Monthly Archives: March 2016

یہ ترقی ہے یا جہالت

کمپیوٹر اور پھر سمارٹ موبائل فون عام ہونے کے بعد پڑھے لکھے لوگ فیس بُک پر جو دیکھتے ہیں شیئر کر دیتے ہیں ۔ کتنے لوگ ہیں جو تصدیق کرتے ہیں کہ جو وہ شیئر کرنے لگے ہیں وہ حقیقت ہے یا اختراع ؟
میرا خیال کہ اگر تصدیق کرنے لگیں تو شاید کوئی بھی شیئر نہ کرے ۔ جبکہ کہا گیا ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔

جھوٹ کی قسمیں جس کے مرتکب اکثر لوگ ہوتے ہیں
لوگوں کو ہنسانے کیلئے غلط بیانی کرنا
کھانا مزیدار نہ بھی ہو تو کسی کو خوش کرنے کیلئے کہنا ”بہت مزیدار ہے“۔
کسی کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے بیماری کا دورہ پڑنا یا بیہوش ہو جانا
کسی کو بیوقوف بنانے کیلئے یا شُغل کی خاطر غلط بیانی کرنا ۔ اپریل فُول بھی اِسی میں آتا ہے
اپنے آپ کو مُشکل سے نکالنے کیلئے غلط بیانی کرنا
دوسرے کے سامنے چھوٹا ہونے کے ڈر سے غلط بیانی کرنا
ذاتی نفع کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی چیز خریدتے ہوئے کہنا کہ ”فلاں تو اتنی قیمت پر دے رہا ہے“۔
دوسرے کو نقصان پہنچانے کی خاطر غلط بیانی کرنا جیسے کوئی راستی پوچھے تو راستہ نہ معلوم ہوتے ہوئے یا جان بوجھ کر اُسے غلط راستہ بتانا
جس خبر کی سچائی کی تصدیق نہ کی ہو اُسے بیان کرنا (ابتداء میں اس کی مچال دی جا چکی ہے)۔
ذاتی مفاد کے تحت سچ بولنے کی بجائے چُپ رہنا
کسی کی توجہ یا محبت حاصل کرنے کیلئے غلط دعوٰی یا غلط بیانی کرنا
حقیقت معلوم نہ ہوتے ہوئے کسی کے حق میں گواہی دینا
اپنے آپ کو جھوٹی تسلی دینا

مُسلم خواتین کچھ کم نہیں

یو کے کی وارکی فاؤنڈیشن (VArkey Foundation) نے غیرمعمولی اساتذہ کیلئے ایک سالانہ انعام کا بندوبست کیا جو ایسے اُستاد کو دیا جائے گا جس نے اپنے پیشے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو ۔ اس میں جتنے والے استاذ کو مارچ میں منعقد ہونے والی رسم میں ایک ملین امریکی ڈالر انعام دیا جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں چوٹی کے 10 اساتذہ کا انتخاب ہوا ہے جن میں 4 خواتین ہیں اور اِن 4 میں مندرجہ ذیل 2 خواتین مسلمان ہیں ۔ ( یہاں کلک کر کے یہ 10 اساتذہ دیکھے جا سکتے ہیں) Pakistani

عقیلہ آصفی ایک پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے افغانستان میں تعلیم و تربیت پائی تھی ۔ وہ 1992ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آ کر پنجاب میں کوٹ چاندانا کے افغان مہاجرین کیمپ میں رہیں ۔ اس علاقے میں کوئی سکول کام نہیں کر رہا تھا ۔ انتہائی قدامت پسند ہونے کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور خاتون استاذ کا کوئی تصوّر نہ تھا ۔ عقیلہ آصفی مستعار لئے ہوئے خیمے میں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ۔ اُس نے منفی رویّہ اور مزاہمت کا بڑی محنت سے مقابلہ کرتے ہوئے 20 خاندانوں کو اپنی بچیوں کو پڑھانے پر راضی کر لیا ۔ شروع مین غیر متنازعہ مضامین پڑھانے شروع کئے جیسے ذاتی اصولِ صحت (personal hygiene) ۔ گھریلو انتظامی صلاحیت (home management skills) اور دینی تعلیم ۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کر لینے کے بعد دری زبان ۔ ریاضی ۔ جغرافیہ اور تاریخ بھی پڑھانا شروع کئے

