Yearly Archives: 2015

شعیب سعید شوبی صاحب کی فرمائش

میری تحریر ” میری زندگی کا نچوڑ “ پر تبصرہ کرتے ہوئے شعیب سعید شوبی صاحب نے فرمائش کی
کسی دن اس پر بھی اپنے تجربات کی روشنی میں ضرور لکھیئے کہ کیریئر کے دوران اچانک آنے والے دھچکے یا set back سے کس طرح نکلا جائے؟ مایوسی کو خود پر حاوی ہونے سے کس طرح بچا جائے؟ بعض اوقات کسی مصلحت کی وجہ سے شاید اللہ تعالٰی کے یہاں بھی فوری شنوائی نہیں ہوتی ۔ عبادت میں بھی دل نہیں لگتا ۔ اس کا کیا حل ہے؟

کار و بار ہو یا ملازمت ۔ چلتے چلتے اگر کوئی رکاوٹ آ جائے تو دھچکا لگتا ہے ۔ اگر سکون سے کام چل رہا تھا تو دھچکا زیادہ محسوس ہو گا ۔ اگر پہلے دھچکے کا تجربہ نہ ہو تو دھچکے کا دورانیہ بہت طویل محسوس ہو گا ۔ دھچکا لگنا کوئی بڑی بات نہیں ۔ زیادہ تر لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں البتہ کچھ کو کبھی کبھار لگتا ہے اور کچھ کو بار بار ۔ بار بار دھچکا لگنے سے انسان پُختہ یا عادی یا تجربہ کار ہو جاتا ہے اور پھر دھچکے اس پر بُرا اثر نہیں ڈالتے ۔ اصل مُشکل یا مُصیبت دھچکا نہیں بلکہ دھچکے کا اثر محسوس کرنا ہے جو ہر آدمی اپنی اپنی سوچ کے مطابق کرتا ہے ۔ جھٹکے مالی ہو سکتے ہیں اور نفسیاتی بھی

چلتی گاڑی میں سفر کرنے والا یا چلتے کارخانے میں کام کرنے والا یا چلتے کار و بار کو چلانے والا عام طور پر جھٹکوں سے بچا رہتا ہے لیکن وہ کچھ سیکھ نہیں پاتا ۔ ماہر وہی بنتا ہے جس نےکارخانہ بنایا ہو یا کوئی نئی مصنوعات بنا ئی ہوں یا نیا دفتر قائم کر کے چلایا ہو یا نیا کار و بار شروع کیا ہو اور پیش آنے والی مُشکلات کا دلیرانہ مقابلہ کیا ہو ۔ دوسرے معنی میں زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہوں یعنی دھچکے کھائے ہوں

پہلی جماعت سے لے کر کالج اور یونیورسٹی تک بہت سے امتحانات دیئے جاتے ہیں ۔ کسی امتحان کا نتیجہ توقع سے بہتر آتا ہے ۔ کسی کا توقع کے مطابق اور کسی کا توقع سے خراب ۔ وہاں ممتحن انسان ہوتے ہیں تو توقع سے خراب نتیجہ آنے پر ہم اپنی خامیاں تلاش کرتے اور مزید محنت کرتے ہیں ۔ لیکن معاملہ اللہ کا ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں ”اللہ بھی بے کسوں کی نہیں سُنتا“۔
کیا یہ ہمارا انصاف ہے ؟

آجکل جھٹکوں کا سبب زیادہ تر انسان کی تبدیل شدہ اس عادت کا شاخسانہ ہوتا ہے کہ وہ مُستقبل کی مناسب منصوبہ بندی نہیں کرتا ۔
محاورے اور ضرب المثل کسی زمانہ میں تاکید کے ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔ یہ انسان کیلئے مشعلِ راہ بھی ہوتے تھے ۔ جب سے جدیدیت نے ہمں گھیرا ہے ہمارا طریقہءِ تعلیم ہی بدل گیا ہے اور محاوروں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے ۔ ایک ضرب المثل تھی ”اتنے پاؤں پھیلاؤ جتنی چادر ہو اور بُرے وقت کیلئے پس انداز کرو“۔ چیونٹیوں کو کس نے نہیں دیکھا کہ سردیوں اور بارشوں کے موسم سے قبل اپنے بِلوں میں اناج اکٹھا کرتی ہیں ۔ ہم انسان ہوتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اخراجات بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور بُرے وقت کیلئے پس انداز نہیں کرتے ۔ پھر جب تنگی یا کوئی رکاوٹ آئے تو ہمارے ہاتھ پاؤں پھُول جاتے ہیں

