اسلام اور رسمیں

ہم نے بہت سے رَسَم و رواج کو اپنا کر اُن میں سے بہت سے اِسلامی سمجھ لئے ہوئے ہیں ۔ اِن رَسَم و رواج کو ہم اللہ اور اس کے آخری نبی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں حالانکہ اِسلام (قرآن) رَسَم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور اِنسان کو صِرف اللہ اور اُس کے آخری نبی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے ۔ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ہماری رسُوم بھی ترقی کر رہی ہیں ۔ عرس ۔ چراغاں ۔ محفلِ میلاد ۔ کُونڈے بھرنا ۔ گیارہویں کا ختم ۔ میلادُالنّبی کا جلُوس ۔ مُحَرّم کا جلُوس ۔ شامِ غریباں ۔ قَبَروں پر چادریں چڑھانا ۔ انسانوں (پیروں) اور قبروں سے مرادیں مانگنا ۔ قبروں پر ناچنا (دھمال ڈالنا) ۔ قصِیدہ گوئی وغیرہ وغیرہ ۔ لمبی فہرست ہے ۔دس بارہ سال پہلے شادی سے پہلے قرآن خوانی کا رواج شروع ہوا

ہمارے محلہ میں ایک لڑکی کی شادی ہونا تھی ۔ میری بیوی کو پیغام آیا کہ مہندی والے دِن قرآن خوانی اور درس ہوگا ۔ وہ خوش ہوئی کہ خرافات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ وہاں سے بیوی واپس آئی تو چہرہ سُرخ منہ پھُلایا ہوا ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ کہنے لگی ” قرآن شریف ابھی بمشکل پڑھا کہ بلند آواز سے پاپ موسیقی شروع ہوگئی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ کھانے پینے کے لئے روک رہے تھے میں معذرت کر کے آگئی” ۔ شائد اِسی کو روشن خیالی کہتے ہیں ؟

بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُن میں دِکھائی گئی بہت سی ہِندُوانا رَسمیں بھی اپنا لی گئی ہیں ۔ مہندی کے نام سے دُولہا دُلہن کو اکٹھے بٹھا کر اُن کے سرّوں پر سے پیسے وارنا ۔ شادی شُدہ خوش باش عورتوں کا اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرنا یا اُن کے گِرد طواف کرنا اور اُن کے اُوپر کچّے چاول پھینکنا ۔ (اب شائد کپڑوں کو گرہ لگا کر آگ کے گرد پھیرے لگانا اپنانا باقی رہ گیا ہے)۔

ایک نیک خاندان کی لڑکی کی منگنی اس لئے ٹوٹ گئی کہ ہونے والے دولہا کی والدہ شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی رَسَم کرنا چاہتی تھیں جس میں وہ چار سوہاگنوں کی رَسَم بھی کرنا چاہتی تھیں ۔ لڑکی کی والدہ نے تَفصِیل پوچھی تو پتہ چلا کہ اس میں لڑکا اور لڑکی ساتھ ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور چار شادی شدہ عورتیں جن کے خاوند زندہ ہوتے ہیں اور وہ خوش باش ہوتی ہیں لڑکی لڑکے کے گرد طواف کرتی جاتی ہیں اور لڑکی لڑکے پر کچْے چاول پھینکتی جاتی ہیں ۔ لڑکی کے گھر والے غیر شرعی رسُوم کے مخالف تھے اس لئے منگنی ٹوٹ گئی ۔
ہم میں سے جو نماز پڑھتے ہیں وہ صرف فرض یا واجب رکعتوں میں ایک دن میں بیس مرتبہ اِھدِنَا صِرَاطَ المُستَقِیم کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دِکھا ہم کو راہ سیدھی ۔ (اگر سُنتیں اور نفل بھی شامل کر لئے جائیں تو پانچ نمازوں میں 48 بار کہتے ہیں) ۔

کبھی ہم نے سو چا ہے کہ ہم مانگتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں ؟
اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

This entry was posted in تجزیہ, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.