Monthly Archives: December 2014

ریاض شاہد صاحب سے معذرت کے ساتھ

السلام علیکم
آپ کا مضمون ”بے جڑ کا درخت“ پڑھ کر اظہارِ خیال شروع کیا تو بہت طویل ہو گیا ۔ اسلئے اسے اپنے بلاگ پر شائع کرنے کا سوچا ۔ اس سلسلہ میں آپ سے معذرت کا خواستگار ہوں ۔ میں نے اس موضوع کا مطالعہ 1955ء میں شروع کیا تھا جب جمعہ کے خطبہ کے دوران راولپنڈی کے ایک مشہور خطیب کے ایک فقرے نے میرے ذہن کو پریشان کر دیا تھا

دراصل اس سارے فساد کی جڑ حکمران بھی ہیں ۔ حکومت کی مشینری بھی ہے اور عوام بھی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غلامانہ ذہنیت کے لوگ جو دین بیزار بھی تھے حکمران بننے میں کامیاب ہو گئے اور اُنہوں نے پاکستان کا آئین جو 1953ء میں مرتب کیا گیا تھا منظور نہ ہونے دیا جس کیلئے 1953ء میں حکومت توڑ دی گئی اور 1954ء میں اسمبلی کو بھی چلتا کیا

ایوب خان اچھا مسلمان نہ تھا لیکن اسلام دشمن بھی نہ تھا ۔ اُس نے اوقاف حکومت کے اختیار میں لانے کے بعد مساجد کو بھی سرکاری تحویل میں لانے کی کوشش کی تھی جسے اُن عوام نے جن کا زور ہمیشہ سے ہمارے ملک میں چل رہا ہے ناکام بنا دیا تھا

ضیاء الحق نے بلا شُبہ غلطیاں کی ہیں ۔ البتہ مُلک میں دینیات کی درست تعلیم کا بندوبست کرنے کیلئے حُکم دیا تھا کہ سکولوں میں دینیات کے اساتذہ منظور شدہ مدرسوں سے کم از کم ایک سال کا کورس کر چکے ہوں ۔ پہلے 500 مدرس بھرتی کرنے کیلئے پاکستان کی مساجد کے اماموں کے کوائف اکٹھے کئے گئے تو معلوم ہوا کہ ایک سال کے کورس والے خال خال ہی ہیں ۔ اگر 6 ماہ اور 3 ماہ کے کورس والے بھی شامل کر لئے جائین تو کُل 287 بنتے ہیں ۔
میں نے مختلف علاقوں میں جا کر سوال کیا کہ مدرسوں سے اتنے سارے لوگ جو تعلیم پاتے ہیں وہ کہاں جاتے ہیں ؟ معلوم ہوا کہ ایک تو معاوضہ بہت کم ہے دوسرے اللہ کی غلامی کرنے کی بجائے کچھ انسانوں کی غلامی کرنا پڑتی ہے ۔ بطور نمونہ ۔ آج سے 15 سال قبل میں نے معلوم کیا تھا تو بتایا گیا کہ مرکزی جامع مسجد اسلام باد المعروف لال مسجد کے امام کو پے سکیل 12 کی تنخواہ دی جاتی تھی اور ہمارے محلہ (ایف۔8 ) کی مسجد کے امام کا پے سکیل 9 تھا

