Monthly Archives: August 2013

6 اگست ۔ ایک یاد گار دن

6 اگست کو بڑے اہم واقعات ہوئے ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ میں پیدا ہوا تھا ۔ دوسرا کہ اس دن ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا ۔ خیر میں تو ایک گمنام آدمی ہوں گو میرے ڈیزائین کردہ بیرل بور والی مشین گن پاکستان جرمنی اور نجانے اور کتنے ممالک کی افواج استعمال کر رہی ہیں لیکن چِٹی چمڑی والا نہ ہونے کے باعث اسے میرے نام سے منسوب نہ کیا جا سکا تھا

لیکن میں بات کرنے لگا ہوں 6 اگست کو پیدا ہونے والے ایک ایسے شخص کی جس نے سائنس میں عروج حاصل کر کے اللہ کو پہچانا ۔ نام تھا ان کا الیگزنڈر فلیمنگ (Sir Alexander Fleming) جس نے 1928ء میں پنسلین دریافت کی ۔ اس دوا نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں ۔ ٹائم میگزین نے بیسویں صدی کے 100اہم ترین لوگوں کی فہرست میں اس عظیم شخص کو شامل کرتے ہوئے لکھا ”اس دریافت نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دیا“۔ الیگزنڈر فلیمنگ کو 1945ء میں طب کے شعبے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا

الیگزنڈر فلیمنگ نے پنسلین کی ایجاد کی تو دوا ساز کمپنیوں نے اُسے 10 فیصد رائلٹی کی پیشکش کی جو اُس نے کم سمجھ کر قبول نہ کی اُس کا خیال تھا کہ سارا کام تو اُس نے کیا جبکہ کمپنی اُسے فقط 10 فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی تھی تاہم جب الیگزنڈر فلیمنگ نے 10 فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے تھے ۔ اُس نے سوچا کہ اتنی رقم کو وہ کہاں سنبھال کر رکھے گا ۔ اس سلسہ میں اپنی نااہلی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُس نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ معاہدے کی تمام شِقیں الیگزنڈر فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی ۔کمپنی نے یہ بات مان لی

تاہم جب الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھا تو اُسے لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی جبکہ اس کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی ۔ یہ سوچ کر الیگزنڈر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا

”میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ۔ یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے ۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے ۔ میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دیئے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ،شخصی،جذباتی اور ملکیتی اجازت دیتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان ، معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگا اور میرا اس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا“۔

الیگزنڈر فلیمنگ سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ پنسلین کی ایجاد خدا کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی؟“
الیگزنڈر فلیمنگ نے اس بات کا تاریخی جواب دیا
”میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ یا ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا مُوجد یا مُخترع نہیں تھا۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خداوند کا کرم اور اس کی عنایت تھی ۔ اصل میں جتنے بھی انکشافات اور دریافتیں ہوتی ہیں وہ خدا کے حُکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتے ہیں ۔ خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔ نہ پہلے نہ بعد میں ، ٹھیک وقت مقررہ پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کے لئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ۔ قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حُکم دیتا ہے کہ سنبھالو عِلم آ رہا ہے ۔ ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں عرصے سے جھولیاں پھیلا کر اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کی جھولی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب ترین انسان گردانا جاتا ہے“ ۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پہچان

کسی چیز کی قدر دو وقت ہوتی ہے
ملنے سے پہلے اور کھونے کے بعد

لیکن

اس کا اصل مقام وہ ہے
جب وہ پاس ہوتی ہے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے ”ڈرون حملوں میں مرنے والے کون ہوتے ہیں

عقيدت و تقليد

عام طور پر میں رات کو 10 بجے تک سو جاتا ہوں اور صبح فجر کی نماز سے قبل اُٹھتا ہوں ۔ 20 اور 21 اگست کے درمیان آدھی رات کو میرے موبائل فون نے ٹن ٹن ٹن ٹن کیا یعنی 2 پیغام آئے ۔ میری نیند کھُل گئی لیکن پیغام میں نے صبح ہی پڑھا ۔ لکھا تھا ”تقلید فرض ہے واجب ہے یا مستحب“۔ میں نے جواب دیا ”رسول اللہ ﷺ نے تقلید سے منع کیا ہے ۔ اس کا سبب ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سے پوچھا ”کیا پڑھ رہے تھے ؟“ اُنہوں نے جواب دیا کہ آپ کو پڑھتے دیکھا تھا“۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”میری تقلید نہ کرو ۔ کبھی پڑھو ۔ کبھی نہ پڑو“۔

لُغوی معنی سے قطع نظر ميں صرف اُن عوامل کی بات کرنا چاہتا ہوں جسے عام طور پر تقليد يا عقيدت کا نام دیا جاتا ہے مگر پہلے دو مثاليں

ايک گڈريا کہہ رہا ہے “ميرے سوہنے ربّا ۔ تو ميرے پاس ہو تو میں تمہارا سر اپنی بکری کے دودھ سے دھو کر تمہارے بالوں کی مِينڈياں بناؤں”۔ سيّدنا موسٰی عليہ السلام نے اُسے منع کيا تو وحی آئی کہ ”ميرے بندے کو جس طرح مجھے ياد کرتا ہے کرنے دے“۔

