Monthly Archives: April 2017

پارلیمنٹیرین کی انسانیت کیلئے قربانی

ہَیلن جو آن کاکس (Helen Joanne Cox) المعروف جو کاکس (Jo Cox) مئی 2015ء میں لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلمنٹ کی رُکن منتخب ہوئی ۔ اُس کی انسانیت دوستی اور اصول پرستی کی وجہ سے اُسے 16 جون 2016ء کو قتل کر دیا گیا

جو کاکس 22 جون 1974ء کو باٹلی (ویسٹ شائر) میں پیدا ہوئی ۔ تعلم مکمل کرنے کے بعد 2001ء میں آکس فام میں شمیولیت اختیار کی

احسان اللہ احسان کا اعتراف

پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن کو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بھارتی نیوی کے افسر اور بھارتی ایجنسی ” را “ کے ایجنٹ کل بھوشن یادیو کی بلوچِستان سے گرفتاری کے بعد دوسری کامیابی عطا فرمائی ہے

آپ خبروں میں پڑھ یا سُن چکے ہوں گے کہ احسان اللہ احسان جو کچھ عرصہ تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان بھی رہا اُس نے کچھ دن قبل اپنے آپ کو پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا تھا

احسان اللہ احسان کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان بھی بھارتی حکومت کی چلائی ہوئی ہے اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ” را “ اور افغانستان کی ایجنسی ” این ڈی ایس“ کے ماتحت چل رہی ہے جو دہشتگردی کے ہر واقعہ کے بدلے ڈالرز دیتی ہیں

سیاستدانوں کے نام

رُلاتا ہے تمہارہ نظارہ پاکستانیوں مجھ کو
عبرت خیز ہے یہ ا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھی ہیں غیروں نے
رہنما قوم کے غافل ۔ لڑتے ہیں دونوں ایوانوں میں
وطن کی فکر کرو نادانوں ۔ مصیبت آنے والی ہے
تمہاری بربادیوں کے مشورے ہیں دُشمنوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے پاکستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی پھر داستانوں میں

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کِیا ہے اپنے بختِ خُفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شَرَر سے دل سراپا نُور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے

پاکستان کے دُشمنوں سے
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ۔ وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ۔ وہ نا پائیدار ہو گا

جسے آمر (Dictator) کہا جاتا ہے ؟

میں مئی 1976ء سے جنوری 1983ء تک لیبیا کے دارلحکومت طرابلس میں رہائش پذیر تھا ۔ اس دوران بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کو ملا ۔ آج ایک واقعہ لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کے متعلق جسے امریکہ اور اس کے حواریوں نے خلافِ حقیقت بہت بدنام کیا

طرابلس میں موجود پاکستانی بھائیوں سے ملاقات ہوتی رہتی تھی ۔ ان میں انجنیئروں اور ڈاکٹروں کے علاوہ مختلف فیکٹریوں ۔ دفاتر اور تجارتی اداروں میں کام کرنے والے ہر سطح کے لوگ تھے ۔ معمر قذافی کے ذاتی معالج پاکستانی ڈاکٹر تھے جو کبھی کبھی معمر قذافی کے ساتھ اپنے سفر کے خاص خاص واقعات سنایا کرتے تھے

ایک دن میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ”ایسا واقعہ سنایئے جس نے آپ کو بہت متاءثر کیا”۔
ڈاکٹر صاحب گویا ہوئے ” ایک دن معمر قذافی نے کہیں نہیں جانا تھا چنانچہ میں گھر پر رہا ۔ بعد دوپہر قذافی کا ڈرائیور پہنچ گیا ۔ میں سمجھا کہ قذافی کی طبعیت خراب ہو گی ۔ اپنا بیگ تیار کیا اوراس کے ساتھ چل پڑا ۔ شہر کے باہر پہنچے ۔ جہاں سڑک کے کنارے گاڑیاں کھڑی تھیں ڈرائیور نے گاڑی روکی ۔ اُتر کر اِدھر اُدھر دیکھا تو دُور کچھ لوگ اپنی طرف آتے ہوئے نظر آئے ۔ قریب پہنچ کر قذافی نے مجھے آنے کی وجہ پوچھی ۔ اُسی وقت ایک افسر نے بتایا کہ قذافی کے سر میں درد ہے اسلئے میں نے ڈائیور کو بھیجا تھا ۔ میں نے بیگ میں سے دو اسپرین کی گولیاں نکالیں ۔ قذافی نے گولیاں لیں ۔ سڑک کے کنارے زمین پر بیٹھ کر بسم اللہ پڑھی اورھوالشّافی کہہ کر گولیاں نگل لیں ۔ پھر اُٹھ کھڑا ہوا“۔