اللہ پر یقین کا دَم تو سب ہی بھرتے ہیں لیکن دھچکا لگنے پر اصلیت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ پر کتنا یقین ہے ۔ دھچکے کی شدت کا تناسب اللہ پر یقین سے مُنسلک ہے ۔ اگر اللہ پر یقین کامل ہے تو دھچکا لگنے کے بعد احساس یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے شاید اس میں میرے لئے کوئی بہتری رکھی ہے ۔ اور آدمی اپنی خامیاں تلاش کرتا اور انہیں دُور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ساتھ ہی محنت جاری رکھتا ہے ۔ ایسا کرنے والا سکون میں رہتا ہے

صرف اس دنیا کا ہی نہیں کُل کائنات کا نظام چلانے والا صرف اللہ ہے ۔ کون ایسا مُسلمان ہے جو سورت اخلاص نہ جانتا ہو ؟ اس کے ترجمہ پر غور کیجئے ” کہو کہ وہ اللہ ایک ہے ‏۔ معبود برحق جو بےنیاز ہے ۔ نہ کسی کا باپ ہے۔ اور نہ کسی کا بیٹا اور کوئی اس کا ہمسر نہیں“۔

‏اللہ نے انسان کیلئے چند اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

اللہ اپنے بندوں کو آزماتا بھی ہے ۔ سورت 29 العنکبوت آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور انکی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟

جب آدمی کسی مُشکل میں گرفتار ہوتا یا اسے جھٹکا لگتا ہے تو یہی وقت ہوتا ہے انسان کے بِدک جانے کا یا درُست راہ کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا
ہر پریشانی کا سبب ایک طرف مستقبل کیلئے منصوبہ بندی کا فُقدان یا غلط منصوبہ بندی اور دوسری طرف اللہ پر بھروسے میں فقدان یا نامکمل بھروسہ ہوتا ہے

سِولائیزیشن (Civilization)

آجکل بلکہ چند دہائیوں سے اُردو بولتے ہوئے انگریزی کے کئی لفظ استعمال کرنا رواج پا گیا ہے یا اِسے بڑھائی سمجھا جانے لگا ہے ۔ اس پر اعتراض نہ بھی کیا جائے تو بھی ایک پہلو پریشان کُن ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ بولے جاتے ہیں بولنے والا اُن کے اصل معانی سے واقف نہیں ہوتا ۔ ایسے زیادہ بولے جانے والے الفاظ میں سے ایک سِولائیزیشن (Civilization) ہے جسے اُردو میں ” تمدُّن“ کہتے ہیں جسے عام طور پر اکائی کی بجائے جوڑا ” تہذِیب و تمدُّن“ بولا جاتا ہے

ثقافت ۔ تہذیب اور تمدُّن“ ایک ہی ماں باپ کے بچے ہیں ۔ میں ” ثقافت “ اور ” تہذیب “ کے بارے میں سوا تین سال قبل لکھ چکا ہوں ۔ آج بات ” تمدُّن (Civilization)“ کی

عصرِ جدید کے پڑھے لکھے لوگوں کا خیال ہے کہ اُردو والے ” تمدُّن“ کا تعلق مذہب سے ہو سکتا ہے لیکن انگریزی والی سِولائیزیشن کا نہیں ۔ ہر چند کہ میرے لئے دین اوّل ہے لیکن دین کو وقتی طور پر ایک طرف رکھ کر زبانِ فرنگی (انگریزی) میں سے ہی حقیقت تلاش کرتے ہیں
دیکھتے ہیں کہ انگریزی کی معروف ڈکشنریاں سِولائیزیشن (Civilization) کے کیا معنی لکھتی ہیں

