Monthly Archives: July 2016

ضمیر کی آواز

انعام رانا کا مضمون بعنوان ” جلیانوالہ باغ کی چیختی روحیں“ شائع ہوا تھا جس کی مندرجہ ذیل سطور بہت متاثر کُن تھیں

مری میں پیدا ہونے والا ڈائر بخوبی واقف تھا کہ بیساکھی کیا ہوتی ہے مگر وہ تو ہندوستان کو پیغام دینا چاہتا تھا کہ راج قائم رہنے کے لئے ہے ۔ اپنے 65 گورکھا اور 35 پٹھان اور بلوچی سپاہیوں کے ساتھ جب اس نے 10 منٹ تک اس اجتماع پر گولیاں برسائیں تو افسوس ایک ہاتھ بھی گولی چلاتے ہوۓ نہ کانپا ۔ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ماضی کا قصہ ہے جس نے اُس وقت کی سیاست ، ادب اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہوئے ہندوستانی عوام کی آزادی کی خواہش پر مہمیز کا کام کیا ۔ اس سانحے کا ذکر کرتے ہوئے یوں تو ہر حساس دل صدمے کی شدت سے بوجھل ہو جاتا ہے لیکن انعام کے متذکرہ مضمون کے چند آخری الفاظ کی حقیقت آج بھی اتنی ہی عیاں ہے جتنی اُس وقت تھی ۔ آج بھی اپنے لوگوں کی قِسمتوں کا فیصلہ کرتے ، قائد اعظم کی تصویر اور نبی اکرم صلعم کے خوبصورت فریم میں جڑے آخری خُطبہ کے سائے تلے چرمی کُرسیوں میں پشت دھنسائے اور گرمیوں کے موسم میں عوام کے پیسے سے یخ کمروں میں ان کے مفادات کا خون کرتے ہوئے ہاتھ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں کانپتے لیکن جلیانوالہ باغ کے وہ بے رحم ہاتھ جو آنے والے وقت میں شقاوت کا بے مثل استعارہ بنے ۔ ان میں ایک ہاتھ یقیناً ایسا بھی تھا جو کانپا تھا لیکن وہ ہاتھ ہندوستانی نہیں تھا

جنگ عظیم اوّل میں ہندوستانی عوام نے اس اُمید پر انگریز سرکار کا ساتھ دیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر وہ اپنے آقاوں سے کچھ رعائیتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن جنگ کے بعد سرکار نے 21 مارچ 1919ء کو رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ پاس کر دیا جس کے تحت کسی بھی ہندوستانی کو محض شک کی بنا پر حراست میں لے کر قید کیا جا سکتا تھا ۔ اس ایکٹ کے خلاف پورے ہندوستان میں احتجاج کی سی کیفیت تھی ۔ امرتسر اس وقت تقریبا ڈیڑھ لاکھ آبادی کا شہر تھا جو اقتصادی وجوہات ، گولڈن ٹمپل اور سیاسی شعور زیادہ بیدار ہونے کی وجہ سے اہمیت کا حامل تھا ۔ اس وقت 2 کانگرسی رہنما ڈاکٹر سیف الدین کِچلو اور ستیہ پال عوام میں مقبول تھے ۔ ہنگامے کے ڈر سے مقامی ڈپٹی کمشنر نے 10 اپریل کو انہیں حراست میں لے کپیٹن مَیسی کے دستے کی زیر نگرانی دھرم شالہ روانہ کر دیا ۔ کیپٹن مَیسی کا تعلق ایک گورا پلٹن سے تھا ۔ 1917ء میں انگلینڈ سے ہندوستان آیا تھا اور اس وقت امرتسر گیریزن کا آفیسر کمانڈنگ تھا

جب ڈاکٹر کِچلو اور ستیہ پال کی گرفتاری کی خبر عوام تک گاندھی کی گرفتاری کی خبر کے ساتھ پہنچی تو لوگ مشتعل ہو کر نعرے لگاتےسول لائنز کی طرف چل پڑے ۔ کیپٹن مَیسی کے پاس دستے محدود تعداد میں تھے ۔ ضروری جگہوں پر انہیں تعینات کرنے کے بعد اس نے لاہور کے لیفٹنٹ گورنر مائیکل او ڈائر کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا ۔ 11 اپریل کی صبح تک لاہور سے 600 مزید فوجی پہنچ گئے اور لاہور سے آنے والے ایک میجر نے کمان مَیسی سے اپنے ہاتھ میں لے لی ۔ 12 اپریل کو جالندھر بریگیڈ کمانڈر بریگیڈیر ڈائر نے وہاں پہنچ کر طاقت کے مظاہرے کے طور پر گھر گھر تلاشی اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اس کے ساتھ ہی شہر میں مارشل لاء لگا کر کسی بھی قسم کے اجتماع کو ممنوع قرار دے دیا

