Monthly Archives: September 2013

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بھلائی

اگر تم سے کوئی بھلائی کی اُمید رکھے
تو اسے مایوس مت کرو

کیونکہ

لوگوں کی ضرورت کا تم سے وابستہ ہونا
تم پر اللہ کا خاص کرم ہے

قول علی رضی اللہ عنہ

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”پانچ چیزیں جو پاکستان میں درست چل رہی ہیں

مخلوق ۔ 1 ۔ پرندے

فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

‏” تم اپنے پروردگار کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟“
سچ فرمایا اللہ عظیم و سُبحانُہُ و تعالیٰ نے

میرے خالق و مالک ۔ جدھر دیکھتا ہوں جو دیکھتا ہوں تیری ہی نعمتیں ہیں ہر طرف
چند جھلکیاں پرندوں کی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ کیا مُشکل ؟

بااختیار عہدہ چھوڑنا اس سے بہت زیادہ مشکل ہے
کہ
اس دنیا کو مع اس کی لذتوں کے چھوڑ دیا جائے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”امریکا کی انسانیت اور جمہوریت کے نام پر مہمات کے پس پردہ کیا عزائم ہیں

امداد کی درخواست

اسلام آباد میں رہائشی ایک بچی کی جان بچانے کیلئے اس کا جگر تبدیل ہونا ضروری ہے ۔ ایک ڈونر تو تیار ہے لیکن آپریشن کے اخراجات 55000 ڈالر بتائے گئے ہیں جو کہ بچی کا خاندان اکٹھے نہیں کر سکتا

ان کی امداد کے کارِ ثواب میں حصہ کی خواہشمند خواتین اور حضرات اس تحریر پر تبصرہ کی صورت میں یا بذریعہ ای میل مطلع کریں تو انہیں بذریعہ ای میل بچی کی والدہ کا بنک اکاؤنٹ نمبر اور دیگر کوائف بھیج دیئے جائیں گے

مطلع اس ای میل ایڈریس پر کیجئے ajmalbhopal@hotmail.com

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں ستمبر 1965ء سے دسمبر 1971ء کے اپنے تجربوں کو ؟

ستمبر 1965ء
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب لاہوريئے پلاؤ کی ديگيں پکوا کر محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا اور بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں تھیں
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا ”آپ کا جو کام ہے وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں“۔
خطرے کا سائرن بجنے پر کارکن ورکشاپوں سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے اندر جا کر اُنہیں باہر نکلنے کا کہا تو جواب ملا ”سر مرنا ہوا تو باہر بھی مر جائیں گے ۔ ہمیں کام کرنے دیں ہماری فوج کو اسلحے کی ضرورت ہے“۔
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا
جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچ ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

پھر ناجانے کس کی بُری نظر یا جادو کام کر گیا اور ۔ ۔ ۔

ملک میں ایک جاگیردار وڈیرے نے مزدروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر ایسا اُبھارا کہ دنیا بدل گئی
خاکروبوں نے سرکاری کوٹھیوں پر نشان لگانے شروع کئے کہ یہ میری ہو گی یہ تیری ہو گی
سکول کالج کے اساتذہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی بے عزتی کرنا آزادی کا نشان بن گیا
کالجوں میں داخل لڑکوں نے پڑھائی پر جلوسوں کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی ٹریفک لائیٹس ۔ سٹریٹ لائیٹس اور گھروں یا دکانوں کے شیشے اُن کی گذرگاہ کا پتہ دیتے

دسمبر 1971ء
دسمبر 1971ء میں بھارت نے پھر پاکستان پر حملہ کر دیا
کارکنوں کے ساتھ مل کر خندقیں کھودنے کی پیشکش کی تو جواب ملا ”آپ خود کھودیں یا ٹھیکے پر کھدوائیں ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے”۔
دوسرے دن صبح اکثر کارکنوں نے یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا ایک نام نہاد نمائندہ بولا ”افسر دولتمند ہیں ۔ مر جائیں گے تو بیوی بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ہم مر گئے تو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ آپ کام کریں ہم ورکشاپ کے اندر نہیں جائیں گے“۔

فی زمانہ تو حالات مزید دِگرگوں ہو چکے ہیں

يا اللہ ۔ وہ ستمبر 1965ء والے دن پھر سے لادے
یا اللہ ۔ میرے ہموطنوں کو عقلِ سلیم عطا فرما دے
يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

یومِ فضائیہ

آج کا دن پاکستان میں بجا طور پریوم فضائیہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔M M Alam 7 ستمبر 1965ء کو پاکستان کے شاہینوں نے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرتے ہوئے جارح بھارت کی ہوائی فوج کو اپاہج بنا دیا تھا ۔ بالخصوص اسکورڈن لیڈر محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم نے دشمن کے9 جنگی طیارےمار گرائے جن میں 5 لڑاکا طیارے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں تباہ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ کمال یہ کہ بھارت کے 2 انجنوں والے کینبرا طیاروں کے مقابلہ میں ایم ایم عالم چھوٹا سا ایک انجن والا سَیبر ایف 86 (Sabre F 86) طیارہ اُڑا رہے تھے ۔ ایم ایم عالم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے زندہ دِلانِ لاہور نے گلبرگ (لاہور) کی ایک شارع عام کو ان کے نام سے منسوب کر دیا

محمد محمود عالم 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ (اب کولکتہ) میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان بننے پر ان کا خاندان ہجرت کر کے مشرقی پاکستان میں آباد ہوا ۔ اکتوبر 1953ء میں پاک فضائیہ میں بطور فائٹر پائلٹ کمیشن حاصل کیا ۔ بہادری کے صلے میں انہیں 2 بار ستارہ جرات سے نوازاگیا ۔ 1982 میں ایئر کموڈور کے عہدے پر ریٹائر ہوئے ۔ اپنی شجاعت کے باعث عوام میں لِٹل ڈریگن (Little Dragon) کے لقب سے مشہور ہوئے

ریٹائرمنٹ کے بعد ایم ایم عالم کی زندگی مطالعہ کرنے میں گزری ۔ ان کا جذبہ اورپیشہ ورانہ مہارت پاک فضائیہ کے جوانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ پاک فضائیہ کو بجا طور پر اپنے اس سپوت پر ہمیشہ فخر رہے گا ۔ اسکورڈن لیڈر محمد محمود عالم 18 مارچ 2013ء کو اس دنیا سے رحلت کر گئے لیکن ان کے کارنامے زندہ و جاوید اوریوم فضائیہ کا خاصہ رہیں گے

آپریشن جبرالٹر

48 سال قبل آج کے دن بھارت نے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا تھا ۔ اس حملے کے پیش رو ”آپریشن جبرالٹر“ اور اس کی ناکامی کی وجوہات پر میں پہلے لکھ چکا ہوں ۔ 1965ء میں افواجِ پاکستان کے کمانڈر انچیف جنرل موسٰی کی تحریر اُس وقت میری نظر سے نہ گذرنے کے باعث رہ گئی تھی ۔ پڑھتے ہوئے یہ ذہن میں رہے کہ 1965ء میں وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جو جنرل ایوب خان کے بہت قریب تھے یہاں تک کہ ایوب خان کو ڈَیڈ کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ہی نے جنرل ایوب خان کو باور کرایا تھا کہ اِدھر سے حملہ ہوتے ہی جموں کشمیر کے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بھارت گھُٹنے ٹیک دے گا

جنرل موسٰی لکھتے ہیں

“After the Government finally decided that deep raids should be launched in Indian-held Kashmir, I directed Commander 12 Division, Major-General Akhtar Husain Malik, to prepare a draft plan for the operation, code- named ‘GIBRALTAR’, in consultation with GHQ and within the broad concept we had specified.

“It was not due to lack of valour or determination on the part of all those who took part in the operation, or their capacity to sustain great physical hardships nor to faulty planning and ineffective leadership at the various levels of command that the raids eventually petered out. Primarily, the reason was lack of necessary preparations in the valley for the extremely difficult tasks before they were undertaken. GHQ had clearly and repeatedly highlighted this vital aspect of it and their opposition to the Foreign Office proposal was based, mainly, on it.

“We hadn’t even consulted the public leaders across the cease-fire line about our aims and intention, let alone associating them with our planning for the clandestine war. They had to have a proper organization in the valley, which should have jointly planned the operation with us and should have remained in touch with us after it was started, so as to coordinate their activities with ours.

As GHQ had assessed, and the operation proved, the Muslim population there, although, by and large, willing to help were unable to cooperate with us fully. Firstly, because they were not mentally prepared for it and, secondly, due to the presence of nearly five Indian infantry divisions and strong civil armed forces in occupied Kashmir they could not embark on such missions. In the circumstances in which we went in, it was pure wishful thinking on anyone’s part to expect them to risk their lives by trying to give us more than very limited support for a vague purpose in which they had practically no say.

“Because of the haste with which the operation was launched, even Azad Kashmir leaders were not taken into confidence by the advocates of guerilla raids. Helplessly, they remained in the background. Their co-operation was also very necessary and would have been very helpful. They could have assisted the Mujahidin in various ways by themselves and in conjunction with the Kashmiris of the valley.