Monthly Archives: August 2018

خلیفہ ثانی کی ذہانت

خلیفہ الثانی عمر ابن الخطاب رضي الله عنه امیرالمؤمنین تھے ۔ خلیفہ احباب مین بیتھے تھے کہ ایک بوڑھی عورت دربار مین حاضر ہوئی اور کہا ” میرے گھر میں کیڑے مکوڑے نہیں ہیں“۔
خلیفہ نے اس عورت سے گھر کا پتہ پوچھا اور یہ کہہ کر رُخصت کر دیا ” تمہاری شکائت دُور کر دی جائے گی“۔
بوڑھی عورت کے جانے کے بعد ہر کوئی حیرت کا پہاڑ بنا ہوا تھا کہ خلیفہ کی آواز گونجی

”امیر بیت المال ۔ اس عورت کے پہنچنے سے قبل اس کا گھر کھجور ۔ شہد اور اناج سے بھر دو“۔
پھر خلیفہ نے فرمایا ” حیرت سے دیکھنے والی آنکھو ۔ سُنو ۔ جس گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہو اس میں کیڑے مکوڑوں کا کیا کام ؟
الله کریم ایسے سمجھدار حکمران ہمیں بھی عطا فرمائے ۔ آمین

خرچ

سورة 2 البَقَرَة آیت 215
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
يَسۡـــَٔلُوۡنَكَ مَاذَا يُنۡفِقُوۡنَ ؕ قُلۡ مَآ اَنۡفَقۡتُمۡ مِّنۡ خَيۡرٍ فَلِلۡوَالِدَيۡنِ وَالۡاَقۡرَبِيۡنَ وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ‌ؕ وَمَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَيۡرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيۡمٌ

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو اور جو بھلائی بھی تم کرو گے، اللہ اس سے باخبر ہوگا

عیدالاضحٰے مبارک

السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
کُلُ عَام اَنتُم بَخَیر
ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے لے کر عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھنا چاہیئے ۔ اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی

اللهُ اکبر اللهُ اکبر لَا اِلَهَ اِلْالله وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَهُ
لَهُ الّمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر کبِیراً والحمدُللهِ کثیِراً و سُبحَان اللهِ بکرۃً و أصِیلاً

الله سُبحانُهُ و تعالٰی سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے حج ادا کیا ہے الله کریم اُن کا حج قبول فرمائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کرنا ہے ۔ الله عِزّ و جَل اُن کی قربانی قبول فرمائے
الله کریم ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
الله الرَّحمٰنِ الرَّحِیم ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے اور امن کا گہوارہ بنا دے ۔ آمین ثم آمین

ہمیں اِس کی اشد ضرورت ہے


آج کل سائنس کی ترقی کا چرچہ ہے ۔ سائنس کی ترقی نے آدمی کو بہت سہولیات مہیاء کر دی ہیں
پڑھنے لکھنے پر بھی زور ہے جس کے نتیجہ میں بہت لوگوں نے بڑی بڑی اسناد حاصل کر لی ہیں
توقع تو تھی کہ ان سہولیات کو استعمال کرتے ہوئے آدمی تعلیم حاصل کر کے انسان بن جائیں گے
لیکن
سائنس کی ترقی میں انسانیت کم پنپ پائی ہے اور وبال یا جہالت زیادہ
سائنس کے استعمال نے انسان کا خون انفرادی ہی نہیں بلکہ انبوہ کے حساب سے آسان بنا دیا ہے اور انسانیت بلک رہی ہے
ایسے میں ویب گردی کرتے میں افریقہ جا پہنچا ۔ دیکھیئے نیچے تصویر میں کون بچے ہیں اور کیا کر رہے ہیں

Ubuntu

ان بچوں کے پاس اپنے جسم ڈھانپنے کیلئے پورے کپڑے نہیں لیکن اس تصویر سے اُن کی باہمی محبت اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ یہ تو میرا اندازہ ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے

ایک ماہرِ بشریات (anthropologist) نے ایسے لوگوں کو شاید پڑھا لکھا نہ ہونے کی بناء پر جاہل اور خود غرض سمجھتے ہوئے اپنے مطالعہ کے مطابق ایک مشق دی ۔ماہرِ بشریات نے پھلوں سے بھرا ایک ٹوکرا تھوڑا دور ایک درخت کے نیچے رکھ کر افریقہ میں بسنے والے ایک قبیلے کے بچوں سے کہا
”جو سب سے پہلے اس ٹوکرے کے پاس پہنچے گا ۔ یہ سارے میٹھے پھل اُس کے ہوں گے“۔
اُس نے بچوں کو ایک صف میں کھڑا کرنے کے بعد کہا ”ایک ۔ دو ۔ تین ۔ بھاگو“۔

سب بچوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئے اور اکٹھے بھاگ کر اکٹھے ہی پھلوں کے ٹوکرے کے پاس پہنچ گئے اور ٹوکرے کے گرد بیٹھ کر سب پھل کھانے لگے

ماہرِ بشریات جو ششدر کھڑا تھا بچوں کے پاس جا کر بولا ”تم لوگ ہاتھ پکڑ کر اکٹھے کیوں بھاگے ؟ تم میں سے جو تیز بھاگ کر پہلے ٹوکرے کے پاس پہنچتا سارے پھل اس کے ہو جاتے”۔

بچے یک زبان ہو کر بولے ”اُبنٹُو (ubuntu) یعنی میرا وجود سب کی وجہ سے ہے ۔ ہم میں سے ایک کیسے خوش ہو سکتا ہے جب باقی افسردہ ہوں”۔

کیا یہ سکولوں اور یونیورسٹیوں سے محروم لوگ اُن لوگوں سے بہتر نہیں جو سکولوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہو کر انفرادی بہتری کیلئے دوسروں کا نقصان کرتے ہیں
اپنی اجارہ داری قائم کرنے کیلئے دوسروں کا قتل کرتے ہیں
اور بہت خوش ہیں کہ جسے چاہیں اُسے اُس کے ملک یا گھر کے اندر ہی ایک بٹن دبا کر فنا کر دیں

سائنس نے ہمیں آسائشیں تو دے دیں ہیں مگر انسانیت ہم سے چھین لی

یہ تحریر میں 16 مئی 2013ء کو شائع کر چکا ہوں

يومِ اِستقلال مُبارِک

Flag-1
پاکستان پائيندہ باد
اُس گمنام مسلمان بچے کے نام جو تعمیرِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے بمبئی کے ایک مسلمان محلے میں سڑک پر دوڑا جا رہا تھا ٹھوکر کھا کر گرا اور خون بہتے دیکھ کر رونے لگا ۔ ایک مسلمان راہگیر نے ٹوکا ”مسلمان کا بچہ ہو کر تھوڑا سا خون بہہ جانے پر رو رہا ہے“۔
دوسرے راہگیر نے کہا ”بہت شرم کی بات ہے“۔
بچے نے جواب دیا ”جناب چوٹ لگنے اور خون بہنے پر میں نہیں رو رہا ۔ میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ جو خون پاکستان کے لئے بہنا تھا وہ آج بیکار ہی بہہ رہا ہے“۔

جناب مطلوب الحسن سیّد اپنی کتاب ”ہمارے قائد“ میں لکھتے ہیں جب یہ واقعہ قائد اعظم کو بتایا تو اُنہوں نے فرمایا ”اب پاکستان بننے کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی“۔

پچھلے 55 سال سے ہمارے مُلک پر بيوروکريٹ حکومت کر رہے ہيں چاہے وردی ميں ہوں يا بغير وردی اور ہم لوگ محکوم ہيں ۔ کيا پاکستان اِسی لئے بنا تھا ؟ ہم قائد اعظم کی عزّت کے دعوے تو بہت کرتے ہيں جو صرف دفتروں ميں اُن کی تصوير لگانے تک محدود ہيں ۔ لاکھوں روپيہ خرچ کر کے شاہراہ اسلام آباد کے کنارے قائد اعظم کی بيس پچيس فٹ کی شبيح آويزاں کروا کر اپنی منافقت کو اُجا گر کرتے ہيں ۔ کيا قائد اعظم نے ہميں يہی کہا تھا ؟
ملاحظہ ہو پاکستان کے گزيٹِڈ آفيسروں سے چٹاگانگ ۔ مشرقی پاکستان ۔ ميں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے 25 مارچ 1948 کے خطاب سے اقتباس

“Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.”

