Monthly Archives: May 2012

معیشت کی بربادی اور کراچی میں قتل و غارتگری کا اصل سبب

یومیہ 5 ارب روپے کا نقصان
چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح بخاری کے مطابق مُلکی معیشت کے صرف 3 شعبوں ہی میں کرپشن سے5 ارب یومیہ یعنی ایک کھرب 50 ارب روپے ماہانہ یا18 کھرب (1800000000000) روپے سالانہ نقصان ہوتا ہے

اس انکشاف سے ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کی توثیق ہو گئی ہے جس میں کہاگیاتھا کہ پاکستان کے 94 ارب ڈالرز وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے 4سالہ حکومت میں ہونے والی بد انتظامی ،کرپشن اور ٹیکس چوری کی نذر ہو چکے ہیں

مزید یہ کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مُلکی معیشت کوگذشتہ 4 برسوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یومیہ 3ارب یعنی ماہانہ 90 ارب یا سالانہ 10 کھرب 50 ارب سے زائد کا نقصان ہوا ہے

چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ کرپشن پر قابو پانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ سویلین بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کیا جائے تاکہ سرکاری ملازمین بغیر کسی خوف و لالچ کے اپنی ذمہ داریاں انجام دے سکیں

چیئرمین نیب نے حال ہی میں وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے 4 سیکریٹریوں کی برطرفی کا ذکر کیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے بیوروکریسی کو سیاست سے پاک کرنے کا ایجنڈا پیش کیا تھا اور یہ بات قائم علی شاہ جو ناگوار گذری ۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر کارروائی کرینگے تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا

فصیح بخاری نے وضاحت کی کہ نیب کی اختیارات بڑے پیمانے پر محدود کر دیئے گئے ہیں ایک اندازے کے مطابق نیب کی جو طاقت پرویز مشرف کے دور میں تھی وہ اب صرف30فیصد ہی رہ گئی ہے

مفاہمت کے باعث مجرموں کی سرکوبی نہیں ہوتی
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی زیر صدارت امن و امان سے متعلق بدھ کو چیف منسٹر ہاؤس میں منعقد ہونے والے اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے نمائندوں نے بالآخر وہ بات کہہ دی جو وہ کسی باقاعدہ اجلاس میں اب تک نہیں کہہ سکے تھے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بعض افسروں نے یہ کہہ دیا کہ مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں کی سرکوبی نہیں ہو سکتی ۔ انہوں نے یہ بھی درخواست کی کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں مشاورت کرکے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو واضح پالیسی دی جائے تا کہ وہ جرائم پیشہ اور دہشت گرد عناصر کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جاسکے

بعض افسروں نے یہ بھی شکوہ کیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے شرپسندوں کو گرفتار کرتے ہیں لیکن بعدازاں سیاسی دباؤ پر انہیں چھڑا لیا جاتا ہے ۔ اس طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور کارروائی سے گریزاں رہتے ہیں

باقی 99 روپے ؟

قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران پی پی پی کے ایک رکن نے اپنی تقریر کے دوران ایک کہانی سنائی

ایک باپ نے اپنے تین بیٹوں کو ایک ایک سو روپیہ دیا اور کہا کہ ایسی چیز خرید کر لاؤ کہ اس سے یہ کمرہ بھر جائے ۔ ایک بیٹا 100 روپے کی کپاس خرید لایا لیکن اس سے کمرہ نہ بھر سکا ۔ دوسرا بیٹا 100 روپے کا بھوسہ خرید لایامگر اس سے بھی کمرہ نہ بھر سکا ۔ تیسرا بیٹا بہت ذہین تھا ۔ وہ گیا اور ایک روپے کی موم بتی لے آیا ۔ اسے جلا کر کمرے میں رکھ دیا تو اس کی روشنی سے سارا کمرہ بھر گیا

اس کے بعد پی پی پی کے رُکن قومی اسمبلی نے کہا “ہمارے صدر زرداری صاحب تیسرے بیٹے کی طرح ہیں ۔ جس دن سے صدر بنے ہیں مُلک کو خوشحالی کی روشنی سے منوّر کر دیا ہے
اسمبلی حال کی پچھلی نشستوں سے کراچی سے مُنتخب ایک رُکن کی آواز آئی “وہ سب تو ٹھیک ہے ۔ باقی 99 روپے کہاں ہیں ؟”۔

:lol:

موازنہ مابین وزیر اعلٰی اور وزیر اعظم

حکمرانوں کے اندرون اور بیرون مُلک دورے ایسا فعل ہے جس پر عوام خاص توجہ نہیں دیتے حالانکہ عوام کی گاڑھے پسینے کی کمائی میں سے نچوڑے گئے ٹیکسوں کا بھاری حصہ اِن عام طور پر لاحاصل دوروں پر برباد ہوتا ہے ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب کے سارے دوروں کے مقابلہ میں عوام کے درد کا دعوٰی رکھنے والے وزیر اعظم پیروں کے نوادے یوسف رضا گیلانی صاحب کی ایک جھلک شاید کچھ وضاحت کر پائے

پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ق کی رُکن زوبیہ رُباب ملک نے سوال اُٹھایا کہ وزیرِ اعلٰی کے غیر مُلکی دوروں کے اخراجات بتائے جائیں ۔ سوال کے جواب میں اعداد و شمار پیش کرنا مجبوری تھی جن کا خلاصہ درج ذیل ہے

جب یہ سوال پنجاب اسمبلی میں جمع کرایا گیا تو اُس وقت تک وزیر اعلٰی شہباز شریف 7 غیر ملکی دورے لگا چکے تھے جن کے سلسلے میں عوام کے خزانے سے کُل 20 لاکھ 60 ہزار روپے ادا کئے گئے تھے ۔ وجہ ؟ ؟ ؟

پہلا دورہ (چین) ۔ 16 نومبر 2008ء ۔ شہباز شریف (وزیر اعلٰی) ۔ تنویر اشرف کائرہ (وزیر) ۔ احمد علی اولکھ (وزیر) ۔ خواجہ عمران نذیر (رُکن) ۔ ہارون خواجہ (مانیٹرنگ سیل) ۔ سیّد طاہر رضا نقوی (سیکریٹری صنعت) ۔ شاہد محمود (ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے) ۔ محی الدین احمد وانی (ڈی جی پی آر) ۔ عظمت محمود (پی ایس او)
شہباز شریف ۔ تنویر اشرف کائرہ ۔ احمد علی اولکھ ۔ خواجہ عمران نے خرچہ اپنی جیبوں سے دیا ۔ ہارون خواجہ ۔ سیّد طاہر رضا نقوی ۔ شاہد محمود ۔ محی الدین احمد وانی کے اخراجات اُن کے متعلقہ محکموں نے دیئے ۔ عظمت محمود کے اخراجات (152736 روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے ادا کئے

دوسرا دورہ (بحرین ایران دبئی) ۔ 11 جون 2009ء ۔ شہباز شریف ۔ تنویر اشرف کائرہ ۔ سردار دوست محمد کھوسہ (وزیر) ۔ سیّد زعیم حسین قادری (رُکن) ۔ سعید اکبر نوانی (رُکن) ۔ اسماء ممدوٹ (رُکن) ۔ مخدوم سیّد رضا علی گیلانی (رُکن) ۔ مخدوم عبدالقادر گیلانی (رُکن) ۔ پیر سعد احسن الدین (وائس چیئرمین پی بی آئی ٹی) ۔ سیّد طاہر رضا نقوی ۔ عارف ندیم (سیکریٹری) ۔ شعیب بن عزیز (سیکریٹری) ۔ علی سرفراز (اڈیشنل سیکریٹری) ۔ عظمت محمود ۔ ضیاء الحق (پرسنل اٹینڈنٹ وزیر اعلٰی)
شہباز شریف نے اپنے اور ضیاء الحق کے اخراجات ادا کئے ۔ وزراء اور اراکین نے اپنے اپنے اخراجات دیئے ۔ پیر سعد احسن الدین ۔ سیّد طاہر رضا نقوی ۔ عارف ندیم اور شعیب بن عزیز کے خراجات متعلقہ محکموں نے دیئے ۔ علی سرفراز اور عظمت محمود کے اخراجات (257473 روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے دیئے

تیسرا دورہ (لندن ترکی) 9 جنوری 2010ء ۔ شہباز شریف ۔ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ (سِنیئر ایڈوائزر) ۔ اشرف خان سوہنا (وزیر) ۔ شجاع خانزادہ (رُکن) ۔ عطا الحق قاسمی (صحافی) ۔ عارف ندیم (سیکریٹری) ۔ فضل عباس مکن (سیکریٹری) ۔ شعیب بن عزیز ۔ ہارون خواجہ (چیئرمین ایس آئی ای) ۔ سعد احسن الدین ۔ عظمت محمود
شہباز شریف ۔ سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ۔ اشرف خان سوہنا ۔ شجاع خانزادہ نے اخراجات اپنی جیب سے دیئے ۔ عطا الحق قاسمی ۔ عارف ندیم ۔ فضل عباس مکن ۔ شعیب بن عزیز ۔ ہارون خواجہ کے اخراجات متعلقہ محکموں نے ادا کئے ۔ عظمت محمود کے اخراجات (411368 روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے دیئے

چوتھا دورہ (ابو ظبی) 11 دسمبر 2010ء ۔ شہباز شریف ۔ خواجہ محمد آصف (ایم این اے) ۔ ہارون خواجہ ۔ ساجد ظفر دل (پی ایس او وزیر اعلٰی)
شہباز شریف ۔ خواجہ محمد آصف نے اخراجات اپنی جیب سے دیئے ۔ ہارون خواجہ ۔ ساجد ظفر دل کے اخراجات متعلقہ محکمون نے دیئے ۔ ساجد ظفر دل کے اخراجات (215315 روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے دیئے

پانچواں دورہ (ترکی برطانیہ) 26 دسمبر 2010ء ۔ شہباز شریف ۔ خواجہ احمد حسن (چیئرمین ایل ٹی سی) ۔ محمد عامر خان (چیف فوٹوگرافر) ۔ اطہر علی خان (پی آر او وزیر اعلٰی) ۔ ساجد ظفر دل
شہباز شریف نے اپنے اور محمد عامر خان کے اخراجات اپنی جیب سے دیئے ۔ خواجہ احمد حسن کے اخراجات متعلقہ محکمے نے ادا کئے ۔ اطہر علی خان اور ساجد ظفر دل کے اخراجات (355634روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے دیئے

چھٹا دورہ (ہانگ کانگ ۔ چین) 17 اپریل 2011ء ۔ شہباز شریف ۔ رانا ثناء اللہ (وزیر) ۔ پرویز رشید (سینیٹر) ۔ سعد مجید (ایم این اے)
عظمت محمود کے اخراجات (152736روپے) وزیر اعلٰی سیکریٹیریٹ نے دیئے ۔ باقی سب نے اپنی اپنی جیب سے ادا کئے

ساتواں دورہ (برطانیہ) 3 جولائی 2011ء ۔ شہباز شریف ۔ رانا ثناء اللہ ۔ مجتبٰی شجاع الرحمٰن (وزیر) ۔ کامران مائیکل (وزیر) ۔ محمد پرویز ملک (ایم این اے) ۔ بلیغ الرحمٰن (ایم این اے) ۔ انجنیئر خُرم دستگیر خان (ایم این اے) ۔ اراکین پنجاب اسمبلی علی حیدر نور خان نیازی ۔ شجاع خانزادہ ۔ شمسہ گوہر ۔ نوابزادہ سیّد شمس حیدر ۔ شہزادی عمرزادی ٹوانہ ۔ پیر ولائت شاہ کھگہ ۔ مائزہ حمید ۔ چوہدری ندیم خادم ۔ تنویر اسلم ملک اور میاں طارق محمود ۔ شفقت محمود (صحافی جو اب تحریک انصاف میں ہے) ۔ جاوید اسلم (چیئرمین پی اینڈ ڈی) ۔ انیس احمد (چیئرمین سی ایم ایم آئی سی) ۔ شعیب بن عزیز ۔ سیف حمید (چیئرمین پنجاب یوتھ کونسل) ۔ سعادت مظفر (سی ای او پی بی آئی ٹی) ۔ محمد عامر خان ۔ ساجد ظفر دل
شہباز شریف نے اپنے اور محمد عامر خان کے اخراجات ادا کئے ۔ باقی لوگوں کے اخراجات حسبِ سابق ادا ہوئے

یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت کے دوران قومی اسمبلی میں سوال پوچھا گیا “بتایا جائے کہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں وزیر اعظم ہاؤس کے اجراجات کتنے تھے ؟” اس پر نواز شریف کی جماعت کے رکن نے بھی سوال جمع کرا دیا کہ “بینظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومے میں وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے اخراجات بھی بتائے جائیں”۔ پیپلز پارٹی کے متعلقہ وزیر کو مجبوراً بتانا پڑا ۔ اعداد و شمار کو مجھے یاد نہیں لیکن بینظیر بھٹو کے دور کے اخراجات کروڑوں میں تھے اور نواز شریف کے دور کے لاکھوں میں ۔ اس پر اعتراض ہوا تو وزیر موصوف نے بتایا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ سرکاری دعوتوں کے اخراجات سمیت باقی تمام اخراجات نواز شریف اپنی جیب سے دیتے تھے

مندرجہ بالا کے مقابلہ میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے غیر ملکی دوروں کیلئے وفاقی حکومت کے بجٹ میں ایک ارب 20 کروڑ روپیہ رکھا گیا ہے ۔ اوائل مئی 2012ء میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے 70 رُکنی وفد کے برطانیہ کے ایک ہفتہ کے دورے پر 10 کروڑ روپیہ خرچ کا تخمینہ لگایا گیا تھا جبکہ ان 7 دنوں میں صرف ایک گھنٹہ سرکاری کام پر صرف ہونا تھا ۔ خیال رہے کہ اس دورے میں صرف 6 آدمیوں کے رہنے کے اخراجات میزبان مُلک نے ادا کرنا تھے جبکہ ان 6 افراد کے لندن پہنچنے اور لندن سے واپس جانے کے اخراجات بھی حکومت پاکستان نے ادا کرنا تھے

بجلی کہاں جاتی ہے ؟

حسبِ وعدہ حاضر ہے مطالعاتی تحقیق کا نتیجہ
عوام پریشان کہ حکمرانوں کے مطابق بجلی پیدا کرنے والوں کو 360 ارب روپے سبسڈی دی جاتی ہے ۔ گو وہ بھی عوام سے وصول کردہ ٹیکس ہی کا پیسہ ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوام بھاری بھرکم بل بھی عطا کرتے ہیں ۔ محترمہ بجلی صاحبہ پھر بھی کم ہی درشن کراتی ہے ۔ آخر یہ بجلی جاتی کہاں ہے ؟

وفاقی وزراء اور ان کے لواحقین کے ذمہ ایک کھرب 20 ارب (120000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ سندھ کے ذمہ 50 ارب (50000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ پنجاب کے ذمہ 19 ارب (19000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ بلوچستان کے ذمہ 18 ارب (18000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومت خیبر پختونخوا کے ذمہ 16 ارب (16000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
حکومتِ آزاد جموں کشمیر کے ذمہ 15 ارب (15000000000) روپے کے بجلی کے بل واجب الادا ہیں
نجی اداروں کے ذمہ ایک کھرب 27 ارب روپے بجلی کے بل واجب الادا ہیں جس میں زیادہ رقم اُن لوگوں کے ذمہ ہے جو بارسُوخ سیاستدانوں کے رشتہ دار یا قریبی دوست ہیں

واجب الادا بلوں کے ساتھ ساتھ مُلک میں ہر سال 50 ارب روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے ۔ چوری کی بجائے کہا جاتا ہے کہ سِلکیہ نقصانات (Line Losses) 35 سے 40 فیصد ہیں ۔ چین میں سلکیہ نقصانات 6 فیصد ہوتے ہیں جبکہ فلپین جو کرپٹ مُلک جانا جاتا ہے میں 11 فیصد ہوتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں بھی کم از کم 1970ء تک سِلکیہ نقصانات 6 فیصد ہو جائیں تو آڈٹ اوبجیکشن ہو جاتا تھا اور تحقیقات شروع ہو جاتی تھیں

