Category Archives: آپ بيتی

ہمارے دعوے اور حقیقت

ہم میں سے ہر ایک کا دعوٰی یہ ہے کہ ”مجھ جیسا کوئی نہیں“۔
اگر یہ کہہ دیا جائے ”مجھ جیسا کوئی نہ پیدا ہوا ہے اور نہ پیدا ہو گا“
تو شاید حقیقت سے قریب تر ہو
میں ایسے مُلک کے باشندوں جنہیں ہم جاہل یا کم علم یا ظالم سمجھتے ہیں کا دوسروں کے ساتھ سلوک کے اپنے چند تجربات بیان کرتا ہوں ۔ اِنہیں پڑھ کر ہم سب کو اپنے کردار و عمل کا جائزہ لینا چاہیئے

1 ۔ جس عمارت کے ایک اپارٹمنٹ میں ہم رہائش پذیر ہیں ۔ اس کے درمیان میں بہت بڑا صحن ہے جس میں 2 سوِمِنگ پُول اور بچوں کیلئے پلے لینڈ ہیں جن کے آس پاس کافی کھُلی جگہ ہے ۔ درمیان والی جگہ پر باربِیکیو کرنے کا بندوبست ہے اور وہاں 6 میزیں اور 24 سے زیادہ کرسیاں پڑی رہتی ہیں ۔ بچے اور بڑے شام کو یہاں آتے ہیں ۔ کچھ لوگ جاتے ہوئے اپنی کئی چیزیں وہاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ کوئی چوکیدار یا گارڈ وغیرہ وہاں نہیں ہوتا ۔ یہ چیز یں ایک سے 4 دن تک وہاں پڑی رہتی ہیں ۔ مجال ہے کہ بڑا تو درکنار کوئی بچہ بھی اِن میں سے کِسی چیز کو اُٹھانا تو درکنار ہاتھ بھی لگائے

2 ۔ ایک دن ہم کسی کی مزاج پُرسی کیلئے ہسپتال گئے ۔ واپسی پر سڑک کے کنارے ٹیکسی کی انتظار میں کھڑے تھے ۔ ایک کار ہمارے پاس آہستہ ہوئی اور مناسب جگہ پر جا کر کھڑی ہوئی ۔ اس میں سوار صاحب نے آ کر ہمیں پوچھا ” کیا آپ ٹیکسی کی انتظار میں کھڑے ہیں ؟“
ہم نے کہا ”ہاں“۔
پھر وہ صاحب بولے ” یہاں ٹیکسی آسانی سے نہیں ملے گی ۔ آپ نے کہاں جانا ہے؟“
ہمارے بتانے پر کہا ” معذرت ۔ میں مخالف سمت میں جا رہا ہوں ۔ مال آف ایمِیریٹس کے پاس بڑا ٹیکسی سٹیڈ ہے ۔ میں آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں“۔ اور پہنچا دیا
(ہم شہر سے باہر نئی آبادی میں رہتے ہیں جو شہر سے بہت دُور ہے)۔

3 ۔ ہمارے پوتا پوتی سکول سے بس پر پونے 4 بجے واپس پہنچتے ہیں ۔ اُنہیں لینے کیلئے میں اور بیگم نیچے جاکر فُٹ پاتھ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کئی بار راہ گذر پوچھتے ہیں ”میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا / سکتی ہوں ؟“

4 ۔ میں سڑک کے کنارے پیدل جاتے ہوئے سڑک پار کرنے کیلئے سڑک ک طرف منہ کر کے سڑک کے کنارے کھڑا ہوتا ہوں اگر گاڑیاں تیز جا رہی ہیں تو ایک دو گذرنے کے بعد باقی کھڑی ہو جائیں گی ورنہ پہلی گاڑی کھڑی ہو جائے گی اور میرے سڑک کے پار پہنچنے تک سب گاڑیاں کھڑی رہیں گی

5 ۔ یہاں سڑک پر گاڑیاں داہنی طرف چلتی ہیں ۔ اگر میں کار پر جا رہا ہوں تو ہر چوک (چوراہے یا چورنگی) پر میرے داہنی جانب سے آنے والی سب گاڑیاں رُک کر مجھے جانے دیں گی

