Monthly Archives: December 2013

جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو

ہمارے ہاں عام تاءثر یہی ہے کہ پڑھائی کی بنیاد اور عقل کی نشانی انگریزی ہے ۔ ایک سیاسی لیڈر نے زندگی کا بہتر حصہ ولائت میں گذارا تھا اور شادی بھی ولائتی گوری سے کر کے گویا سونے پر سوہاگہ مل دیا تھا ۔ اُس نے لاہور سونامی کو اپنا رہبر بنایا ۔ اس کی چکا چوند نے بہت لوگوں کی نظروں کو خیرا کر دیا ۔ عوام پیچھ چل پڑی ۔ ہر طرف بالخصوص فیس بُک پر خان خان بلا بلا ہونے لگا ۔ لیڈر صاحب بھی موج میں آ کر سمجھ بیٹھے بلکہ اعلان کر بیٹھے کی پاکستان کا اگلا وزیرِ اعظم وہی ہوں گے ۔ جب انتخابات ہوئے تو سارے خواب چکنا چور ہو گئے

وزارتِ عُظمٰی ہاتھ سے گئی تو احتجاج کا دامن ایسا پکڑا کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتے ۔ ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں افغانستان کو جانے والے ٹرکوں کے راستہ میں صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک دھرنا دیتے ہیں جسے چِلّہ ہونے کو ہے ۔ سُنا ہے کہ باقی راستوں سے تو ٹرک معمول کے مطابق جا رہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں سے بھی رات کے وقت جاتے ہیں ۔ خیبر پختون خواہ کے وزیرِ اعلٰی صاحب نہیں جانتے کہ وزیرِ اعلٰی وفاق کا نمائیندہ اور وفاق کے ماتحت ہوتا ہے اور اس لحاظ سے وہ آئین کی خلاف ورزی کے مُرتکب ہو رہے ہیں

لیڈر صاحب جس جمِ غفیر کو لے کر چلے تھے سمجھتے رہے کہ شاید اُن سب کی ڈور انہی کے ہاتھ میں ہے ۔ سینہ تان کے آگے آگے چلتے رہے اور لوگ اپنے اپنے دھندوں کی طرف رخصت ہوتے رہے ۔ سُنا تھا کہ ”اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے“۔ لیکن شاید یہ ضرب المثل ولائت میں نہیں پڑھائی جاتی اسلئے لیڈر صاحب کے عِلم میں نہ تھی ۔ ترنگ میں مہنگائی کے خلاف دُشمن کے گڑھ لاہور میں جلوس جلسہ کی ٹھان لی ۔ جب سردی سے کچھ زیادہ ہی سُکڑا ہوا جلسہ دیکھا تو جوش میں کہہ دیا ”خیبر پختونخوا کی بجلی سپلائی کی کمپنی خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کر دی جائے تو ہم سب ٹھیک کر دیں گے“۔ بُرا ہو میڈیا کا کہ جھٹ پٹ بات دشمن کو پہنچا دی ۔ بجلی اور پانی کے وزیر کا جواب آیا ”بصد شوق لیجئے“۔ 29 دسمبر کو وزیرِ اعظم نے بھی اس کی منظوری دے دی

اب لیڈر صاحب کے چیلے کہتے پھر رہے ہیں کہ خان صاحب نے تو کہا تھا کہ بجلی کی پیداوار کا محکمہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے حوالے کیا جائے ۔ وزیرِ اعلٰی خیبر پختونخوا نے فرما دیا ہے ”وزیرِ اعظم ہمارے ساتھ مذاق نہ کریں ۔ یہ تو پہلے ہی آئین کی اٹھارہویں ترمیم کے مطابق ہمارا حق ہے ۔ ہمیں جنریشن اور ڈسٹریبیوشن بھی دی جائے“۔ محترم نے شاید آئین کا مطالعہ کرنے کی تکلیف گوارہ نہیں کی ۔ اٹھارویں ترمیم کے مطابق وفاق کسی صوبے کو اپنے کوئی اختیارات تفویض کر سکتا ہے ۔ یہ نہیں لکھا کہ بجلی کمپنی صوبے کو دے دی گئی ۔ خیر ۔ وہ جو چاہے کہتے رہیں بادشاہ ہیں ۔ بلاول بھی تو بہت کچھ کہتا ہے

