Monthly Archives: April 2012

دعا کی درخواست

میری بڑی بہن جس نے میری ماں کی 1980ء میں وفات کے بعد میرے ۔ میری بیوی بچوں اور پوتیاں اور پوتے کیلئے میری ماں کا سایہ فراہم کئے رکھا ۔ وہ کچھ دنوں سے سخت نگہداشت کے کمرے میں آکسیجن کے سہارے لیٹی ہے

اے میرے مالک و خالق الرّحمٰن و الرّحیم و قادر و کریم ۔ میرا تیرے سِوا کوئی نہیں ہے ۔ میں کس کے پاس جاؤں اور کس سے فریاد کروں ؟
اے اللہ گناہوں کی بخشش دینے والے ۔ میرے کردار کی طرف نظر کرنے کی بجائے اپنی رحمت کی طرف نظر کر کہ تیری تو صفت ہی یہی ہے
ہم سب کی دعاؤں کو قبولیت بخش دے اور میری بہن کو جس نے میرے علم اور مشاہدے کے مطابق کبھی کسی کا بُرا کرنا تو کیا کبھی بُرا سوچا بھی نہیں اُسے صحت عطا کر دے

اے میرے پیارے اللہ سب تیرے علم میں ہے کہ میری یہ بہن یتیم بچیوں کی شادیوں کے پورے پورے اخراجات اُٹھاتی رہی ۔ ناداروں کی امداد کرتی رہی اور میرے سمیت سب چھوٹے بہن بھائیوں کو ان کاموں پر اُکساتی رہی ۔ آج وہ ہسپتال میں بے بس پڑی ہے
میرے اچھے اللہ ۔ مرنا تو بر حق ہے کہ جو اس دنیا میں آیا ہے اُس نے واپس لوٹنا ہے ۔ میری صرف اتنی استدعا ہے کہ میری پیاری بہن کے عضؤ اور احساسات بحال کر دے

تمام قارئین سے دعا کی درخواست ہے

کیا ؟ ؟ ؟

ایک عکس چلتا چلتا میرے پاس پہنچا ہے
سوچتا ہوں اگر یہ وہی ہے تو اسے منتخب کرنے والے کیا ہیں ؟
جانتے ہیں اسے کس نے مُنتخب کیا ؟
پارلیمنٹ کے اُن ارکان نے جنہیں عوام نے مُنتخب کیا تھا
(پورا خط دیکھنے کیلئے عکس پر کلِک کیجئے)

ایسا کب ہو گا ؟

یہ ایک غزل بھی چلتی چلتی آن پہنچی ہے

لڑکپن کی باتيں قسط 3۔ افسانہ يا حقيقت

اس سلسلے کی پہلی قسط باد نما اور دوسری قسط وطن لکھ چکا ہوں
مجھے انجينئرنگ کالج ميں اپنے طالب علمی کے زمانہ کا لکھا ہوا ايک افسانہ بھی ان کاغذات ميں ملا جو نقل کر رہا ہوں

ايک صبح

دھند معمول سے کچھ زيادہ تھی پھر بھی ميں اپنی عادت سے مجبور سير کو نکل پڑا ۔ جونہی دروازے سے باہر قدم رکھا سردی کاٹتی ہوئی محسوس ہوئی سارا بدن ٹھٹھر کر رہ گيا ليکن ميں ارادہ کر چکا تھا اور اس کا التواء مُشکل تھا ۔ برفانی ہوا نتھنوں کو چيرتی ہوئی پھيپھڑوں کی گہرائی تک پہنچنے لگی ۔ ہوا کے يخ آلودہ جھونکوں سے آنکھوں سے آنسو اُبھر آئے ۔ کُہر نے سبزے پر سفيد چادر تھی اور ہر طرف سيميں فرش بچھا تھا مگر ميں بڑھتا گيا ۔ ميں آگے بڑھتا گيا ۔ ہاتھ پاؤں اب سُن ہو چکے تھے اسلئے سردی کا احساس کم ہو گيا تھا ۔ صبح صادق ہو چکی تھی اور بڑھتی ہوئی روشنی آفتاب کے اُبھرنے کا پيغام دے رہی تھی

ميں بے خيالی ميں مشرق کی جانب چل ديا کہ جيسے ميں نے آفتاب کا استقبال کرنا ہو ۔ سردی کی شدّت سے بے نياز دماغ ميں قلعے بناتا اور مسمار کرتا نمعلوم ميں کتنا دور جا چکا تھا ۔ ايک عجيب سی ادھيڑ بُن تھی جس ميں محو ميں گرد و پيش کو بھول چکا تھا ليکن خيالات تھے کہ ايک تانتا بندھا آ رہا تھا ۔ زمہرير ميں بھی تخيّل تيز رفتاری سے کام کر رہا تھا ۔ خيالات ذہن پر آ آ کر محو ہو رہے تھے

