Yearly Archives: 2012

اسرائیل ۔ دہشتگرد حکومت

سُپر پاور اور اس کے حواریوں کی شہہ پر دہشتگرد اسرائیل پھر سے قتل و غارتگری پر عمل پیرا ہے ۔ امن و انسانی حقوق کے علمبرادار اور مسلمان حکمران مدہوش پڑے ہیں ۔ میں نے نصف صدی کے مطالعہ اور اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر ریاست اسرائیل کے قیام اور مقاصد کا خلاصہ 7 سال قبل تحریر کیا تھا ۔ میں ان شاء اللہ قارئین کی سہولت کی خاطر اسے اقساط میں نقل کروں گا

پیش لفظ
1932ء سے دسمبر 1947ء تک میرے والد صاحب کے کاروبار کا مرکز فلسطین تھا ۔ رہائش فلسطین کے ایک شہرطولکرم اور ہیڈ آفس حیفہ میں تھا ۔ والدہ صاحبہ کبھی قاہرہ (مصر) میں میرے نانا نانی کے پاس یا فلسطین میں والد صاحب کے ساتھ رہتیں کبھی ہندوستان ميں ہمارے ساتھ ۔ میری ایک بڑی بہن 1932ء میں قاہرہ میں پیدا ہوئیں اور ایک چھوٹا بھائی اپریل 1947ء میں فلسطین میں نابلس کے ہسپتال میں پیدا ہوا ۔ ميں اپنے دادا دادی کے پاس ہندوستان ہی میں رہا

یہودی ریاست کا حق ؟

“غیر تو غیر ہوۓ اپنوں کا بھی یارا نہ ہوا” کے مصداق کچھ پاکستانی بھائیوں کا بھی یہ خیال ہے کہ اسرائیل یہودیوں کا حق تھا یا یہ کہ چونکہ اسرائیل بن چکا ہے اس لئے اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہیئے ۔ جہاں تک ریاست کے حق کا معاملہ ہے تو اس کی کچھ تو زمینی بنیاد ہونا چاہیئے
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت اسحاق علیہ السّلام مسجد الاقصٰی میں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرّمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔ ان کے پوتے حضرت یوسف علیہ السّلام جب مصر کے بادشاہ بنے تو انہوں نے اپنے خاندان کے 31 اشخاص کو جن میں ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السّلام اور سارے بھائی بھی شامل تھے مصر بلا لیا تھا ۔ بنی اسراءیل کے یہودی پہلے ہی دولت و ثروت کی خاطر فلسطین چھوڑ کر مصر میں آباد ہو گئے تھے اور مصریوں کے غلام ہونا قبول کر چکے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السّلام نے جاتے ہوۓ مسجد الاقصٰی فلسطینی باشندوں کے سپرد کر دی تھی جو کہ نیک لوگ تھے مگر بنی اسراءیل میں سے نہیں تھے

حضرت یوسف علیہ السّلام کے 300 سال بعد حضرت موسی علیہ السّلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ جس سرزمین فلسطین (بشمول موجودہ اسرائیل) پر یہودی اپنی میراث ہونے کا دعوی کرتے ہیں اسے انہوں نے اپنی مرضی سے حضرت موسی علیہ السّلام سے 400 سال پیشتر خیر باد کہہ کر مصر میں دولت کی خاطر غلام بننا قبول کیا تھا

حضرت موسی علیہ السّلام کے 40 سال بعد تک بنی اسراءیل صحراۓ سینائی میں بھٹکتے رہے یہانتک کہ ان کی اگلی نسل آ گئی جس میں حضرت داؤد علیہ السّلام پیدا ہوۓ اور انہوں نے بھٹکی ہوئی بنی اسراءیل کو فلسطین جانے کو کہا ۔ حضرت داؤد علیہ السّلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اول تو حضرت داؤد علیہ السّلام یہودی نہ تھے بلکہ قرآن شریف کے مطابق مُسلم تھے لیکن اگر یہودیوں کی بات مان لی جاۓ تو بھی یہ حکومت اس وقت مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی جب آج سے 2591 سال قبل بابل والوں نے اس پر قبضہ کر کے بمع عبادت گاہ سب کچھ مسمار کر دیا تھا اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا تھا ۔ (بابل عراق کے شمالی علاقہ میں تھا اور ہے)

اب پچھلی صدی کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اس کی مثال اس طرح ہے ۔ کہ میرے پاس 100 ایکڑ زمین تھی ایک جابر اور طاقتور شخص نے اس میں سے 60 ایکڑ پر زبردستی قبضہ کر لیا ۔ اب صلح کرانے والے مجھے یہ مشورہ دیں کہ “میری 60 ایکڑ زمین پرظالم کا قبضہ ایک زمینی حقیقت ہے اس لئے میں اسے قبول کر لوں اور شکر کروں کہ 40 ایکڑ میرے پاس بچ گئی ہے ۔” کیا خوب انصاف ہوگا یہ ؟ ؟ ؟ اور پھر اس کی کیا ضمانت ہو گی کہ وہ طاقتور شخص مجھ سے باقی زمین نہیں چھینے گا ؟

اسرائیل کے حکمران فلسطینی نہیں
اسرائیل کے تمام لیڈروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فلسطین تو کیا سرزمینِ عرب سے بھی تعلق نہیں رکھتا ۔ تھیوڈور ہرستل بڈاپسٹ [ہنگری] کا تھا ۔ بن گوریاں پولانسک [پولینڈ] کا ۔ گولڈا میئر کِیو [یوکرَین] کی ۔ مناخم بیگِن بریسٹ لِٹواسک [روس] کا ۔ یِتسہاک شمِیر رُوزینوف [پولینڈ] کا ۔ چائم وائسمَین جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا وہ موٹول [پولینڈ] کا تھا

اسرائیل جائز ہے تو ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان مسلمانوں کے حوالے کئے جائیں

ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا ۔ (علامہ اقبال)

نہ تو اسرائیل کے لیڈروں کا فلسطین سے کوئی تعلق تھا یا ہے اور نہ فلسطین یا اس کا کوئی حصہ کبھی بھی یہودیوں کی مملکت تھا ۔ ریاست اسرائیل کا وجود جور و جبر کا مرہون منت ہے ۔ اگر یہ اصول مان لیا جاۓ کہ چونکہ 1005 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی حکومت شروع ہونے سے وہاں بابل والوں کے قبضہ تک 400 سال یہودی فلسطین کے علاقہ میں رہے [یعنی آج سے 2617 سے 3017 سال پہلے تک] تو اس کی بنیاد پر یہودیوں کی ریاست وہاں ہونا چاہیئے تو پھر ہسپانیہ ۔ مشرقی یورپ ۔ مغربی چین ۔ مغربی روس اور ہندوستان پر 800 سال یا اس سے زیادہ عرصہ مسلمانوں کی حکومت رہی ہے چنانچہ یہ سارے ملک مسلمانوں کے حوالے کر دیئے جائیں ۔

اِسی طرح اور کئی ملکوں کا تنازع کھڑا ہو جاۓ گا ۔ کوئی عجب نہيں کہ کل کو بھارت کے ہندو کہیں کہ موجودہ پاکستان کے کافی علاقہ پر تو ہمارے موریہ خاندان [چندر گپت اور اشوک کمار ۔322 سے 183 قبل مسیح] نے 129 سال حکومت کی تھی اور اسے واپس لینے کے لئے بھارت پاکستان پر حملہ کردے اور امریکہ وغیرہ اسرائیل کے متذکّرہ اصول پر بھارت کا ساتھ دیں ۔ اِسی طرح مسلمانوں کا بھی حق بنتا ہے کہ سارے مِل کر جنوبی اور مشرقی یورپ پر حملہ کردیں کہ یہاں کِسی زمانہ میں مسلمانوں کی حکومت تھی ۔ قدیم امریکی موجودہ سفید فام امریکیوں کو جو کہ دراصل انگریز ۔ جرمن ۔ ہسپانوی وغیرہ ہیں امریکہ سے نکل جانے کا کہیں ۔ آسٹریلیا کے اصل باشندوں کی خاطر سفید فام آسٹریلویوں کو نکل جانے کا حکم دیا جائے ۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر اِسرائیل بنانا کِس طرح جائز ہے ؟ ؟ ؟

بندے دا پُتر

یہ 3 لفظ ہیں
”بندہ“ معنی ”اللہ کا بندہ“ مطلب ”اللہ سے ڈرنے والا“
”دا“ پنجابی ہے اُردو میں ”کا“
”پُتر“ مطلب ”بیٹا“۔ ”پُتر“ ویسے اُردو میں بھی کہتے ہیں

آدھی صدی پر محیط تجربہ سے میں نے سیکھا ہے کہ آدمی چاہے پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ اگر ”بندے دا پُتر“ ہو تو

1 ۔ درخواست کرنے یا مشورہ یا ھدائت دینے پر بات اُس کی سمجھ میں آ جاتی ہے اور درست کام کرتا ہے
2 ۔ پھر اگر اُس سے غلطی ہو جائے تو اپنی غلطی مانتا ہے
3 ۔ اگر پہلے وہ محنتی نہ ہو تو مشورہ یا ھدائت ملنے پر محنت کرتا ہے

1963ء میں جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو وہاں میرے سنیئر نے چپڑاسی سے میرا تعارف کرا کے اُسے باہر بھیجنے کے بعد کہا ”یہ میری قوم ہے ۔ میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔ یہ کسی کیلئے اپنا دماغ استعمال نہیں کرتے کہ کہیں خرچ نہ ہوجائے (یعنی ختم نہ ہو جائے)“ ۔ آج میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اُن کا تجزیہ بالکل درست تھا

جو ”بندے دا پُتر“ نہیں ہوتے ۔ ان میں اَن پڑھ ۔ پڑھے لکھے ۔ غریب ۔ امیر ۔ مزدور اور بڑے عہدیدار یعنی کوئی بھی ہو سکتا ہے لیکن میں بات کرنا چاہتا ہوں گھریلو ملازموں کی ۔ ان لوگوں کو آپ لاکھ سمجھائیں ۔ کریں گے وہ اپنی مرضی ۔ آپ کا چاہے بڑا نقصان ہو جائے وہ اپنا پیسہ تو کیا ایک منٹ ضائع نہیں ہونے دیں گے ۔ دوسری بات کہ یہ لوگ اپنی غلطی کسی صورت نہیں مانتے ۔ بہت دبایا جائے تو کسی اور کے سر ڈال دیں گے

سات آٹھ سال سے ہم کھانا پکانے کیلئے عورت (باورچن) ملازم رکھتے ہیں ۔ ہر باورچن کو میری بیگم سمجھاتی ہیں کہ گیس اتنی کھولو کہ شعلہ دیگچی کے پیندے سے باہر نہ نکلے ۔ ہر باورچن زبانی ثابت کرنے کوشش کرے گی کہ وہ اس سے بھی زیادہ محتاط ہے

ہم پونے 2 سال لاہور میں رہے ۔ اللہ کی مہربانی سے وہاں ملازمہ جو ہمیں ملی وہ ”بندے دا پُتر“ قسم کی تھی ۔ اسلام آباد میں سوا 5 سال میں 4 دیگچیوں اور 2 پریشر کُکروں کی دستیاں جلائی گئیں ۔ میں نے کچھ روز قبل”حق حلال“ کے عنوان کے تحت ایک چمچے اور دیگچی کا ذکر کیا تھا ۔ اس دیگچی کی سخت پلاسٹک (Bakelite) جو آگ نہیں پکڑتا کی بنی ہوئی دستی جلنے کے باعث اُتر گئی تھی ۔ اتفاق سے میری نظر پڑ جانے کی وجہ سے دستی تباہ ہونے سے بچ گئی ۔ نمعلوم مزید کب تک چلے گی

اکتوبر کے شروع میں کچھ بھائی بہن آئے ۔ چاول زیادہ پکانےتھے ۔ بڑا چمچہ نکالا تو دستی کی ایک چفتی غائب ۔ باورچن کی جانے بلا کہ کہاں گئی ۔ کوئی جِن یا بھُوت چفتی اُتار کر لے گیا ہو گا

ایک پرانی بات یاد آئی ۔ اُس زمانہ میں صرف گھر کی صفائی اور برتن دھونے کیلئے ملازمہ ہوتی تھی ۔ دیکھنے میں اچھے خاصے مضبوط جسم کی مالک تھی ۔ میری بیگم نے کہا ”گاجریں کدوکش (shred) کر دو“۔ بولی ”میرے بازوؤں میں طاقت نہیں“۔ بیگم جو سنگل پسلی ہیں خود کرنے لگیں ۔ کچھ دن بعد بیگم نے ملازمہ سے کہا ”اُوپر جا کر پائپ کا والو (valve) بند کر آؤ تاکہ تمہارے ہاتھ دھونے کی ٹُوٹی ٹھیک کر دیں“۔ وہ بند کر کے آ گئی پھر بھی پانی بہہ رہا تھا۔ میں دیکھنے گیا تو معلوم ہوا کہ والو کو اُلٹی طرف گھُما کر توڑ دیا ہے ۔ اللہ رے یہ کیسے کمزور بازو تھے ۔ میں ایڑھی سے چوٹی تک کا زور لگاتا مگر والو اُلٹا نہیں گھُما سکتا تھا۔ اس محترمہ کمزور کے ہاتھوں مزید ہماری 2 چھُریاں اور 2 ریفریجریٹر کی برف جمانے والی ٹرے ٹوٹیں ۔ ہِیٹ پروف شیشے کی بنی کیتلی براہِ راست گرم چولہے پر رکھ کر توڑ دی ۔ درجنوں کے حساب کھانے والے اور چائے کے چمچے اور گلاس غائب ہوئے ۔ باورچی خانے میں ایک دراز میں فروٹ سلاد وغیرہ کے ٹین کے ڈبوں کے کٹے ہوئے گول ٹین کے ٹکڑے پڑے تھے ۔ بیگم نے کہا ”یہ کیا گند اکٹھا کیا ہوا ہے ۔ اسے پھینکو“۔ اگلے ماہ معلوم ہوا کہ وہ ٹین کےٹکڑے تو وہیں ہیں البتہ میں نے ایک الماری میں پیتل کا بنا ہوا مٹی کے تیل کا سٹوو ۔ سنگر سیونگ مشین کا انگلینڈ سے لایا ہوا تیل کا بھرا ہوا ڈبہ اور کئی اور کارآمد اشیاء رکھی ہوئی تھیں وہ غائب ہیں ۔ پوچھا تو نہائت معصومیت سے کہا ”آپ ہی نے تو کہا تھا پھینک دو“۔ کھانے اور چائے کی چمچیوں ۔ پانی پینے والے گلاسوں اور چائے کی پیالیوں کی الگ داستان ہے ۔ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب ٹوٹا یا کب گم ہوا

کہاں تک سُنو گے کہاں تک سناؤں ۔ ۔ ۔ بس کرتا ہوں

(در پردہ بیان ۔ ہماری بیگم صاحبہ کا اصول ہے کہ ہم کسی پر چوری کا الزام اُس وقت تک نہیں لگا سکتے جب تک ہم خود اُسے چوری کرتے نہ پکڑیں ۔ چنانچہ ہم ملازمہ کے کمرے کی تلاشی لے کر مسروقہ مال بھی برآمد نہیں کر سکتے ۔ مزید یہ کہ جس عورت کو ایک بار ملازم رکھ لیا اُسے نکالنا نہیں ہے جب تک وہ کوئی انتہائی مُخربُ الاِخلاق حرکت نہ کرے ۔ چنانچہ ایسا ہوتارہتا ہے کہ جن دنوں ہمیں ملازمہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے عام طور پر اُنہی دنوں میں ملازمہ اپنے گاؤں چلی جاتی ہے ۔ مجھے اپنی بیگم سے کوئی گلہ نہیں کیونکہ یہ اُس کی بہت سی اچھائیوں میں سے ایک چھوٹی سی اچھائی ہے ۔ شاید اللہ تعالٰی نے اسلام آباد کا سارا رحم میری بیگم کے دل میں ڈال دیا ہے ۔ جون 2012ء سے ہمارے پاس ماں بیٹی ملازم ہیں ایک بیٹا ہے جو ساتھ رہتا ہے اور محلہ میں کسی کا ڈرائیور ہے ۔ ماں بیٹا 6 ہفتے سے مکان بنانے گاؤں گئے ہوئے ہیں ۔ کہہ کر 2 ہفتے کا گئے تھے ۔ عید والے دن بھائی آ کر بہن کو بھی ایک دن کیلئے لے گیا تھا جو 4 دن بعد واپس آئی تو طبیعت کچھ مضمحل تھی ۔ چند دن بعد زکام ۔ گلا خراب وغیرہ ہوا ۔ ہفتہ بھر وہ بستر پر لیٹی رہی اور بیگم کھانا پکا کر اور دوائیاں تینوں وقت ملازمہ کو کوارٹر میں دے کر آتی رہیں ۔ اسے کھانا دینے کیلئے بیگم جو برتن اور روٹیوں کے رومال اسے دے کر آتیں وہ وہیں اکٹھے ہوتے رہے ۔ بعد میں بیگم نے لا کر دھلوائے)

ڈھائی لاکھ کا مقروض ہو گیا ۔ بچاؤ

اچھی طرح تحقیق یا تفتیش کر لیجئے میں نے ساری زندگی کبھی کسی سے قرض نہیں لیا لیکن کل یعنی 15 نومبر 2012ء کو مجھے معلوم ہوا کہ میں 242683 روپے کا مقروض ہوں یعنی میری بیوی ۔ بیٹی اور مجھ پر فی کس 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے ۔ کیا یہ ظُلم نہیں ؟

آپ کیوں بغلیں بجا رہے ہیں ؟ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پر بھی 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے اور آپ کے گھر کے ہر فرد پر بھی اتنا ہی اور ہاں اتنا ہی ہر بچے پر بھی خواہ وہ ایک دن کا ہو

پاکستان کی اگست 1947ء میں آزادی سے لے کر جون 2008ء تک یعنی پیپلز پارٹی کی رواں حکومت بننے سے پہلے 60 برس میں مجموعی قرضے اور واجبات 6691 ارب روپے تھے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ 4 سالہ دور میں بڑھ کر 14561 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔ مطلب حکمران پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 7870 ارب روپے کا اضافہ ہوا

ان اعداد و شمارکی روشنی میں پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی جس میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کا ہر فرد 80894 روپے کا مقروض ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37172 روپے فی کس تھا

ایک ایسا ملک جہاں خود حکومت کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح آبادی کا 58 فیصد ہو گئی ہے اور اسے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ یہ مزید بوجھ ملک کی آئیندہ نسلوں کیلئے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیگا۔ حکومت جو روزانہ کی بنیاد پر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مجموعی قرضے اور واجبات 16000 ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے۔ گزشتہ مالی سال 12۔2011 کے دوران حکومت نے 2000 ارب روپے کے قرضے لئے جو یومیہ 5.5 ارب روپے بنتے ہیں

ان 14561 ارب روپوں میں سے حکومت کا مقامی روپوں میں قرضہ 7638 ارب روپے اور بیرونی یعنی زرِ مبادلہ کا قرضہ 4365ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ 694 ارب روپے ۔ بیرونی واجبات 227 ارب روپے ۔ نجی شعبے میں بیرونی واجبات 575 ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز بیرونی قرضہ 144ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز مقامی قرضہ 281ارب روپے اور کموڈٹی آپریشنز 438 ارب روپے ہیں

ماہرین کے خیال میں کرپشن ۔ خراب حکمرانی ۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور ناقص اقتصادی طرزِ عمل کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں قوم پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ پڑا

رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 926 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سود کی یہ رقم مالی سال کے اختتام تک بڑھ کر 1100 ارب روپے تک پہنچ جائے گی

ماخذ ۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا خلاصہ

اسلامی نظامِ حکومت قسط ۔ 1

”اسلامی نظامِ حکومت کیا ہے ؟“
یہ ہے وہ سوال جو وقفہ وقفہ سے مجھے کئی بار پوچھا جا چکا ہے اور میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ میں عالِمِ دین ہونا تو بڑی بات ہے ، عالِم بھی نہیں ہوں ۔ میں اپنے تئیں اس قابل نہ پاتے ہوئے کچھ لکھنے سے گُریز کرتا رہا ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میں پہلے اپنے ملک پاکستان کے بارے میں وضاحت کر لوں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی جو مجھ پر ہمیشہ مہربان رہا ہے کی مزید مہربانی سے میں اس قابل ہوا اور یہ مضامین قارئین کی نظر سے گذرے ہوں گے

تقسیم قائد اعظم کی خواہش تھی یا مجبوری ؟
قائدِ اعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے ؟
کیا پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اسلامی نہیں ؟

اسلامی نظامِ حکومت پر کئی علماء اور مفکرین نے کتابیں لکھی ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں ۔ لمبی تحاریر پڑھنے کیلئے عام طور پر وقت کی قلت ہوتی ہے ۔ اگر انسان صرف اپنا طور طریقہ درست کر لے اور انصاف پر کاربند ہو تو بھی اسلامی نظام قائم ہو جائے

طور طریقہ
سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں الفاظ میں سلام کرو ۔ بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 2 ۔ اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔
اے اہل ایمان ۔ بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

سورت ۔ 61 ۔ الصف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں

عدل و انصاف

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مُشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بُوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوت کے طور) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔آیت 58 ۔ اللہ تم کو حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ بےشک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسراء یا بنی اسرآئیل ۔ آیت 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو تو) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے

وما علينا الالبلاغ ۔ اللہ مجے اچھے کاموں کی توفیق عطا فرمائے اور بُرائی سے بچائے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ حق حلال

ذہن میں آیا کہ تعمیرِ اخلاق کی خاطر اہم عوامل کو صرف چند الفاظ میں بیان کیا جائے تاکہ بہت کم فرصت پانے والے قارئین بھی مستفید ہو سکیں ۔ چنانچہ میں نے چار پانچ سال قبل” چھوٹی چھوٹی باتیں “ کے عنوان کے تحت لکھنا شروع کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے اس سلسہ میں کئی درجن دو چار سطری عبارات لکھ چکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے ۔ ایسی تحاریر دیکھنے کیلئے داہنے حاشیئے میں سب سے اُوپر بنے گوگل کے خانے میں چھوٹی چھوٹی باتیں لکھ کر Search پر کلِک کیجئے

حق حلال کہتے ہیں اپنی محنت کے پھل کو ۔ شاید 6 دہائیاں قبل ایک گانا ریڈیو پر سُنا تھا

محنت کی اک سُوکھی روٹی
ہاں بھئی ہاں رے
اور مفت کی دودھ ملائی
نہ بھئی نہ رے

یہ مجھے یوں یاد آیا ۔ ہمارے ہاں عام پاکستانی گھروں کی طرح بڑا دیگچہ اور چاول پکانے کا بڑا چمچہ ہیں کہ جب خاندان کے سب لوگ اکٹھے ہوں تو استعمال میں آتے ہیں ۔ چمچے کی دستی پر دونوں طرف لکڑی کی چفتیاں لگی ہیں ۔ اس کی دستی کی ایک چفتی غائب ہو گئی اور باہر نکلے ہوئے کیل ہاتھ کو چُبھتے ۔ بازار ٹھیک کرانے گیا تو (جدید) کاریگر نے کہا ،”یہ ٹھیک نہیں ہو سکتا“۔ میں نے خود بنا کر لگا دیا ۔ سفید رنگ کی لکڑی میں نے لگائی

کچھ دن قبل ہماری چائے بنانے والی دیگچی کی دستی جل کر اُتر گئی ۔ اسے ٹھیک کرانے گیا تو وہی پہلے والا جواب ملا ۔ سو خود ہی ٹھیک کرنا پڑی

یہ دونوں کام میں نے کیسے کئے ۔ اگر کسی کو دلچسپی ہوئی تو بتا سکتا ہوں

کردار ؟؟؟

جس دن ہم میں ایسی جراءت پیدا ہو جائے گی میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارا ملک امریکا سے بہتر بن جائے گا

لمحہ فکریہ ہے ہر خاص و عام کیلئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ۔ ہمارے کتنے سربراہان ہیں ملک یا بڑے اداروں کے جن میں یہ جراءت ہو کہ اپنی غلطی مانی ہو یا غلطی پر مستعفی ہوئے ہوں ؟

خبر
سی آئی اے کے سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس مستعفی ہو گئے ہیں ۔ وجہ بتاتے ہوئے اُنہوں نے کہا ” استعفیٰ ذاتی وجوہات کی بنا پر دیاہے ۔ جنسی تعلقات رکھنے کافیصلہ انتہائی غلط تھا۔ایک شوہر اور ایک آرگنائزیشن کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہ رویہ ناقابل قبول ہے ۔37 برس سے شادی شدہ ہوں ۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا“۔

علامہ اقبال

علامہ اقبال کا یومِ پیدائش مناتے ہوئے آج پورے مُلک میں چھٹی کے مزے لئے گئے ۔ کوئی ہے جس نے سوچا ہو کہ جو مشعل علامہ اقبال دکھا گئے تھے اُس پر عمل کیا جائے ۔ ملاحظہ ہو چند ارشادات

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔ ۔ ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گذر گاہ کا ۔۔۔۔۔ اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا ۔۔۔۔۔ آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاؤں کو گرفتار کیا ۔۔۔۔۔ زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

پختہ افکار کہاں ڈھونڈنے جائے کوئي ۔ اس زمانے کی ہوا رکھتی ہے ہر چیز کو خام
مدرسہ عقل کو آزاد تو کرتا ہے مگر ۔ چھوڑ جاتا ہے خیالات کو بے ربط و نظام
مردہ ۔ لادینی افکار سے افرنگ میں عشق ۔ عقل بے ربطیء افکار سے مشرق میں غلام

خودی کی موت سے مغرب کا اندرون بے نور ۔۔۔۔۔ خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذّام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب ۔۔۔۔۔ بدن عراق و عجم کا ہے بے عرق و عظّام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر ۔۔۔۔۔ قفس ہوا ہے حلال اور آشیانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور ۔۔۔۔۔ کہ بیچ کھائے مسلمانون کا جامہء احرام

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ ۔۔۔۔۔ اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو ۔۔۔۔۔ نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ
فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے ۔۔۔۔۔ تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس ۔۔۔۔۔ چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا ۔۔۔۔۔ صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا ۔۔۔۔۔ ناز بھی کر تو باندازہء رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے ۔۔۔۔۔ پھر جہاں میں ہوس شوکت دلدائی کر

نظر آتے نہیں بے پردہ حقائق ان کو ۔۔۔۔۔ آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی ۔۔۔۔۔ ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد