ذہنی غلامی


ميں محمد بلال صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے قارئين کی سہولت کيلئے مندرجہ بالا عکسی عبارت کو يونی کوڈ ميں لکھ ديا ہے

غلامی سے آزادی تک

وہ ایک آزاد باپ کی غلام بیٹی تھی، بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنے والی فکر انگیز تحریر
ڈاکٹر طاہر مسعود

“پاپا“ آج مس نے مجھے ایک ”ایڈوائس“ کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی تمہیں واش روم جانے کی ”پرمیشن“ لینی ہو تو انگلش میں کہنا ”Miss May I go to washroom?“
”مس کی ایڈوائس پہ تم نے ان سے کیا کہا۔“
“مس نے جیسا کہا میں نے Same کیا”
”گڑیا۔۔۔۔ تمہاری اردو تو گلابی اردو ہے“
”یہ گلابی اردو کیا ہوتی ہے؟“
”جس میں دوسری زبانون کے الفاظ شامل ہوں ۔ تم اردو کے ساتھ انگریزی ملا کر بولتی ہو ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔“
”کیوں اس سے کیا ہو جائے گا؟“
“اس سے زبان خراب ہوتی ہے۔ کیا تم نے کسی انگریز یا امریکی کو دیکھا ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے اردو یا پھر کسی دوسری زبان کے الفاظ ملاتا ہو؟”
”انہیں اردو نہیں آتی ہو گی“
“ہمارے پاس جو لوگ اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتے ہیں کیا انہیں انگریزی آتی ہے۔ بس انگریزی کے چند الفاظ انہوں نے سیکھ لیے ہیں جنہیں اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں”
”مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
“گڑیا فرق یہ پڑتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اردو میں انگریزی الفاظ ملانے سے ہماری قومی زبان بگڑ رہی ہے ۔ دیکھو! ملاوٹ بری چیز ہے۔ جیسے دودھ، مسالے اور دوسری چیزوں میں ہم ملاوٹ پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح زبان بھی خالص ہونی چاہیئے”
”لیکن ہماری مس تو کہتی ہیں کہ اردو کے بہت سے ورڈز انگریزی سے آئے ہیں“
“ہاں یہ صحیح ہے، اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن جب یہ ایک زبان بن گئی تو اب اس کی اپنی ایک گرامر ہے اور اپنے اصول و قواعد ہیں۔ اب مثلاً دیکھو ٹیلی وژن، ریڈیو اسٹیشن، کالج وغیرہ انگریزی کے الفاظ ہیں، جب یہ اردو میں آگئے تو اب یہ اردو ہی کے الفاظ بن گئے۔ اب ان الفاظ کو واحد سے جمع بنائیں گے تو اردو طریقے سے بنائیں گے۔ مثلاً کالج سے کالجز، اسٹیشن سے اسٹیشنز نہیں بنے گا بلکہ کالجوں اور اسٹیشنوں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو لفظ بحالتِ مجبوری انگریزی سے اردو میں آگیا وہ انگریزی کا نہیں رہا اردو کا ہو گیا”
“پاپا! آپ بہت Difficult باتیں کررہے ہیں
“اب دیکھو تم نے Difficult کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کی جگہ تم مشکل کا لفظ بھی بول سکتی تھیں۔ جب کسی لفظ کو تم اردو میں ادا کر سکتی ہو تو اس کی جگہ انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھی بات ہے”
“مجھے اردو لفظ معلوم ہوں گے تبھی تو Use کروں گی”
یہ لفظ Use بھی انگریزی ہے۔ اردو ميں اس کے لیے استعمال کا لفظ ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اردو کتابیں اور رسالے پڑھا کرو
””پاپا! میں تو ٹی وی دیکھتی ہوں اور ٹی وی میں ساری ڈسکشن اسی طرح ہوتی ہے
”ڈسکشن نہیں گفتگو یا پھر تبادلہ خیال کہو۔ میرے خدا! تمہیں اردو کب آئے گی“
”میری اردو بہت ویک ہے پاپا “
“بہت سے لوگ فخر سے یہ بات کہتے ہیں ۔ انہیں انگریزی نہ جاننے پر شرمندگی ہوتی ہے لیکن اردو نہ آنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ غلامی کی نشانی ہے”
”تو کیا ہم لوگ غلام ہیں۔ انگریزی بولنے سے آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”انگریزی بولنے سے نہیں، انگریزی بول کر فخر کرنا اور اردو نہ جاننے پر شرمندگی محسوس نہ کرنا ذہنی غلامی کی نشانی ہے“
”کیا انگلش ڈریس پہننے سے بھی آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
”کیوں نہیں، جب ہمارا اپنا لباس موجود ہے تو ہم انگریزوں کا لباس کیوں پہنیں۔ کیا انگریز ہمارا لباس پہنتے ہیں؟“
”پاپا ۔ آپ تو بہت کنزرویٹیو ہیں “
”نہیں بیٹا ۔ میں وہ آزاد ہوں جو غلاموں میں پیدا ہو گیا ہے“
”غلاموں کو آزاد کرنے کا کیا طریقہ ہے پاپا“
”اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی ثقافت اختیار کرنے سے آدمی آزاد ہو جاتا ہے“
”پھر تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے“
”نہیں وہ دن ضرور آئے گا۔ آج نہیں تو کل“
”ہماری آپ کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکے گا“
”نہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا مایوسی کو پسند نہیں کرتا“
تو پھر خدا ہماری Help کیوں نہیں کرتا؟”“
”جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا“
ہمیں اپنی Help خود کیسے کرنی چاہیے؟”“
”جو بات صحیح ہے، ہم اسے اختیار کرلیں، اس پر ڈٹ جائیں۔“
” It means آپ آزاد ہیں اور میں غلام ہوں۔ آزاد باپ کی غلام بیٹی”
”جس دن تم نے میری باتوں پر عمل کیا، تم بھی آزاد ہو جاؤ گی“
پاپا ۔ مجھے اسی سوسائیٹی میں Survive کرنا ہے”“
”تم عقل مند ہو، اپنی عمر سے بڑی باتیں کر لیتی ہو۔ تم چاہو تو تمہیں آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ معاشرہ بھی نہیں“
”چلیے آج سے میں انگریزی میں باتیں نہیں کروں گی“
انگریزی بولنے اور پڑھنے سے میں تمہیں منع نہیں کر رہا۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس میں سارے علوم کا خزانہ موجود ہے۔ اسے سیکھنا ضروری ہے، لیکن انگریزی کو برتر اور اردو کو کم تر سمجھنا بری بات ہے
”ابو ۔ آپ نے آج مجھے بہت اچھی باتیں بتائیں۔ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔“
“ہاں پھر تو تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔ آزاد باپ کی آزاد بیٹی”