مگر میں اس سوچ میں پڑا ہوں کہ اگر بجلی اور پانی کے وزیر نے کہہ دیا ”وہ بھی لے لیجئے“ تو لیڈر صاحب پھر کیا کریں گے ؟ میں ڈر رہا ہوں کہ کہیں لیڈر صاحب اپنے دل کی بات کہہ اُٹھے کہ ”وزارتِ عظمٰی مجھے دے دیں تو میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا“۔
اگر خدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ ملک نہ تو پاکستان کی کرکٹ ٹیم ہے جو کبھی کپتان اور کبھی پی سی بی کے رحم و کرم پر ہوتی ہے اور نہ لوگوں کی زکٰوۃ اور خیرات پر چلنے والا شوکت خانم میموریل ہسپتال
کہیں ملک کو چلاتے چلاتے خدا نخواستہ چلتا ہی نہ کر دیں

جَل تُو جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو

ملک کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کی سازش کا انکشاف

پاکستان کو اسلامی نظریہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بابائے قوم محمد علی جناح کی جانب سے معاشرے کو مُلک کے نظریئے کے مطابق اسلامی بنانے کی خاطر تشکیل دیئے گئے محکمہ برائے اسلامی تنظیم نو (ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن) کو بابائے قوم کے انتقال کے فوراً بعد بند اور اس کا ریکارڈ ضائع کردیا گیا تھا

پنجاب کے سیکریٹری آرکائیوز نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لئے احکامات دیئے تھے جس کا واحد مقصد مُلک کی کمیونٹی کی اسلامی تعلیمات کے مطابق تنظیم نو کرنا تھا لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد ہی اس محکمہ کو بند کردیا گیا تھا۔ سیکریٹری آرکائیوز () اوریا مقبول جان نے کہا کہ وہ جلد ہی مُلک کی اعلیٰ قیادت کو پاکستان کے خلاف اس سنگین سازش سے آگاہ کریں گے

سرکاری دستاویز میں اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں وہ یہ ہیں ۔
اسلامی تعلیمی نظام
اسلامی قانون اور معاشرتی تنظیم نو
اسلامی معیشت
شہری اخلاق
یہ وہ چار شعبہ جات تھے جو قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی معاشرے کے قیام کے لئے طے کئے گئے تھے۔ سیکریٹری اوریا مقبول جان نے کہا کہ اس ڈپارٹمنٹ کا سربراہ علامہ محمد اسد کو بنایا گیا تھا لیکن قائد اعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفراللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کردیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دیدی۔ اوریا مقبول جان نے بتایا کہ علامہ اسد کے جانے کے بعد ڈپارٹمنٹ کو بھی ختم کردیا گیا۔ بعد میں 1948ء میں پُراسرار انداز سے محکمہ کی عمارت میں آگ لگ گئی اور پورا ریکارڈ تباہ ہوگیا۔ اوریا نے کہا کہ یہ ملک کو قائد اعظم کی بصیرت کے مطابق اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے خلاف ایک سازش تھی

انہوں نے مزید بتایا کہ اپنی سوانح عمری ”یورپی بدو“ میں علامہ محمد اسد نے لکھا تھا کہ کس طرح اچانک ان کا ملازمت سے تبادلہ کیا گیا۔ علامہ اسد نے بھی سازش کے متعلق باتیں لکھی ہیں۔ سیکریٹری آرکائیوز اوریا مقبول کی جانب سے دی نیوز کو دی جانے والی سرکاری دستاویز کی نقل کے مطابق اس محکمہ کے جو اغراض و مقاصد بتائے گئے ہیں ان میں لکھا ہے کہ کئی قربانیوں اور غیر معمولی مشکلات کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظم چاہتے تھے کہ ملک کو اسلامی طریقہ کار کے مطابق چلایا جائے اور وہ پاکستان کے قیام کو سفر کا اختتام نہیں سمجھتے تھے۔ دستاویز میں لکھا ہے کہ ”پاکستان کے متعلق کہا گیا کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کے قیام کو نہیں روک سکتی اور ایسا ہوا بھی لیکن کئی مشکلات اور مسائل کے خاتمے کے لئے ابھی بہت کوشش کرنا باقی ہے اور اس کے لئے ہمیں اپنے نظریہ کی ریاست قائم کرنا ہوگی یعنی کہ ایک ایسی ریاست بنائیں گے جہاں اسلامی اصولوں کے تحت نظام حکومت تشکیل دیا جائے گا۔ کئی برسوں کی غلامی اور رسوائی کے بعد یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ اسی وجہ سے ہماری طاقت اور سماجی سطح پر حوصلہ کمزور ہوا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے حصول کے لئے ہماری جدوجہد کا محور نظریاتی پلیٹ فارم رہا ہے۔ ہم یہ کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ ہم اسلامی استقامت کی وجہ سے بحیثیت مسلم ایک قوم ہیں، ہمارے لئے مذہب صرف ایک عقیدہ یا اخلاقی قواعد نہیں ہے بلکہ عملی رویہ کا ایک مجموعہ قانون بھی ہے۔ تقریباً تمام دیگر مذاہب کے برعکس، اسلام کا تعلق صرف روحانیت سے نہیں بلکہ یہ ہماری طبعی زندگی کو بھی ترتیب دینے کے لئے ہے۔ قرآن میں بتائی گئی اسکیم کے مطابق اور حضور پاکﷺ کی زندگی کی مثال سے انسانی بقاء کے تمام پہلوئوں کو زیر غور رکھا جاتا ہے جسے ہم انسانی زندگی کہتے ہیں۔ لہٰذا ہم صرف اسلامی عقائد کو اپنے پاس رکھ کر اسلامی زندگی نہیں گزار سکتے۔ ہمیں اس سے کہیں زیادہ کرنا ہوگا۔ اسلام کے تحت ہمیں رویہ، انفرادیت، سماجی رکھ رکھاؤ کو بھی اسی انداز میں ڈھالنا ہوگا“۔

ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی دستاویزات میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی راہ میں ممکنہ رکاوٹوں کا بھی ذکر موجود ہے اور خبردار کیا گیا ہے کہ یقیناً، خالصتاً ثقافتی اور نسلی بنیادوں پر قوم پرستی کے نظریات پر عمل پیرا دنیا کے درمیان نظریاتی ریاست کا تصور بالکل منفرد ہے تو ایسے ماحول میں جہاں پوری دنیا ایسے ممالک کو جدید اور پسندیدہ کہتی ہے ایسے میں زبرست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہمارے دور کے لوگوں کی اکثریت نسلی وابستگی اور تاریخی روایات کو قومیت کی واحد قانونی حیثیت کے طور پر دیکھتے آئے ہیں۔ دوسری جانب ہم نظریاتی کمیونٹی، ایک ایسی کمیونٹی جس میں لوگوں کی زندگی کے متعلق ایک طے شدہ رائے ہو اور اس میں اخلاقی اقدار پائی جاتی ہوں، کو قومیت کی اعلیٰ ترین قسم سمجھتے ہیں جس کی انسان خواہش کرسکتا ہے۔ ہم یہ دعوٰی صرف اس لئے نہیں کرتے کہ ہم یہ بات باور کرچکے ہیں کہ ہمارا مخصوص نظریہ ”اسلام“ براہِ راست خدا کی طرف سے ہے بلکہ اسلئے بھی کہ ہماری منطق ہمیں بتاتی ہے کہ ایک حادثے یا پھر رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر یا پھر جغرافیائی محل و وقوع کی بنیاد پر قائم ہونے والی کمیونٹی کے برعکس مشترکہ طور پر ایک نظریہ پر عمل کرنے والی ایک کمیونٹی انسانی زندگی کا ایک بہترین اظہار ہے

دستاویز میں مزید لکھا ہے کہ ہماری قوم اس وقت تک مسلم ملت کہلائے جانے کے لئے متحد نہیں ہوسکتی جب تک شرمناک بوکھلاہٹ اور بد دلی، سماجی تانے بانے کے نقصان، اخلاقی کرپشن پر قابو نہیں پا لیتے۔ اور یہی وجہ مقام ہے جہاں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن اپنا کام دکھائے گا۔ اس کے بعد اس دستاویز میں ڈپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن کی جانب سے جس منصوبے
پر عمل کرنا ہے اس کا ذکر کیا گیا ہے

تحریر ۔ انصار عباسی

قائد اعظم پر تہمت

آج 25 دسمبر ہے ۔ اس دن معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آج سے 137 سال قبل کراچی میں پیدا ہوئے تھے ۔ گو اس موضوع پر میں بہت پہلے بھی لکھ چکا لیکن آج خیال آیا کہ قائد اعظم کے اس خطاب کے اس حصہ کی مزید وضاحت کی جائے جسے بنیاد بنا کر اپنے آپ کو روشن خیال اور عالِم سمجھنے والے کچھ لوگ عرصہ ایک دہائی سے قائد اعظم پر تہمت لگاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان کو ایک لادینی (Secular) ریاست بنایا تھا