19 اپریل کو بیساکھی کا تہوار تھا جس میں شرکت کرنے قرب جوار کے تمام شہروں سے لوگ امرتسر پہنچے ہوئے تھے چونکہ یہ افراد شہر کے رہائشی نہیں تھے اسلئے انہیں مارشل لاء کے حُکم نامہ کا علم نہیں تھا ۔ جلیانوالہ باغ صرف نام کا ہی باغ تھا ۔ اصل میں یہ تقریبا 6 سے 7 ایکڑ پر مُشتمل چاروں طرف سے دیواروں میں محصور ایک قطعہ تھا جس میں 5 تنگ گلیوں سے ہی جایا جا سکتا تھا ۔ جلیانوالہ باغ میں بیساکھی کے تہوار کا انتظام تو تھا ہی لیکن اس کے ساتھ اس موقع پر سیاسی تقاریر کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ بریگیڈیر ڈائر نے اس مجمعے کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور ایک مسلّح دستے کو تیاری کے ساتھ باغ کی ایک گلی پر تعینات کرنے کا حکم دیا ۔ کیپٹن مَیسی بھی اس مشین گن دستے کا حصہ تھا ۔ بریگیڈئر ڈائر کے ارادے ۔ مسلّح دستے کی تیاری اور غیر مسلّح ہجوم دیکھ کر کیپٹن مَیسی نے فائر کرنے سے معذرت کا اظہار کیا اور درخواست کی کہ اس کی جگہ کسی اور کو تعینات کیا جائے ۔ مَیسی کو اسی وقت حراست میں لے لیا گیا اور بذریعہ کورٹ مارشل اس کی تنزلی کر کے لیفٹننٹ بنا کر انگلستان واپس بھیج دیا گیا ۔ بعد ازاں وہ سانحہ رُونما ہوا جس میں تقریبا 1000 افراد گولیوں کا نشانہ بنےMassey_Child
آٹھ نو سال کے بعد مَیسی میجر بنا تو اس کی یونٹ کو ہندوستان بھیجا گیا اور مَیسی بھی یونٹ کے ساتھ اٹک آ گیا ۔ جون کے مہینے میں اٹک کا درجہ حرارت پہاڑیوں میں گھرے ہونے کی بنا پر تقریباً 50 ڈگری کے آس پاس پہنچ جاتا تھا ۔ ایک دن وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کوئی سرکاری کام کر رہا تھا تو اس کی نظر پریڈ گراونڈ میں ایک دوسری یونٹ کے ہندوستانی سپاہی پر پڑی جسے اینٹوں سے بھرا پٹھو پہنا کر بطور سزا چِلچِلاتی دھوپ میں دوڑایا جا رہا تھا ۔ اگر اس کی رفتار تھوڑی کم ہو جاتی تو سکھ سنتری بطور سزا اس کی پشت پر ایک کوڑا مارتا ۔ جب سزا میں وقفہ ہوا تو وہ سپاہی پانی کے نل پر پہنچا ہاتھ دھوئے ۔ کلی کر کے پانی باہر پھینک دیا اور دونوں پاوں دھو کر اپنی عبادت کرنے لگا ۔ وقفہ ختم ہونے پر اسے پھردوڑایا جانے لگا ۔ میجر مَیسی نے دوسری یونٹ پیغام بھیج کر اس سپاہی کو اپنے پاس بلوایا اور اس سے دریافت کیا کہ اس گرمی کے موسم میں جبکہ وہ سزا پر بھی ہے اس نے پانی کیوں نہ پیا ۔ اس سپاہی نے کہا کہ رمضان کے مہینے میں اس کا روزہ تھا جو کہ فرض عبادت ہے اور اسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ میسی نے کہا کہ سزا کے وقفے میں اگر تم آرام کر لیتے تو ذرا تازہ دم ہوجاتے تو اس سپاہی نے کہا کہ نماز عین وقت پر ادا کرنا فرض ہے اور وہ اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کر سکتا کیونکہ نماز قضا کرنے سے اس کا رب ناراض ہو جاتا ۔ میجر میَسی اس کے عزم سے بہت متاثر ہوا اور اس پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی کہ اگر اسلام کے ایک ادنٰی پیروکار کا یہ عالم ہے تو مذہب اسلام کے فلسفہ کا کیا عالم ہو گا ۔ اب وہ زیادہ تر اپنے خیالات میں مستغرق رہتا اور ڈیوٹی سے اس کی دلچسپی کم ہو گئی ۔ اس نے راولپنڈی سے مذہب اسلام پر کتابیں
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – میَسی کا بچپن
منگوا کر پڑھیں اور کچھ عرصے میں مذہب اسلام نے اس کے دل میں گھر کر لیا ۔ وہیں یونٹ کی مسجد میں ایک دن جمعہ کی نماز سے پہلے میسی نے امام صاحب کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیا

اس کے قبول اسلام کی خبر ملتے ہی مَیسی اور اس کے حکام بالا کے درمیان حالات تلخ ہو گئے اور نتیجتا میسی کا کورٹ مارشل کر کے اسے فوج سے نکال دیا گیا اور اس کا بینک اکاونٹ منجمد کر کے سوائے جیب میں چند روپوں کے لاہور کا ٹکٹ دے کر اس علاقے سے نکال دیا گیا ۔ لاہور پہنچ کر وہ J.W.Massey_croppedاسٹیشن کے نزدیک برگنزا ہوٹل میں ٹھہرا ۔ قیام کے دوران اس نے اخبار میں علامہ عبداللہ یوسف علی کا ایک مضمون پڑھا جو لاہور کالج کے پرنسپل تھے ۔ مَیسی ان سے ملنے پہنچا اور اسلام سے متعلق چند امور کی وضاحت طلب کرنے ساتھ اپنی بپتا بھی بیان کی ۔ علامہ صاحب نے بتایا کہ اس ماہ کے آخر انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہونا متوقع ہے جس میں نواب آف بہاولپور بھی تشریف لائیں گے ۔ ان سے کہیں گے کہ مَیسی کے روزگار کے سلسلہ میں کوئی مدد فرمائیں ۔ انجمن کے جلسہ میں یہ روایت تھی کہ علماء کے خطاب کے ساتھ ہی کوئی ایک نو مسلم اپنے اسلام لانے کی کہانی بھی بیان کرتا تھا ۔ اس سال یہ اعزاز مَیسی کے حصے میں آیا

نواب صاحب نے تقریر سن کر مَیسی کو گلے لگایا ۔ اسی رات سر عبدالقادر کےگھر ایک ڈنر کا اہتمام تھا جہاں مَیسی کو بھی مدعو کیا گیا اور نواب صاحب سے تفصیلی ملاقات کے دوران سَر عبدالقادر نے نواب صاحب سے مَیسی کے روزگار کے سلسلہ میں مدد کی درخواست کی ۔ نواب صاحب نے مَیسی کو اسی وقت بہاولپور سٹیٹ فورسز کی فرسٹ بہاول پور اِنفنٹری میں کرنل کے عہدے پر ترقی دے کر تعینات کر دیا ۔ مَیسی نے دوسرے دن ہی روانہ ہو کر ڈیرہ نواب صاحب پہنچ کر چارج سنبھال لیا – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – کرنل میسی فرسٹ بہاول پور انفنٹری کی کمان کے دوران