بلیک بورڈ چاک وغیرہ کیلئے کوئی سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے عقیلہ آصفی کڑے کے ٹکڑوں پر ہاتھ سے لکھ کر خیمے کی دیواروں سے چپکاتی تھیں اور رات کو بیٹھ کر طالبات کیلئے کتابیں لکھتی تھیں اور شروع میں بچے زمین پر لکھتے تھے ۔ اب اس کیمپ میں 9 سکول کام کر رہے ہیں اور بہت سی خواتین پڑھاتی ہیں ۔ طالب علموں کی تعداد 1500 سے زائد ہے جن میں 900 لڑکیاں ہیں ۔ تعلیم کا مثبت نتجہ یہ سامنے آیا ہے کہ کم عمری اور زبردستی کی شادیوں میں کمی آ گئی ہے ۔ عقیلہ آصفی کے سکول سےے فارغ التحصیل زیادہ تر افغان مہاجر لڑکیاں اور کچھ پاکستانی بچوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے ۔ ان میں سے کچھ افغانستان میں انجنیئر ۔ ڈاکٹر ۔ استاذ اور سرکاری ملازم بن چکے ہیں ۔ اب عقلیلہ آصفی اسلام آباد میں 1800 مہاجر بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں
عقلیلہ آصفی کو 2015ء میں یو این ایچ سی آر کا نانسن انعام بھی مل چکا ہے

ایک 43 سالہ فلسطینی خاتون حنّان الحروب ہیں جنہوں نے بتایا ” اسرائیلی قابض Palestinian فوجیوں کی کاروائیوں نے ہمارے بچوں کے کردار کو بُری طرح متاءثر کیا ہے ۔ اس بگاڑ پر قابو پانے کیلئے میں کھیل کھیل میں پڑھاتی ہوں تاکہ بچون میں غیر متشدد رجحان ترقی پا سکے اور وہ امن پسند شہری بنیں“۔حنّان الحروب نے مزید بتایا ”اسرائیلی فوجیوں نے میرے خاوند کو زخمی کر دیا ۔ اُس کا خون بہہ رہا تھا اسرائیلی فوجی اُس پر قہقہے لگاتے رہے ۔ اس واقعہ سے میرے بچوں کے ذہنوں پر بہت بُرا اثر چھوڑا ۔ میرا طرزِ تعلیم نے ایسے بچوں اُس سکتے کی حالت سے باہر نکلنے اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے مین مدد دی ہے“۔

حنّان الحروب کہتی ہیں کہ یہ انعام جیت کر اسے اپنے ملک (فلسطین) کو دنیا کے نقشے پر قائم کرنے کیلئے استعمال کریں گی ۔ حنّان الحروب نے کہا ”میری جیت ثابت کر دے گی کہ فلسطینی استاذ تمام مُشکلات پر قابو با سکتا ہے ۔ میرا یہ انعام جیتنا میرے مُلک فلسطیں کی جیت ہو گی“۔

یومِ پاکستان

flag-1بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 60 سال سے زائد عرصہ سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ ان میں ملی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف
ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے شدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے
مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین
سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

”کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں

seconding-reson-march-1940

۔

۔

quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ

خدمت ؟ ؟ ؟

کِیتی جِیُوندیاں نہ خدمت ماپیاں دی ۔ ۔ (کی جیتے جی نہ خدمت والدین کی)
مَویاں ڈھونگ رچاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ (مرنے پر ڈھونگ رچانے کا کیا فائدہ)
پہلے کول بہہ کے دُکھڑا پھَولیا نئیں ۔ ۔ ۔ (پہلے پاس بیٹھ کے دُکھ سُکھ کھولا نہیں)
پِچھوں رَون کُرلاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ ۔ (بعد میں رونے اور بین کرنے کا کیا فائدہ)
ساہ ہُندیا بُھکھ نہ پیاس پُوچھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سانس تھی تو کبھی بھوک نہ پیاس کا پوچھا)
پِچھوں دیگاں چڑھاون دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ (بعد میں دیگیں چڑھانے کا کیا فائدہ)
جِیدے تے ماپے نہ گئے راضی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جس سے اُس کے والدین خوش نہ گئے)
اوہنوں مکے وَل جاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ ۔ (اُسے مکہ کی طرف جانے کا کیا فائدہ)

ترقی یافتہ آزاد دنیا کی حالت

دی ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں اپنی ایک سروے رپورٹ کا خلاصہ شائع کیا ہے جس کے مطابق امریکہ کی 27 یونیورسٹیوں کی 150000 طالبات سے اُن پر جبری جنسی زیادتی (Forced Sexual Attacks) کے بارے میں پوچھا گیا تھا ۔ ان لڑکیوں کے جوابات پر مبنی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں اوسط 23 فیصد طالبات جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں ۔ ان میں خاصی تعداد زنا بالجبر کا نشانہ بنیں ۔ طالبات کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں جنسی زیادتی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں
نیچے آخر میں متذکرہ سروے کا خلاصہ دیکھیئے