کسی نے صرف دس جماعتیں ہی پڑھی ہیں تو یہ کہانی ضرور پڑھی یا سُنی ہو گی کہ کسی زمانہ میں بندرگاہ پر تعینات ایک اہلکار رشوت لئے بغیر کسی جہاز کو لنگر انداز نہیں ہونے دیتا تھا ۔ ایک جہاز کے کپتان نے انکار کیا اور اپنا اہلکارا بادشاہ کے پاس بھیج دیا ۔ بادشاہ نے لکھ کر دیا ” روکو مت آنے دو “۔ اُس اہلکار نے پڑھا تو کہنے لگا ” دیکھو ۔ لکھا ہے روکو ۔ مت آنے دو“۔اِن پڑھے لکھے روشن خیال ہموطنوں کا استدلال بھی کچھ اسی طرح ہے

پاکستان کی پہلی اسمبلی سے قائد اعظم کے پہلے خطاب (11 اگست 1947ء) کا متعلقہ حصہ من و عن نقل کر رہا ہوں ۔ اسے غور سے پڑھ کر دیکھیئے کہ اس میں پاکستان لادینی ریاست ہونا کہاں سے آ گیا ؟ مکمل تقریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور آخر میں قائد اعظم کا واضح بیان بھی پڑھ لیجئے

Para 6. I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record its verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that it was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

Para 7. I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Para 8. Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

پاکستان کا نظام حکومت ۔ قائداعظم

سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیادی وجہ

سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا

اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں ،کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش علاقائی آزادی کی تحریکیں اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں،

اسی طرح کی صورتحال بہت سے نوآزاد یا ترقی پذیر ممالک کے علاوہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی وفاقی یا مرکزی حکومت پر بے انصافی کے الزامات لگے رہتے ہیں، بہت سے نو آزاد ممالک کے صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوامل کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بناء پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے اور نہ ہی آزاد۔ سکھوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہندوستان نے اسے کچل کر رکھ دیا مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ تو ڑے جارہےہیں پھر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟

ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا،مشرقی پاکستان آبادی میں 56 فیصد تھا اس لئے جمہوری اصولوں کی روشنی میں پیرٹی یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔
یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں پیرٹی پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالیہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں جذبات کی رومیں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر 1954ء میں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کرکے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی

اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی تفصیل میری کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں موجود ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے پروگراموں میں1956ء کے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ1956ء کا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گُرو بھی تھے

دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ (After thought) ہیں، اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا پھرتو یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لاء اور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود وہ اقتدار حاصل کرسکیں گے لیکن ایوبی مارشل لاء نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلادیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، پھر ایوبی مارشل لاء کی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔’’پاکستان سے بنگلہ دیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے1969ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے ۔ شیخ مجیب الرحمن جب 1972ء میں رہائی پاکر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کررہا تھا

16 نومبر2009ء کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی۔ حسینہ واجد کا بیان عینی شاہد کا بیان ہے۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب 1956ء کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کردیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اور ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کے لئے مجیب الرحمن سے ساز باز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوس اقتدار کے تحت کئے گئے تھے

یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کے لئے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی ،چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو بہت کمزور کردیا تھا

16 دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ”وہ بنیادی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دو تہائی بارڈر کا مشترک ہونا“۔

فرض کیجئے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور سیاسی مدد ملتی، اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا، ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کرکے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا، آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی کردار کشی کرتا، روس جیسی سپر پاور کو اندرونی معاملے میں شا مل کرتا اور روس سے بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا کیا وہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی لئے سولہ دسمبر 1971ء کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا

بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں جن کا جتنا بھی ماتم کیا جائےکم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھیئے اسے آئندہ بھی موقع ملا تو باز نہیں آئے گا ۔ یہ بھی یقین رکھیئے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹے ہیں۔ میں ہمسایہ ممالک بشمول ہندوستان سے اچھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے حق میں ہوں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امن ہماری ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ کو بھلادیا جائے کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں فراموش کردیتا ہے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ ہونی

جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کے رہتا ہے
اُسی وقت جب اُس نے ہونا ہوتا ہے
اور اُسی طرح جس طرح ہونا ہوتا ہے

اس پر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا
البتہ پریشان ہونے سے نقصان ہو سکتا ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Drone Summit

میری کہانی ۔ مالیات

والد صاحب نے1948ء میں راولپنڈی فائر کلے برکس (Fire clay bricks) کا ایک کارخانہ لگایا ۔ جموں کشمیر کے مہاجر ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی شہریت حاصل نہ تھی چنانچہ کارخانہ کیلئے زمین 25 فیصد منافع کا حصہ دار بنانے کی شرط پر ایک مقامی شخص کی استعمال کی گئی ۔ والد صاحب نے پاکستان بننے سے کچھ قبل یورپ میں اس کام کا مطالعہ اور عملی مشاہدہ کیا تھا ۔ ان اینٹوں کیلئے پاکستان میں مٹی کی تلاش کی اور مختلف علاقوں سے نمونے لے کر جرمنی بھیجے جن میں سے داؤد خیل کا نمونہ سب سے اچھا پایا گیا ۔ اواخر 1949ء میں پیداوار شروع ہوئی تو پاکستان میں پہلی ہونے کے باعث بہت سے آرڈر ملنے شروع ہو گئے جس نے زمین کے مالک کو چُندیا دیا اور اُس نے منافع میں 50 فیصد کا مطالبہ کر دیا ۔ ایسا نہ ہونے پر اپنی زمین سے کارخانہ اُٹھانے کا نوٹس دے دیا ۔ والد صاحب کا منیجر نمعلوم کیوں اُن کے ساتھ مل گیا اور تمام دستاویزات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ چنانچہ والد صاحب کو کارخانہ چھوڑنا پڑا ۔ منہ کے بل تو پاکستان بننے پر گرے تھے لیکن اُٹھنے کے بعد پاکستان میں ہمیں پہلی زوردار ٹھوکر یہ لگی

والد صاحب نے 1950ء کے شروع میں ایک دکان کرایہ پر لی اور کار و بار شروع کیا ۔ وہ صبح پونے 8 بجے گھر سے جاتے اور شام 7 بجے لوٹتے ۔ جمعہ کو چھٹی ہوتی مگر ہر ماہ 2 بار جمعرات کی رات لاہور مال لینے جاتے اور جمعہ کی رات کو واپس پہنچتے ۔ یکم اپریل 1950ء کو والد صاحب نے مجھے 500 روپے دے کر کہا کہ ”پورے ماہ کا خرچ ہے ۔ اگر مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم کر دو گے تو باقی دن بھوکے رہیں گے اور اگر کچھ بچا لو گے تو اگلے ماہ بہتر کھا لیں گے”۔ میری اصلی عمر اُس وقت ساڑھے 12 سال تھی (سرکاری ساڑھے 11 سال) اور میں ساتویں جماعت کے بعد آٹھویں میں بیٹھا ہی تھا ۔ یہ رقم کھانے پینے کی و دیگر اشیاء ضروریہ ۔ جلانے کی لکڑی ۔ بجلی اور پانی کا بل ۔ سکول کی فیسیں ۔ کتابیں ۔ کاپیاں وغیرہ سب کیلئے تھی

چھوٹا موٹا سودا تو پہلے بھی میں لاتا رہتا تھا لیکن اب پورا سودا لانا میرے ذمہ ہو گیا ۔ میں ہفتہ میں تین چار بار سبزیاں راجہ بازار کے بازو والی سبزی منڈی سے اور پھل گنج منڈی کے اُس سرے سے لاتا جو رتہ امرال کی طرف ہے ۔ دالگراں بازار سے چاول اور دالیں مہینہ میں ایک بار لاتا ۔ 4 سال یہ سب کام پیدل ہی کرتا رہا

اپریل 1950ء میں 2 بہنیں مجھ سے بڑی اور چھوٹے 2 بھائی اور ایک بہن تھے جبکہ اپریل 1953ء تک چھوٹی 2 بہنیں اور 3 بھائی ہو گئے تھے ۔ کہا گیا کہ ایک بڑی بہن ۔ ایک چھوٹی بہن اور 2 چھوٹے بھائیوں کو جیب خرچ دیا کروں جو میں نے دینا شروع کر دیا ۔ ایک دن کوئی چیز خریدنے کو میرا دل چاہا تو رات کو والد صاحب سے پوچھا ”میں بھی جیب خرچ لے لوں ؟“ جواب ملا ”سارے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں ۔ خود کھاؤ یا گھر کا خرچ چلاؤ ۔ تمہاری مرضی“۔ اکتوبر 1956ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور چلے جانے پر میری یہ ذمہ داری تو ختم ہو گئی لیکن یکم اپریل 1950ء کے بعد ساری عمر مجھے جیب خرچ نہ کبھی ملا اور نہ پھر مانگنے کی جراءت ہوئی

دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع ہوئی تو چھوٹے بہنوں بھائیوں کی تعلیم کا خرچ میرے ذمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اُن کی شادیوں کے اخراجات میں والد صاحب کی مدد بھی لازم تھی ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی ۔ جنوری 1968ء میں والدین کی ھدائت پر میں بیوی کو لے کر واہ چھاؤنی میں سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہو گیا ۔ 7 دسمبر 1970ء کو جس دن پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے اللہ کریم نے مجھے بیٹا (زکریا) عطا کیا ۔ فروری 1975ء ختم ہونے تک اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں کا باپ بنا دیا تھا

مئی 1976ء میں مجھے حکومت نے لبیا بھیج دیا جہاں سے یکم فروری 1983ء کو واپسی ہوئی ۔ درمیان میں ہر 2 سال بعد 2 ماہ کی چھٹی گذارنے راولپنڈی آتے رہے ۔ 29 جون 1980ء کو والدہ محترمہ اچانک فوت ہو گئیں تو میں اکیلا ہی آ سکا ۔ 1982ء میں ہم راولپنڈی آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے کہا ”اب تم مجھے کوئی پیسہ نہ بھیجنا”۔ لیکن یہ ذمہ داری اکتوبر 1984ء میں ختم ہوئی جب میں دوبارہ واہ چھاؤنی میں رہائش پذیر ہوا

میں نے واہ میں سرکاری رہائشگاہ والد صاحب کے اصرار پر لی کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری سب سے چھوٹی بہن راولپنڈی سیٹیلائٹ ٹاؤن والے مکان میں رہے ۔ میں والد صاحب کو ساتھ واہ لیجانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ والد صاحب پر 1987ء میں فالج کا حملہ ہوا تو میں اپنی سب سے بڑی بہن کی مدد سے اُنہیں اپنے پاس واہ چھاؤنی لے گیا ۔ گھر میں والد صاحب کی خدمت کیلئے وقت اور محنت درکار تھی ۔ دفتر میں ایک محکمہ کا سربراہ ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ عیاریوں اور منافقتوں کا ماحول تھا ۔ میں نے باپ کی خدمت کو درست جانتے ہوئے قوانین کے مطابق 1990ء میں یکم مارچ 1991ء سے سوا سال کی چھٹی کے ساتھ 3 اگست 1992ء سے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی ۔ والد صاحب کو علاج کیلئے کبھی ہفتہ کبھی 2 ہفتے بعد اسلام آباد لانا پڑتا تھا جس سے والد صاحب بہت تھک جاتے تھے ۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو جو سرجن ہے اور اُن دنوں انگلستان میں تھا کہا کہ واپس آ جائے اور اسلام آباد اپنے مکان میں رہ کر والد صاحب کو اپنے پاس رکھے ۔ وہ 1990ء میں آ گیا اور میں نے والد صاحب کو اُس کے پاس چھوڑ دیا ۔ جون 1991ء کے آخر میں چھوٹا بھائی اپنا سامان لینے انگلستان گیا تو میں والد صاحب کو پھر اپنے پاس واہ لے گیا ۔ 2 جولائی کو والد صاحب اچانک فوت ہو گئے

اللہ کی کرم نوازی ہمیشہ شامل حال رہی اور میرا دل یا پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے ۔ اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بے حساب نوازشات کرتا ہے

دل کا داغ جو مٹ نہ سکا

کچھ اصحاب کی خواہش پوری کرتے ہوئے میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

سانحہ مشرقی پاکستان 1971ء کے متعلق جو اعداد و شمار اور واقعات ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پھیلائے گئے ہیں وہ اتنے غلط ہیں کہ جتنا زیادہ کوئی جھوٹ بول سکے ۔ درست اعداد و شمار قارئین تک پہنچانے کیلئے میں اپنے ذہن کو مجتمع کرنے کی تگ و دو میں تھا کہ ایسے ایسے مضامین نظر سے گذرے اور ٹی وی پروگرام و مذاکرے دیکھنے کو ملے کہ ذہن پریشان ہو کر رہ گیا

ہمارا ملک پاکستان معرضِ وجود میں آنے کے بعد صرف ایک نسل گذرنے پر صورتِ حال کچھ ایسی ہونا شروع ہوئی کہ میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ”کیا آزادی اس قوم کو راس نہیں آئی جو ہر دم اور ہر طور اس سلطنتِ خدا داد کے بخیئے اُدھیڑنے کے در پئے رہتی ہے“۔ اب تو حال یہاں تک پہنچا ہے کہ بھارت کو بہترین دوست اور شیخ مجیب الرحمٰن کو محبِ پاکستان ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے

میں ذاتی معلومات پر مبنی واقعات پہلے لکھ چکا ہوں جو مندرجہ ذیل موضوعات پر باری باری کلک کر کے پڑھے جا سکتے ہیں ۔ آج صرف اعداد و شمار پیش کر رہا ہوں
بھولے بسرے واقعات ۔ پہلا سوال
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات
سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

مارچ سے دسمبر 1971ء تک مشرقی پاکستان میں جو ہلاکتیں ہوئیں اور ان کے اسباب کے متعلق غلط اور انتہائی مبالغہ آمیز اعداد و شمار زبان زد عام رہے ہیں ۔ پچھلی 4 دہائیوں میں غیر جانب دار لوگوں کی تحریر کردہ کُتب اور دستاویزات سامنے آ چکی ہیں ۔ جن کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے

شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے حواریوں کا پروپیگنڈہ تھا کہ فوج نے 30 لاکھ بنگالیوں کو ہلاک کیا ۔ فوجی کاروائی ڈھاکہ اور اس کے گرد و نواح میں 26 مارچ 1971ء کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر 1971ء کو پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیئے ۔ چنانچہ یہ ہلاکتیں 265 دنوں میں ہوئیں ۔ اس طرح ہر ماہ 339630 یا ہر روز 11321 بنگالی ہلاک کئے گئے ۔ ایک سرسری نظر ہی اس استلال کو انتہائی مبالغہ آمیز یا جھوٹ قرار دینے کیلئے کافی ہے

حمود الرحمٰن کمیشن کو فوج کے نمائندہ نے بتایا تھا کہ فوجی کاروائی کے دوران 26000 بنگالی ہلاک ہوئے لیکن کمیشن نے اس تعداد کو بہت مبالغہ آمیز قرار دیا تھا

شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں لکھا

“The three million deaths figure is so gross as to be absurd … [it] appears nothing more than a gigantic rumour. The need for ‘millions’ dead appears to have become part of a morbid competition with six million Jews to obtain the attention and sympathy of the international community.”

(ترجمہ ۔ تین ملین کا ہندسہ اتنا بھاری ہے کہ سرِ دست لغو لگتا ہے ۔ ۔ ۔ یہ ایک قوی ہیکل افواہ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ملینز کی تعداد چھ ملین یہودیوں کے ہمعصر ہونے کی ایک بھونڈی کوشش لگتی ہے تاکہ بین الاقوامی توجہ اور ہمدردی حاصل کی جا سکے)

مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے لوگوں میں پنجابی ۔ پٹھان ۔ کشمیری ۔ سندھی ۔ بلوچ اور اُردو بولنے والے شامل تھے ۔ ان میں سرکاری محکموں ۔ سکولوں ۔ کالجوں ۔ بنکوں اور دیگر اداروں کے ملازم ۔ تاجر ۔ کارخانہ دار اور مزدور شامل تھے ۔ ان کارخانہ داروں میں سہگل ۔ آدم جی ۔ بھوانی اور اصفہانی قابلِ ذکر ہیں ۔ بھارت کی تشکیل کردہ اور پروردہ مُکتی باہنی والے مشرقی پاکستان میں موجود مغربی پاکستان کے تمام لوگوں کو پنجابی کہتے تھے اور یہی تخلص زبان زدِ عام ہوا

جونہی فوجی کاروائی شروع ہوئی مُکتی باہنی اور اس کے حواریوں نے غیر بنگالیوں کی املاک کی لوٹ مار اور نہتے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیاتی اور قتلِ عام شروع کر دیا ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں مغربی پاکستان کے ذرائع یا اس سے بے خبر تھے یا بیہوش پڑے تھے

یہ حقیقت بھی بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن اور اس کے نائبین پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے کہ جمعہ 26 مارچ 1971ء کی صبح منظم مسلح بغاوت شروع کر دی جائے گی ۔ اس تیاری کیلئے بہت پہلے سے ڈھاکہ یونیورسٹی کو مکتی باہنی کا تربیتی مرکز بنایا جا چکا تھا

فوجی کاروائی 26 مارچ کو شروع ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی نے یکم سے 25 مارچ تک ہزاروں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے لوگ ہلاک کئے ۔ مُکتی باہنی کے ہاتھوں قتل و غارت کے غیر ملکی ذرائع کے شائع کردہ محتاط اعداد و شمار بھی رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں
بین الاقوامی ذرائع کے مطابق 200000 تک مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
امریکی کونسل کے مطابق 66000 مغربی پاکستانی ڈھاکہ اور گرد و نواح میں ہلاک کئے گئے
خود بنگالی ذرائع نے ڈھاکہ اور گرد و نواح میں 30000 سے 40000 مغربی پاکستانی ہلاک ہونے کا اعتراف کیا تھا
شروع مارچ 1971ء میں صرف بوگرہ میں 15000 مغربی پاکستانیوں کو ہلاک کیا گیا
وسط مارچ کے بعد چٹاگانگ میں 10000 سے 12000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
جیسور میں 29 اور 30 مارچ کو 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
دیناج پور میں 28 مارچ سے یکم اپریل تک 5000 مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
میمن سنگھ میں 17 اپریل سے 20 اپریل تک 5000 کے قریب مغربی پاکستانی ہلاک کئے گئے
اس کے بعد مکتی باہنی نے قتل و غارتگری کا بازار پوری شدت کے ساتھ گرم کیا ۔ اس طرح کہ اعداد و شمار بتانے والا بھی کوئی نہ رہا

پاکستان کے فوجیوں کی تعداد جو زبان زدِ عام ہے صریح افواہ کے سوا کچھ نہیں ۔ جن 93000 قیدیوں کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں فوجیوں کے علاوہ پولیس ۔ سویلین سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ۔ تاجر ۔ عام مزدور ۔ دکاندار وغیرہ اور ان سب کے خاندان عورتوں اور بچوں سمیت شامل تھے ۔ ان قیدیوں میں درجنوں میرے ساتھی یعنی پاکستان آرڈننس فیکٹریز واہ کینٹ کے سویلین ملازمین اور ان کے اہلَ خانہ بھی تھے جنہیں 6 ماہ سے 3 سال کیلئے پاکستان آرڈننس فیکٹری غازی پور (ڈھاکہ) میں مشینیں سَیٹ کرنے اور مقامی لوگوں کی تربیت کیلئے بھیجا گیا تھا
کچھ اصحاب کے کی خواہش پر میں اپنی 21 دسمبر 2012ء کی تحریر دہرا رہا ہوں

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی تعداد 20000 تھی جن میں پولیس ۔ میڈیکل اور دوسری نہ لڑنے والی نفری ملا کر کل تعداد 34000 بنتی تھی ۔ یہ پاکستانی فوج 9 ماہ سے مکتی باہنی کے 100000 جنگجوؤں سے گوریلا جنگ لڑتے لڑتے بے حال ہو چکی تھی ۔ ایسے وقت میں بھارت کی ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس 3 ڈویژن تازہ دم فوج سے مقابلہ کرنا پڑا ۔ پاکستانی فوج کی ہلاکتیں 4000 کے قریب ہوئیں ۔ بقول بھارتی لیفٹننٹ جنرل جے ایف آر جیکب بھارتی فوج کی ہلاکتیں 1477 اور زخمی 4000 ہوئے تھے

شیخ مجیب الرحمٰن کو اس کے خاندان سمیت 15 اگست 1975ء کو ہلاک کر دیا گیا ۔ ہلاک کرنے والے بنگلا دیش ہی کے فوجی تھے جو نہ پنجابی تھے نہ بہاری ۔ صرف ایک بیٹی حسینہ بچی جو ملک سے باہر تھی

مشرقی پاکستان شیخ مجیب الرحمٰن اور بھارت کی تیار کردہ مکتی باہنی کو پذیرائی نہ ملتی اگر حکومتِ پاکستان نے مشرقی پاکستان کی معیشت و معاشرت کی طرف توجہ دی ہوتی اور بے لگام بیورو کریسی کو لگام دے کر اُن کے فرض (عوام کی بہبود) کی طرف متوجہ کیا ہوتا ۔ پچھلے کم از کم 5 سال میں جو ملک کا حال ہے ۔ دل بہت پریشان ہے کہ کیا ہو گا ۔ اللہ محبِ وطن پاکستانیوں پر اپنا کرم فرمائے اور اس ملک کو محفوظ بنائے

مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کی بڑی تعداد اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتی تھی جس کے نتیجہ میں مغربی پاکستانیوں کے ساتھ وہ بھی مکتی باہنی کا نشانہ بنے ۔ نہ صرف یہ بلکہ بنگلا دیش بننے کے بعد جن لوگوں نے وحدتِ پاکستان کے حق میں آواز اٹھائی تھی انہیں طرح طرح سے تنگ کیا گیا اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے ۔ بہاریوں کو نہ شہریت دی اور نہ مہاجرین کا درجہ ۔ وہ ابھی تک کس مپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ جماعتِ اسلامی کے دلاور حسین سیّدی سمیت 6 لیڈر ابھی بھی بغاوت کے مقدمات بھگت رہے ہیں

یہ حقیقت ہے کہ اب بھی بنگلا دیش کے عوام کی اکثریت کے دل پاکستانی ہیں ۔ اس کا ایک ادنٰی سا مظاہرہ اس وقت ہوتا ہے جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں مدِ مقابل ہوتی ہیں ۔ بنگلا دیش کے عوام جوش و خروش کے ساتھ پاکستانی ٹیم کے حق میں بول رہے ہوتے ہیں