ڈاکٹر صاحب نے مزید بتایا ” جب قذافی کسی کام سے صحرا میں گیا ہوتا ۔ وہاں کوئی عام آدمی کھانے کی چیز قذافی کو پیش کرتا تو قذافی زمین پر بیٹھ کر کھا لیتا اور چیز کی تعریف کے بعد دینے والے کا شکریہ بھی ادا کرتا ۔ ایک دن صحرا میں گھومتے بعد دوپر 3 بج گئے ۔ ایک چھوٹے سے مکان کے پاس پہنچے ۔ مکین نے کھانا پیش کیا ۔ بھوک لگی ہوئی تھی ۔ میں بھی کھانے لگا تو کھانے میں ریت کی وجہ سے مجھ سے کھایا نہ گیا مگر قذافی کھاتا رہا ۔ کھا چُکنے کے بعد حسبِ عادت کھانے کی تعریف کی اور کھلانے والے کا شکریہ ادا کیا“۔

کیا ایسے آدمی کو آمر کہنا چاہیئے ؟ ذرا موازنہ کیجئے اپنے ہموطن کسی معمولی افسر کے ساتھ ۔ کتنے ہیں جو ایسا کرتے ہیں ؟

ہمیں بچپن سے ہی بیٹھ کر کھانے پینے کی تربیت دی گئی تھی ۔ یہ واقعہ سُننے کے بعد اگر بیٹھنے کو کرسی یا سٹول نہ ملے میں کہیں بھی ہوں بغیر کچھ سوچے زمین پر بیٹھ کھاتا یا پانی پیتا ہوں

حاکم کا کردار

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غائب ہو جاتے ہیں
ایک روز عمر فاروق رضی اللہ عنہ چُپکے سے اُن کے پیچھے چل پڑے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے مدینہ سے باہر نکل گئے اور شہر سے باہر ایک خیمہ میں داخل ہو کر کچھ دیر اندر رہنے کے بعد واپس مدینہ کی طرف چل پڑے
بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ خیمے میں گئے تو وہاں ایک بُڑھیا کو پایا
پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا ”میں نابینا اور مُفلس عورت ہوں ۔ میرا اور میرے دو بچوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ آدمی روزانہ آ کر جھاڑو دیتا ہے اور کھانا بنا کر چلا جاتا ہے“۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ”اے ابو بکر ۔ تُو نے بعد والوں کو بہت مُشکل میں ڈال دیا“۔

یہ دُنیا یا زمانہ

یہاں قدر کیا دل کی ہو گی ۔ یہ دُنیا ہے شیشہ گروں کی
محبت کا دِل ٹھوکروں میں ۔ ہے قیمت یہاں پتھروں کی
بڑی سادگی سے زمانہ ۔ کہانی کا رُخ موڑتا ہے
نگاہوں کی بیگانگی سے ۔ محبت کا دِل توڑتا ہے
نظر کھیلتی ہے دِلوں سے ۔ یہ محفل ہے بازیگروں کی
جہاں پیار وقتی تقاضہ ۔ وہاں ذِکر کیا ہو وفا کا
دھوآں بن کے جذبات نکلیں ۔ خلوص ایک جھونکا وفا کا
کہاں جائیں ہم دِل کو لے کر ۔ یہ بستی ہے سوداگروں کی

اسلام آباد بارش کے بعد

اپریل 2017ء کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد میں بارشیں ہوئیں ۔ بارش کے دوران اور بارش کے بعد کے کچھ مناظر

گھٹائیں جب اُمڈ کے آئیں

اسلام آباد کی ایک چھوٹی سڑک

فاطمہ جناح پارک جو میرے گھر سے 310 میٹر کے فاصلہ پر ہے

سینٹورس شاپنگ مال (Centaurus Shopping Mall) جو میرے گھر سے 500 میٹر کے فاصلہ پر ہے

کوہسار روڈ

دامنِ کوہ جو میرے گھر سے 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے

دامنِ کوہ سے اسلام آباد کا منظر

دامنِ کوہ سے مونال ریستوراں جانے والی سڑک

رات کے وقت مونال سے اسلام آباد کا ایک منظر

جناح سپورٹس سٹیڈیم میرے گھر سے 4 کلو میٹر کے فاصلہ پر

میٹرو بس سٹیشن ہمارے گھر کے قریب