سیاسی بصیرت کی ایک مثال

آج 23 مارچ ہے ۔ 74 سال قبل آج کی تاریخ ایک قرارداد لاہور کے اُس میدان میں پیش کی گئی تھی جہاں اب مینارِ پاکستان کھڑا ہے ۔ یہ قراداد پاکستان قائم ہونے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوئی ۔ اُس زمانہ کے سیاستدانوں کی کامیا بی کا سبب کیا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک کتاب
’’آزادی کی کہانی۔ میری زبانی‘‘ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں ۔ یہ کتاب تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر کی سوانح ہے جسے آغاز مسعود حسین نے تالیف کیا تھااور شاید 56۔1955ء میں شائع ہوئی

سردار عبدالرب نشتر قائد اعظم کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے وزیر تھے اور بعدازاں قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ کے رکن اور پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اعلیٰ پائے کے مقرر، مخلص لیڈر اور صاف ستھرے انسان تھے۔ اسی لئے قائد اعظم انہیں پسند کرتے تھے۔ ان چند اقتباسات ہی کا مطالعہ ایک ذی شعور انسان کو سردار صاحب مر حوم کی بصیرت ، دور رس نگاہ اور دردمندی کی داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے اور محسوس ہوتا جیسے موجودہ سیاستدان اور حکمران سردار صاحب کی قدآور شخصیت کے سامنے طفلان مکتب ہیں یا شاید طفلان مکتب بھی نہیں ۔ سردار صاحب نے جن خطرات کا اظہار 54/1953ء میں کیا تھا وہ بعد ازاں کس طرح صحیح اور سچ ثابت ہوئے اور ہماری کوتاہیوں نے کیا گل کھلائے

کتاب کے صفحہ نمبر 182 پرسردار صاحب فرماتے ہیں ”پاکستان میں ایک اور مرض قیام پاکستان کے بعد سے نمایاں ہوگیا ہے وہ تعصب کا مرض ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان گہرے تعصبات موجود ہیں حالانکہ تعصب خالصتاً ہندو مزاج ہے۔ پاکستان ایک ملت ہے اور ایک ملت میں لسانی یا مذہبی تعصبات نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان میں محرومی کااحساس بڑھ رہا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ بنگلہ زبان کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا لیکن ان کا یہ اعتراض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان اس لئے بنایا ہے کہ یہ دونوں بازوں کے درمیان رابطے کی اوربول چال کی زبان ہے۔ قائد اعظم نے نہ بنگلہ زبان کے استعمال اور لکھنے پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے نہ اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قیام پاکستان کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور انہیں شکایت ہے کہ مغربی پاکستان ان کا معاشی استحصال کررہا ہے۔ مغربی پاکستان کے رہنمائوں کو ان سے فراخدلانہ سلوک کرنا چاہئے اور ان کی شکایتوں کا ازالہ کرنا چاہئے ، ان کے دلوں اور ذہنوں سے یہ احساس ختم کردینا چاہئے اگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رہنما مل کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں سے ہر قسم کی مایوسیوں کو دور نہیں کرسکے تو ایک دن یہ خلیج طبعی اور جغرافیہ کی خلیج بن جائے گی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دونوں صوبوں کے درمیان محبتوں کے مضبوط پل تعمیر کریں تاکہ کوئی دشمن ہم دونوں کو جدا نہ کرسکے“۔

(یاد رہے کہ بنگالی مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان جبکہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ دستورساز اسمبلی کا تھا جسے بنگالی اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کرتے رہے اور حمایت کرتے رہے)

بدقسمتی سے سردار عبدالرب نشتر کی دردمندانہ تجاویز ، اندیشوں اور گزارشات پر عمل نہ کیا گیا اور پھر 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا

سردار صاحب مرحوم مزید فرماتے ہیں”مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں یعنی سرحد بلوچستان میں بھی معاشی ناہمواریوں کی شکایتیں پائی جاتی ہیں۔ ان صوبوں کے رہنمائوں کو پنجاب سے شکایت ہے کہ یہاں کی افسر شاہی چھوٹے صوبوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے کو تیار نہیں۔ اس صوبے (پنجاب) کا مزاج جاگیردارانہ ہے۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے رہنماؤں کو آپس میں مل بیٹھ کر ایک متحدہ معاشی و سیاسی پروگرام بنانا چاہیئے تاکہ وہ ایک طرف جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ملاپ کو کمزور کرسکیں تو دوسری طرف عوام کے اتحاد کو مضبوط بنائیں‘‘۔

جو نقشہ سردار صاحب نے ساٹھ برس قبل کھینچا تھا وہ صورتحال تقریباً آج بھی اسی طرح موجود ہے اور ہم مسلسل زوال اور انتشار کی راہ پر چل رہے ہیں۔ یوں تو سردار صاحب نے قومی زندگی کے سبھی شعبوں پر اظہار خیال کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن آخر میں میں آپ کو اس کہانی کا فقط ایک کردار اور ایک منظر دکھا رہا ہوں جو نہایت دردناک اور عبرت ناک ہے۔ اس منظر میں بیان کئے گئے سردار صاحب کے خدشات کس طرح حقیقت بنے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے ساتھی حالات کو سمجھنے ، بھانپنے اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے تھے کیونکہ وہ سیاستدان تھے، سیاسی جدوجہد نے ان کی سیاسی تربیت کی تھی، ان کے دل اقتدار اور دولت کی ہوس سے پاک تھے۔ یاد رکھئے کہ صرف وہ نگاہ دور رس ا ور دور بین ہوتی ہے جو ہر قسم کی ہوس سے پاک ہو، جس کے پیچھے روشن دماغ ہو اور خلوص نیت ہو

سردار صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ ”پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی فوج پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے ا ن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیا ہے لیکن اپنی آزادی اور خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ پاکستان کی فوج کو بھی چاہیئے کہ وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پڑوس میں بھارت ، افغانستان اور روس ہیں جن کے تعلقات روز اول ہی سے خراب ہیں۔ پاکستان کی فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے ……. مجھے شبہ ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ ایوب خان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نہیں چلا سکتے۔ ایوب خان کی یہ سوچ نادانی پر مبنی ہے ، اسے معلوم نہیں کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے محض پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان عوام نے اپنے خون سے حاصل کیا ہے……. میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی فوج نے کبھی بھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اسی دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ملک کے پیچیدہ معاملات فوجی افسر نہیں چلا سکتے۔ ان کی تربیت زندگی کی شاہراہ پر نہیں ہوتی، وہ ایک مخصوص ماحول میں سویلین سے دور اپنی ذہنی اور جسمانی تربیت حاصل کرتے ہیں …….جس دن فوج سیاست میں داخل ہوگئی، بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا، فوج عوام کی نظروں میں بدنام ہوجائے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوجائے گا……. میں تو اس تصوّر ہی سے ڈر جاتا ہوں کہ پاکستان کی فوج سیاست میں ملوث ہو………. فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاستدانوں کا کام نظریاتی و تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ………. اگر کسی ایک نے دونوں کام اپنے ذمے لے لئے تو پھر وہ دونوں کام انجام نہیں دے سکے گا “۔

سردار صاحب نے پنجاب کے جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی پر تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی یہ احساس محرومی آج بلوچستان میں استحکام پاکستان کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ سردار صاحب نے فوجی جرنیلوں کے جن عزائم پر اضطراب اور خوف کا اظہار کیا تھا وہ 1958ء میں حقیقت بن گئے اور ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے نہ ہی صرف فوجی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا بلکہ پاکستان کے ٹوٹنے کی بھی بنیاد رکھ دی ۔ آج تقریباً وہی صورتحال ہے جو سردار صاحب کی چشم تصور نے ساٹھ برس قبل دیکھی تھی اسے کہتے ہیں سیاسی بصیرت

This entry was posted in تاریخ, ذمہ دارياں, سیاست, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

6 thoughts on “سیاسی بصیرت کی ایک مثال

  1. Seema Aftab

    یہ ہوتے ہین اصل لیذر۔۔ افسوس اب خود کی سیاسی بصیرت تو دور کی بات ان جیسے رہنماوں کے نقش قدم پر چل کر بھی کچھ سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ہمارے یہ نام نہاد ساستدان۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک دھوکے باز۔

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    سیما آفتاب صاحبہ
    ایک حقیقت جس کا یہ مضمون احاطہ نہیں کرتا یہ ہے کہ جب غلام محمد نے پہلی منتخب کابینہ کو چلتا کیا تو یہ صاحبان خاموشی سے چلے گئے ۔ نہ کوئی احتجاج ہوا نہ جلسہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.