ایک سال کے قلیل عرصے میں کرنل مَیسی نے بٹالین massey_Graveکو ٹریننگ کے اعلی معیار تک پہنچا دیا ۔ دوسرے سال جب دہلی سے انڈین سٹیٹ سروسز کا ایڈوائزر انچیف معائینہ کے لئے آیا تو معائینہ کے بعد اس نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ کی یونٹس کا معیار ہندوستان کی تمام ریاستوں کی افواج سے بہتر ہے اور انڈین آرمی کی ریگولر یونٹ سے کسی طرح کمتر نہیں ہے ۔ نواب صاحب نے مَیسی کی شادی کا اہتمام ایک معزز خاندان کی بیوہ سے کروا دیا تاکہ انہیں خانگی زندگی کا آرام میسر ہو ۔ جون 1934ء میں کرنل مَیسی چند دن بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئے ۔ انہیں پورے فوجی اعزاز اور اسلامی طریقہ کی رسوم کے مطابق دفنایا گیا
ان کی قبر احمد پور شرقیہ میں قینچی موڑ پر بہاول پور اور احمد پور شرقیہ جانے والی سڑک پر بنائی گئی ۔ جب تک نواب سَر صادق محمد خان زندہ رہے وہ یہاں سے گذرتے ہوئے ہمیشہ کار سے اتر فاتحہ پڑھ کر ریلوے اسٹیشن ڈیرہ نواب صاحب جاتے تھے اور ان کی زندگی میں
– – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – کرنل میسی صاحب کی قبر
بہاول پور کی فوج کے لیئے حکم تھا کہ یہاں سے گذرتے ہوئے سلامی دے کر گذرا کریں

سورۃ 89 الفجر آیات 27 تا 30 ۔ یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾ فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾ وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾

(اے اطمینان والی روح ۔ تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے خوش ۔ پس میرے خاص بندوں میں داخل ہوجا ۔ اور میری جنت میں چلی جا)۔‏)۔‏

حوالہ جات
نوائے وقت 17۔18 اپریل 1980ء میں ملک محمد خان اعوان کا مضمون ۔ مصنف بہاول پور سٹیٹ فورسز میں کرنل میسی کے ماتحت رہے
کتاب ”ہم کیوں مسلمان ہوئے“۔ مصنف ڈاکٹر عبدالغنی فاروق ۔ کتاب سرائے ۔ الحمد مارکیٹ ۔ اردو بازار ۔ لاہور
روٹس چیٹ نامی برطانوی ویب سائٹ پر کرنل مَیسی کی عزیزہ مارگریٹ کے سوالات کے متعدد لنکس
انگریزی روزنامہ ڈان میں چھپنے والا مجید گل کا مضمون

بشکریہ ریاض شاہد صاحب

سچ کو آنچ نہیں

شاید 2005ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک بین الجامعات (inter universities) تقریری مقابلہ منعقد ہوا تھا جس میں طالب علم عدنان خان جدون کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی
اس کے بعد مئی 2006ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہی سٹوڈنٹس کنونشن منعقد ہوا جس میں مُلک کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباء کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا ۔ اِس کنونشن کی صدارت اُس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے کی اور تمام اراکین قومی اسمبلی نے بھی اس کنونشن کو رونق بخشی تھی
اس کنونشن میں طالب علم سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی ۔ خیال رہے کہ سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا

یہ دونوں تقاریر کئی سال قبل میں علیحدہ علیحدہ شائع کر چکا ہوں ۔ کئی ماہ و سال گذر جانے کے بعد بہت سے بلاگرز اور قارئین بدل چکے ہیں ۔ اسلئے متذکرہ دونوں تقاریر پیشِ خدمت ہیں
پہلے عندنان خان جدون پھر سیّد عدنان کاکا خیل

ذرائع ابلاغ اور ہم

ذرائع ابلاغ کسی قوم کو کردار کی بلندی پر لے جا سکتے ہیں اور پَستی کی اتھاہ گہرایوں میں بھی

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے مسلمانانِ ہند کے ترجمان صرف دو اخبار تھے
1 ۔ زمیندار اخبار لاہور ۔ جس نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ عملے کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے
2 ۔ پیسہ اخبار دہلی ۔ یہ چھوٹے سائز کے کاغذ والا اخبار تھا جو ہفتہ وار تھا ۔ اس کی مالی حالت بھی زمیندار اخبار جیسی بلکہ اُس سے بھی ابتر تھی مگر اس نے بھی مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا
اِن کی بدولت مُسلمانانِ ہند جوک در جوک قائد اعظم محمد علی جناح کی سرپرستی میں ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوتے چلے گئےجن کی لگن اور یکسُوئی اور یقین کے نتیجہ میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں یہ مُلک پاکستان عنائت فرمایا ۔

عصرِ حاضر میں ہمارے نام نہاد قومی ذرائع ابلاغ جنہوں نے دولت کے انبار لگا لئے ہوئے ہیں کا کردار کچھ اس طرح ہے ۔ فیصلہ ہر شخص نے خود کرنا ہے کہ وہ کس طرف جانا چاہتا ہے
Media today