1973ء کے آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل بنائی گئی جو صرف مشورہ دے سکتی ہے ۔ اس پر طُرّہ یہ کہ اس میں متنازعہ لوگ تعینات کئے جاتے رہے ہیں ۔ آجکل کی صورتِ حال یا دہشتگردی کا ملبہ سارا ضیاء الحق پر ڈالا جاتا ہے ۔ درست ہے کہ ضیاء الحق سیاسی لحاظ سے ملک کو نقصان پہنچنے کا سبب بنا لیکن وہ تو 1988ء میں مر گیا تھا ۔ موجودہ حالات کے ذمہ داروں کی تربیت اور بالیدگی 1994ء میں ہوئی جب مُلا عمر اپنے کچھ طالبعلموں کے ساتھ ایک ماں کی فریاد پر اُٹھ کھڑا ہوا جس نے مسجد میں آ کر واویلا کیا تھا ”میں تمہارے دین اور تمہارے اللہ کو کیا کروں ۔ میری جوان بیٹیاں دن دیہاڑے اُٹھا کر لے گئے ہیں ؟“ ہوتے ہوتے بہت سے ستم رسیدہ افغان اُس کے ساتھ مل گئے اور بغیر جنگ کے مُلا عمر آدھے افغانستان پر چھا گیا ۔ انہیں لوگوں نے طالبان کا نام دیا حالانکہ وہ سب طالبان نہ تھے
اُس وقت پاکستان کے حکمرانوں کو نامعلوم کیا سوجھی تھی کہ اُس وقت کے وزیرِ داخلہ جو پشاور کے رہائشی تھے اور میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے نے تحریک طالبان پاکستان ترتیب دی اور ان لوگوں کی عسکری تربیت کا بندوبست بھی کیا

مزید یہ کہ جس ملک کے پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں سے زیادہ خود پسند اور انتہاء پسند ہوں وہاں اس سے بہتر کیا توقع کی جا سکتی ہے ؟

آج کے سب مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ ہر شخص دوسرے کو بُرا کہنے کی بجائے اپنے گریبان میں اچھی طرح دیکھے ۔ جتنے عیب اُسے چمٹ چکے ہیں اُن سے چھٹکارہ حاصل کرے اور فیصلہ کر لے کہ
آئیندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا
سُنی بات کسی اور سے بیان کرنے سے پہلے تصدیق کروں گا کہ کیا وہ سچ ہے ۔ اس پرکھ کے بعد بھی اُس صورت میں کسی دوسرے سے بیان کروں کہ اس سے معاشرے کو فائدہ پہنچے گا ورنہ اپنا منہ بند رکھوں گا

ہماری روانگی اور پاکستان آمد

کرنل عبدامجید کے بھائی جموں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے ۔ نومبر 1947ء کے وسط میں وہ چھاؤنی آئے اور بتایا کہ” شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ امن ہو جائے گا ۔ جموں کے تمام مسلمانوں کے مکان لوٹے جاچکے ہیں اور تمام علاقہ ویران پڑا ہے” ۔ واپس جا کر انہوں نے کچھ دالیں چاول اور آٹا وغیرہ بھی بھجوا دیا ۔ چار ہفتہ بعد ایک جیپ آئی اور ہمارے خاندان کے 6 بچوں یعنی میں ۔ میری 2 بہنیں ۔ 2 کزنز اور پھوپھی کو جموں شہر میں کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کے گھر لے گئی ۔ وہاں قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ 6 نومبر کو مسلمانوں کے قافلے کے قتل عام کے بعد خون سے بھری ہوئی بسیں چھاؤنی کے قریب والی نہر میں دھوئی گئی تھیں ۔ اسی وجہ سے ہم نے نہر میں خون اور خون کے لوتھڑے دیکھے تھے ۔ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور نیشنل کانفرنس کے مسلمانوں کے عِلم میں بھی وقوعہ کے بعد آیا ۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ہمیں دوسرے لاوارث اور زخمی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مدراسی فوجیوں کی حفاظت میں 18دسمبر 1947ء کو سیالکوٹ پاکستان بھیج دیا گیا ۔

میں لکھ چکا ہوں کہ میرے والدین فلسطین میں تھے اور ہم دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی اور پھوپھی بھِیڑ بھاڑ سے گبھرانے والے لوگ تھے اِس لئے انہوں نے پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہونے کی کوشش نہ کی ۔ جو عزیز و اقارب پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہوئے ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا
ہمارے بغیر ڈھائی ماہ میں ہمارے بزرگوں کی جو ذہنی کیفیت ہوئی اُس کا اندازہ اِس سے لگائیے کہ جب ہماری بس سیالکوٹ چھاؤنی آ کر کھڑی ہوئی تو میری بہنوں اور اپنے بچوں کے نام لے کر میری چچی میری بہن سے پوچھتی ہیں “بیٹی تم نے ان کو تو نہیں دیکھا” ۔ میری بہن نے کہا “چچی جان میں ہی ہوں آپ کی بھتیجی اور باقی سب بھی میرے ساتھ ہیں”۔ لیکن چچی نے پھر وہی سوال دہرایا ۔ ہم جلدی سے بس سے اتر کر چچی اور پھوپھی سے لپٹ گئے ۔ پہلے تو وہ دونوں حیران ہوکر بولیں ” آپ لوگ کون ہیں ؟ ” پھر ایک ایک کا سر پکڑ کر کچھ دیر چہرے دیکھنے کے بعد اُن کی آنکھوں سے آبشاریں پھوٹ پڑیں ۔