اس بجلی چوری کے حصہ داران ہیں
کراچی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 38.5 فیصد یعنی سالانہ 19 ارب 25 کروڑ روپے
پشاور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 31.2 فیصد یعنی سالانہ 15 ارب 60 کروڑ روپے
لاہور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 12.8 فیصد یعنی سالانہ 6 ارب 40 کروڑ روپے
فیصل آباد ۔ ۔ ۔ 9.1 فی صد یعنی سالانہ 4 ارب 55 کروڑ روپے

دوسرے علاقے ۔ 4 ارب 20 کروڑ روپے

یہیں بات ختم نہیں ہوتی
ہر بڑے شہر میں چوری کئے ہوئے سرکاری ٹرانسفارمر اور بجلی کی تاروں کے ڈھیر لگے ہیں جو اندر کھاتے سستے داموں فروخت ہوتے ہیں
نیپرا رپورٹ کے مطابق بجلی کی صرف 3 سرکاری کمپنیوں نے 26 ارب روپے کا فرنس آئل چوری کیا

اگر صرف واجب الادا بل ہی ادا کر دیئے جائیں تو مُلک میں لوڈ شیڈنگ بالکل بند ہو جائے اور فاضل بجلی برآمد بھی کی جا سکتی ہے

ایسی بات نہیں کہ مندرجہ بالا کاروائیاں حکمرانوں کے علم میں نہیں ۔ حقیقت واضح ہے کہ اس میں بارسُوخ حکمرانوں کا مفاد ہے ۔ اسی لئے اسے جاری و ساری رکھا گیا ہے

گھی مہنگا ۔ تیل مہنگا ۔ آٹا مہنگا ۔ چاول مہنگے ۔ پھل مہنگا ۔ سبزیاں مہنگی ۔ دالیں مہنگی ۔ پٹرول مہنگا ۔ گیس مہنگی اور بجلی یہ تحریر لکھنے اور شائع کرنے کے درمیان مزید (more over) مہنگی ۔ عوام صرف غم کھائیں اور جان بنائیں

لڑکپن کی باتيں قسط 4 ۔ رنگِ زماں

قبل ازیں باد نما ۔ وطن اور افسانہ یا حقیقت لکھ چکا ہوں

جن دنوں ميں نويں دسويں جماعت ميں پڑھتا تھا ميں اور ميرے 3 دوست جمعہ کو مرکزی جامع مسجد راولپنڈی ميں نمازِ جمعہ پڑھنے کے بعد بانسانوالا بازار ۔ راجہ بازار ۔ لياقت روڈ ۔ مری روڈ اور سرکلر روڈ سے ہوتے ہوئے گھروں کو چلے جايا کرتے تھے ۔ ميں جھنگی محلہ ميں اپنے گھر اور باقی اپنے اپنے ۔ ايک دن نماز کے بعد جب ہم لوگ لياقت روڈ پر سنيما کے سامنے سے گذر رہے تھے تو ہم نے ديکھا کہ ايک جوان جو مسجد میں نماز پڑھ کر نکلا تھا سنيما کا ٹکٹ لينے کيلئے قطار ميں کھڑا ہے

انہی دنوں چُست لباس کا فيشن چلا اور لباس چُست ہوتے قميض جسم کے ساتھ يوں چِپکی کہ جيسے جسم پر رکھ کے سِی گئی ہو ۔ شلوار کا گھير نہائت مختصر ہو گيا اور دوپٹہ سُکڑ کر اور بَل کھا کے رَسی کی صورت اختيار کر گيا ۔ اس لباس کو ٹیڈٰی لباس (Teddy Dress) کا نام دیا گیا تھا ۔ شاید ٹائڈی (Tidy) کو ٹیڈی بنا دیا گیا ہو

شام کے وقت گھر ميں بيٹھا تھا کہ ميرا دماغ گھومنے لگا ۔ ميں نے کاغذ پنسل پکڑی اور لکھنے لگ گيا ۔ يہ نظم ميرے ساتھيوں نے کسی رسالے ميں بھی چھپوا دی تھی جس کا نام اس وقت ميرے ذہن ميں نہيں

ہر موڑ پہ تُم رنگِ زماں ديکھتے جاؤ ۔ ۔ ۔ خاموش يہ سب سَيلِ رواں ديکھتے جاؤ
تھئيٹر کو جاتے ہيں مسجد سے نکل کر ۔ ۔ ۔ اسلام کے يہ روحِ رواں ديکھتے جاؤ
ہونٹوں پہ لِپ سٹِک تو رُخسار پہ پاؤڈر ۔ ۔ ۔ يہ دُخترِ مِلت ہے رواں ديکھتے جاؤ
نازک ہوئی دخترِ مِلت کی طبيعت ۔ ۔ ۔ دوپٹہ بھی ہوا اس پہ گراں ديکھتے جاؤ
اندھے ہوئے مغربی فيشن کے جنوں سے ۔ ۔ ۔ انساں ہيں بنے ٹَيڈی ديکھتے جاؤ
ہے اَوجِ ترقی کی طرف جاتا زمانہ ۔ ۔ ۔ اجمل کھڑے رفتارِ زماں ديکھتے جاؤ

بندہ حاضر

درست طریقہ تو خدمتگار سے خدمتگار (server to server) سب کچھ مُنتقل کرنا ہے لیکن بجلی کی آنکھ مچولی کے سبب سوچا کہ اسے اپنے کمپیوٹر پر اُتار (download) لیا جائے ۔ خیال تھا کہ 9 مئی کو ڈاؤن لوڈ شروع ہو جائے گا مگر ہو نہ سکا کیونکہ وفاقی وزیر برائے بجلی کے اعلان کہ “غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ اب نہیں ہو گی” بجلی بغیر اعلان زیادہ جانی شروع ہو گئی ۔ اس ناکامی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے 12 مئی کو ایک تحریر شائع کر ڈالی ۔ اسی دوران نئے خدمتگار کے انتخاب کیلئے ماہرین سے مشورے بھی جاری رہے ۔ پھر غیر ملک میں مقیم ایک مہربان سے درخواست کی کہ وہ ہمارا کام کر دیں ۔ اُنہوں نے ہدائت کر دی کہ پہلے ہم سب کچھ کا اپنے کمپیوٹر پر محفوظہ اُتار (backup download) لیں ۔ یہ کام وقفے وقفے سے کافی ذہنی اور جسمانی کوفت سے مکمل ہوا جس کے بعد اُن صاحب کو مطلع کیا گیا کہ منتقلی کا کام شروع کریں ۔ اس طرح توقع سے کچھ دن زیادہ ہی لگ گئے ہیں

کہتے ہیں خالی بیٹھے شیطان سوجھے سو میں نے خالی بیٹھنا سیکھا ہی نہیں ۔ متذکرہ دنوں میں بلاگ کو نہ چھیڑنے کا عہد تھا ۔ سوچا اب میں کیا کروں ؟

پہلا کام ۔ میں نے مختلف ذرائع سے تفتیش کی کہ بجلی جاتی کہاں ہے ؟ نتیجہ میں دھماکہ خیز کوائف مل گئے لیکن اس کا بیان پھر کسی دن
دوسرا کام ۔ کمپیوٹر اور مانیٹر کیلئے علیحدہ علیحدہ یو پی ایس لگائے ہوئے ہیں ۔ مانیٹر والے یو پی ایس میں نئی بیٹری ڈالنے کے بعد وہ 10 منٹ تک چلتا ہے پھر کم ہوتے ہوتے تین چار ماہ بعد اِدھر بجلی گئی اُدھر پھڑک سے مانیٹر بند ۔ کبھی کوئی فائل برباد کبھی ونڈوز کا بیڑہ غرق ۔ سوچا کہ بجلی کا بند ہونا تو میں روک نہیں سکتا کچھ اپنا ہی بندوبست کیا جائے ۔ تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ایل ای ڈی مانیٹر اسلام آباد میں آ گئے ہیں ۔ دل پر پتھر رکھ کر اپنے پیارے دیرینہ ساتھی فِلِپس کے 17 انچ کے چپاٹ (flat) مانیٹر 107ای 5 (resolution 1024X768) کی فُرقت اور اپنے زر کو آگ لگانے کا فیصلہ کیا اور نئے زمانے کی طرح ہرجائی بنتے ہوئے اے او سی کے 20 انچ الٹرا سلِم (ultra slim) ایل ای ڈی مانیٹر (resolution 1600X900) سے دوستی کا ارادہ کیا ۔ ملاحظہ ہو
.

حیف وہ قوم

“خلیل جبران کی روح سے معذرت کے ساتھ اور موجودہ حالات کے حوالے سے میں خلیل جبران کی نظم “حیف وہ قوم (Pity The Nation)” میں مندرجہ ذیل اضافہ کروں گا” ۔ ۔ ۔ یہ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کیخلاف توہین عدالت کے مقدمہ میں عدالتِ عظمٰی کے تفصیلی فیصلہ میں تعارفی جملہ ہے بند 3 کا جو جسٹس آصف کھوسہ کی 6 صفحات پر مشتمل اضافی تحریر کا حصہ ہے ۔ ملاحظہ فرمایئے بقایا بند 3 کا ترجمہ ۔ مکمل اضافی تحریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور عدالتِ عظمٰی کے پورے بنچ کا فیصلہ یہاں کلک کر کے پڑھا جا سکتا ہے

حیف وہ قوم جو مذہب کے نام پر قومیت حاصل کرے لیکن مذہب کی بنیاد سچ ۔ دیانتداری اور احتساب کو اہمیت نہ دے

حیف وہ قوم جو جمہوریت کو اپنی سیاست قرار دے لیکن اسے صرف ووٹ ڈالنے کیلئے قطار لگانے تک محدود رکھے اور جمہوری اقدار کی حوصلہ شکنی کرے

حیف وہ قوم جس کی تعظیم کا معیار حصولِ مقصد اور اعلٰی عہدہ و اختیار ہو

حیف وہ قوم جو اخلاقی معیار کو حقارت سے نطر انداز کرے اور دنیاوی مفاد کی پرورش کرے

حیف وہ قوم جو مُجرم کو غازی اور مہذب آدمی کو کمزور سمجھے

حیف وہ قوم جو دانا آدمی کو بیوقوف سمجھے اور مکّار آدمی کی تعظیم کرے

حیف وہ قوم جو آئین تو منظور کرے لیکن سیاسی مفاد کو آئینی ترجیحات پر بھاری رکھے

حیف وہ قوم جو سب کیلئے انصاف کا مطالبہ تو کرے لیکن جب انصاف اُس کی سیاسی وابستگی پر اثرانداز ہو تو طیش میں آ جائے

حیف وہ قوم جس کے ملازم اپنے آئینی حلف کو صرف عہدہ سنبھالنے کا ذریعہ سمجھیں

حیف وہ قوم جو اپنے رہنما کا انتخاب بطور نجات دہندہ کرے لیکن توقع رکھے کہ وہ تمام قوانین کو اپنے حواریوں کی خاطر توڑے مروڑے

حیف وہ قوم جس کے رہنما قانون کی حکمرانی کی خاطر قربانی دینے کی بجائے عدالت کی حُکم عدولی کر کے شہید بننا چاہیں

حیف وہ قوم جس کے رہنما جُرم کرنے میں کوئی شرم محسوس نہ کریں

حیف وہ قوم جس کی رہنمائی قانون کا مذاق اُڑانے والے کریں اور اُنہیں احساس نہ ہو کہ بالآخر قانون اُن پر ہنسے گا

حیف وہ قوم جو قانون کی حُکمرانی کیلئے تحریک تو چلائے لیکن جب اس کے بڑے قانون کی گرفت میں آنے لگیں غُل غپاڑہ مچائے

حیف وہ قوم جو عدالت کے فیصلے سیاسی عینک سے دیکھے اور عدالت کی بجائے عدالت سے باہر وکالت کے جوہر دکھائے

حیف وہ قوم جو کمزور اور غریب کو سزا دے لیکن اپنے طاقتور اور بلند مرتبہ لوگوں کا حساب لینے سے شرمائے

حیف وہ قوم جو قانون کے سامنے مساوات کیلئے شور مچائے لیکن مفاد پرستانہ فیصلے اُنہیں محبوب ہوں

حیف وہ قوم جو دماغ کی بجائے دل سے رہنمائی لے

واقعی حیف وہ قوم جو بد معاشی یا کمینگی اور عالی مَنشی میں امتیاز نہ کر سکے