ديکھتا کيا ہوں کہ ميں ندی کے کنارے پہنچ گيا ہوں جو برفانی پہاڑوں سے نکل کر يخ بستہ چٹانوں کے بيچ رينگتی چلی آ رہی ہے اور اپنے ساتھ برف کے تودے جھاگ کی طرح بہائے لئے جا رہی ہے ليکن ندی کی روانی ميں موسمِ گرما کے برعکس سکوت ہے ۔ برف کے تودے گاہ بگاہ ايک دوسرے سے ٹکرا کر مدھم آواز پيدا کر ديتے ہيں ليکن فضا ميں وہ ارتعاش نہيں جو پہاڑی ندی کو پيدا کرتے سنا تھا ۔ سکون ہے اور ہر طرف ہُو کا عالم ہے ۔ کوئی ذی روح چرند پرند دکھائی نہيں پڑتا ۔ ايک شہرِ خموشاں ہے جہاں نہ شہنائی کی مدھر آواز نہ پہاڑی لوگوں کی دلربا تانيں ۔ گڈريا بھی اپنی بانسری پھينک کر گھاس پھوس پر دبکا پڑا ہے ۔ غزالوں کی چاپ اور چکوروں کے راگ کا نام و نشان نہيں ۔ ہاں کبھی کبھی برف کا تودا ندی ميں گر کر سکون کو چند لمحوں کيلئے مکّدر کر ديتا ہے

چلتا جا رہا تھا کہ کچھ دور نيچے کی طرف سے ندی ميں ہلکا سا شور سنائی ديا ۔ ميں اپنے خيالات سے چونک اُٹھتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں پھر تيزی سے قدم اُٹھانے لگتا ہوں ۔ آواز جو لگاتار آ رہی تھی کچھ واضح ہوتی ہے ۔ “کسی کے تيرنے کی آواز معلوم ہوتی ہے” ميں اپنے آپ سے مشورہ کرتا ہوں ۔ “ليکن اتنی سردی اور پھر برفانی پانی ميں تيرنا ناممکن ہے” ميرا ذہن جواب ديتا ہے اسی طرح کی سوچيں لئے ہوئے ميں آگے بڑھتا ہوں اور ديکھ کر ميری حيرت کی انتہاء ہو جاتی ہے اور اپنی آنکھوں پر يقين نہيں آتا ۔ ايک شخص بڑی جد و جہد کے ساتھ پانی کے بہاؤ کے خلاف تير رہا ہے ۔ تيز بہتی ہوئی ندی کی لہريں اسے پيچھے کو دھکيل رہی ہيں ۔ برف کے تودے اسے اپنے آگے بہا کر لے جانے کی کوشس ميں ہيں ۔ ليکن وہ تودوں کو اِدھر اُدھر کر کے پوری جاں فشانی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے کی تگ و دو ميں ہے ليکن اس کی آگے بڑھنے کی رفتار سُست پڑ چکی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ سُست تر ہوتی جا رہی ہے ۔ وہ شخص ہار ماننے کو تيار نظر نہيں آتا کيونکہ بجائے کنارے کی طرف آنے کے ندی کے بہاؤ کے خلاف اُوپر جانے کی کوشش ميں ہے ۔ تمامتر دِقتوں کے باوجود وہ بلند حوصلگی اور اولالعزمی کے ساتھ تگ و دو جاری رکھے ہوئے ہے

ميں سوچتا ہوں “نجانے کب سے وہ اس کاروبار ميں مصروف ہے”۔ مجھ سے رہا نہيں جاتا اور ميں اپنی پوری قوت مجتمع کر کے آواز ديتا ہوں
“تم کون ہو جو اتنی سردی ميں بھی پيراکی کی مشق کر رہے ہو ؟”

“اے تماشائی ۔ تو نے مجھے مذاق سمجھا ہے ۔ ميں بہت بڑا پيراک تھا ۔ ميرے بازوؤں ميں لامتناہی قوت تھی ليکن اب ميرے بازو شل ہو گئے ہيں ۔ ميں طاقتور تھا ليکن زمانے نے مجھے نحيف اور کمزور بنا ديا ہے ۔ ليکن اے بنی آدم ۔ مجھے ديکھ اور عبرت پکڑ کہ اس عالَم ميں بھی ثابت قدمی کا دامن نہيں چھوڑتا ہوں”

ميں پوچھتا ہوں “آخر تمہارا نام کيا ہے ؟”

