Monthly Archives: March 2013

قومی الميہ

درجہ اوّل ميں کامياب ہونے والے انجنيئر ۔ ڈاکٹر ياسائينسدان بنتے ہيں

درجہ دوم ميں کامياب ہونے والے ايڈمنسٹريٹر بنتے ہيں اور درجہ اوّل والوں پر حُکم چلاتے ہيں

درجہ سوم ميں کامياب ہونے والے سياستدان بن کر وزير بنتے ہيں اور درجہ اوّل اور دوم والے دونوں پر حُکم چلاتے ہيں

جو تعليم ميں ناکام رہتے ہيں جرائم پيشہ بنتے ہيں اور سياستدانوں پر حُکم چلاتے ہيں

اور جو تعليم کے قريب جاتے ہی نہيں وہ سوامی ۔ گُورُو يا پِير بنتے ہيں اور سب اُن کے تابعدار بن جاتے ہيں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دعا

لوگوں کو اپنے لئے دعا کا کہنے سے بہتر ہے ایسے عمل کریں

کہ

لوگوں کے دل سے آپ کیلئے دعا نکلے

قول علی رضی اللہ عنہ

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ ساڑھے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء میں ورڈ پریس نے اسے 10 بہترین بلاگز میں سے ایک قرار دیا تھا اور بلاگ ابھی تک اپنی حثیت بحال رکھے ہوئے ہے ۔ 2012ء کی رپورٹ دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ”

یو اے ای اور لبیا کیسے گیا

اس سلسلہ میں 6 واقعات بعنوانات ”گفتار و کردار“ ۔ ”پارسل“۔ ”گھر کی مرغی ؟“ ۔ ”میں چور ؟“ ۔ ”غیب سے مدد” اور ”کہانی کیا تھی“لکھ چکا ہوں

مئی 1975ء میں میں واہ چھاؤنی سے سرکاری کام کے سلسلہ میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ۔ اہم کام سٹیٹ بنک میں تھا اسلئے پہلے وہاں جا کر متعلقہ افسر سے ملا ۔ اُس نے بتایا کہ بعد دوپہر 2 بجے تک کام ہو جائے گا سہ پہر 4 بجے تک لیجاجائیں ۔ میں کچھ کاموں سے فارغ ہو کر 4 بجے پہنچا تو ماتحت افسر نے بتایا کہ وزارتِ مالیات میں اچانک ایک اعلٰی سطح کی میٹنگ ہو گئی ہے اور صاحب وہاں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اُن کے دستخط ہونا باقی ہیں ۔ کچھ دیر بعد وہ کہنے لگا ”کوئی اور کام آپ نے کرنا ہے تو کر آئیں ۔ ہم تو روزانہ مغرب (6 بجے) کے بعد بھی یہیں ہوتے ہیں“۔ سب کام ختم کر کے میں سوا 6 بجے پہنچا اور مطلوبہ دستاویز لے لی ۔ ماتحت افسر نے راستے میں روک کر بتایا ”آپ کے ادارہ کے ایک افسر ایک گھنٹہ آپ کی انتظار میں بیٹھ کر گئے ہیں ۔ آپ منسٹری آف ڈیفینس میں سیکریٹری صاحب آپ کی انتظار میں ہیں“۔ میرے لئے یہ عجوبہ تھا کہ سیکریٹری صاحب بغیر پیشگی اطلاع کے میری انتظار میں بیٹھے ہیں

خیر میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ”منسٹری چلو“۔ ڈرائیور نے پریشان ہو کر کہا ”سر ۔ خیریت تو ہے ؟“ میں نے پتہ نہیں کہہ کر اُسے چلنے کا اشارہ کیا ۔ منسٹری کے گیٹ پر پہنچے تو میرے ساتھ اس طرح کا سلوک ہوا جیسے میں ملک کا صدر یا وزیر اعظم تھا ۔ ایک صاحب مجھے ہاتھوں ہاتھ سیکریٹری صاحب کے دفتر لے گئے ۔ سیکریٹری صاحب نے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”آپ آئے نہیں ؟“۔ میں نے بتایا کہ مجھے تو کچھ معلوم نہیں مجھے کیوں بُلایا گیا ہے۔ اس پر سیکریٹری صاحب بولے ”کیا آپ نے فلاں کام نہیں کئے تھے اور فلاں رپورٹ نہیں لکھی تھی ؟“ میں نے ہاں میں جواب دیا تو بولے ”آپ نے پرسوں صبح سویرے ساڑھے 4 بجےیو اے ای روانہ ہونا ہے ۔ جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس جائیں میں نے اُنہیں سمجھا دیا ہے“۔