پاکستان پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دادا کا جوان بھتیجا جموں میں گھر کی چھت پر بھارتی فوجی کی گولی سے شہید ہوا ۔ باقی عزیز و اقارب 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے اور آج تک اُن کی کوئی خبر نہیں ۔ جب ہمارے بزرگ ابھی پولیس لائینز جموں میں تھے تو چند مسلمان جو 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے وہ چھپتے چھپاتے کسی طرح 7 نومبر کو فجر کے وقت پولیس لائینز پہنچے اور قتل عام کا حال بتایا ۔ یہ خبر جلد ہی سب تک پہنچ گئی اور ہزاروں لوگ جو بسوں میں سوار ہو چکے تھے نیچے اتر آئے ۔ وہاں مسلم کانفرنس کے ایک لیڈر کیپٹن ریٹائرڈ نصیرالدین موجود تھے انہوں نے وہاں کھڑے سرکاری اہلکاروں کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا “پولیس لائینز کی چھت پر مشین گنیں فِٹ ہیں اور آپ کے فوجی بھی مستعد کھڑے ہیں انہیں حُکم دیں کہ فائر کھول دیں اور ہم سب کو یہیں پر ہلاک کر دیں ہمیں بسوں میں بٹھا کے جنگلوں میں لے جا کر قتل کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیں یہیں قتل کر دیا جائے اس طرح آپ کو زحمت بھی نہیں ہو گی اور آپ کا پٹرول بھی بچےگا ” ۔ چنانچہ 7 اور 8 نومبر کو کوئی قافلہ نہ گیا ۔ اسی دوران شیخ عبداللہ جو نیشنل کانفرنس کا صدر تھا کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ اس نے نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کو شہروں سے ہٹا کر ان کی جگہ مدراسی فوجیوں کو لگایا جو مسلمان کے قتل کو ہم وطن کا قتل سمجھتے تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ پھوپھی اور خاندان کے باقی بچے ہوئے تین لوگ 9 نومبر 1947ء کے قافلہ میں سیالکوٹ چھاؤنی کے پاس پاکستان کی سرحد تک پہنچے ۔ بسوں سے اتر کر پیدل سرحد پار کی اور ضروری کاروائی کے بعد وہ وہاں سے سیالکوٹ شہر چلے گئے ۔

وہ میرے تھے

پھول تو دو دن کے لئے بہارِ جانفزا دکھلا گئے
حَیف ایسے غُنچوں پہ جو بِن کھِلے مُرجھا گئے

میری پیاری ماں ۔ 1965ء کے شروع میں نے سُنا تھا کہ جب آپ کسی سے کہہ رہی تھیں ”میرا بیٹا اجمل بہت صابر ہے ۔ یہ اپنی تکلیف ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ کتنی بھی تکلیف ہو ایک آنسو تک نہیں بہاتا ۔ میں اس کیلئے اس جیسی ہی بہو لاؤں گی“۔
پھر جب میں 1979ء میں سب سے چھوٹی بہن کی شادی پر آیا ہوا تھا تو آپ کو میری بڑی بہن سے کہتے سُنا تھا ”اب مجھے اجمل کی فکر ہے ۔ دوسروں کی خدمت میں رہتا ہے ۔ بڑی سے بڑی تکلیف برداشت کرتا ہے اور معلوم نہیں ہونے دیتا“۔
ماں ۔ آپ کا بیٹا آپ کا بھرم نہیں رکھ سکا ۔ شاید آپ میرا صبر 1980ء میں اپنے ساتھ ہی لے گئی تھیں ۔ آپ کے اچانک چلے جانے کے بعد میں کئی دن آنسو بہاتا رہا تھا ۔ اُس کے بعد کل سے پھر آنسو بہا رہا ہوں ۔ ماں ۔ میں اُن سے کبھی نہیں ملا تھا ۔ میں اُنہیں جانتا نہیں تھا مگر میں کیا کروں ماں ۔ وہ سب میرے تھے ۔ ایک نہیں ایک درجن نہیں پورے 132 گھروں کی رونقیں یکدم چلی گئیں

آہ فلک پہ جاتی ہے رحم لانے کیلئے
بادلو ہٹ جاؤ ۔ دے دو راہ جانے کیلئے
اے دعا پھر عرض کرنا عرشِ الٰہی تھام کے
پھیر دے اے خدا ۔ دن گردشِ ایام کے
اے مددگارِ غریباں ۔ اے پناہِ بے کسان
اے نصیرِ عاجزاں ۔ اے مایہءِ بے مائگاں
خلق کے راندے ہوئے دنیا کے ٹھُکرائے ہوئے
آئے ہیں آج در پہ تیرے ہاتھ پھیلائے ہوئے
خوار ہیں بدکار ہیں ۔ ڈوبے ہوئے ذلت میں ہیں
کچھ بھی ہے لیکن تیرے محبوب کی اُمت میں ہیں
اے خدا ۔ رحم کر اپنے نہ آئینِ کرم کو بھول جا
ہم تُجھے بھُولے ہیں لیکن تُو نہ ہم کو بھُول جا

دل خون کے آنسو روتا ہے

الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ( سورۃ البقرہ ۔ آیت 56)

پشاور میں ورسک روڈ پر بہار کالونی کے قریب واقع اسکول میں صبح 10 بجے 6 سے زائد دہشتگردوں نے داخل ہو کر بچوں پر براہ راست گولیاں چلائیں اورکچھ بچوں کو یرغمال بنالیا ۔ سیکورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہو ئے 5 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ۔ فوجی دستوں کا ریسکیو آپریشن جاری ہےاور دہشتگردوں سے فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے ۔ دہشت گردوں کے حملے میں 84 بچے شہید 100 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں ۔ زخمیوں میں 42 کی حالت نازک ہے ۔ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے ۔ دہشت گردوں کے حملے میں 132 افراد شہید 140 زخمی ہوگئے ہیں جن میں بہت بھاری تعداد بچوں کی ہے

تمام پاکستانی بہنوں اور بھائیوں سے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل آیت کا کثرت سے ورد کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں

لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ

تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں

تبدیلی نہیں آئے گی

میں نے ساڑھے تین سال قبل لکھا تھا ”انقلاب نہيں آئے گا“۔۔ 3 سال میں موسم بدل گیا ہے اسلئے اُس میں ترمیم کر کے لکھ رہا ہوں

جب تک ٹریفک رولز نہ مانیں ۔ درست ڈرائیور کو رستہ نہ دیں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک اپنے حقوق کا روئيں ۔ دوسرے کا حق نہ پہچانيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک ہے آپا دھاپی ۔ ہر آدمی دوسرے پہ شاکی
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک اپنے کو پڑھا لکھا ۔ دوسرے کو جاہل جانيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک نظر نہ آئے اپنا شہتير ۔ دوسرے کی آنکھ کا تِنکا ناپيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک چرغے کا منہ چڑھائيں ۔ کے ايف سی کو بھاگے جائيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک کراچی حلوے کو حقير جانیں ۔ پِیزا مہنگا خرید کے لائیں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک کہیں چپل کباب بُرا ۔ ميکڈانلڈ پر رال ٹپکائیں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک چھوڑ کر سجّی ۔ بھاگے وِليج اور سب وے جائيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک بھول کے قومی مفاد ۔ کھوليں گے انفرادی محاذ
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک شرم و حياء کو بھُولیں ۔ لڑکا لڑکی برملا ناچيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی
جب تک چھوڑ ذاتی بکھيڑے ۔ سب پاکستانی نہ ہو جائيں
تبدیلی نہیں آئے گی ۔ تبدیلی نہیں آئے گی