شايد بابا بھُلے شاہ کا شعر ہے

کنجری بنياں ميری ذات نہ گھٹدی مينوں نچ نچ يار مناون دے

ميرے خيال ميں متذکرہ بالا مثالیں تقليد کيلئے نہيں ہيں ۔ کیا تقليد کا يہ مطلب ہے کہ متذکرہ بالا مثالوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم گڈريئے کی طرح اللہ کو یاد کريں یا پھر ناچنا اپنا شعار بنا ليں ؟

ايک جملہ ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے “فلاں کی برسی بڑی عقيدت و احترام سے منائی گئی”۔ اس ميں عقيدت سے کيا مُراد ہے ؟ کیا برسی منانا دین اسلام کا حصہ ہے ؟

پچھلی پانچ دہائيوں کے دوران تقليد اور عقيدت کے نام پر ايسے عمل مشاہدہ میں آئے کہ توبہ استغار ہی کرتے بنی ۔ کسی کی قبر کی طرف سجدہ کرنا ۔ کسی کی قبر پر ميلہ لگانا ۔ قبر پر چڑھاوا چڑھانا ۔ نماز اور روزہ کی طرف لاپرواہی مگر کسی کو پير يا مُرشد مان کر اس کی تقليد میں مختلف عوامل جن کا قرآن و حدیث سے کوئی تعلق نہ ہو کرنا یا خاص تاريخوں کو کچھ پکا کر اس پير یا مُرشد کے نام سے بانٹنا ۔ ایک لمبی فہرست ہے ۔ کيا کيا لکھوں ؟

اصولِ فقہ ہے کہ
اوّل قرآن شریف
جو قرآن شریف میں نہ ہو وہ حدیث میں دیکھا جائے
جو حدیث میں نہ ہو وہ اصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تلاش کیا جائے
اور اُس کے بعد کچھ اور ہو سکتا ہے جس کيلئے اجتہاد اور اجماع ضروری ہے اور اس میں بھی تابعین کی ترجیح ہے

تقليد اور عقيدت کے متعلق کوئی صاحب مفصل عِلم رکھتے ہوں تو مستفيد فرمائيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بوقتِ ضرورت

پہلے تازہ خبر ۔ میں اور میری بیگم صبح سوا آٹھ بجے گھر سے نکلے اور حلقہ 48 کا ووٹ ڈال کر پونے نو بجے گھر واپس پہنچ گئے ۔ اسلام آباد میں سکول بند ہیں لیکن سرکاری اداروں میں آج ووٹ ڈالنے کیلئے ایک بجے بعد دوپہر چھٹی ہو جائے گی

اگر کوئی تمہیں اپنی ضرورت کے وقت یاد کرتا ہے
تو
پریشان مت ہونا بلکہ فخر کرنا
کہ
اُسے اندھیروں میں روشنی کی ضرورت ہے
اور
وہ تم ہو

قول علی رضی اللہ عنہ

مدد چاہیئے ایک باریک بین کی

ایک تیز نظر ۔ تیز دماغ اور فوٹو شاپ قسم کی سافٹ ویئر کے ماہر کی ضرورت ہے جو مندرجہ ذیل تصاویر کا مطالعہ / معائنہ کر کے بتائے کہ کونسی تصویر اصلی ہے اور اس کے ساتھ کوئی چھڑ خانی نہیں کی گئی

مندرجہ ذیل تصاویر کی تصحیح مقصود ہے جو کسی صاحب نے مجھے شاید فیس بُک سے نقل کر کے بھیجی ہیں
پہلی تصویر اسلحہ بردار سکندر کی ہے
دوسری تصویر میں صدر آصف علی زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
تیسری تصویر میں بلاول زرداری اور سکندر دکھائے گئے ہیں
چوتھی تصویر میں فردوس عاشق عوان کے ایک طرف سکندر کی بیوی کنول اور دوسری طرف زمرد خان دکھائے گئے ہیں
Sikandar1

Sikandar2

Sikandar3

Sikandar4

سائنس ؟ ؟ ؟

کوئی شخص اپنی کوہنی نہیں چاٹ سکتا

ذہین لوگوں کے بالوں میں جَست اور تانبا زیادہ ہوتا ہے

یہ حقیقت ہے کہ عورتوں کی نسبت مرد زیادہ باریک عبارت پڑھ سکتے ہیں

یہ بھی حقیقت ہے کہ مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ مدھم آواز سُن سکتی ہیں

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے”Musharraf Behind Spread of CIA Network in Pakistan

ہیرو ۔ زیرو اور ہم

سکندر نامی مسلحہ شخص کے حوالے سے 15 اگست کی شام سے رات تک 5 گھنٹے جاری رہ کر ختم ہونے والے واقعہ کے متعلق چند اُردو بلاگرز اظہارِ خیال کر چکے ہیں اسلئے سب کچھ دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ میں صرف اس واقعہ کے تکنیکی اور اصولی پہلو واضح کرنے کی کوشش کروں گا

سکندر کے ہاتھوں میں ایک سب مشین گن اور ایک آٹومیٹک رائفل تھی ۔ جس نے طبیعات (Physics) کا مضمون تھوڑا سا بھی پڑھا ہے وہ یہ تو جانتے ہوں گے کہ ہر عمل کے برابر اس کا ردِ عمل مخالف سمت میں ہوتا ہے (To every action there is an equal and opposite reaction)

متذکرہ ہتھیاروں میں 39 ملی میٹر لمبے کارتوس استعمال ہوتے ہیں جن میں لگی گولی 18.2 گرام وزنی ہوتی ہے ۔ فائر کرنے پر یہ گولی 718 میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ہتھیار کی نالی سے باہر نکلتی ہے ۔ یعنی یہ 18.2 ضرب 718 یعنی 13 کلو گرام سے زیادہ کا دھکا پیچھے کی طرف لگاتی ہے ۔ جب آٹو میٹک فائر کیا جاتا ہے تو ہر ایک سے ڈیڑھ سیکنڈ بعد یہ دھکا لگتا ہے ۔ اگر ایک شخص کے 2 ہاتھوں میں ایک جیسے ہتھیار نہ ہوں تو ان کا فائرنگ ریٹ اور بعض اوقات گولی کا فرق وزن غیرمتوازن ردِ عمل پیدا کرتے ہیں جس کا شُوٹر کے اعصاب پر بُرا اثر پڑتا ہے ۔ اندازہ کیجئے کہ سکندر کے دونوں ہاتھوں پر یہ غیرمتوازن دھکے لگتے تھے مگر اس کے ہاتھ متزلزل نہیں ہوئے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ سکندر کمانڈوز کی طرح باقاعدہ تربیت یافتہ ہے

ایسی صورتِ حال میں زیادہ احتیاط اور تحمل کی ضرورت تھی کہاں کہ زمرد صاحب نے ہیرو بننے کی کوشش کی ۔ میڈیا نے اُنہیں ہیرو بنا بھی دیا مگر اصلیت کے قریب رانا ثناء اللہ کا بیان ہے

کسی بھی امن و امان کی صورتِ حال سے بالخصوص جس میں اسلحہ موجود ہو نمٹنا پولیس ۔ رینجرز اور فوج کا کام ہے ۔ کوئی شخص خواہ کمانڈو سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہو اُسے بغیر مجاز اتھارٹی کی اجازت کے اس ماحول میں کودنے کی اجازت نہیں ۔ زمرد خان نے یہ غلطی بھی کی

اب آتے ہیں اس واقعہ کے ڈرامائی منظر کی طرف ۔ کل بہت سی وڈیوز دیکھنے کے بعد واضح ہوا کہ زمرد خان نے چھلانگ لگا کر سکندر کو قابو کرنے کی کوشش کی مگر سکندر کی معمولی سی جُنبش سے زمین پر اُوندھا جا پڑے پھر اُٹھتے ہوئے لڑکھڑائے اور دوبارہ اُٹھ کر بھاگے ۔ گرنے کے بعد سے بھاگ کر محفوظ ہونے تک سکندر کے پاس بہت وقت تھا ۔ اللہ نے زمرد خان کو بچانا تھا ورنہ سب مشین گن یا آٹومیٹک رائفل کی ایک بوچھاڑ (burst) مار کر سکندر زمرد خان کے پرخچے اُڑا دیتا

زمرد خان کو اُس کے حال پر چھوڑ کر سکندر نے پولیس والوں کی طرف رُخ کیا اور داہنی طرف فائرنگ کی پھر دونوں ہاتھ اُوپر اُٹھا دیئے اوربائیں جانب مُڑتے ہوئے دونوں ہتھیاروں سے ایک ایک فائر کیا ۔ پھر اچانک دونوں ہاتھ نیچے کر کے سامنے کی طرف نشانہ لے کر فائر کیا لیکن ابھی دونوں ہتھیاروں سے ایک ایک راؤنڈ ہی فائر کیا تھا کہ خود زخمی ہو کر گر پڑا ۔ فائرنگ کی جو ایک ایک تعداد لکھی گئی ہے یہ فائر کے وقت فضا میں اُڑتے ہوئے تپّے ہوئے روشن کھوکھوں (red hot luminous cartridge cases) کے نظر آنے کی بنیاد پر ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس سے زیادہ راؤنڈ فائر کئے گئے ہوں مگر ان کے کھوکھے وڈیو میں نظر نہ آئے ہوں

جو لوگ کہتے ہیں کہ سکندر نے ہاتھ اُوپر اُٹھا کر سرینڈر (Surrender) کر دیا تھا وہ لاعلم ہیں یا پھر اُن کا علم مووی فلموں تک محدود ہے جن میں کھوکھے اُڑتے نہیں دکھائے جاتے

کوئی کہتا ہے ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے“۔
کوئی کہتا ہے ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے“۔
میں کہتا ہوں ”ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میرے ہموطن اپنی ذمہ داریاں تو نبھاتے نہیں لیکن دوسروں کے کام میں مداخلت اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں“۔