میں نے جوائنٹ سیکریٹری صاحب کو بتایا کہ میرا پاسپورٹ بھی بنوانا ہے ۔ وہ بولے ”فکر نہ کریں جتنا وقت آپ کی تلاش میں لگا اس دوران یہ انتظامات کر لئے تھے اب آپ کے کوائف درج کر کے فنانشل ایڈوائزر سے منظوری لے کر نوٹیفائی کرنا ہے ۔ ٹائپسٹ سارے چھٹی کر چکے تھے ۔ ڈپٹی سیکریٹری صاحب نے نوٹیفیکیشن ٹائپ کیا ۔ دستخط کئے اور سائکلوسٹائل کر کے 3 کاپیاں 8 بجے رات میرے ہاتھ پکڑائیں ۔ میں جوائنٹ سیکریٹری صاحب کے پاس گیا تو اُنہوں نے کہا ”امیریکن ایکسپرس میں آدمی آپ کی انتظار میں ہے ۔ اُس سے 500 ڈالر لیتے جائیں“۔

واپسی پر میں نے اس افسر کو اپنے ساتھ بٹھا لیا جو مجھے تلاش کرتا رہا تھا ۔ اُس نے بتایا ”سر ۔ بنیادی طور پر آپ نے جانا تھا بطور ٹیم لیڈر ۔ باقی فوجی افسران اور فوجی تھے ۔ پھر ٹیم بنائی گئی اور مجھے بطور آپ کے نائب کے اور آپ کی فیکٹری کے ایک مستری کو ڈالا گیا۔ جب جانے کے دن قریب آئے تو آپ کا نام غائب تھا اور سربراہ کے طور پر جوائنٹ سیکریٹری صاحب تھے اور اُن کی بیگم بھی جا رہی تھیں ۔ میٹنگ میں آتے ہی سیکریٹری صاحب نے کہا ”وہ ۔ وہ کہاں ہیں ؟ جس نے سارا کام کیا ہے ؟ اُس کے نام کے ساتھ ایک خاص لفظ ہے” ہمارے چیئرمین سمیت کوئی نہ بولا”۔ کرنل ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہا ”سر آپ مسٹر بھوپال کی بات کر رہے ہیں ؟ اس کا تو ٹیم میں نام ہی نہیں ہے”۔ سیکریٹری صاحب یہ کہتے ہوئے کانفرنس ہال سے اُٹھ کر چلے گئےکہ بھوپال کو لائیں جہاں کہیں بھی ہے ۔ میں اُس کے آنے تک یہیں ہوں ۔ آپ کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی مجھے دی گئی ۔ میں نے آپ کے دفتر ٹیلیفون کیا تو پی اے نے بتایا کہ آپ راولپنڈی میں ہیں اور جہاں جہاں جائیں گے اُس کی تفصیل بتائی ۔ میں جہاں جاتا آپ وہاں سے جا چکے ہوتے ۔ آخر سٹیٹ بنک میں معلوم ہوا کہ آپ دوبارہ آئیں گے“۔

دوسرے دن صبح 8 بجے فوٹوگرافر میرے دفتر آیا اور میری تصویر کھینچ کر چلا گیا ۔ ایک ہیڈکلرک آیا اور ایک فارم پر میرے دستخط کروا کر لے گیا ۔ شام مغرب سے پہلے وہ مجھے میرا نیا پاسپورٹ دے گیا ۔ اگلے روز صبح ساڑھے 4 بجے جوائنٹ سیکریٹری اُن کی بیگم ۔ ایک کرنل ۔ مجھے ڈھونڈنے والا اسسٹنٹ منیجر اور میں چکلالہ سے سی 130 میں کوئٹہ روانہ ہوئے ۔ کوئٹہ سے 2 میجر اور کچھ فوجی سوار ہوئے اور ہم جا پہنچے دبئی ۔ پوری ٹیم میں صرف میں تھا جسے تمام تکنیکی معلومات تھیں ۔ فوجیوں نے ڈَیمنسٹریشن کا متعلقہ کام کرنا تھا لیکن تینوں فوجی افسروں نے کہا کہ میں ہی ساری مینجمنٹ کروں ۔ چنانچہ سب نے مل کر میری مدد کی اور دبئی کے چند فوجیوں نے بھی ہماری مدد کی جس کے نتیجہ میں اللہ نے ہمیں متعلقہ کام میں کامیاب فرمایا

