن خیالی کے نام پر اس بے غیرتی اور بے ہودگی کے وجوہات سے بھی واقف تھے) لکھتے ہیں

میری ریٹائرمنٹ کے بعد مارچ 2006ء میں، جن دنوں میں نیب (NAB) میں تھا، امریکہ کے صدر حضرت جارج بُش اسلام آباد تشریف لائے۔ رات کو پریزیڈنٹ ہاؤس میں کھانا ہوا اور ایک ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام میں پاکستان کی تہذیب پر ایک نگاہ ڈالی گئی کہ ہماری تہذیب پر تاریخ کے کیا اثرات رہے
پہلی تصویر ہمارے معاشرے کی موہنجو ڈارو کے ادوار کی پیش کی گئی۔ نیم عریاں لڑکیوں نے ناچ کر ہمیں سمجھایا کہ ہماری ثقافت کی ابتداء کہاں سے ہوئی
پھر بتایا گیا کہ الیگزینڈر کے آنے سے ہم نے ایک نیا رنگ حاصل کیا۔ اس رقص میں فیشن بدل گیا اور لباس بھی مزید سکڑ گئے
پھر اگلا رقص عکاسی کرتا تھا ہندوانہ تہذیب کی برہنگی کا جس کا اثر ہماری تہذیب پر رہا

جب لباس غائب ہونے لگے تو میں ڈرا کہ آگے کیا آئے گا لیکن پھر
کافرستان کی رقاصائیں آ گئیں کہ یہ اب بھی یہاں ناچتی ہیں۔ صرف اس پیشکش میں کچھ ملبوس نظر آئے
اگلے رقص میں چھتریاں لئے برطانیہ کی میم صاحبائیں دکھائی گئیں جنہوں نے چھتریوں کے علاوہ دستانے بھی پہنے تھے اور کچھ رومالیاں ہاتھوں سے باندھی ہوئی تھیں
پھر اگلے رقص میں پاکستان کی موجودہ تہذیب کی عکاسی میں لڑکوں اور لڑکیوں نے مل کر، خفیف سے ملبوس میں جنسی کنائیوں (sexual innuendoes) سے بھرپور رقص پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا
آخر میں ایک اور انوکھا رقص پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ وہ مستقبل ہے جس کی طرف ہم رواں ہیں ۔ اسٹیج پر برہنہ جانوروں کی مانند بل کھاتے، لپٹتے ہوئے اپنے مستقبل کی تصویر دیکھ کر جی چاہا شرم سے ڈوب مروں، مگر حیوانیت نے آنکھیں بند نہ ہونے دیں

بچپن میں سنا تھا کہ یہاں کبھی محمد بن قاسم بھی آیا تھا اور بہت سے بزرگان دین بھی مگر شاید اُن کا کچھ اثر باقی نہ رہا تھا
جب ہم اپنا تماشا دکھا چکے اور حضرت بش اُٹھ کر جانے لگے تو تمام مجمع بھی اُن کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ دروازے پر پہنچ کر رُک گئے پھر ہماری طرف مُڑے تو سارا مجمع بھی ٹھہر گیا۔ دانت نکال کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے، گھُٹنے جھُکا کر کو لہے مٹکائے، دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجائیں اور سر ہلا کر تھوڑا اور مٹک کر دکھایا جیسے کہہ رہے ہوں، ”ہُن نَچو“۔
جس کی خوشی کے لئے ہم نے قبلہ بدل لیا، اپنی تاریخ جھٹلا دی، اپنا تمدن نوچ کر پھینک دیا، وہ بھی لعنت کر گیا

روشن خیالی کے نام پر بے شرمی اور بے غیرتی کے اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں

سی جی ایس (CGS) کی کرسی پر دو سال مجھ پر بہت بھاری گزرے۔ سب کچھ ہی غلط ہوا۔ افغانستان پر غیر جانبداری کا جھانسا دے کر امریکہ سے گٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل ہوئے۔ نئے نظام کے وعدے پر آنے والا ڈکٹیٹر ریفرنڈم کے جعلی نتیجے کے بل بوتے پر پانچ سال کے لئے صدر بنا، نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کی حکومت فوج کے ہاتھوں قائم کی گئی، امریکہ کے دباؤ پر کشمیر کو خیرباد کہا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ لگائی گئی، کاروباری ٹی وی چینلز کھولنے کا فیصلہ کر کے قوم کی فکریں بھی منڈی میں رکھ دیں۔ پھر ”سب سے پہلے پاکستان“ کا دوغلا نعرہ لگایا اور دین کو روشن خیالی، اعتدال پسندی (enlightened moderation) کا نیا رنگ دیا— ”دین اکبری“ سے آگے نکل کر ”دین پرویزی“۔

پاکستان میں دین کا رجحان ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ امریکہ کا تجویز کردہ تھا۔ قبلہ واشنگٹن کی طرف موڑ نے کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں کو قابو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام ٹی وی چینلز پیش پیش رہے۔ ایک سے ایک عالم اور فقیہ خریدے گئے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے گند کو اُچھال اُچھال کر اُسے جہادیوں سے جا ملایا۔ پھر مُلا کی جہالت کو مروڑ کر دین کو بدنام کیا اور اُسے نیا رنگ دے کر، نئی اصلاحات پیش کی گئی۔ اسلام کے قواعد پر چلنے کو ”بنیادپرستی“ کہا گیا، پھر اُسے ”شدت پسندی“ سے جا ملایا یعنی ”مُلا کی جہالت کو چھوڑ دو اور اصل اسلام پر آ جاؤ، وہ یہ ہے جو میں بتا رہا ہوں“ ۔ کچھ سچ میں تمام جھوٹ ملا کر، ڈھولک کی تھاپ پر ایک ناچتا ہوا معاشرہ سیدھی راہ بتائی گئی۔ جہاں ہر شخص کو اللہ کی رضا چھوڑ کر اپنی من مانی کی چھُوٹ ہو۔ جب منزل دنیا کی رعنائیاں ہو اور دھَن دولت ہی خدا ہو، تو پھر یہی سیدھی راہ ہے

