Monthly Archives: February 2015

اِتنا تو میں بُرا نہیں

” اِتنا تو میں بُرا نہیں “۔ یہ آواز ہے میرے وطن کی جس نے ہمیں سب کچھ دیا ہے لیکن ہم ناقدرے لوگ ہیں

میرا واسطہ 2 درجن سے زائد غیرممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رہا اور ان میں سے آدھے ممالک میں رہائش کا بھی موقع ملا ۔ میں نے ان لوگوں کو کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف کوئی بات کرتے نہیں سُنا ۔ حد تو یہ ہے کہ بھارت سے آئے ہوئے مسلمانوں کو بھی کبھی اپنے مُلک یا ہموطنوں کے خلاف بات کرتے نہیں سُنا ۔ یہاں تک کہ اگر ان کے مُلک یا ان کے کسی ہموطن کے خلاف کوئی بات کریں تو وہ بلاتوقف اس کا دفاع کرتے تھے

مگر میرے ہموطن جہاں کہیں بھی ہوں اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کے خلاف نہ صرف بلاجواز بولنے لگتے ہیں بلکہ انہیں منع کیا جائے تو تکرار اور بدتمیزی پر اُتر آتے ہیں ۔ یہی نہیں غیرمُلکیوں سے اپنے ہموطنوں کے خلاف یا اپنے وطن کے خلاف باتیں کرنا شاید اپنی بڑائی سمجھتے ہیں

ایسا کرتے ہوئے یہ لوگ نمعلوم کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنی ہی کشتی میں سوراخ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی ہی آنے والی نسل کا مستقبل تاریک کر رہے ہوتے ہیں ۔ میرے ہموطنوں کے اسی رویئے کے نتیجے میں پہلے متحدہ امارات (یو اے ای) پھر لبیا اور پھر سعودی عرب میں بھی بھارت کے لوگوں نے پاکستانیوں کی جگہ لے لی ۔ سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا ۔ متعدد مصدقہ واقعات میں سے نمونے کے طور پر صرف 3 جو کم از کم میری سمجھ سے باہر ہیں قلمبند کرتا ہوں

لبیا کے شہر طرابلس میں ایک پاکستانی سکول تھا جس میں ہماری ٹیم کے بچے بھی پڑھتے تھے ۔ سکول رفاہی بنیاد پر چلایا جا رہا تھا اور اس کا تعلیمی معیار اچھا تھا ۔ سکول کی عمارت کا کرایہ لبیا کی حکومت دیتی تھی ۔ ایک پاکستانی سپیشلسٹ ڈاکٹر جس کے بچے چند سال قبل اس سکول سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان جا چکے تھے کا شاید کوئی ذاتی جھگڑا تھا یا کچھ اور، اُس نے سکول کی انتظامیہ کے ناکردہ گناہوں کا لکھ کر لبیا کی حکومت کو درخواست دی کہ سکول کی عمارت واپس لے لی جائے ۔ اُن دنوں ایک سڑک چوڑی کرنے کیلئے ایک پرائیویٹ لیبی سکول کی عمارت گرائی جانا تھی چنانچہ درخواست سیکریٹری تعلیم کو بھیج دی گئی ۔ ایک پاکستانی خاندان پچھلے 15 سال سے سیکریٹری تعلیم کا ہمسایہ تھا ۔ خاتونِ خانہ مجوزہ گرائے جانے والے سکول کی ہیڈ مسٹرس تھیں ۔ سیکریٹری نے اُن سے ذکر کیا کہ پاکستانی سکول بند ہونے کے بعد وہ عمارت لے لیں ۔ وہ ہمسایہ پاکستانی تصدیق کیلئے ایک پاکستانی آفیسر کے پاس گئے جس کا پاکستانی سفارتخانہ سے تعلق تھا ۔ اس طرح بات سفیر صاحب تک پہنچی اور لبیا کی وزارتِ تعلیم سے رابطے کے بعد اللہ کی مہربانی سے سکول بچ گیا

سعودی عرب میں ایک پاکستانی ڈاکٹر شاہی خاندان کا ڈینٹل سرجن تھا ۔ وزیرِ صحت کے ساتھ اُس کی دوستی تھی ۔ ایک دن وزیرِ صحت نے اُسے بتایا کہ ”ہمارے 2 اعلٰی سطح کے پاکستانی ملازم میرے پاس آ کر ایک دوسرے کی برائیاں بیان کرتے رہتے تھے چنانچہ میں نے تنگ آ کر دونوں کو فارغ کر کے پاکستان بھجوا دیا ہے“۔
ایک پاکستانی طرابلس کے ایک تاجر کے پاس ملازم تھا ۔ ملازمت ختم ہونے کے بعد وہ لبیا سے یورپ چلا گیا اور اُس لیبی تاجر کو خط لکھا جس کا لب لباب تھا ” میں اَووراِنوائسِنگ کرواتا رہا اور اب لاکھوں ڈالر یورپ کے بنک میں میرے نام پہ جمع ہو گئے ہیں ۔ تم نرے بیوقوف ہو ۔ سب لیبی بیوقوف ہیں ۔ پاکستانی تیز دماغ ہیں اور مال بنا رہے ہیں“۔ اس لیبی تاجر کے ساتھ میری سلام دعا تھی اور اُس پاکستانی سے بھی میری جان پہچان ہو گئی ہوئی تھی ۔ ایک دن میں لیبی کی دکان پر گیا تو اُس نے مجھے بٹھا لیا اور خط دکھا کر کہنے لگا ”میں نہیں جانتا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ۔ یہ مجھے بیوقوف کہتا ہے دراصل یہ خود بیوقوف ہے جو اپنے مُلک کی بدنامی اور سارے ہموطنوں سے دشمنی کر رہا ہے“۔

بچے اور والدین ۔ قصور کس کا ؟

میں نے ایک ہمجماعت اور دوست کے تحریک دلانے پر 1957ء میں عملی نفسیات (Practical Psychology) کا مطالعہ شروع کیا ۔ 1960ء میں ایک دوسرے ہمجماعت دوست نے مجھے بچوں کی نفسیات پر ماہرین کی لکھی ایک کتاب دی جو اُس کے کوئی عزیز امریکہ سے لے کر آئے تھے ۔ کتاب بہت کارآمد اور دلچسپ تھی ۔ اس میں عام رائے کہ ”بچے ناسمجھ ہوتے ہیں“ کے خلاف یہ لکھا تھا کہ بچہ 2 ماہ کا بھی ہو تو اُس کے سامنے ایسی حرکت یا بات نہ کریں جو بچہ بڑا ہو کر کرے تو آپ کو اچھی نہ لگے ۔ اب نمونے کے چند واقعات

میں عزیزوں کے گھر بیٹھا تھا کہ اُن کا پانچ چھ سال کا بیٹا روتا ہوا باہر سے آیا ۔ ماں نے پوچھا ” کیا ہوا ؟“ بولا ”فلاں نے مارا ہے“۔ ماں نے اُسے ڈانٹتے ہوئے کہا ” تیرے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تھے ۔ اس نے ایک لگائی تھی تو تم نے اُسے دو کیوں نہ لگائیں ۔ آئیندہ روتے ہوئے گھر نہ آنا ۔ اپنا بدلا لے کر آنا“۔

ہمارے سمیت چند خاندان ایک گھر میں چائے پر مدعو تھے ۔ اُن کا 4 سالہ بیٹا یہ کہتے ہوئے بھاگتا ہوا آیا ”الف مجھے مارتا ہے ۔ الف مجھے مارتا ہے“۔ چند لمحے بعد الف بھی کمرے میں داخل ہوا جو اس وقت 5 ساڑھے 5 سال کا تھا ۔ خاتونِ خانہ (لڑکے کی ماں) نے الف کو ڈانٹا ”شرم نہیں آتی اپنے سے چھوٹے کو مارتے ہو”۔ پھر الف کے باپ سے شکائت کی ” آپ اسے اچھی تربیت دیں“۔ الف کے باپ نے الف کو ایک چپت لگائی اور ڈانتے ہوئے کہا ”کیوں مارا ہے اُسے ؟“ الف رونے لگا
ایک بزرگ مہمان خاتون نے الف کو چُپ کرایا اور پوچھا ”آپ اچھے بچے ہو ۔ مجھے بتاؤ کیا ہوا تھا“۔
الف نے بتایا ”ہم دونوں باہر کھڑے پرندے دیکھ رہے تھے کہ اِس نے ایک موٹی لکڑی اٹھا کر زور سے میرے سر پر ماری پھر لکڑی پھینک کر شور مچاتا ہوا اندر بھاگا“۔ُ

میں کسی سے ملنے گیا ۔ مجھے بیٹھک (ڈرائنگ روم) میں بٹھا کر کہا گیا کہ ابھی آتے ہیں ۔ ابھی صاحبِ خانہ بیٹھک میں پہنچے نہیں تھے کہ باہر کے دروازے کی گھنٹی بجی ۔ میں نے صاحب خانہ کو کہتے سُنا ”جاؤ باہر جو انکل آئے ہیں اُن سے کہو ۔ ابو گھر پر نہیں ہیں“۔

ایک شادی پر گئے ہوئے تھے ۔ کچھ حضرات ایک حلقے میں بیٹھے ایک تین چار سالہ بچے کو کچھ کہتے اور وہ بچہ گندھی گالیاں دینے لگ جاتا اور یہ صاحبان قہقہے لگاتے

ہم 8 پاکستانی خاندان نومبر 1976ء سے جنوری 1983ء تک لبیا میں ایک عمارت میں رہے ۔ ساتھیوں کے بچے بعد دوپہر ہمارے گھر آ کر ہمارے بچوں کے کمرے میں جا کر سب کھلونے نکال لاتے اور کھیلتے رہتے
میرا چھوٹا بیٹا فوزی جب 3 سال کا ہو گیا تو میری بہن نے اُسے پلاسٹک کی بنی ہوئی ایک کار لا کر دی جس میں بچہ بیٹھ کر پیڈل چلائے تو کار چلتی تھی ۔ میرے کزن نے ایک لکڑی کا جِگسا پزل لا کر دیا جس میں لکڑی کی ایک بڑی تختی پر تصویر بنی تھی جو جِگسا پزل کے ٹکڑوں پر بھی بنی تھی تاکہ چھوٹا بچہ تختی پر رکھ کر آسانی سے ٹکڑیاں جوڑ سکے
دوسرے دن فوزی کھیل رہا تھا تو ساتھیوں کے بچے بھی آ گئے ۔ کچھ دیر بعد فوزی کے رونے کی آواز آئی میں لاؤئج میں گیا تو باقی بچے دروازہ کھول کر نکل گئے ۔ میں فوزی کو کمرے میں لے آیا اور پچکار کر چُپ کرایا ۔ تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی ۔ میں نے جا کر دروازہ کھولا تو ایک ساتھی اپنے 9 سالہ بیٹے آصف کو ساتھ لئے کھڑے تھے ۔ شکائت کی کہ ”فوزی نے آصف کو مارا ہے“۔
حیرانی تو ہوئی کہ 3 سالہ کمزور سے بچے نے 9 سالہ اچھی صحت والے کو کیسے مارا ۔ خیر ۔ میں نے فوزی سے پوچھا ”آپ نے اسے کیوں مارا ؟“
فوزی بولا ”انہوں نے میری کار توڑ دی پھر آصف جِگسا مجھ سے چھینتا تھا ۔ میں گر گیا اور جِگسا اس کے منہ پر لگا“۔
میں نے آصف سے پوچھا ”فوزی ٹھیک کہہ رہا ہے ؟“ تو اُس نے ”ہاں“ کہا
میں نے کار کو دیکھا تو اُس کے اگلے پہیئوں کا ایکسل ٹوٹا ہوا تھا ۔ میں نے فوزی سے وجہ پوچھی
فوزی نے بتایا ”کہ میں کار پر بیٹھا تھا تو آصف ۔ عاصم اور اویس کار پر چڑھ گئے اور کار ٹوٹ گئی“۔
7 سالہ عاصم اور آصف بھائی تھے ۔ 8 سالہ اویس ایک اور ساتھی کا بیٹا تھا ۔ آصف اور اویس اُونچے قد کے ساتھ موٹے بھی تھے

کچھ دن بعد پھر بچے آئے ہوئے تھے تو شور سُن کر میں پہنچ گیا ۔ دیکھا کہ بچوں کے کمرے میں آصف اور عاصم فوزی کو گھیسٹ کر الماری کے سامنے سے ہٹا رہے تھے ۔ فوزی شور کر رہا تھا ”میں نے کھلونے نہیں دینے ۔ میں ان کے گھر گیا تو اپنے کھلونے دکھائے بھی نہیں ۔ مجھے نکال دیا کہ ہمارے ابو امی ناراض ہوتے ہیں ۔ اپنے گھر جاؤ“۔
میں نے اُن سے وجہ پوچھی تو عاصم بولا ”ہماری امی نے کھلونے الماری میں رکھ کر تالہ لگایا ہوا ہے کہ پاکستان لے کر جائیں گے ۔ بعد دوپہر ہمیں کہتے ہیں جاؤ جا کر باہر کھیلو ۔ ہم نے آرام کرنا ہے“۔
دوسرے دن میں نے دفتر کے راستہ میں اُن کے والد سے ذکر کیا تو مُسکرا کر بولے ”ہاں ۔ ہم بعد دوپہر آرام کرتے ہیں اور بچوں کو باہر نکال دیتے ہیں“۔

کچھ ماہ بعد فوزی کے رونے کی آواز سُن کر میں باہر نکلا تو فوزی نے اپنے دونوں ہاتھ چُلُو بنا کر ناک کے نیچے رکھے تھے جن میں ناک سے خون گِر رہا تھا ۔ میں اُسے اُٹھا کر غسلخانہ میں گیا ۔ اُس کے ہاتھ دھوئے اور سر پر پانی ڈالنا شروع کیا مگر خون بند نہیں ہو رہا تھا ۔ فرِج سے برف لا کر فوزی کے سر اور ماتھے پر رکھی ۔ خون بند ہوا تو پوچھا ”خون کیسے نکلا ؟“
فوزی بولا میں اویس کے گھر گیا ۔ وہاں فُٹبال پڑا تھا ۔ میں نے اُٹھایا ۔ اویس نے مجھ سے چھین کر میری ناک پر زور سے مارا“۔
میں نے پوچھا ”وہاں آنٹی ۔ انکل نہیں تھے ؟“
بولا ”انکل تھے ۔ مجھے کہا کہ نیچے ہاتھ رکھو اور دروازہ کھول کر کہا ۔ گھر جاؤ“۔
میں شام کو اُن کے گھر گیا تو اویس کے والد نکلے ۔ میں نے بات کی تو ہنستے ہوئے بولے ”اویس کا غصہ بڑا سخت ہے ۔ اُس نے فُٹبال اُسے مار دیا تھا تو میں نے گھر بھیج دیا“۔

میں بچپن سے سکے جمع کیا کرتا تھا ۔ پلاسٹک کی بنی 5 انچ قطر کی ایک گُلک بھر گئی تھی اور ایک آدھی تھی جو میں نے دسمبر 1978ء میں اپنے بڑے بیٹے زکریا کو دے دی جو اُس وقت 8 سال کا تھا ۔ مجھے کچھ اور غیرمُلکی سکے ملے تو میں نے زکریا کو دیئے ۔ کچھ دیر بعد زکریا پریشان میرے پاس آیا اور بولا ” ابو ۔ جو گُلک سِکوں سے بھری ہوئی تھی وہ الماری میں نہیں ہے“۔ میں نے جا کر سب جگہ ڈھونڈا مگر گُلک غائب تھی
بچوں کے کھلونے بھی غائب ہوتے رہتے تھے ۔ ایک دن ہم شاپِنگ مال گئے تو لیگو (lego) کئی قسم کے آئے ہوئے تھے ۔ ہم نے بچوں کو تین الگ الگ قسم کے لے دیئے ۔ کچھ دن بعد بچوں نے بتایا کہ ایک پورا لیگو غائب ہے اور باقی 2 آدھے آدھے غائب ہیں
گھر میں سوائے ہمارے اور ساتھیوں کے بچوں کے اور کوئی نہیں آتا تھا جو بچوں کے کمرے میں جائے

زکریا جب 2 سال کا تھا تو اپنے سائے سے ڈرنا شروع ہو گیا ۔ ایک عالمِ دین سے بات کی تو وہ قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مہینہ بھر دم کرتے رہے جس سے زکریا کا ڈرنا کم ہوا لیکن گیا نہیں ۔ اُن صاحب نے مشورہ دیا کہ قرآن شریف کی 5 سورتیں باریک لکھی ہوئی تعویذ کیلئے ملتی ہیں ۔ وہ تعویز بنا کر زکریا کو پہنا دیں ۔ سو ایسا ہی کیا ۔ غسلخانہ میں جانے کے وقت اُسے اُتار دیتے تھے ۔ جب ہم لبیا میں تھے تو ایک دن زکریا نے بتایا کہ ”میں باتھ روم جا رہا تھا تو تعویز اُتار کر میز پر رکھا تھا ۔ پتہ نہیں کہاں چلا گیا“۔
ایک ڈیڑھ ماہ بعد میری بیگم آصف عاصم کے گھر گئی ہوئی تھیں کہ اُن کی والدہ نے میری بیگم کو وہ تعویز دیتے ہوئے کہا کہ ”بچے یہ شاید زکریا سے لے آئے تھے“۔

کیا ان سب واقعات میں قصور بچوں کا ہے یا والدین کا ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ تبدیلی

جو لوگ اچھی تبدیلی کے بعد اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے ہیں ۔ اُن کا وجود قائم رہتا ہے
جو لوگ اچھی تبدیلی کے ساتھ ہی تبدیل ہو جاتے ہیں ۔ وہ کامیاب ٹھہرتے ہیں
جو لوگ اچھی تبدیلی لاتے ہیں ۔ وہ مشعلِ راہ بنتے ہیں

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” They can Get Away with Murder “

خوش قسمت۔ بدقسمت

چند برس قبل میں شام کو جس طرف سیر کے لئے جاتا تھا وہاں نئی آبادی زیر تعمیر تھی۔ اکثر پلاٹ خالی پڑے تھے اور چند گھر تعمیر کے عمل سے گزر رہے تھے۔ وہاں نہ ٹریفک تھی، نہ گرد و غبار اور نہ شور، چنانچہ میں سیر کے لئے اسے بہترین علاقہ سمجھتا تھا۔ چند گھر جو زیر تعمیر تھے ان سب کے اپنے اپنے چوکیدار تھے جو شام کو گھروں کے سامنے اینٹوں کا چولہا بنا کر سالن پکانے میں مصروف ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ ٹرانسسٹر کے گانوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ ایک زیر تعمیر گھر کے سامنے مجھے ایک بوڑھا اور سنجیدہ سا چوکیدار نظر آتا جو کبھی چارپائی پر لیٹا آسمان سے باتیں کررہا ہوتا، کبھی نماز پڑھ رہا ہوتا اور کبھی اینٹوں کے چولہے پر سالن یا چائے بنانے میں مصروف ہوتا۔کچھ عرصے تک مسلسل سیر کرنے کی وجہ سے میں ان تمام چوکیداروں اور زیر تعمیر گھروں میں رہائش پذیر مزدوروں کے چہروں اور شام کی مصروفیات سے واقف ہوگیا

مجھے اس علاقے میں سیر کرتے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز اس بوڑھے چوکیدار کی خالی چارپائی دیکھ کر مجھے تھوڑی سی تشویش ہوئی۔میں کوئی دو فرلانگ آگے گیا ہوں گا کہ وہ مجھے آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان تھا جس کے ہاتھ میں شاپر تھا۔ جب وہ قریب آئے تو میرے لئے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ نوجوان بوڑھے چوکیدار کا بیٹا ہے اور شاپر میں کھانے کا سامان ہے۔ اس روز شاید بیٹے کی خاطر مدارات کے لئے چوکیدار کھانا بازار سے خرید لایا تھا اور اس نے اپنا چولہا گرم نہیں کیا تھا۔ بیٹا باپ کے ساتھ نہایت مؤدب انداز سے چل رہا تھا اور مارے ادب کے باپ سے ایک دو قدم پیچھے رہتا تھا۔ عام لوگوں کے برعکس دونوں باپ بیٹا خاموشی سے چلتے آرہے تھے۔ میں جب سیر کا کوٹہ مکمل کرکے لوٹا تو دیکھا کہ وہ بوڑھا چوکیدار ننگی چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اور اس کا بیٹا اس کی ٹانگیں دبا رہا ہے