6 ۔ سڑک پر کوئی گاڑی بغیر اشارہ دیئے اور میرے اُس کو راستہ دیئے بغیر بائیں یا داہنی جانب سے میری گاڑی کے سامنے آنے کی کوشش نہیں کرے گی

وہ جاہل بمقابلہ ہم پڑھے لکھے

میں انگلستان ۔ جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ فرانس ۔ امریکہ ۔ ترکی ۔ لبیا ۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب عمارات میں رہا ہوں ۔ میری عادت تھی کہ بڑے شہروں میں اندرونِ شہر کے چکر لگانے کے ساتھ بیرونِ شہر ۔ چھوٹے شہروں اور دیہات میں بھی گھومتا تھا ۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ وہاں کے لوگوں کا اصلی طور طریقہ دیکھ کر اگر کوئی اچھی عادت نظر آئے تو اسے اپنانے کی کوشش کروں ۔ اس سے مجھے وہاں کی شہری اور دیہاتی آبادی میں تفاوت بھی نظر آتی ۔ میں نے جرمنی ۔ بیلجیئم ۔ ہالینڈ ۔ ترکی اور عرب ممالک میں دیہات یا چھوٹے شہروں کے باشندوں کو سادہ طبعیت پایا ۔ شہروں میں ز یادہ تر دکھاوا اور تعصب دیکھنے کو ملتا تھا جس کی ایک وجہ ذرائع ابلاغ اور دوسری وجہ غیر ممالک سے آئے لوگوں کی موجودگی یا طور طریقہ تھا

میں نے ہر مُلک میں باہر سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی مطالعہ کیا ۔ سوائے 2 ممالک کے لوگوں کے باقی سب اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کا دفاع کرتے تھے ۔ فرق رویئے والے پاکستانی اور فلسطینی تھے جو اپنے مُلک کو اچھا نہیں سمجھتے ۔ ان میں میرے ہموطن اوّل نمبر پر تھے کہ وہ اپنے ہموطنوں میں بھی کیڑے نکالتے تھے ۔ عرب ممالک میں میرے ہموطن عربوں کو جاہل و بیوقوف گردانتے تھے اور کچھ دلیر اپنی اس سوچ کا اظہار عربوں پر بھی کرتے تھے ۔ عربوں کے متعلق خود بنائی ہوئی ایسی ایسی باتیں بھی مجھے سُنائی گئیں جو عملی طور پر ممکن ہی نہ تھیں

یہ تو تھا میرا تجربہ ۔ اب ذرا 6 فروی کو شائع ہونے والی ایک خبر پڑھیئے جو شاید جنگ اخبار کے پاکستان ایڈیشن میں بھی شائع ہوئی ہو اور اس کا مقابلہ اپنے وطن کے حالات سے کیجئے جہاں مسجد کے لاؤڈ سپیکر کے خلاف آواز تو اُٹھتی ہے لیکن گھروں اور گاڑیوں میں جو دماغ پھاڑ قسم کی موسیقی بجائی جاتی ہے اُسے کوئی کچھ نہیں کہتا

کچھ سُنا آپ نے ؟

کہا جاتا ہے کہ مہنگے علاقہ کے گھروں میں رہنے والوں کو سب کچھ اُن کی دہلیز پر ملتا ہے
اسلام آباد میں سیکٹر ایف 8 اسی درجے میں آتا ہے اور سیکٹر ای 7 بننے سے قبل اسلام آباد کا سب سے بہتر معیار کا سیکٹر صرف یہی تھا
ایف 8 میں اکثر پلاٹ 2000 مربع گز کے ہیں ۔ کچھ 1000 سے 1500 مربع گز کے ہیں اور جغرافیائی وجہ سے بن جانے والے تھوڑے سے 500 مربع گز کے ہیں
اسلام آباد ہر سیکٹر کے 4 حصے ہوتے ہیں ۔ 1 ۔ 2 ۔ 3 اور 4

