Monthly Archives: October 2017

کون اچھی زندگی گذارتا ہے

ایسا بھی ہوتا کہ کہ آپ اپنی زندگی سے مطمئن نہ ہوں
جبکہ بہت سے لوگ آپ کی طرح زندگی گزارنے کے خواب دیکھ رہے ہوں
کھیتوں میں کھڑا ایک بچہ اُوپر اُڑتا ہوائی جہاز دیکھ کر اسے اُڑانے کا خواب دیکھتا ہے
جبکہ ہوائی جہاز کا پائیلٹ کھیت دیکھ کر گھر واپسی کا خواب دیکھتا ہے
اسے زندگی کہتے ہیں ۔ کُڑہنے کی بجائے اس سے لُطف اندوز ہوں

اگر خوشی کا راز دولت میں ہوتا تو دولتمند خوشی سے گلیوں میں ناچ رہے ہوتے
لیکن ایسا غریب بچے کرتے ہیں
اگر طاقت حفاظت کی ضامن ہوتی پھر افسروں کو گارڈز کے بغیر پھرنا چاہیئے
لیکن جو سادہ زندگی گذارتے ہیں وہ مزے کی نیند سوتے ہیں

اگر خوبصورتی اور شہرت سے مثالی رشتے قائم ہوتے
تو نامور لوگوں کی شادیاں بہترین ہوتیں

سادہ زندگی گذاریئے ۔ عاجزی اختیار کیجئے اور حقیقی محبت کیجئے ۔ اِن شاء اللہ ہر اچھائی آپ کے پاس آئے گی

انسان اور کتا

شیخ سعدی نے گلستان لکھی ۔ یہ ذومعنی چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی فارسی میں لکھی کتاب میں نے 66 سال قبل آٹھویں جماعت میں پڑھی تھی ۔ اِن میں سے 2 کا ترجمہ
(1) ایک درویش کے پاس سے ایک بادشاہ کا گذر ہوا ۔ درویش کے پاس اس کا کُتا بیٹھا تھا
بادشاہ نے مذاق کے طور پر پوچھا ” آپ اچھے ہیں یا آپ کا کُتا ؟ “۔
درویش نے جواب دیا ” یہ کُتا میرا کہنا مانتا ہے اور میرا وفادار ہے ۔ اگر میں اپنے مالک کا وفادار رہوں اور اس کا کہنا مانوں تو میں اچھا ورنہ یہ کُتا مجھ سے اچھا ہے“۔
(2) ایک آدمی کو کُتے نے کاٹ لیا ۔ درد سے اُس کے آنسو نکل آئے
اُس کی کمسِن بچی اُسے کہنے لگی ” بابا روتے کیوں ہو ۔ کُتا آپ سے بڑا تو نہیں تھا ۔ آپ بھی اُس کو کاٹ لیتے”۔
آدمی نے کہا ” بیٹی ۔ ٹھیک ہے کہ کُتا مجھ سے بہت چھوٹا ہے مگر میں انسان ہوں ۔ رو سکتا ہوں ۔ کُتے کو نہیں کاٹ سکتا “۔

کیا دِن تھے وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ستمبر 1947ء کے آخری ہفتہ میں ہماری حفاظت کے خیال سے ہمارے بزرگوں نے مُجھے اور میری 2 بہنوں کو ایک کرنل صاحب کے بیوی بچوں کے ساتھ جموں شہر سے چھاؤنی بھیج دیا تھا ۔ شام اور رات کے وقت ”جے ہِند“ اور سَت سِری اکال“ کے نعروں کی آوازیں آتیں ۔ معلوم ہوا کی بھارت سے آنے والے ہِندوؤں اور سِکھوں کے مسلحہ دستے چھاؤنی میں سے گذرتے ہیں
پھر کوئی شہر سے آیا تو خبر ملی کہ جموں شہر کے مضافاتی علاقوں میں جہاں مسلمان بھاری تعداد میں نہیں ہیں وہاں بھارت سے آئے ہوئے ہندو اور سکھ مسلحہ بلوائی حملے کر رہے ہیں اور کئی دیہات میں کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی گئی ہے

6 نومبر 1947ء کو خبر ملی کہ 3 اور 4 نومبر کو جموں کے 2 محلوں (ہمارا محلہ اور محلہ پٹھاناں) جہاں سب مسلمان تھے لوگوں کو زبردستی گھروں سے نکال دیا گیا کہ پاکستان جاؤ اور اس بہانے سے اُنہیں شہر سے باہر لے جا کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا ۔ یہ خبر سُن کر جو ہمارا حال ہوا وہ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ میں نے دو شعر پڑھے یا سُنے ہوئے تھے جن میں اپنی طرف سے ملا کر میں تنہا بیٹھ کر مدھم آواز میں گاتا اور آنسو بہایا کرتا تھا

اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
مُشکل میں ہم نے تیری رحمت کو ہے پکارا

حاجت روا بھی تُو ہے مُشکل کُشا بھی تُو ہے
مالک تیرے کرم پر ہے کامل ایمان ہمارا
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

تو چاہے تو مِلا دے بِچھڑے ہوئے دِلوں کو
دُنیا میں تیری رحمت کا کوئی نہیں کنارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

زندگی ہماری اب تو بس تیرے ہاتھ میں ہے
بدل جائے پھر زمانہ گر تیرا ہو جائے اِک اشارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہم پر کرم کیا اور ہم 18 دسمبر 1947ء کو پاکستان پہنچ کر اپنے بزرگوں سے ملے جن میں 2 کم تھے ۔ ایک میرے والد صاحب کے جوان چچازاد بھائی کو جموں ہی میں شہید کر دیا گیا تھا اور اُس کے والد 5 نومبر کے قافلہ میں تھے جو تقریباً سب شہید کر دیئے گئے تھے