کچھ عرصہ سیر کے دوران مشاہدے کے عمل سے گزرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوگیا کہ بوڑھے چوکیدار کا بیٹا کہیں مزدوری کرتا ہے، وہ ہفتے میں ایک دو بار چکر لگاجاتا ہے لیکن ہر اتوار وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ آتا ہے اور باپ کے ساتھ چند گھنٹے گزارتا ہے۔ میں ہر اتوار دیکھتا کہ بوڑھا چوکیدار چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اس کا بیٹا ساتھ بیٹھاہوا ہے یا باپ کو دبا رہا ہے۔ پوتا کھیل رہا ہے یا دادا جان سے باتیں کررہا ہے اور بہو اینٹوں کے چولہے پر رکھی ہانڈی میں کچھ پکا رہی ہے یا پھر توے پر روٹیاں پکانے میں مصروف ہے۔ یہ ان کا مستقل معمول تھا۔ میں نے کئی بار بوڑھے چوکیدار کو مارکیٹ کی طرف جاتے یا آتے دیکھا اور ہر بار غور سے مشاہدہ کیا کہ اس کا بیٹا نہایت مودب تھا اور اپنے باپ کے برابر کبھی نہیں چلتا تھا بلکہ ہمیشہ باپ سے چند قدم پیچھے رہتا تھا

میرے ایک عزیز بیمار ہوئے تو ڈاکٹر نے انہیں سیکینگ اور ٹیسٹوں کے لئے کہا۔ وہ لاہور میں نہر کنارے ایک کلینک میں گئے اور شام کو مجھے رسیدیں دیں کہ وہاں سے رزلٹ منگوادوں۔میں جب اس کلینک میں داخل ہوا تو استقبالئے میں اس بوڑھے چوکیدار کو دیکھا۔ اس کا بیٹا اس کے کندھے دبا رہا تھا میں نے ان سے خیر خیریت پوچھی۔ پتہ چلا بیٹا باپ کو کسی مخصوص ٹیسٹ کے لئے لایا ہے جو صرف چند کلینکوں میں ہوتا ہے۔ جھجکتے جھجکتے میں نے پوچھا کہ کوئی خدمت؟ جواب میں شکریہ اور دعا

اب منظر بدلتا ہے

کچھ عرصہ قبل میں ایک ارب پتی شخص کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک اس کے نور چشم نے زور سے کمرے کا دروازہ کھولا اور بے مروت انداز سے کہا ”ڈیڈ، آپ کی مہنگی کار تھوڑی سی لگ گئی ہے۔ کل اس کی مرمت کروا لیجئے گا“۔ باپ نے کہا ”بیٹے اپنی گاڑی لے جاتے“۔ جواب ملا ”دوستوں کا اصرار تھا آج مہنگی کار پر ریس لگانی ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور چلا گیا۔ ارب پتی سیٹھ نے شرمندگی پر پردہ ڈالتے ہوئے فقط یہ کہا ”آج کل کی نوجوان نسل بڑی بدتمیز ہے“۔