ہم سیکٹر ایف 8 کے حصہ 1 میں رہتے ہیں یعنی F–8/1 میں ۔ ہم پانی کی سپلائی کیلئے ہر 3 ماہ بعد 2300 روپے دیتے جو کہ باقاعدگی سے وصول کئے جا رہے ہیں لیکن ہمارے علاقے میں پچھلے 3 ماہ سے پانی نہیں آ رہا

جون 2016ء تک پانی کی سپلائی کیپِٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کی ذمہ داری تھی ۔ جون 2016ء سے قبل کبھی سالوں بعد چند دِنوں کیلئے پانی کی سپلائی بند ہوتی تھی وہ بھی صرف دو تین گلیوں کی تو سی ڈی اے میں بھاگ دوڑ اُس وقت تک لگی رہتی تھی جب تک پانی کی سپلائی بحال نہ ہو جائے

سیاستدانوں کا شور تھا کہ اسلام آباد میں بھی مُنتخب لوکل گورنمنٹ ہونا چاہیئے ۔ چنانچہ 10 ماہ قبل انتخابات ہوئے اور اسلام آباد میونسپل کارپوریشن اور مضافاتی علاقوں کی یونین کونسلز بن گئیں ۔ اسلام آباد کے مکینوں کو پانی کی سپلائی یکم جولائی 2016ء سے نو مُنتخب میونسپل کارپوریشن نے اپنی عملداری میں لے لی ۔ اب ایف 8/1 میں پانی کی سپلائی پچھلے 3 ماہ سے بند ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کو پانی مہیاء کرنے والے تینوں ٹیوب ویل بند پڑے ہیں

سیاستدان 20 فٹ اُونچی سٹیج پر کھڑے ہو کر دعوٰی کرتے ہیں کہ وہ عوام کے خادم ہیں اور عوام کیلئے آسمان سے چاند ستارے بھی توڑکر لے آئیں گے ۔ جب کرُسی مل جاتی ہے تو شکائت کے آٹھ دس دن بعد پیش رفت معلوم کرنے جائیں تو جواب ملتا ہے ”میں پتہ کر رہا ہوں“۔

ہمارے علاقے کا ممبر میونسِپل کارپوریشن اور ایم این اے اتفاق سے دونوں تحریکِ انصاف کے ہیں ۔ ایم این اے اسد عمر کا نام تو سُنا ہی ہو گا

شاید اسی قسم کا نیا پاکستان بنانے کا بار بار وعدہ کیا جا رہا ہے

ایہہ پُتَر ہَٹاں تے نئیں وِکدے

ستمبر 1965ء میں صوفی تبسم صاحب کی لکھی اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گائی یہ نظم مجھے بہت کچھ یاد دلاتی ہے

تمام بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے بھارت نے 6 ستمبر 1965ء کو آدھی رات کے بعد پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا

صبح صدرِ پاکستان جنرل محمد ایوب خان کی ریڈیو پر تقریر “پاکستان کے جوان جن کے لبوں پر کلمہ لا الہ الاللہ کا ورد ہے اپنے ملک کی حفاظت کیلئے سرحدوں کی طرف روانہ ہو چُکے ہیں”۔
پاکستانی قوم کا مثالی اتحاد ۔ یگانگت اور جذبہءِ حُب الوطنی
پاکستان آرڈننس فیکٹری میں دن رات کام ۔ میری فیکٹری کے ورکرز کا چھٹی کرنے سے انکار ۔ میرا اُن کو بار بار سمجھانا کہ”بھائیو ۔ کل بھی کام کرناہے ۔ جاؤ اور چند گھنٹے آرام کر کے واپس آؤ“۔ بڑی مُشکل سےمیں نے اُنہیں منایا تھا
کام کے دنوں میں صبح 7 بجے سے سہ پہر 5 بجے تک میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ہی ۔ شام 6 بجے سے اگلے دن صبح 7 بجے تک مجھے سب سیکٹر کمانڈر بنا دیا گیا ۔ میں 15 دن رات فیکٹری میں رہا اور روزانہ ایک وقت کا کھانا کھایا ۔ پہلے 4 دن اور 3 راتیں نہ سویا ۔ چوتھی رات کو ایک فورمین اور ایک اسِسٹنٹ فورمین نے مجھے پکڑ کر میرے دفتر میں سٹریچر پر لٹا کر باہر سے دروازہ بند کر دیا اور فجر سے پہلے کھولا
بازاروں کا یہ حال تھا کہ دودھ والے جو پانی ملاتے تھے اُنہوں نے پانی ملانا بند کر دیا ۔ جو دودھ 10 آنے سیر بیچتے تھے اُنہوں نے 8 آنے بیچنا شروع کر دیا ۔ کھانے پینے کی دوسری اشیاء بھی پہلے سے سَستی بِکنے لگیں
لاہوریئے پلاؤ کی دیگیں پکوا کر ریہڑوں پر رکھ کر واہگہ محاذ کی طرف جانے شروع ہو گئے کہ ہمارے بھائی فوجیوں نے کھانا نہیں کھایا ہو گا

میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں اور دل ہی دل میں کہتا ہوں ”یا رب ۔ میرے وہ پاکستانی بھائی کہاں چلے گئے ؟ ؟ ؟“

اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے ۔ ۔ ۔ کی لَب نِیں ایں وِچ بازار کُڑے
اَے دین اے میرے داتا دی ۔ ۔ ۔ نا ایویں ٹکراں مار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے پُتَر وِکاؤ چیز نئیں ۔ ۔ ۔ مُل دے کے جھولی پائیے نِیں
اَے اَیڈا سَستا مال نئیں ۔ ۔ ۔ کِتوں جا کے منگ لیا ئیے نِیں
اَے سَودا نَقَد وی نئیں مِل دا ۔ ۔ ۔ تُوں لَب دی پھِریں اُدھار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
اَے شیر بہادر غازی نیں ۔ ۔ ۔ کِسے کولوں وی ہَر دے نئیں
اَینا دُشمناں کولوں کی ڈرنا ۔ ۔ ۔ اَے مَوت کولوں وی ڈردے نئیں
اَے اپنے دیس دی عزت تَوں ۔ ۔ ۔ جان اپنی دیندے وار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے
تَن بھاگ نیں اَوہناں ماواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں ماواں دے اَے جائے نیں
تَن بھاگ نیں بہن بھراواں دے ۔ ۔ ۔ جِنہاں گودی وِیر کھڈائے نیں
اَے آن نیں ماناں والیَاں دی ۔ ۔ ۔ نئیں ایس دی تینوں سار کُڑے
اَے پُتَر ھَٹاں تے نئیں وِکدے

میں اور 1947ء

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا اعلان 14 اور 15اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر ہوا ۔ پنجاب اور قریبی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام اپریل ہی میں شروع ہو چکا تھا ۔ جموں کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق یقینی تھا لیکن تاجِ برطانیہ کے نمائندوں لارڈ مؤنٹ بیٹن اور ریڈ کلِف کی پنڈت نہرو کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجہ میں مُسلم اکثریت والے ایک ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر سے زمینی راستہ مہیاء کر دیا گیا اور مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا اعلان اگست کے تیسرے ہفتے میں کیا گیا ۔ اس راستے سے بھارتی راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھہ اور اکالی دَل کے مسلح تربیت یافتہ دستے جموں میں داخل ہونا شروع ہو گئے اور ستمبر میں صوبہ جموں میں قتل غارت گری کا بازار گرم کرنا شروع کیا

ہمارے ساتھ 1947ء میں کیا بیتی دیکھنے کیلے مندرجہ ذیل عنوانات پر باری باری کلِک کیجئے
میری یادیں 1947ء کی
میری یادیں 1947ء کی ۔ دوسری قسط
میری یادیں 1947ء کی ۔ تیسری قسط