جنرل شاہد عزیر مزید لکھتے ہیں

پھر عورتوں پر معاشرے میں ہوتے ہوئے مظالم کو دینی رجحان سے منسلک کیا گیا اور حقوق نسواں کو آزادی نسواں کا وہ رنگ دیا گیا کہ عورت کو عزت کے مرتبے سے گرا کر نیم عریاں حالت میں لوگوں کے لئے تماشا بنایا

ایک مرتبہ کور کمانڈر کانفرنس میں کور کمانڈروں نے ملک میں پھیلتی ہوئی فحاشی پر اظہار تشویش کیا تو مشرف ہنس کر کہنے لگے ”میں اس کا کیا کروں کہ لوگوں کو ایک انتہا سے روکتا ہوں تو وہ دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں” اور پھر بات کو ہنسی میں ٹال دیا مگر حقیقت مختلف تھی۔ صدر صاحب کی طرف سے باقاعدہ حوصلہ افزائی کی گئی اور پشت پناہی ہوئی تو بات یہاں تک پہنچی۔ اس سلسلے میں کئی این جی اوز (NGOs) بھی کام کر رہی تھیں اور بے بہا پیسہ خرچ کیا جا رہا تھا۔ یہ سب کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔

جنرل شاہد عزیر آگے لکھتے ہیں

جی ایچ کیو آڈیٹوریم (GHQ Auditorium)میں جنرلوں کو فوجی سیریمونیل لباس (ceremonial dress) میں، جو خاص احترام کے موقع پر پہنا جاتا ہے، بٹھا کر گانوں کی محفلیں سجائی گئیں

عرضِ بلاگر
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم اپنے دین حتٰی کہ اپنی ثقافت سے منہ موڑ کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ؟
اور بجائے اپنی درستگی کے ۔ ہمارے دن رات دوسروں پر الزام تراشی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں گذرتے ہیں

میں بیوقوف بن گیا

جی ہاں ۔ میں واقعی بیوقوف بن گیا ۔ اور لکھ اِس لئے رہا ہوں کہ آپ ہوشیار ہو جائیں اور میری طرح بیوقوف نہ بنیں ۔ ویسے میں اِتنا بیوقوف نہیں جتنا آپ اب سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ہیں ۔ بس ہاتھ ہو گیا میرے ساتھ

بیگم پیچھے لگیں تھیں کہ موسمِ سرما کیلئے ایک اور شلوار قمیض لے لو ۔ بنی بنائی میری پسند کی مل نہیں رہی تھی ۔ 24 دسمبر 2014ء کو میں کلثوم ہسپتال ۔ بلیو ایریا گیا ہوا تھا تو بیگم نے ٹیلیفون پر کہا ”سُنا ہے بلیو ایریا میں ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز بہت اچھی دکان ہے ۔ وہیں سے کپڑا خرید لاؤ“۔ اپنا خیال مرکز جی 9 المعروف کراچی کمپنی جانے کا تھا لیکن سرتابی کی جراءت نہ ہوئی ۔ چنانچہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ۔ دکان نمبر 8۔9 چوہدری پلازہ بلیو ایئریا پہنچا اور کہا شلوار قمیض کیلئے اچھا اُونی کپڑا چاہیئے

پتھاریدار یا چھوٹی دکان ہو تو آدمی خریدنے سے قبل بڑے غور سے پرکھتا ہے ۔ اتنی بڑی دکان اور وہ بھی بلیو ایریا میں اور میں پینڈو ۔ اُس نے اُنہی سے سلوانے پر زور دیا ۔ وہ 1000 روپیہ سلائی لیتے ہیں اور محلے والا 600 روپیہ ۔ سوچا اتنا مہنگا کپڑا لیا ہے کہیں محلے والا درزی خراب نہ کر دے ۔ چنانچہ مان لیا اس شرط پر کہ سِلنے کے بعد گھر پہنچایا جائے گا ۔ یکم جنوری 2015ء کو پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن نہ پہنچا ۔ 2 بار ٹیلیفون کرنے پر 2 جنوری جمعہ کے دن پہنچایا جب میں نماز پڑھنے گیا ہوا تھا۔ بیگم نے پیسے دے کر وصول کر لیا

میں گھر پہنچا تو دیکھا کہ کپڑا اُونی نہیں بلکہ نائلون قسم کا ہے اور اتنا گرم بھی نہیں ۔ اب معلوم نہیں اُس نے مجھے اُونی دکھایا اور سِلنے کیلئے کوئی اور دے دیا یا میری نظر بڑی دکان دیکھ کر اتنی چکاچوند ہو گئی تھی یعنی میں ہپنوٹائز ہو گیا تھا اور نائلون بھی مجھے بڑھیا اُون دکھائی دی

میرے ساتھ جو ہونا تھا ہو گیا ۔ کہتے ہیں ہمسایہ ماں جایہ ۔ مجھے شاید محلے والے درزی کا حق مارنے کی سزا ملی ہے
میری قارئین سے درخواست ہے کہ ثناء سوٹنگ اینڈ ڈریس میکرز ہو یا کوئی اور بڑی سے بڑی دکان ۔ دکاندار کی پیاری گفتگو کو نظر انداز کرتے ہوئے اچھی طرح دیکھ بھال کر کے چیز خریدیئے

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں