Monthly Archives: September 2012

کونسی جماعت زیادہ مقبول ہے ؟

معروف ادارے انٹرنیشنل ری پبلکن انسٹیٹیوٹ کے سروے کے مطابق صورتِ حال کچھ یوں ہے

فروری مارچ 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 16 فیصد ۔ ۔ ۔ 27 فیصد ۔ ۔ ۔ 31 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ 41 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 33 فیصد
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42 فیصد ۔ ۔ ۔ 6 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 15 فیصد ۔ ۔ ۔ 9 فیصد
خیبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 8 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 49 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13 فیصد
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 11 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 35 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 6 فیصد

جولائی اگست 2012 ۔ پیپلز پارٹی ۔ مسلم لیگ ن ۔ تحریکِ انصاف ۔ ایم کیو ایم ۔ اے این پی ۔ جمعیت فضل ۔ بی این پی
قومی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 14 فیصد ۔ ۔ ۔ 28 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 25 فیصد
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 7 فیصد ۔ ۔ ۔ 43 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 27 فیصد

یاد رکھنا ۔ خیال رکھنا

زندگی میں دو چیزوں کو یاد رکھنا اور ان کا خیال رکھنا
مبادا کہ وقت گذر جائے اور پچھتانا پڑے

ایک ۔ وہ شخص جس نے تمہاری جیت کیلئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنا سب کچھ ہار دیا

دوسرا ۔ وہ ہستی جس کی محنت اور دعاؤں سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم جِیتتے رہے اور بلاؤں سے بچتے رہے

پہلا شخص تمہارا باپ ہے
اور دوسری ہستی تمہاری ماں

کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے

عصرِ حاضر میں سائنس کی ترقی عروج پر ہے جس کے باعث کُرّہءِ ارض ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ گھر بیٹھے یا جہاں کہیں بھی ہو آدمی دو چار بار انگلیاں ہلا کر پوری دنیا کے حالات سے واقف ہو سکتا ہے ۔ معلوماتی گرم بازاری (Information boom) کے نتیجہ میں فرضی حُبِ جمہوریت نے گھر گھر میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں مگر جمہوریت ہے کہ بِلک رہی ہے

کوئی تو ایسا شہر ہوتا جہاں میرا دلدار مل جاتا
ہیں آمریت کے بدلے چہرے جہاں دیکھوں جدھر جاؤں

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ اسی لئے انسانیت کے اصولوں کو سمجھنے والوں نے اسے ابتداء ہی میں مسترد کر دیا تھا ۔

عظیم مفکّر سقراط (469 تا 399 قبل مسیح) نے کہا تھا ”جمہوریت کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ عوام کے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو نہ تو علم رکھتے ہیں ۔ نہ حکمرانی کا تجربہ اور نہ وہ عدل و انصاف کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غیرمنطقی مساوات کے تحت وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اپنی بہتری کے عمل سے ناواقف ہوتے ہیں“۔ سقراط کے بیان پر اجارا داروں کو اپنی حکمرانی خطرے میں محسوس ہوئی اور انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سُنا کر اس پر فوری عمل کیا ۔ اُن اجاراداروں کو آج کوئی نہیں جانتا مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے

ایک اور عظیم مفکّر ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کے مطابق جمہوریت ہوتی تو عوام الناس کی حکومت ہے لیکن اکثریت کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ صالح یا نیکوکار حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام الناس کی اکثریت صالح یا نیکوکار نہیں ہوتی

”جمہوریت“ بظاہر ایک آسان سا لفظ ہے ۔ جمہوریت طرزِ حکمرانی کے حق میں دلائل تو جتنے چاہیں مل جائیں گے کیونکہ کُرّہ ارض پر کہیں بھی چلے جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور تعلیم سمیت آدمی کی ہر سہولت سرمایہ داروں کی مرہونِ منت ہے ۔ آج کے دور میں کسی شخص سے (خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ) پوچھا جائے تو وہ ”جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے کا دعوٰی کرتا پایا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ”جمہوریت“ کا مطلب اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق بتاتے ہیں چنانچہ مختف گروہوں اور مختلف ادوار میں ”جمہوریت“ کا مطلب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر حکمران جمہوریت کی تفصیل اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ سرماداری نظام کے حامی جمہوریت کی تاویل آزاد تجارتی نظام بیان کرتے اور آزاد جمہوریت و معاشیاتی کُلیات جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز جیسے غریب ممالک میں عوامی حکومت اور عوامی نمائندے جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو محصور کرنے کیلئے نت نئی امدادی گٹھریوں (packages) کا اعلان کیا جاتا ہے جیسے بلوچستان پیکیج ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ جن کے خرچ ہونے کے بعد جن کیلئے تھا وہ چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا

موجودہ جمہوریت کے مطابق وہ اُمیدوار منتخب ہوتا ہے جو مقابلہ میں آنے والے ہر ایک اُمیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرے ۔ اگر ایک علاقہ میں امیدوار 2 سے زیادہ ہوں تو 50 فیصد سے کم ووٹ لینے والا کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ ایسے کامیاب اُمیدواروں کی حکومت بنے تو وہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی ۔ اگر اُمیدوار 4 یا زیادہ ہوں تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی ؟

جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنی توجہ اور قوت زیادہ تر یہ ثابت کرنے پر صرف کرتی ہے کہ مخالف پارٹی حکومت کرنے کی اہل نہیں اور اس سلسلہ میں عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ۔ چھوٹے ممالک ہی میں نہیں امریکا جیسی بڑی جمہوریت کے اندر بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے

آج کی دنیا کی بڑی قوّتیں جو اپنے تئیں ترقی یافتہ ہیں بشمول بہتاتی عالمی قوّت (World Super Power)، کے جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار اور انسانیت سے محبت کی علمبردار بنی پھرتی ہیں ۔ عمل اِن حکومتوں کا یہ ہے کہ ”جو میں کہوں وہ درست اور جو وہ کہے وہ میری مرضی کا تابع یعنی مجھے پسند ہو تو درست ورنہ غیر اخلاقی اور بعض اوقات غیرانسانی یا دہشتگردی“۔ ایک طرف قانون کہ جو شخص ہالوکاسٹ کو غلط کُجا مبالغہ آمیز بھی کہے (جو کہ وہ ہے) تو کہنے والا امریکا اور عالمی قوّتوں کا مُجرم اور اسے سزا دینے کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا اور انہی ممالک کے سہارے پلنے والے اسرائیل کو حق حاصل کہ کہنے والے کو جہاں کہیں بھی ہو اغواء کر کے لیجا کر قتل کر دے ۔ وجہ یہ کہ یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 0.19 فیصد ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا 28 فیصد سے زائد ہیں اُن کے محبوب نبی ﷺ جو کہ اللہ کے پیغمبر ہیں کی ناموسِ مبارک پر حملہ کیا جائے تو اِسے آزادیءِ اظہار کا نام دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ملعون کی زبانی مذمت تک نہیں کی جاتی

اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جس اُمیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں اس کے کردار سے واقف نہیں ہوتے اور نہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باقی نصف ذاتی وقتی ضروریات کے حصول کی تمنا لئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ 60 سے 70 فیصد لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے ان میں سے نصف سے زائد شاید ووٹ ڈالنے جانا ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور باقی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ سب اُمیدوار ان کے ووٹ کے اہل نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اگر 21 ستمبر 2012ء کو ملک کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کی کیا شکل بنتی ہے ۔ کیا یہی اُودھم مچانے والے لوگ نہیں ہیں جو ووٹ ڈالنے بھی جاتے ہیں ایک وقت پلاؤ ملنے یا ویگن پر مُفت سفر کے عوض ؟

نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت بننے کے بعد جہنیں لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے وہ مزے اُڑاتے ہیں اور باقی لوگ تین چار سال حکمرانوں کو کوستے ہیں اور اگلے انتخابات کے وقت پھر وہی ہوتا ہے جو پہلے ہو چکا ہوتا ہے ۔ جمہوریت ( Democracy) کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو جمہوریت وہ دیکھتے آئے ہیں وہ دراصل جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ انبوہ کی حکمرانی یا انبوہ گردی (mobocracy) ہے

کیوں نا ہم اپنے دماغ کو ارفع اور اعلٰی سمجھنے کی بجائے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں جو سب کچھ جانتا ہے اور کُل کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم عوام الناس کی بہتری کا بندوبست کریں ۔ اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

سوچتا ہوں ۔ ۔ ۔

جب اعداد و شمار دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں سوچتا ہی رہتا ہوں
کیا کوئی سیاسی سونامی آ کر
لے جائے گا اس گند کو بہا کر
یا اس بے ہنگم لُوٹ کا ختم ہونا
ہے صرف قیامت کا برپا ہونا

میں لکھ چکا ہوں کہ صرف ایک سال میں سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی 9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اور یہ نقصان بے قصور صارفین کے بل بڑھا کر پورا کیا جاتا ہے ۔ سوئی سدرن والے ”سمجھدار“ ہیں وہ اپنے اعداد و شمار کو ہوا نہیں لگنے دیتے ۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے اعداد و شمار ہوشرُبا ہیں

ایسے وقت کہ جب سوئی سدرن اور سوئی نادرن گیس کمپنیاں بڑھے ہوئے نرخوں کو مزید بڑھانے پر زور دے رہی ہیں ، مُسلم لیگ ن کی رُکن قومی اسمبلی شریں ارشد خان کے مطالبے پر پیر 3 ستمبر کو وزیر اعظم کے مشیر برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین نے قومی اسمبلی میں ایک رپورٹ پیش کی جس کے مطابق 313 کمپنیوں اور اداروں میں سے ہر ایک سوئی سدرن یا سوئی نادرن کا کم از کم ایک کروڑ روپے کا نا دہندہ ہے ۔ ان میں بڑی نجی انڈسٹریل کمپنیاں ۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں ۔ سی این جی سٹیشنز ۔پاکستان ریلوے ۔ فوج کے ماتحت ادارے ۔ واپڈا ۔ پارلیمنٹ ہاؤس وغیرہ شامل ہیں جن میں سے مندرجہ ذیل صرف 41 ادارے اور کمپنیاں 75 ارب 81 کروڑ 19 لاکھ 45 ہزار روپے کے نا دہندہ ہیں

پاکستان ریلوے ۔ 11 کروڑ 20 لاکھ 91 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ۔ 8 ارب 78 کروڑ 21 لاکھ 83 ہزار روپے
پاکستان سٹیل ٹاؤنشپ ڈیپارٹمنٹ ۔ ایک کروڑ 74 لاکھ 69 ہزار روپے
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ۔ 4141 ارب 80 کروڑ 51 لاکھ 33 ہزار روپے
کے ای ایس سی / کے ٹی پی ایس رہائشی کمپلیکس ۔ 3 کروڑ 67 لاکھ 86 ہزار
واپڈا (جامشورو ۔ کوٹری ۔ سکھر ۔ کوئٹہ) ۔ 2222 ارب 2 کروڑ 39 لاکھ 87 ہزار روپے
سینٹرل جیل کراچی ۔ 2 کروڑ 82 لاکھ 63 ہزار روپے
سینٹرل جیل حیدر آباد ۔ ایک کروڑ 41 لاکھ 72 ہزار
ڈپٹی ڈائریکٹر مکینیکل ڈویژن ۔ 1 سی ڈی اے برائے وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 56 لاکھ 35 ہزار روپے
ڈپٹی ڈائریکٹر ایئر کنڈیشننگ ۔ سی ڈی اے سیکرٹیریئٹ بلڈنگ ایم بلاک ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 5 لاکھ 80 ہزار
اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجیئر ۔ سٹور ورکشاپ انجنیئرنگ ڈویژن پاک پی ڈبلیو ڈی ۔ اسلام آباد ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 80 ہزار روپے
پولیس ٹریننگ کالج سہالا ۔ اسلام آباد ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 85 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ سی ڈی اے برائے پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 5 کروڑ 68 لاکھ 28 ہزار روپے
ای اینڈ ایم مینٹننس ڈویژن ۔ پارلیمنٹ ہاؤس ۔ اسلام آباد ۔ 4 کروڑ 48 لاکھ 45 ہزار روپے

ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ 3 کروڑ 11 لاکھ 36 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی احسان شامی روڈ ۔ 2 کروڑ 99 لاکھ 49 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی تنصیل روڈ ۔ 2 کروڑ 43 لاکھ 9 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی عابد مجید روڈ ۔ ایک کروڑ 67 لاکھ 60 ہزار
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 95 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ لاہور چھاؤنی ۔ شامی روڈ ۔ ایک کروڑ 15 لاکھ 93 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ طفیل روڈ ۔ 2 کروڑ 22 لاکھ 78 ہزار روپے
ایم ای آرمی ۔ ایسٹ بینک روڈ ۔ راولپنڈی برائے جی ایچ کیو ۔ ایک کروڑ 30 لاکھ 72 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ 2 کروڑ 75 لاکھ 35 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ بہاولپور ۔ بلال کالونی ۔ ایک کروڑ 93 لاکھ 62 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ مانکی چوک ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 53 لاکھ 22 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ ایم ای ایس ۔ لاہور چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 52 لاکھ 55 ہزار روپے
گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ نوشہرہ چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 46 لاکھ 14 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ اٹک ۔ ایک کروڑ 27 لاکھ 26 ہزار روپے
اسسٹنٹ گیریزن انجنیئر ۔ آرمی ۔ رسالپور ۔ ایک کروڑ 20 لاکھ 8 ہزار روپے
کماڈنٹ آرمڈ فورسز انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی ۔ راولپنڈی ۔ ایک کروڑ 44 لاکھ 85 ہزار روپے
چھاؤنی 47 آرٹلری بریگیڈ ۔ سرگودھا چھاؤنی ۔ ایک کروڑ 22 لاکھ 86 ہزار روپے
پی ایم اے ۔ کاکول (اندرونی علاقہ) ۔ ایبٹ آباد ۔ ایک کروڑ 4 ہزار روپے

حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی شیخ مدینہ ۔ کوئٹہ ۔ ایک ارب 32 کروڑ ایک لاکھ 12 ہزار روپے
لکی انرجی (پرائیویٹ ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 27 کروڑ 41 لاکھ 95 ہزار روپے
ٹاٹا انرجی لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 83 لاکھ 7 ہزار روپے
عدنان پاور (پرائیویٹ) لمیٹڈ ۔ کراچی ۔ 3 کروڑ 95 لاکھ 92 ہزار روپے
اولمپیا پاور جنریشن ۔ کراچی ۔ 18 کروڑ 30 لاکھ 50 ہزار روپے
نو ڈیرو پاور پلانٹ ۔ لاڑکانہ ۔ 16 کروڑ 24 لاکھ 48 ہزار
گلستان پاور ۔ کوٹری ۔ 13 کروڑ 69 لاکھ 72 ہزار روپے
ندیم پاور جنریشن ۔ کوٹری ۔ 10 کروڑ 30 لاکھ 35 ہزار روپے
بھنیرو انرجی لمیٹڈ ۔ کوٹری ۔ 8 کروڑ 39 لاکھ 8 ہزار روپے

ناموسِ رسول ﷺ

مغربی اقوام جنہوں نے سیکولر ازم کی آڑ میں اپنے نبیوں کو عملی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔ آج پھر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف انداز اور مختلف اطراف سے تیر چلا رہی ہیں اور انہیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ مسلمان اپنے نبی کے معاملے میں اتنے حساس کیوں ہیں کہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عشق رسول کے بغیر مسلمان کا ایمان ہی مکمل نہیں ہوتا ۔ وہ لوگ صرف نام کے مسلمان ہیں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ہر شے، والدین، اولاد، دوست وغیرہ سے زیادہ محبت نہیں ہوتی ۔ لیکن اشتعال انگیزی اور توڑ پھوڑ مسلمان کا شیوہ نہیں ۔ اسلام کا مطلب ہی ”امن“ ہے

میں اس موضوع پر لکھنا چاہ رہا تھا اور دماغ میں اتنا کچھ جمع ہو گیا کہ میرے لئے اس کا اختصار ناممکن ہو گیا ۔ اللہ مُشکل کُشا نے میری مُشکل آسان فرمائی اور مجھے ایک مضمون مل گیا جس سے اقتباس حاضر ہے

غزوہ اُحد اپنے عروج پر تھا۔ دونوں طرف سے تیر چلائے جا رہے تھے اور تلوار زنی کے جوہر دکھائے جا رہے تھے۔ کفار کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر لیں یا شہید کر دیں۔ مشرکین ہر طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ ان کا حملہ شدت اختیار کر گیا تو حضرت مصعب بن عمیر اور حضرت ابو دجانہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے دشمنوں کو بھگاتے ہوئے شدید زخمی ہو گئے۔ مشرکین تیر برسانے لگے۔ وہ مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے منتشر کرنا چاہتے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت ابو طلحہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں طرف سے اس طرح گھیر لیا کہ وہ ڈھال بن گئے۔ حضرت قتادہ بن نعمان کی آنکھ میں تیر لگا تو آنکھ کا ڈیلا رخسار پر لٹک گیا۔ مشرکین کے تیروں کا نشانہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی جبکہ صحابہ کرام آپ کے سامنے ڈھال بنے کھڑے تھے

حضرت ابو طلحہ انصاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو کر مشرکین پر تیر چلا رہے تھے۔ دوسری طرف حضرت طلحہ بن عبید اللہ تلوار چلا رہے تھے اور چاروں طرف سے مشرکین کے حملے روک رہے تھے۔ مالک بن زبیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ
مبارک کا نشانہ لے کر تیر چلایا تو حضرت طلحہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ سامنے کر دیا۔ تیر ان کی انگلی کو چیرتا ہوا نکل گیا۔ بنی عامر بن لوی کا ایک آہن پوش سوار نیزہ لہراتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ آور ہوا تو حضرت طلحہ نے آگے بڑھ کر اس پر وار کیا۔ اس کا گھوڑا گر گیا۔ حضرت طلحہ نے اس کا نیزہ چھین کر اس زور سے اس کی آنکھ میں چبھویا کہ وہ وہیں ختم ہو گیا

حضرت طلحہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے جسموں پر تیر کھاتے اور دشمن کے وار سہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبل احد کی طرف محفوظ مقام پر لے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہونے کی خبر سن کر حضرت اویس قرنی نے باری باری اپنے تمام دانت نکال دیئے تھے کہ نہ جانے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کونسا دانت شہید ہوا

غزوہ احد میں حضرت طلحہ کو انتالیس زخم لگے۔ مورخین لکھتے ہیں آپ کا جسم زخموں سے چھلنی ہو گیا تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں بے شمار زخم لگے۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں ”میں نے دیکھا طلحہ بن عبید اللہ کا بہت زیادہ خون بہہ گیا تھا اور وہ بے ہوش پڑےا تھے۔ میں نے ان کے چہرے پر پانی چھڑکا تو ہوش آ گیا۔ آنکھ کھلتے ہی پہلا سوال یہ کیا ‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں؟’ میں نے جواب دیا ”بخریت ہیں اور انہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے“۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ نے کہا ‘الحمد للہ ہر مصیبت کے بعد آسانی ہوتی ہے’ “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو زندہ ہے حالانکہ اہل جنت سے ہے (یعنی زندہ شہید ہے) تو وہ طلحہ کو دیکھے“۔ (بحوالہ الامین صلی اللہ علیہ وسلم از محمد رفیق ڈوگر جلد دوم ص 478)۔ غزوہ احد کے دوران یہ افواہ اڑ گئی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں لیکن جب اہل مدینہ کو یہ خوشخبری ملی کہ یہ افواہ بے بنیاد ہے تو کچھ خواتین کو یقین نہ آیا اور وہ خود میدان جنگ کی طرف چل دیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت سمیرا
بنت قیس گھر سے نکلیں اور بنی دینار کی خواتین کے ہمراہ جبل احد کی طرف چل پڑیں۔ وہ ہر ملنے والے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھتی تھیں۔ کسی نے بتایا ”تمہارے دونوں بیٹے نعمان اور سلیم شہید ہو گئے“۔ حضرت سمیرا نے بات سنی اَن سنی کر کے پوچھا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بتاؤ؟“ جواب ملا ”الحمد للہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ویسے ہی ہیں جیسے تم ان کو دیکھنا چاہتی
ہو“۔ حضرت سمیرا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر سارے مصائب / غم آسان ہو گئے ہیں“۔ (الامین صفحہ 439)

ڈاکٹر صفدر محمود کی تحریر سے اقتباس