لبیا بھی مجھے حکومت نے ہی بھیجا تھا جس کی کچھ اسی طرح کی کہانی ہے لیکن اُس میں مجھے نقصان یہ ہوا کہ مئی 1976ء سے مارچ 1983ء تک میری عدم موجودگی کو بہانہ بنا کر مجھے ترقی نہ دی گئی اور مجھ سے جونیئر 14 افسران کو ترقی دے کر مجھ سے سینیئر کر دیا گیا ۔ یہ خلافِ قانون تھا ۔ شاید اسی لئے مجھے اس کی خبر نہ ہونے دی گئی ۔ واپس آ کر میں نے اس کے خلاف اپیل کی مگر تحریری یاد دہانیوں کے باوجود سال بھر کوئی جواب نہ دیا ۔ میں نے سیکریٹری کو اپیل بھیجی ۔ منسٹری نے ہمارے ادارے سے پوچھا جس جواب سال بعد دیا گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔ پھر میں نے سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کر دیا جس کا فیصلہ 5 سال بعد 1991ء میں اس وقت ہوا جب میں ایل پی آر پر تھا ۔ ہمارے مُلک کا قانون ہے کہ ایل پی آر کے دوران مالی فائدہ نہیں ہوتا ۔ کسی نے مجھے مشورہ دیا کہ میں دوبارہ سروسز ٹریبیونل میں دعوٰی دائر کروں تو پنشن میں فائدہ ہو جائے گا ۔ لیکن مجھ میں پھر 8 سال کے چکر میں پڑنے کی ہمت نہ تھی کیونکہ میرے والد صاحب پر فالج کا حملہ دوسری بار ہو چکا تھا اور مجھے سوائے ان کی تیمار داری کے کسی کا ہوش نہ تھا

معذرت

محترمات قاریات و محترمان قارئین
السلام علیکم
سائنس بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے (گو انسانیت تنزل پذیر ہے) چنانچہ میرے اس بلاگ کے خد وخال پرانے زمانے میں شمار ہونے لگے تھے ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا کو میرا پرانا ہونا پسند نہیں اسلئے اپنی دوسری مژروفیات کت ساتھ ساتھ میرے بلاگ کی تجدید میں مصروف ہے

بایں وجوہ کوئی کوفت کا سامان پیدا ہو تو اس کیلئے پیشگی معذرت کر رہا ہوں

اُمید

میں نہیں جانتا لکھنے والا کون ہے ۔ میں نے کہیں یہ نظم پڑھی ۔ بار بار پڑھی ۔ اور ہر دم دل کی گہرائیوں سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ دعا نکلتی رہی ”یا میرے مالک و خالق ۔ ایسا ہو جائے ۔ یا رب ذوالجلال والاکرام ۔ ایسا جلد ہو جائے ۔ اور یا اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی تو فیق عطا فرما“۔
اُمید کرتا ہوں کہ قارئین بھی صدق دل سے یہی دعا کریں گے

اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اِک بستی بسنے والی ہے
جس بستی میں کوئی ظُلم نہ ہو ۔ اور جینا کوئی جُرم نہ ہو
وہاں پھُول خوشی کے کھِلتے ہوں ۔ اور موسم سارے مِلتے ہوں
بَس رَنگ اور نُور برستے ہوں ۔ اور سارے ہنستے بَستے ہوں
اُمید ہے ایسی بستی کی
جہاں جھوٹ کا کاروبار نہ ہو ۔ اور دہشت کا بازار نہ ہو
جینا بھی دشوار نہ ہو ۔ اور مرنا بھی آزار نہ ہو
وہاں خون کی ہولی عام نہ ہو ۔ اُس آنگن میں غم کی شام نہ ہو
جہاں مُنصف سے انصاف ملے ۔ دل سب کا سب سے صاف ملے
اِک آس ہے ایسی بستی ہو ۔ جہاں روٹی زہر سے سستی ہو
یہ بستی کاش تمہاری ہو ۔ یہ بستی کاش ہماری ہو
اُمید ابھی کچھ باقی ہے ۔ اک بستی بسنے والی ہے