میری مدد کیجئے

محترمات قاریات و محترم قارئین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کی مدد کی فوری ضرورت ہے
میں آپ کے عِلم ۔ تجربے اور مشاہدے سے مستفید ہونا چاہتا ہوں اور اُمید کرتا ہوں کہ نا اُمید نہیں کیا جائے گا
آپ نے 2 دن قبل میری تحریر ” سُہانجنا یا سُوہانجنا یا سوجہنی (Moringa)“ پڑھی ہو گی

پہلے تھوڑی سی میری بِپتا سُن لیجئے
جس سرکاری کوٹھی میں اکتوبر 1984ء سے اگست 1994ء تک رہائش پذیر رہا ۔ اس کے ساتھ 4 کنال کے قریب خالی زمین تھی جس میں سوہانجنا اور امرود کے درخت تھے ۔ میں نے لوکاٹ کا ایک ۔ آلو بخارے کے 2 اور خوبانی کے 3 درختوں کا اضافہ کیا جو عمدہ قسم کے تھے اور دُور دُور سے منگوائے تھے ۔ مجھے 1995ء میں ایک دوست کیلئے سوہانجنا کی پھلیوں کی ضرورت پڑی ۔ میں واہ پہنچا تو میدان صاف تھا ۔ میرے بعد وہاں گریڈ 20 کے جو افسر آئے تھے بولے ”بہت گند تھا ۔ میں نے سب درخت کٹوا دیئے“۔ میرا دل دھک سے رہ گیا ۔ موصوف کو اتنا بھی فہم نہ تھا کہ سُوہانجنا ایک کمیاب درخت ہے ۔ اس میں سینکڑوں امراض کا نہائت سستا اور آسان علاج ہے اور درجنوں ایسے امراض کا علاج مہیاء کرتا ہے جو ایلوپیتھک طریقہ علاج میں موجود نہیں ۔ سوہانجنا کے استعمال سے کوئی بُرا ردِ عمل (reaction) بھی نہیں ہوتا

کچھ عرصہ سے مجھے اپنے خاندان اور کچھ احباب کیلئے سوہانجنا کی اشد ضرورت ہے ۔ میں اس کے پودے ۔ درخت ۔ پنیری وغیرہ کی تلاش میں ہوں
آپ سے درخواست ہے کہ کسی جگہ اس کی موجودگی کا عِلم ہو یا اس کی پنیری وغیرہ مل سکے تو مطلع فرمایئے
خیال رہے کہ ہمارے مُلک میں کئی دوائیاں نہیں ملتیں ۔ سُہانجنا کے پتے ۔ پھلیاں اور بِیج اُس کا بہترین نعم البدل ہیں اور
اس کی تلاش میں کی ہوئی محنت صدقہ جاریہ ہونے کے ساتھ آپ کے اپنے یا آپ کے عزیزوں کے کام بھی آ سکتی ہے
اللہ آپ کو صحتمند اور خوش رکھے

ھُنا الدبئی

پاکستان بننے کے بعد خبریں شروع کرنے سے پہلے جس طرح ہمارے ہاں کہتے تھے ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“۔
ہمارے گھر میں 1953ء تک ریڈیو قاہرہ سے خبریں سُنی جایا کرتی تھیں ۔ خبریں شروع ہونے سے پہلے کہا جاتا تھا ”ھُنا القاہرہ“۔
سمجھ میں آ گیا ۔ نہیں آیا ؟
جی ۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ کی مہربانی سے میں مع اپنی بیگم کے 2 دن قبل یعنی بروز ہفتہ 30 اپریل اپنی بیٹی اور چھوٹے بیٹے کے پاس دبئی پہنچ گیا تھا ۔ بیٹی ۔ بیٹا ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا ۔ پوتی سب بہت خوش ہیں ۔ بہت شور مچایا ہوا تھا ”جلدی آئیں ۔ جلدی آئیں“۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں تو پوتی ناراض ہو گئی تھی کہ آتے کیوں نہیں
آپس کی بات ہے کہ ہم بھی بہت خوش ہیں ۔ بچوں کے ساتھ بالخصوص پوتا پوتی کے ساتھ وقت گذرتے محسوس ہی نہیں ہوتا