عِلم کی طلب ؟ ؟ ؟

ایک بزرگ عالم کسی بستی میں پہنچے جہاں انہوں نے 2دن قیام فرمایا ۔ تیسرے دن صبح سویرے انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا”اپنا سامان فوراً باندھ لو ، ہمیں یہاں سے جانا ہے ابھی”
شاگرد نے پوچھا “یہاں آنے کے لئے آپ نے طویل سفر کی مشقت اٹھائی، اب یہاں سے اتنی جلدی کیوں روانہ ہونا چاہتے ہیں؟”
عالم نے فرمایا “مجھے اس بستی میں آئے 2 دن ہو گئے ہیں ۔ سب کو میرے آنے کی اطلاع بھی ہے، پھر بھی کوئی علم کا طالب میرے پاس نہیں آیا ۔ جس بستی کے لوگوں کو علم کا شوق نہ ہو وہاں عذاب الہٰی نازل ہو کر رہتا ہے۔اس لئے جلدی سے اس زمین سے دور نکل چلو”

انسانیت کے علمبردار کہاں ہیں ؟

کسی مسلمان مُلک میں ایک غیر مُسلم مارا جائے تو طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے ۔کشمیر میں بھارتی فوج مُسلمانوں پر وحش13692625_1115952635118910_4282851104472786084_nانہ مظالم کر رہی ہے ۔ پچھلے چند دِنوں میں 37 مُسلمان شہید کر دیئے گئے ہیں لیکن انسانیت کے نام نہاد علمبردار امریکہ اور پورا یورپ خاموش ہے کیونکہ بھارت بھی اُن کی طرح مُسلمانوں کا دُشمن مُلک ہے ۔ ظُلم کی چند جھلکیاں
پہلے ایک وڈیو یہاں کلِک کر کے دیکھیئے
file-photo-1465566890-5868
5534b918c191b
crabbe20130721135952720
01-2002-03-dead-body-of-3-civilian-martyred-by-indian-occupa
kashmir.atrocities[230x142]
kashmir_terror
dead_body_of_adivasi_woman
IndiaKashmirProtest2jpg-3576481_p9
Kashmir_-_police_brutality
kashmir-day-3
13346722_248737205503589_1043982388617602970_n
13406755_248737118836931_4198498268863870230_n
13321777_248738038836839_7754039571814803954_n
13327464_248736402170336_3316844775837404763_n
13331075_248737972170179_5314402099076004237_n
13339569_248737915503518_4966998076437251411_n
13335683_248738445503465_437645232945320143_n
13342895_248737085503601_8382302692145492108_n
13346446_248737635503546_1763738145878925865_n
13346443_248737465503563_3131650111826832810_n
13346732_248738158836827_2472588980377007384_n
13331095_248738362170140_9190596046756916965_n
13346564_248738755503434_4185358453234561746_n

بات ایک گورنر کی

عصرِ حاضر میں گورنر تو کیا ایک سیاستدان یا افسر کے نخرے ہی نہیں سنبھالے جاتے
جن اسلاف کے پیروکار ہونے کا ہم دعوٰی کرتے ہیں ان میں سے ایک کی جھلک
امیر المؤمنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو دمشق (شام) کا گورنر مقرر کیا
کچھ عرصہ بعد عمر رضی اللہ عنہ نے حسبِ معمول دمشق کا دورہ کیا
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے سارے علاقے کا دورہ کرایا
آخر میں امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ” ابو عبیدہ مجھے اپنے گھر نہیں لے کر جاؤ گے“۔
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا ”وہاں آپ کے دیکھنے کی کوئی چیز نہیں“۔
امیر المؤمنین کے اصرار پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اُنہیں شہر سے باہر ایک خیمے میں لے گئے
وہاں ایک بوریا ۔ ایک مشکیزہ اور ایک پیالہ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا
عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ” بس ۔ یہی کچھ ؟“
ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” میں ہفتہ بھر کیلئے روٹیاں لے آتا ہوں ۔ جو کھانا ہوتی ہے ۔ اسے پیالے میں پانی ڈال کے بھگو دیتا ہوں اور کھا کر مشکیزے سے پانی پی لیتا ہوں ۔ بوریئے پر نماز پڑھتا ہوں اور اسی پر سو جاتا ہوں“۔