Daily Archives: January 20, 2013

پارسل

اس سلسہ کی پہلی تحریر ”گفتار و کردار“ لکھ چکا ہوں

بات ہے 1964ء کی ۔ میں اس زمانہ میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ ایک پروجیکٹ کی ڈویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ مجھے پروڈکشن کنٹرول کا کام بھی دے دیا گیا جن میں ایک دساور سے آنے والے سامان کو کھُلوانا اور سامان کی فہرست تیار کر کے اسے سٹور کے حوالے کرنا ہوتا تھا ۔ یہ کام میں نے ہر ورکشاپ کے فورمین صاحبان کے ذمہ لگا رکھا تھا ۔ سامان کی فہرست پر دستخط میں ہی کرتا تھا البتہ کوئی اہم بات ہو تو فورمین صاحبان بتا دیتے یا مجھے بُلا لیتے

ایک دن ایک اسسٹنٹ فورمین پریشان میرے پاس آیا اور سرگوشی میں بتایا کہ ”سامان میں سے شراب کی چند بوتلیں بھی نکلیں ہیں“۔ میں نے متعلقہ ورکشاپ میں جا کر فورمین سے پوچھا تو اُس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ میں نے جا کر ورکس منیجر کو بتا دیا ۔ چند دن بعد مجھے ورکس منیجر نے کہا ”جرمن انجیئر جو آئے ہوئے ہیں اُن کی تھیں”۔ مگر میرا شک دُور نہ ہوا

کچھ ماہ بعد اسسٹنٹ سٹور ہولڈر جو براہِ راست میرے ماتحت کام کرتا تھا میرے پاس آیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اُڑی ہوئی ۔ میں نے خیریت پوچھی تو بولا ”صاحب ۔ ذرا میرے ساتھ میرے دفتر چلیئے“۔ میں اُس کے ساتھ چل پڑا ۔ اُس نے دفتر کا تالا کھولا ۔ ہم داخل ہوئے تو اس نے اندر سے کُنڈی لگا دی اور ڈبے کا ڈھکنا اُٹھایا ۔ اس میں بہت خوبصورت تہہ ہونے والی میز اور چار کرسیاں تھیں ۔ مال جرمنی سے آیا تھا ۔ میں نے حسبِ سابق ورکس منیجر صاحب کو بتا دیا ۔ کچھ دن بعد اُنہوں نے بتایا ”وہ میز کرسیاں ٹیکنیکل چیف کیلئے ہیں ۔ میں خود اُنہیں پہنچا دوں گا“۔ وہ جانیں اُن کا کام

تمام ادارے کی سالانہ جمع بندی (stock taking) ہوا کرتی تھی ۔ لکڑ شاپ (Wood Working Shop) میں کئی سو مکعب فٹ اچھی قسم کی بگھاری ہوئی (seasoned) دیودار لکڑی کم پائی گئی ۔ حسبِ دستور انکوائری ہوئی ۔ انکوائری کمیٹی میں ایک افسر میرا ہمسایہ اور میرا بَیچ فَیلو تھا ۔ انکوائری ہو چکی تو ایک دن میں نے پوچھا ”اتنی زیادہ لکڑی کہاں چلی گئی ؟“۔ سرگوشی میں بولا ”سرکاری ٹرکوں پر گئی ۔ اور کیسے جاتی ۔ ٹیکنیکل چیف کا مکان راولپنڈی میں بن رہا ہے ۔ خدمتگاروں نے بچی کھچی ناکارہ لکڑی (Scrap Wood) بتا کر گیٹ سے نکلوا دی“۔ میں نے پوچھا ”پھر آپ نے کیا لکھا ہے ؟“ بولے میں بال بچے دار آدمی ہوں ۔ میرا آگے پیچھے کوئی نہیں ۔ سچ لکھ کر نوکری نہیں گنوا سکتا تھا“۔