Monthly Archives: March 2015

بوڑھا کون ؟

سچ ہے کہ بوڑھا وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو بوڑھا سمجھ کر ہمت ہار بیٹھے ۔ اس اصول کے مطابق بوڑھے کی عمر مقرر نہیں کی جا سکتی ۔ بوڑھا 20 سالہ بھی ہو سکتا ہے جو سوئے زیادہ اور کام کم کرے ۔ 50 سالہ بھی جو اپنے چند سفید بال آیئنے میں دیکھ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے ۔ اگر آدمی ہمت نہ ہارے اور ہمیشہ چاک و چوبند رہے وہ صرف بڑھاپے کو ہی نہیں دنیا کو بھی پچھاڑ دیتا ہے

یہ بھی مت سمجھئے کہ عورت کمزور ہوتی ہے ۔ دراصل عورت خود اپنے آپ کو کمزور بنا لیتی ہے ۔ ایک 86 سالہ عورت یُوحنّا قُوآس (Johanna Quaas) نے جرمنی میں 2012ء کے کوٹُوبُس ورلڈ کپ میں ناظرین کو حیران کر دیا ۔ کیا آپ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں جو یہ عورت کرتی ہے اور جوانی سے لے کر اب تک بہت سے انعام جیت چکی ہے

1

23

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

ہوائی راستے

اخبار کہتا ہے کہ شاہین میزائل کی مار کا ہوائی راستہ 2750 کلو میٹر ہے
انٹرنیٹ مندرجہ ذیل ہوائی راستے بتاتا ہے
ملتان سے آسام ۔ 2149 کلو میٹر
اسلام آباد سے ڈھاکہ ۔ 2014 کلو میٹر
اسلام آباد سے کلکتہ ۔ 1942 کلو میٹر
گوادر سے یوروشلم ۔ 2746 کلو میٹر
حیدرآباد سے کیرالا ۔ 1819 کلو میٹر

جلدی کیجئے

میں نے کل بھی درخواست کی تھی ۔ اُمید ہے قارئین نے میری حوصلہ افزائی کی ہو گی
جو رہ گئے ہیں وہ جلدی کریں
اور ہاں اپنے تمام عزیز و اقارب اور احباب سے بھی ووٹ ڈالنے کی درخواست کیجئے
کل جب میں نے درخواست کی تو فرق 2000 ووٹ سے زیادہ کا تھا
آج صبح پونے 12 بجے فرق تقریباً 1000 کا رہ گیا ہے

نام کھلاڑی ۔ ۔ ۔ ۔ حاصل کردہ ووٹ
وسیم اکرم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 73409
ساچِن ٹَنڈولکر ۔ ۔ ۔ ۔74349
ایم ایس دھونی ۔ ۔ ۔ 26682
وِوِیئن رِچرڈز ۔ ۔ ۔ ۔۔ 15652
آدم گلکرائسٹ ۔۔ 8902

غرض اور محبت

جنوری 1961ء میں جب میں انجیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اپنی ڈائری میں لکھا تھا
خواہشات جسمانی فطرت ہیں جن سے مغلوب انسان کا مقصد حصولِ محبوب بن جاتا ہے ۔ محبوب کے حصول کی خاطر انسان پتھر کے پہاڑ کھودتا ہے دریاؤں کا سینہ چیرتا ہے تُند لہروں سے ٹکراتا ہے ۔ قیس و فرہاد نے ان خواہشات پر سب کچھ قربان کر دیا پھر بھی اس دنیا سے ناخوش ہی گئے ۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق نے اپنا حق ادا کرتے ہوئے اُن کے اسماء کو حیاتِ جاودانی بخش دی

محبت لاغرض ہوتی ہے ۔ سچا عاشق سب کچھ سہہ سکتا ہے لیکن اپنے محبوب کی رسوائی برداشت نہیں کر سکتا ۔ قابلِ تعریف ہے وہ انسان جو جسمانی خواہشات کو بالائے طاق رکھ کر اپنے محبوب کی خوشنودی کو مقصدِ حیات بنا لیتا ہے اور محبوب کے نام پر آنچ آنے کے ڈر سے محبت کا اظہار بھی نہیں کرتا

وقت تھوڑا اور مقابلہ سخت ہے

جلدی کیجئے ۔ وسیم اکرم کو ووٹ دیجئے مقابلے میں ساچن ٹنڈولکر ہے
ووٹ دینے کیلئے یہاں پر کلِک کیجئے
جو صفحہ کھُلے اُس پر نچے جایئے جہاں 5 نام لکھے ہیں ۔ سب سے اُوپر وسیم اکرم کا نام ہے ۔ نام کے بائیں طرف چھوٹے سے دائرے پر کلِک کیجئے
پھر ناموں کے نیچے submit پر کلِک کیجئے

خُفیہ کتاب کا ایک ورق

امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“ (The American Roll in Pakistan) کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ’’ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے‘‘۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا۔ 1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے’’پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے، وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں‘‘۔ یہ یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری مَیگھی (Meghee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ’’ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ ان (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو‘‘ (صفحہ 106)۔

دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے پوری کر دی۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (General Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے

زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم، ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل، اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم پورا ہوگیا۔

دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی، یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو روم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی، ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا، جسے بغداد پیکٹ کہا گیا۔ ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا وہ صاف کہتا ہے ’’امریکہ کو چاہئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے‘‘۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ، بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)