ایک روز مجھے ایک دیرینہ آشنا رئیس شخص کی وفات کی خبر ملی جو لاہور کے ایک مہنگے اور پوش علاقے میں رہتے تھے۔ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ اپنے گھر میں چند ملازمین کے ساتھ مقیم تھے۔ دو ہی بیٹے تھے جو بیرون وطن رہائش پذیر تھے۔ میں جب ان کے گھر پہنچا تو ان کے چند عزیز و اقارب کرسیوں پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ اتنے میں ان کا پرانا ملازم آیا تو میں نے ایک طرف لے جاکر اس سے پوچھا کہ ”مرحوم کے صاحبزادگان کو بیماری اور موت کی خبر دی تھی یا نہیں؟“ اس نے سوگوار لہجے میں بتایا ”جب صاحب اچانک شدید بیمار ہوئے تو میں نے فون کرکے دونوں صاحبزادوں کو اطلاع دے دی تھی اور دونوں نے کہا تھا کہ وہ جلدی آنے کی کوشش کریں گے۔ صاحب دو دن بیمار رہے، دونوں بیٹے فون کرکے خیریت پوچھتے رہے۔ آج رات ان کو انتقال کی خبر بھی دے دی تھی اور وہ کہہ رہے تھے کو جونہی جہاز میں سیٹیں ملتی ہیں وہ پہنچ جائیں گے۔ تھوڑی دیرقبل فون آیا ہے کہ فی الحال جہاز میں جگہ نہیں مل رہی اس لئے انتظار نہ کریں اور ابا جان کو دفنا دیں“۔

میں جب انہیں سپرد خاک کرکے لوٹا تو دوہرے صدمے میں مبتلا تھا۔ ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور بار بار یہی سوال ذہن میں ابھرتا تھا کہ وہ بوڑھا چوکیدار غربت کے باوجود خوش قسمت انسان ہے جس کی اولاد سعادت مند ہے یا وہ دولت مند جن کی اولاد والدین کی پرواہ کرتی ہے نہ احترام…؟؟

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ طور طریقہ

اپنے اندر صلاحیت پیدا کیجئے کہ کسی معاملہ پر غصہ نہ آئے
اختلاف کی صورت میں انصاف کے ساتھ مقابلہ کیجئے
کھونے کی صورت میں سبق نہ کھویئے
دیانتدارانہ ناکامی بُری کامیابی سے بہتر ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Torturous Past “

مرد ایسے کیوں ؟

پرانے وقتوں میں پردہ کا مسئلہ نہ بھی ہو اور بیٹھے بھی ایک پنڈال کے نیچے یا ایک ہی کمرے میں ہوں تو بھی مرد اور خواتین کی محفلیں علیحدہ علیحدہ جمتی تھیں گو کبھی کبھی کوئی مرد عورتوں کی باتوں میں یا عورت مردوں کی باتوں میں مُخل ہو جاتے تھے ۔ پھر وہ وقت آیا کہ مرد عورتوں کی مخلوط محفلیں شروع ہوئیں لیکن اگر کوئی مرد کسی مرد سے یا باقی سب مردوں سے بات کر رہا ہو تو مخاطب ایک یا سب مرد اُسی مرد کی طرف متوجہ رہتے تھے

پچھلی دو دہائیوں سے ایک ایسی عادت زیادہ تر مردوں میں دیکھ رہا ہوں جو پہلے یا تھی ہی نہیں یا پھر مجھے محسوس نہیں ہوئی ۔ اب مردوں کا جو رویّہ میں نے بار بار دیکھا ہے وہ یہ ہے کہ ایک ہی کمرے میں مرد ایک طرف اور عورتیں دوسری طرف بیٹھی ہیں ۔ مرد آپس میں بات کر رہے ہیں ۔ اگر عورتیں کوئی بات آپس میں کرنے لگتی ہیں تو زیادہ تر مرد عورتوں کی بات سُننے لگ جاتے ہیں ۔ مردوں کی بات پر بالکل توجہ نہیں دیتے ۔ خواہ بولنے والا مرد اُس مرد کے ہی پوچھے ہوئے سوال کا جواب دے رہا ہو ۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جس سے سوال پوچھا گیا تھا اُس نے سوال پوچھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش بھی کی لیکن مجال ہے اُس کی فریاد یا غُصہ سوال پوچھنے والے کے کان میں گھُس سکا ہو کیونکہ وہ تو عورتوں کی طرف ہمہ تن گوش ہے خواہ عورتیں کوئی بلا مقصد گپ ہی لگا رہی ہوں

میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ مردوں میں یہ تبدیلی کیونکر آئی ؟
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
قسمت کی یہ ہیرا پھیری
کوئی سُنتا نہیں بات کو میری