” ميرا نام پوچھتے ہو ؟ ميرا نام ہے نيکی اب جو کمزور ہے جس کے بازو شَل ہيں اور اب اس دنيا سے رُخصت ہونے کو ہے ۔ اور اے بنی آدم ۔ يہ ندی سيلِ زمانہ ہے جس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد ميری قسمت ميں لکھی جا چکی ہے ۔ ليکن ميں اپنے ارادہ کا پکا ہوں ۔ مجھے بڑی سے بڑی لہر بھی ميرے مقصد سے عليحدہ نہيں کر سکتی ۔ اس جد و جہد ميں جان دے دوں گا مگر ہتھيار ڈالنا ميرے لئے مشکل ترين کام ہے”

يہ جواب پا کر ميں نے اُسے اس کی حالت پر چھوڑ ديا مگر اس خيال نے ميرے ذہن کو مضبوطی سے پکڑ ليا اور اب ميرا دماغ مختلف خيالوں کی بجائے صرف اس ندی ۔ اس کے بہاؤ اور اس کے خلاف جد و جہد ميں اُلجھ کر رہ گيا ۔ اور ميں پھر سے ان خيالات ميں گم گھر لوٹ رہا تھا ۔ سردی کتنی تھی ؟ ميں بھول چکا تھا ۔ ميرے ذہن ميں خيالات اور تصورات کا تانتا بندھا چلا آ رہا تھا ليکن اب ميری سوچ اور غور و فکر ايک مختلف نہج پر تھے ۔ بالکل مختلف ۔ برفانی ندی ۔ بہاؤ ۔ پيراکی

اب جب بھی کبھی تنہائی ميسّر آتی ہے تو اپنے آپ کو اسی صبح ميں گم پاتا ہوں ۔ ندی ميں اس کے بہاؤ کے خلاف جد و جہد کا منظر سامنے آ جاتا ہے

تازہ خبر ۔ آخر کار

پاکستان کي فضائی حدود ميں غير قانونی طور پر داخل ہو نے والے غير ملکی فوجی جہاز کو پاکستانی ہوائی فوج نے جبری کراچی ايئر پورٹ پر اُتار لیا ہے

فوجی طيارہ بگرام ايئر بيس سے متحدہ عرب امارات کے المکتوم ايئر پورٹ جارہاتھا ۔ ايئر پورٹ ذرائع کے مطابق طيارہ انتانوف 124 اور پرواز نمبر وی ڈی اے 1455 ہے

ذرائع کے مطابق بگرام سے المکتوم ايئرپورٹ جانيوالے طيارے نيٹو رسد کيلئے استعمال ہوتے ہيں ۔ مذکورہ غيرملکی فوجي مال بردار طيارے کو بعض خفيہ اطلاعات پر کراچی ميں اتارا گيا اور اس کی چيکنگ کی جارہی ہے.

واہ پاکستانی

مندرجہ ذیل کھک بول (blank verse) مجھے بذریعہ برقیہ وصول ہوئے ہیں

ملک میں صدر شیطانی
وزیر اعظم ملتانی
آرمی چیف کیانی
اسپیکر ہے زنانی
وزیر خارجہ حنا ربانی
ہر طرف بے ایمانی
نہ بجلی ہے نہ پانی
اس حکومت کی عجب کہانی
عوام کو ہے شاباش
کیونکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھر بھی دل ہے پاکستانی

اے وطن

ہمارا ایک عزیز جوان مع
اپنی بیوی کے لندن سے آیا تھا ۔ اُس کی
بیوی جس کے والدین پاکستان سے ہی ہجرت کر کے لندن گئے تھے پہلی
بار پاکستان آئی تھی ۔ وہ ہمارے پاس اسلام آباد صرف ڈھائی دن کیلئے آئے تھے ۔ خیال ہوا کہ انہیں اس قلیل وقت میں پورے پاکستان کی سیر کرائی جائے ۔ حُسنِ اتفاق کہ لوک ورثا عجائب گھر کے احاطے میں ملکی گھریلو صنعت و حرفت کے نمونوں کی نمائش لگی تھی جس میں چاروں صوبوں اور آزاد جموں کشمیر میں تیار ہونے والی نادر اشیاء کے نمونے رکھے گئے تھے ۔ میری بیٹی نے تجویز دی کہ انہیں فیصل مسجد ۔ سید پور گاؤں ۔ دامنِ کوہ ۔ پیر سوہاوہ اور لوک ورثاء کی سیر کرائی جائے تو پورا پاکستان سمجھ میں آ جائے گا ۔ اس کے نتیجہ میں ہمارے مہمان بہت خوش اور متاءثر نظر آئے بالخصوص دُلہن جو پہلی بار پاکستان آئی تھی

اپنے نوکیا ای 5 سے لی گئی تصاویر جن سے میری بات کچھ واضح ہو جائے گی

کتنے بدقسمے ہیں میرے وہ ہموطن جو اللہ کی نعمتوں سے بھرپور اس وطن کی قدر نہیں کرتے ۔ اس میں بسنے والے ذہین محنت کشوں کی پیروی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا خون کرتے ہیں
.
.

اے وطن ۔ پیارے وطن ۔ پاک وطن

تو دل افروز بہاروں کا تر و تازہ چمن

تو مہکتے ہوئے پھولوں کا سہانا گلشن

تو ہے نواریز انادل کا بہاریں مسکن

رنگ و آہنگ سے معمور ترے کوہ و دمن

اے وطن ۔ پیارے وطن ۔ پاک وطن

اے وطن ۔ پیارے وطن ۔ پاک وطن

میرا دل تیری محبت کا ہے جاں بخش دیار

میرا سینہ تیری حُرمت کا ہے سنگین حصار

میرے محبوب وطن تجھ پہ اگر جاں ہو نثار

میں یہ سمجھوں گا ٹھکانے لگا سرمایہءِ تن

اے وطن ۔ پیارے وطن ۔ پاک وطن

اے وطن ۔ پیارے وطن ۔ پاک وطن

عوام کے غمخوار

مُسلم لیگ میں سچے مسلمان کتنے ہیں معلوم کرنا بہت مُشکل کام ہے ۔ مُلک میں وفاقی اور 3 صوبوں کی حکومتیں جس جماعت کے پاس ہیں اُس کا نام ہے پاکستان پیپلز پارٹی یعنی پاکستانی عوام کی جماعت ۔ اس حکومت کی عوام دوستی کے جھنڈے ہر طرف گڑے ہیں ۔ اس کی کارستانیوں میں سے ایک چھوٹی سی بات جس کا اثر عوام کی بہت سی ضروریات پر پڑتا ہے وہ ہے پٹرولیم مصنوعات جن کی قیمت میں اضافے سے 65 فیصد پاکستانی شدید متاثر ہوتے ہیں

12 اکتوبر 1999ء کو جب مسلم لیگ کی حکومت ختم کی گئی تو پٹرول کی قیمت فی لیٹر 22 روپے 30 پیسے تھی ۔ 25 مارچ 2008ء کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اقتدار سنبھالنے پرپٹرول کی قیمت فی لیٹر 62 روپے 81 پیسے تھی جو اپریل 2012ء میں 103 روپے 68 پیسے ہو چکی ہے یعنی پی پی پی کی حکومت کے 4 سالہ دور میں پٹرول کی قیمت میں 40 روپے 87 پیسے اضافہ ہو چکا ہے جبکہ پرویز مشرف کے ساڑھے 8 سال میں 40 روپے 51 پیسے اضافہ ہوا تھا

حکومت پٹرول پر فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس لے رہی ہے یعنی عوام فی لیٹر 46 روپے 18 پیسے ٹیکس کی مد میں ادا کر رہے ہیں

حکومت بلاواسطہ ٹیکسوں کا 50 فیصد، ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس کا 47 فیصد، درآمدی جنرل سیلز ٹیکس کا 36 فیصد اور امپورٹ ڈیوٹی کا 11 فیصد پٹرولیم مصنوعات پرٹیکس لگا کر حاصل کرتی ہے

موجودہ حکومت نے صرف 2010 ۔ 2011ء میں پٹرولیم پراڈکٹس پر5کھرب 3 ارب 50 کروڑ کے ٹیکس وصول کئے جس کی کچھ تفصیل یہ ہے ۔ ڈومیسٹک جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 53 ارب 30کروڑ ۔ درآمدی جنرل سیلز ٹیکس ایک کھرب 10ارب 50کروڑ ۔ درآمدی ڈیوٹی 21 ارب 40کروڑ اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 5 ارب 10کروڑ جبکہ دیگر 5 ٹیکسوں کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں

یوں پٹرولیم پراڈکٹس پر (سوائے ود ہولڈنگ ٹیکس) 2010 ۔ 2011ء میں 503 ارب روپے سے زائد کے ٹیکس وصول کئے گئے اس طرح ملک کا نصف بلاواسطہ (indirect) ٹیکس ریونیو پٹرولیم پراڈکٹس سے حاصل ہوتا ہے

رانا بھگوان داس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سال 2002 ۔ 2009ء (7 سال) میں اُس وقت کی حکومت نے 10 کھرب 23 ارب روپے پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد وصول کئے تھے یعنی سالانہ 146 ارب سے کچھ زائد جبکہ موجودہ حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم پراڈکٹس پرٹیکس کی مد 503 ارب روپے سے زائد وصول کئے

بشکریہ ۔ جنگ