سب سے بڑی انگریزی سے اُردو آن لائین ڈِکشنری

تمدن ۔ تہذیب ۔ شائستگی

انگریزی اُردو لغت آن لائین

تہذیب ۔ تمدن ۔ تربیت ۔ انسانیت

ایک اور انگریزی اُردو لغت آن لائین

تہذیب و تمدن

مریم ویبسٹر ڈکشنری

مقابلتاً اعلٰی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریر اور تقاریر کو محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو ۔ خیالات عادات اور ذائقہ کی شُستگی یا آراستگی

کیمبرج ڈکشنری

اچھی طرح ترقی یافتہ ادارے رکھنے والا انسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا طریقہ

رھائیمیزون

اعلٰی سماجی ترقی کا حامل گروہ [مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی اور سیاسی اور مذہبی تنظیم

اینکارٹا آن لائین انسائیکلوپیڈیا

تاریخی اور ثقافتی یگانگی رکھنے والا ترقی یافتہ گروہ ۔ قرونِ وسطہ سے اُنیسویں صدی تک اکثر یورپی مؤرخین نے مذہبی پسِ منظر لیا ہے

الٹرا لِنگوا

ایک گروہ مخصوص ترقی کی حالت میں ۔ کوئی گروہ جو قانون کا پابند ہو اور وحشت کا مخالف ۔ ثقافت کا اعلٰی درجہ

اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ڈکشنریوں میں مذہب کا لفظ غائب کر دیا گیا ہے لیکن اشارہ مذہب ہی کی طرف ہے ۔ پانج سات دہائیاں پرانی ڈکشنریوں میں سِولائیزیشن (Civilization) کو مذہب کے زیرِ اثر ہی لکھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق بھی ہر بھلائی کا سرچشمہ زبور ۔ تورات اور انجیل تھیں گو کہ ان کُتب میں بہت تحریف کی جا چکی تھی

میری زندگی کا نچوڑ ؟

میں نے زندگی میں بڑے نچوڑ دیکھے ۔ لیموں کا نچوڑ ۔ مالٹے کا نچوڑ ۔ سیب کا نچوڑ ۔ یہ مجھے مرغوب تھے اور ہیں
اس کے علاوہ ایک اور نچوڑ بھی دیکھا جس کا نام سُنتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ گلاب کا نچوڑ جسے لوگ قبر پر چھڑکتے ہیں
کچھ لوگ دوسروں کا مال نچوڑتے ہیں ۔ ڈاکٹر مریض کا خون نچوڑتے ہیں ۔ کیا معلوم تھا کہ اس بڑھاپے میں مجھے اپنی ہی زندگی کا نچوڑ نکالنا ہو گا ۔ میں ڈرتا تو نہیں ہوں
چھٹی سے آٹھویں جماعت تک روزانہ صبح سویرے اپنی پوری طاقت سے کہتا رہا ہوں
”باطل سے دبنے والے ۔ اے آسماں نہیں ہم ۔ سو بار کر چکا ہے تُو امتحاں ہمارا“

لیکن بات یہ ہے کہ وہ حاجن بی بی ہیں نا ۔ اُن سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ عمر میں 77 برس کی لگتی ہیں ۔ کیا پتا 107 برس کی ہوں ۔ خالص دودھ پیتی اور دیسی گھی کھاتی رہی ہوں ۔ اسی لئے کم عمر کی لگتی ہیں ۔ مُشکل یہ ہے کہ حاجن بی بی کے میاں بھی حاجی ہیں ۔ ”میں جاؤں تو جاؤں کہاں ۔ سمجھے گا کون یہاں ۔ مجھ جیسے بیوقوف کی زباں“۔

خیر کیا پوچھتے ہیں صاحب ۔ حاجن بی بی لَٹھ لے کے پیچھے پڑ گئیں کہ ”نکالو اپنی زندگی کا نچوڑ“۔
تب سمجھ آئی صاحب کہ وہ لیموں وہ مالٹے اور سیب کیا کہتے ہوں گے جب ہم اُن کو نچوڑتے تھے ۔ ہائے بیچارے لیموں مالٹے سیب
دیکھیں نا ۔ ایک میں بوڑھا ۔ اُوپر سے بیماری نے گھیرا ۔ کہاں رہ گئی ہے طاقت مجھ میں نچوڑنے کی
لیکن جناب مرتا کیا نہ کرتا ۔ بیٹھ گیا نچوڑنے ۔ اور بڑی مُشکل سے بس اتنا سا نچوڑ نکلا

1 ۔ نماز کسی حال میں مت چھوڑو
2 ۔ اللہ پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھو کیونکہ سب کچھ اُسی کے ہاتھ میں ہے
3 ۔ گناہ سے بچنے کی پوری کوشش کرو خواہ کچھ بھی ہو جائے
4 ۔ جھوٹ کبھی مت بولو خواہ کتنا ہی دُنیاوی نقصان ہو
5 ۔کسی کو تکلیف مت دوچاہے وہ کتنی ہی تکلیف دے
6 ۔ اس کے نتیجہ میں بہت تکالیف اُٹھائیں مگر اللہ نے مجھے ٹوٹنے نہیں دیا ۔ میں نے مجبور ہو کر 53 سال کی عمر میں ملازمت چھوڑ دی ۔ دورانِ ملازمت تنگدست رہا اور آ ج خوشحال ہوں ۔
سُبحان اللہ و بحمدہ

ارے غضب ہو گیا ۔ حاجن بی بی دیکھ تو نہیں رہیں کہیں ؟ میں بھاگ لوں ۔ اللہ حافظ

میری تحریر کی وضاحت

میری تحریر ”خود غرضی یا نِکو کاری“ پر ایک تبصرہ ہوا جس سے کچھ تفصیل بیان کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے

خود اعتمادی بُری چیز نہیں بلکہ اس کا نہ ہونا اچھا نہیں ۔ لیکن خود اعتمادی اور خود پسندی میں بہت فرق ہے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضِد ہیں ۔ کہا جاتا ہے شاخ پر جتنا زیادہ پھل ہو گا ۔ شاخ اتنی زیادہ جھُکی ہو گی ۔ انگریزی کا مقولہ ہے ” Deeds speak louder than words “۔
مندرجہ ذیل شعر میں پنہاں رمز پر بھی غور کییجئے
سچائی چھُپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
خُوشبُو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے

میں نےبڑے بڑے عِلم والے ۔ سائنسدان او ر مُوجد دیکھے ہیں ۔ ان میں سے 2 میرے اُستاذ رہے ہیں ۔ ان سب میں انکساری اور سادگی ہی دیکھی ۔ اُنہوں نے کبھی اپنی اشتہار بازی نہ کی لیکن عِلم کی دنیا میں بسنے والے اُنہیں جانتے ہیں ۔ 1969ء یا 1970ء کا واقعہ ہے جب میں پروڈکشن منیجر تھا دوسرے محکمے کے ایک اسسٹنٹ منیجر جو عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑے تھے آئے اور بولے ” اجمل صاحب ۔ آجکل لوگ دونوں ہاتھوں سے ڈفلی بجاتے ہیں ۔ آپ دونوں ہاتھوں سے کام کرتے ہیں ۔ میں ایک ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور ایک سے ڈفلی بجاتا ہوں ۔ آپ بھی کچھ اس طرف سوچیں“۔ میرے پیارے اللہ نے میرے منہ سے کہلوایا ”حاجی صاحب ۔ اگر میرا کام میرے اللہ کو پسند آ گیا تو ڈفلی کیا ڈھول بجیں گے“۔

میں نے متذکرہ تحریر میں صرف دین کے حوالے سے بات کی تھی ۔ اب اسے دنیا کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ میں ہر عمل کو سائنس کے مسلّمہ اصولوں پر پرکھنے کا عادی ہوں ۔ سائنس دین سے باہر نہیں ہے اور میرا یقین ہے کہ ” اللہ ہر قسم کے عِلم سمیت ہر چیز میں ارفع اور یکتاء ہے“۔

عصرِ حاضر میں ہم سائنس کی ترقی پر بغلیں بجاتے ہیں لیکن باوجود سائنس کی بے تحاشہ ترقی کے انسان کا عِلم محدود ہے ۔ سائنس نے گھر بیٹھے ہزاروں انسانوں کی ہلاکت تو آسان بنا دی ہے لیکن انسان کی بہتری کیلئے سائنس نے آج تک کوئی منصوبہ متعارف نہیں کرایا اور نہ مُستقبل میں کوئی ایسی تجویز ہے ۔ سائنس ایک متحرک عِلم ہے ۔ اس کے کُلیئے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں ۔ لیکن دین میں اس کی گنجائش نہیں کیونکہ اس کا ترتیب دینے والا یکتا اور تمام خامیوں سے پاک ہے ۔ چنانچہ صرف اللہ کا بھیجا ہوا عِلم ہی مُستنَد ہے

آجکل اشتہار بازی یعنی میڈیا کا دور دورا ہے ۔ میڈیا سرمایہ دار کا خادم ہے کیونکہ میڈیا کو چلانے کیلئے دولت کی ضرورت ہوتی ہے جو سرمایہ دار مہیاء کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کیلئے سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ میڈیا نے انسانی دماغوں کو اتنا محسور کر لیا ہے کہ وہ اپنی ذات کی نسبت میڈیا پر زیادہ یقین رکھتے ہیں ۔ اپنی حقیقت (جو اللہ نے بنائی ہے) کا سوچنے کیلئے کسی کے پاس وقت نہٰیں ۔ دیکھا دیکھی افراد نے بھی اپنی اشتیار بازی شروع کر دی ہے اور ہمہ وقت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہیں

ڈاکٹر ہو ۔ استاذ (ٹیچر) ہو یا مُفتی ۔ کم ہی کوئی اس یلغار سے محفوظ رہا ہے ۔ تبصرے میں زیادہ زور ڈاکٹر (میڈیکل پریکٹیشنر) کے کام اور رویّے پر دیا گیا ہے ۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ یہ خام خیالی ہے ۔ میں اور میری بیگم عمر کے جس حصے میں ہیں ہمیں ان معالجوں کی آئے دن ضرورت رہتی ہے ۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اشتہاری بڑے نام والے ہسپتال اور ڈاکٹر کی توجہ مریض کی نسبت اُس کی جیب پر زیادہ ہوتی ہے جبکہ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں کہ وہ مریض پر اپنی فیس سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اللہ کے فضل سے اشتہاریوں کی نسبت زیادہ خوشحال ہیں

مکمل مطالعے کے بغیر سُنی سُنائی یا رسالوں کی باتوں پر یقین کیا جائے تو ابو بکر صدیق اور عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہم میں بہت فرق نظر آتا ہے ۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اگر ان دونوں کا مزاج اتنا مُختلف تھا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو خلافت کیلئے کیوں موزوں ترین سمجھا ؟ کیا وہ مؤمنین کو (نعوذ باللہ من ذالک) سیدھا کرنا چاہتے تھے ؟ جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین تھے گشت کے دوران بچوں کے رونے کی آواز سُن کر پہنچے اور وجہ پوچھی ۔ جواب ملا ”عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔ بیت المال پہنچے اناج کا تھیلا کندھے پر اُٹھایا اور چل پڑے ۔ بیت المال کے خادم نے اُٹھانے کی درخواست کی تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ”کیا قیامت کے روز تو میرا بوجھ اُٹھائے گا“۔ اگر یہ سخت مزاجی ہے تو سُبحان اللہ

انسان کو چاہیئے کہ دین یا اسلاف کے بارے میں زبان کھولنے سے قبل مُستند کُتب کا مطالعہ کر کے ذہن صاف کر لے
لبادہ اوڑھنے کا مطلب بھی شاید آجکل کے جوانوں کے عِلم سے دُور ہے

میں نے صرف اپنے لکھے کی وضاحت کی کوشش کی ہے ۔ جس دن اپنے آپ کو مکمل درست کرلوں گا پھر دوسروں کی سوچ درست کرنے کے متعلق سوچوں گا ۔ فی حال تو میں 7 دہائیوں سے خود ہی سیکھ رہا ہوں اور سامنے عِلم کے پہاڑ نظر آ رہے ہیں میں جن کے قریب بھی نہیں پہنچ پایا ۔ اللہ کریم میری مدد فرمائے

خود غرضی یا نیکو کاری

بعض اوقات انسان جتنا مذہب میں آگے بڑھتا جاتا ہے اپنے تئیں اتنا ہی صحیح اور مُنصف سمجھنے لگتا ہے
ایسا انسان کے اندرونی مسئلے کے سبب ہوتا ہے
مذہبی پیش قدمی رحم و دردمندی پیدا کرتی ہے ۔ عدالت نہیں
اللہ کی یاد میں دل نرم ہوتے ہیں ۔ سخت نہیں
اگر دل سخت ہو رہا ہو تو اس کا مطلب ہے دل میں اللہ نہیں بلکہ خود نمائی گھر کر رہی ہے
البتہ لبادہ مذہب کا اوڑھ رکھا ہے

محمد مقبول حسین صاحب کی فرمائش

میں نے 22 نومبر 2015ء کو انگریزی کی نظم کا ایک بند اپنی اپریل 1955ء کی ڈائری سے نقل کیا تھا ۔ محمد مقبول حسین صاحب نے 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب فرمائش کی کہ اس کا اُردو میں ترجمہ لکھوں ۔ میں ان کی فرمائش فوری طور پر پوری نہ کر سکنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ ساتھ ہی میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ میری تحریر ” بنی اسراءیل اور ریاست اسرائیل“ میں جو نقشے میں نے کسی زمانے میں بڑی محنت سے حاصل کر کے اس تحریر میں شائع کئے تھے کہ اسرائیل کی حقیقت واضح ہو جائے وہ سب غائب ہیں

میں 21 نومبر کی شام امریکن (یا ہانگ کانگ) فلُو میں بُری طرح مُبتلاء ہو گیا تھا ۔ تیز بخار ۔ شدید کھانسی ۔ گلا ایسے جیسے کسی نے کانٹوں سے چھلنی کر دیا ہو ۔ 4 راتیں کھانس کھانس کر بیوی بچوں کو بھی نہ سونے دیا ۔ 22 نومبر کی صبح دوائیاں کھانے کے بعد بخار ذرا ہلکا ہوا تھا ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ میرے موبائل فون پر ٹن ٹن ہوا یعنی کوئی پیغام آیا ۔ فون اُٹھایا اور دیکھنے لگا ۔ فون نے یہ بھی بتایا کہ تحریر شائع کرنا ہے ۔ میں نے تحریر لکھ کر محفوظ کی ہوئی تھی جو موبائل فون پر ایک کلک سے شائع ہو گئی

آج طبیعت کچھ سنبھلی ہے تو اپنے بلاگ کی صحت دیکھنے کیلئے کمپیوٹر کھولا تو محمد مقبول حسین صاحب کی فرمائش نظر پڑی ۔ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں انگریزی 12 جماعت تک اور اُردو 8 جماعت تک پڑھی تھی یعنی انگریزی 59 سال اور اُردو 64 سال قبل تک ۔ بھول بھی گیا ہوں گا اور عقل کی بھی کمی ہے (کیا کروں بازار میں ملتی نہیں) ۔ خیر ۔ کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے کی

خوش ذوق بننا اُس وقت تو بہت سہل ہوتا ہے جب زندگی
ایک سُریلے گیت کی لہروں کی طرح بہتی چلی جا رہی ہو
مگر قابلِ قدر آدمی تو صرف وہ آدمی ہوتا ہے
جو مشکلات میں گھِر کر بھی مسکراتا رہے

مجھے ساحر لدھیانوی کا لکھا ہوا اور محمد رفیع کا گایا ہوا یہ گیت پسند رہا ۔ میں نے اسی طرح زندگی گذاری ہے

میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا ۔ ۔ ۔ ہر فکر کو دھُوئیں میں اُڑاتا چلا گیا
بربادیوں کا سوگ منانا فضُول تھا ۔ ۔ بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
جو مِل گیا اُسی کو مُقدّر سمجھ لیا ۔ ۔ ۔ جو کھو گیا، میں اُس کو بھُلاتا چلا گیا
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں ۔ ۔ ۔ میں دِل کو اُس مقام پہ لاتا چلا گیا