متذکرہ سروے میں اپنی مرضی سے جنسی تعلق یا زنا شامل نہیں ہے ۔ صرف مرضی کے خلاف زبردستی کی گئی جنسی زیادتیوں کے اعداد و شمار ہیں ۔ یہ حالت اُس معاشرے کی ہے جہاں بغیر شادی جنسی تعلقات رکھنا رواج بن چکا ہے اور اسے قانونی ۔ معاشرتی اور اخلاقی طور پر بُرا نہیں جانا جاتا ۔ اس بالرضا فعلِ بد سے شاید ہی کوئی فرد بچا ہو ۔ یہی نہیں بلکہ اُس معاشرے میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم جنس پرستی کو بھی بُرا نہیں جانا جاتا ۔ وہاں شراب پینے کی بھی اجازت ہے اور نائٹ کلب بھی عام ہیں جہاں جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہے

کمال یہ ہے کہ ان قباحتوں سے بچنے کیلئے اُن مُلکوں میں ہر قسم کی اَینٹرٹینمنٹ ۔ کھیلیں ۔ تھِئیٹر اور دوسری سہولتوں کی بھی کوئی کمی نہیں کہ کہا جائے کہ ایسی سہولتوں کا نہ ہونا ہے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانا ہے

یہ اُن لوگوں کا معاشرہ ہے جو لبرلزم اور روشن خیالی کے نام پر مغربی تہذیب کو پاکستان میں پھیلا کر ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار بالخصوص شرم و حیا کے خاتمہ کے خواہاں ہیں ۔ اللہ ہمیں اس شیطانیت سے بچائے اور سیدھی راہ پر قائم کرے

Percentage prevalence of sexual assault for UNDERGRADUATE women
Cal. Tech = 13 . . . . . . . . . . . . . . . Texas A&M University = 15
Iowa State University = 19 . . . . . . . . University of Texas = 19
Case Western Reserve U. = 20 . . . . University of Florida = 20
University of Pittsburgh = 21 . . . . . . . . Purdue University = 22
University of Arizona = 22 . . . . . . . . Columbia University = 23
Cornell University = 23 . . . . . Washington U. in St. Louis = 23
Ohio State University = 24 . . . . . . . . . Univ. of Minnesota = 24
Univ. of N.C. = 24 . . . . . . . . . . . . . . University of Oregon = 24
University of Virginia = 24 . . . . . . . . . . . Brown University = 25
Michigan State University = 25 . . . . . . Harvard University = 26
Univ. of Missouri = 27 . . . . . . . University of Pennsylvania = 27
Dartmouth College = 28 . . . . . . . . . . . Univ. of Wisconsin = 28
Yale University = 28 . . . . . . . . . U. of Southern California = 30
University of Michigan = 30
Average of 27 universities = 23