باہمی اختلاف ۔ میڈیکل سائنس کی نظر میں

میں نے قرآن شریف کی ایک آیت نقل کی تھی ۔ اس سلسلہ میں امریکہ میں ایک مایہ ناز پاکستانی نژاد (Neurologist) وھاج الدین احمد نے میری توجہ اپنی اس تحریر کی طرف مبزول کرائی

جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور دوسری مخلوق سے (سوال سمجھنے اور جواب دینے یعنی اپنی یادداشت سے) مقابلہ کرایا تو حضرت آدم علیہ االسلام جِیتے ۔ یہ چیز ہے جو صرف انسان کو عطا کی گئی ہے ۔ یہی تمام ذہانت کی بنیاد ہے اور یہی ڈاروِن صاحب کی تھِیُوری میں اب تک جواب طلب ہے ۔ حال ہی میں میں نے دماغ کی evaluation کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ آخر میں نیُورالوجِسٹ جو ہوا

تمام آدم سے نیچے والی مخلوق ایسی بات کرنے سے معذور ہیں تمام experiment قوت گویائی کے متعلق یہی بتاتے ہیں کہ یہ “یکدم’ اس مخلوق – یعنی آدم میں پیدا ہو گئی یقین جانئے اس سائنس نے اس تھیوری کو صحیح اور مکمل ثابت کرنے میں ایڑی چوتی کا زور لگایا ہے مگر یہ مندرجہ بالا اور چند دوسری باتیں اس خلاء کو پر نہیں کر سکیں
یہی قوت گویائی ہماری افضل المخلوقات ہونے کی وجہ ہے اور یہی وجہ ہماری اللہ تعالٰے کے سامنے جوابدہی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے

آپ کے پاس 3 روپے ہوں گے ؟

کوٹھی کے خوبصورت لان میں سردی کی ایک دوپہر میں اور علی بھائی (مشہور اداکار محمد علی) بیٹھے گفتگو کر رہے تھے ۔ چپڑاسی نے علی بھائی سے آ کر کہا ”باہر کوئی آدمی آپ سے ملنے آیا ہے ۔ یہ اس کا چوتھا چکر ہے“۔
علی بھائی نے اسے بلوا لیا ۔ کاروباری سا آدمی تھا ۔ لباس صاف سُتھرا مگر چہرے پر پریشانی جھلَک رہی تھی ۔ شیو بڑھی ہوئی ۔ سُرخ آنکھیں اور بال قدرے سفید لیکن پریشان ۔ وہ سلام کرکے کرسی پر بیٹھ گیا تو علی بھائی نے کہا ” جی فرمایئے“۔
”فرمانے کے قابل کہاں ہوں صاحب جی ۔ کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ اس آدمی نے بڑی گھمبیر آواز میں کہا اور میری طرف دیکھا جیسے وہ علی بھائی سے کچھ تنہائی میں کہنا چاہتا تھا
علی بھائی نے اس سے کہا ” آپ ان کی فکر نہ کیجئے جو کہنا ہے کہیئے“۔
اس آدمی نے کہا ”چَوبُرجی میں میری برف فیکٹری ہے علی صاحب“۔
” جی“۔
” لیکن کاروباری حماقتوں کے سبب وہ اب میرے ہاتھ سے جا رہی ہے“۔
” کیوں ؟ کیسے جا رہی ہے“۔ علی بھائی نے تفصیل جاننے کے لئے پوچھا
وہ آدمی بولا ” ایک آدمی سے میں نے 70ہزار روپے قرض لئے تھے لیکن میں لوٹا نہیں سکا ۔ میں نے کچھ پیسے سنبھال کر رکھے تھے لیکن چور لے گئے ۔ اب وہ آدمی اس فیکٹری کی قرقی لے کر آ رہا ہے“۔
یہ کہہ کر وہ آدمی رونے لگا اور علی بھائی اسے غور سے دیکھتے رہے اور اس سے کہنے لگے ” آپ کا برف خانہ میانی صاحب والی سڑک سے ملحقہ تو نہیں؟“
وہ آدمی بولا ” جی جی وہی ۔ ۔ ۔ علی بھائی میں صاحب اولاد ہوں اگر یہ فیکٹری چلی گئی تو میرا گھر برباد ہو جائے گا ۔ میں مجبور ہو کر آپ کے پاس آیا ہوں“۔
”فرمایئے میں کیا کر سکتا ہوں ؟“
” میرے پاس 20 ہزار ہیں ۔ 50 ہزار آپ مجھے اُدھار دے دیں میں آپ کو قسطوں میں لوٹا دوں گا“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر اس آدمی کو دیکھا۔ سگریٹ سُلگائی اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگے ”روبی بھائی ۔ یہ آسمان بھی بڑا ڈرامہ باز ہے ۔
کیسے کیسے ڈرامے دکھاتا ہے ۔ شطرنج کی چالیں چلتا ہے ۔ کبھی مات کبھی جیت“۔
یہ بات کہی اور اُٹھ کر اندر چلے گئے ۔ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں نوٹوں کا ایک بنڈل تھا ۔ کرسی پر بیٹھ گئے
اور اس آدمی سے کہنے لگے ”پہلے تو آپ کی داڑھی ہوتی تھی“۔
وہ آدمی حیران رہ گیا اور چونک کر کہنے لگا ” جی ۔ یہ بہت پرانی بات ہے“۔
”جی میں پرانی بات ہی کر رہا ہوں“۔ علی بھائی نے کہا اور اچانک کہیں کھو گئے ۔ سگریٹ کا دھُواں چھوڑ کر فضا میں کچھ تلاش کرتے رہے ۔ پھر اس آدمی سے کہنے لگے ” آپ کے پاس 3 روپے ٹوٹے ہوئے ہیں ؟ “
” جی جی ہیں“۔
اس آدمی نے جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ نوٹ نکالے اور ان میں سے 3 روپے نکال کر علی بھائی کی طرف بڑھا دیئے
علی بھائی نے وہ پکڑ لئے اور نوٹوں کا بنڈل اُٹھا کر اس آدمی کی طرف بڑھایا ”یہ 50 ہزار روپے ہیں ۔ لے جایئے“۔
اس آدمی کی آنکھوں میں آنسو تھے اور نوٹ پکڑتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے
اس آدمی نے جذبات کی گرفت سے نکل کر پوچھا ” علی بھائی مگر یہ 3 روپے آپ نے کس لئے ۔ ۔ ۔ ؟“
علی بھائی نے اس کی بات کاٹ کر کہا ”یہ میں نے آپ سے اپنے 3 دن کی مزدوری لی ہے“۔
”مزدوری ۔ ۔ ۔ مجھ سے ؟ میں آپ کی بات نہیں سمجھا “ اس آدمی نے یہ بات پوچھی تو ایک حیرت اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی
علی بھائی نے مُسکرا کر جواب دیا ” 1952ء میں جب میں لاہور آیا تھا تو میں نے آپ کے برف خانے میں برف کی سلیں اُٹھا کر قبرستان لے جانے کی مزدوری کی تھی“۔
یہ جواب میرے اور اس آدمی کے لئے دنیا کا سب سے بڑا انکشاف تھا
علی بھائی نے مزید بات آگے بڑھائی ” مگر آپ نے جب مجھے کام سے نکالا تو میرے 3 دن کی مزدوری رکھ لی تھی ۔ وہ آج میں نے وصول کر لی ہے“۔
علی بھائی نے مُسکرا کر وہ 3 روپے جیب میں ڈال لئے
” آپ یہ 50 ہزار لے جائیں ۔ جب آپ سہولت محسوس کریں دے دیجئے گا “۔
علی بھائی نے یہ بات کہہ کر مزے سے سگریٹ پینے لگے ۔ میں اور وہ آدمی کرسیوں پر یوں بیٹھے تھے جیسے ہم زندہ آدمی نہ ہوں بلکہ فرعون کے عہد کی 2 حنوط شدہ مَمِیاں کرسی پر رکھی ہوں
احمد عقیل روبی صاحب کا تحریر کردہ واقعہ تو ختم ہوا

کیا آپ کو سمجھ آئی کہ کروڑ پتی محمد علی کیلئے 3 روپے کی کیا اہمیت تھی کہ لے لئے ؟
یہ محمد علی کی معاملہ فہمی ہے ۔ محمد علی نے سوچا ہو گا ” اچھا بھلا چلتا کار و بار تباہ ہونے کی وجہ شاید ایک غریب مزدور کی 3 دِن کی مزدوری نہ دینا ہو “۔
محمد علی نے اپنی مزدوری وصول کر لی تا کہ اُس شخص کی سختی ختم ہو

بشکریہ ۔ مصطفٰے ملک صاحب ” گھریلو باغبانی والے“۔