w2-sexassault0922clra
w2-sexassault0922clrb
w2-sexassault0922clrc

قارئین کی فرمائش پر

امریتا پرتم 31 اگست 1919ء کو گوجرانوالہ (پاکستان) میں پیدا ہوئی تھی ۔ وہ 1947ء میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔31 اکتوبر 2005ء کو بھارت میں فوت ہو ئی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی 100 کے لگ بھگ کُتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ پنجابی میں مندرجہ ذیل نظم امریتا پریتم نے 1947ء کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس کے نتیجہ میں بھارت میں اُسے زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ ہندوستان کے باقی علاقوں کی نسبت پنجاب اور جموں (ریاست جموں کشمیر) میں بہت زیادہ قتلِ عام ہوا تھا ۔ مسلمانوں کے کھیتوں میں کھڑی فصلیں اور محلوں کے محلے جلا دیئے گئے تھے
مجھے یاد نہیں کہ میں نے یہ نظم کب پڑھی تھی مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ قارئین کی فرمائش پر ہر شعر کے متصل اُردو ترجمہ لکھا ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی
اَج آکھاں وارث شاہ نُوں کِتَھوں قَبراں وِچَون بَول ۔ ۔ ۔ آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول
تے اَج کتابِ عشق دا ۔ کوئی اگلا ورقہ پھَول ۔ ۔ ۔ اور آج کتابِ عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول
اِک روئی سی دھی پنجاب دی تُوں لِکھ لِکھ مارے وَین ۔ ۔ ۔ ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین
اج لَکھاں دِھیآں رَودیاں ۔ تَینُوں وارث شاہ نُوں کَیہن ۔ ۔ ۔ آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں
اُٹھ دردمَنداں دیا دردِیا ۔ اُٹھ تک اپنا پنجاب ۔ ۔ ۔ اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وِچھیاں تے لہُو دی بھری چناب ۔ ۔ ۔ آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وِچ دِتی زہر رَلا ۔ ۔ ۔ کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا
تے اَوہناں پانَیاں نے دَھرت نُوں دِتا پانی لا ۔ ۔ ۔ اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب
ایس زرخیز زمین تے لوُں لوُں پھُٹیا زہر ۔ ۔ ۔ اِس زرخیز پر جا بجا کونپلیں پھُوٹی زہر کی
گِٹھ گِٹھ چڑھیاں لالیاں فُٹ فُٹ چڑھیا قہر ۔ ۔ ۔ بالِشت بالِشت چھڑھی سُرخی اور فُٹ فُٹ چڑھا قہر
ایہو ولی سی واء فیر وَن وَن وَگی جھَگ ۔ ۔ ۔ ایسی چلی تھی ہوا پھر طرح طرح کی نکلی جھاگ
اوہنے ہر اِک بانس دی ونجھلی دِتی ناگ بنا ۔ ۔ ۔ اُس نے ہر ایک بانس کی بانسری دی سانپ بنا
پہلا ڈنگ ماردیاں ۔ منتر گئے گواچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پہلی بار ہی ڈَسنے سے ۔ جوگی مَنتر بھول گئے
دوجے ڈنگ دی لگ گئی جانے خانے نُوں لاگ ۔ ۔ ۔ دوسری بار ڈسنے سے جیسے گھروں کو جاگ لگ گئی
ناگاں کِلے لوک مُونہہ بَس فیر ڈنگ ہی ڈنگ ۔ ۔ ۔ سانپوں کے زہریلے دانت منہ میں اور بس ڈَسنا ہی ڈَسنا
پل او پل ای پنجاب دے نیلے پے گے انگ ۔ ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھے پنجاب کے سارے اعضاء نیلے پڑ گئے
وے گلے اوں ٹُٹے گیت فیر، ترکّلے اوں ٹُٹی تند ۔ ۔ ۔ حلق سے گیت نکنے بند ہوئے اور ترکّلے کی تانی بھی ٹوٹ گئی
ترنجنوں ٹُٹیاں سہیلیاں چرَکھّڑے کُوکر بند ۔ ۔ ۔ علاقے کی دوستاں ختم ہوئیں اور چرکھّڑی کی آواز بھی بند
سنے سیج دے بیڑیاں لُڈن دِتیاں روڑھ ۔ ۔ ۔ سیج سمیت کِشتیاں بہا دی گئیں
سنے ڈالیاں پینگ اج ۔ پِپلاں دِتی توڑ ۔ ۔ ۔ مع ٹہنیوں کے جھولے پیپل کے درختوں نے توڑ دیئے
جِتھے وَجدی پھُوک پیار دی اَو وَنجلی گئی گواچ ۔ ۔ ۔ جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم
رانجھے دے سب ویر ۔ اج بھُل گئے اَوس دی جاچ ۔ ۔ ۔ رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانا
دھرتی تے لہو وسیا ۔ تے قَبراں پَیّئاں چَون ۔ ۔ ۔ دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے
پرِیت دِیاں شہزادیاں ۔ اج وِچ مزاراں رَون ۔ ۔ ۔ پیار کی شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھی روئیں
اج تے سبے کیدو بن گئے حُسن عشق دے چور ۔ ۔ ۔ آج تو سب ہی کیدو بن گئے حسن و عشق کے چور
اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور ۔ ۔ ۔ آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور

میری ڈائری ۔ اَج آکھاں وارث شاہ نُوں

برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کی آزادی کا قانون 18 جولائی 1947ء کو منظور کیا لیکن جب وائسرائے ہِند لارڈ مؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو پاکستان بنانے کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے تقسیم کا فارمولا تیار کرنے کا حُکم دے دیا تو ہندو مہاسبھہ ( ہِندِتوا)۔ راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) اور اکالی دَل نے مسلمانوں کا کُشت خُون شروع کر دیا ۔ پنجاب میں اِن کی مار دھاڑ زوروں پر تھی ۔ امریتا پریتم نے اس حال پر ایک پُر درد نظم لکھی تھی جو میں نے شاید 1956ء میں پڑھی تھی ۔ جنوری 1965ء تک جتنی مجھے یاد رہی میں نے اپنی ڈائری میں لکھ لی تھی
1965, Amrita