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “ذہنی غلامی

  1. Pingback: ذہنی غلامی | Tea Break

  2. م بلال م

    بہت ہی زبردست اور فکر انگیز تحریر ہے۔ ویسے میں نے اسے اردو میں ٹائیپ کر دیا ہے۔ آپ تصاویر کے ساتھ ساتھ تحریری صورت میں بھی لگا دیں تاکہ پڑھنے والوں کے لئے آسانی ہو۔

    غلامی سے آزادی تک
    وہ ایک آزاد باپ کی غلام بیٹی تھی، بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے پر مجبور کرنے والی فکر انگیز تحریر۔
    ڈاکٹر طاہر مسعود
    ”پاپا“ آج مس نے مجھے ایک ”ایڈوائس“ کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ جب بھی تمہیں واش روم جانے کی ”پرمیشن“ لینی ہو تو انگلش میں کہنا ”Miss May I go to washroom?“
    ”مس کی ایڈوائس پہ تم نے ان سے کیا کہا۔“
    ”مس نے جیسا کہا میں نے Same کیا۔”
    ”گڑیا۔۔۔۔ تمہاری اردو تو گلابی اردو ہے۔“
    ”یہ گلابی اردو کیا ہوتی ہے؟“
    ”جس میں دوسری زبانون کے الفاظ شامل ہوں۔ تم اردو کے ساتھ انگریزی ملا کر بولتی ہو۔ یہ اچھی بات نہیں ہے۔“
    ”کیوں اس سے کیا ہو جائے گا؟“
    ”اس سے زبان خراب ہوتی ہے۔ کیا تم نے کسی انگریز یا امریکی کو دیکھا ہے کہ وہ انگریزی بولتے ہوئے اردو یا پھر کسی دوسری زبان کے الفاظ ملاتا ہو؟“
    ”انہیں اردو نہیں آتی ہو گی۔“
    ”ہمارے پاس جو لوگ اردو میں انگریزی کے الفاظ ملاتے ہیں کیا انہیں انگریزی آتی ہے۔ بس انگریزی کے چند الفاظ انہوں نے سیکھ لیے ہیں جنہیں اپنی گفتگو میں دہراتے رہتے ہیں۔“
    ”مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟“
    ”گڑیا فرق یہ پڑتا ہے کہ بغیر سوچے سمجھے اردو میں انگریزی الفاظ ملانے سے ہماری قومی زبان بگڑ رہی ہے۔دیکھو! ملاوٹ بری چیز ہے۔ جیسے دودھ، مسالے اور دوسری چیزوں میں ہم ملاوٹ پسند نہیں کرتے بالکل اسی طرح زبان بھی خالص ہونی چاہیے۔“
    ”لیکن ہماری مس تو کہتی ہیں کہ اردو کے بہت سے ورڈز انگریزی سے آئے ہیں۔“
    ”ہاں یہ صحیح ہے، اردو بہت سی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن جب یہ ایک زبان بن گئی تو اب اس کی اپنی ایک گرامر ہے اور اپنے اصول و قواعد ہیں۔ اب مثلاً دیکھو ٹیلی وژن، ریڈیو اسٹیشن، کالج وغیرہ انگریزی کے الفاظ ہیں، جب یہ اردو میں آگئے تو اب یہ اردو ہی کے الفاظ بن گئے۔ اب ان الفاظ کو واحد سے جمع بنائیں گے تو اردو طریقے سے بنائیں گے۔ مثلاً کالج سے کالجز، اسٹیشن سے اسٹیشنز نہیں بنے گا بلکہ کالجوں اور اسٹیشنوں استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ جو لفظ بحالتِ مجبوری انگریزی سے اردو میں آگیا وہ انگریزی کا نہیں رہا اردو کا ہو گیا۔“
    ”پاپا! آپ بہت Difficult باتیں کررہے ہیں۔“
    ”اب دیکھو تم نے Difficult کا لفظ استعمال کیا ۔ اس کی جگہ تم مشکل کا لفظ بھی بول سکتی تھیں۔ جب کسی لفظ کو تم اردو میں ادا کر سکتی ہو تو اس کی جگہ انگریزی لفظ استعمال کرنا اچھی بات ہے۔“
    ”مجھے اردو لفظ معلوم ہوں گے تبھی تو Use کروں گی۔“
    یہ لفظ Use بھی انگریزی ہے۔ اردو اس کے لیے استعمال کا لفظ ہے۔ تمہیں چاہیے کہ اردو کتابیں اور رسالے پڑھا کرو۔“
    ”پاپا! میں تو ٹی وی دیکھتی ہوں اور ٹی وی میں ساری ڈسکشن اسی طرح ہوتی ہے۔“
    ”ڈسکشن نہیں گفتگو یا پھر تبادلہ خیال کہو۔ میرے خدا! تمہیں اردو کب آئے گی۔“
    ”میری اردو بہت ویک ہے پاپا!“
    ”اردو بہت سے لوگ فخر سے یہ بات کہتے ہیں۔ انہیں انگریزی نہ جاننے پر شرمندگی ہوتی ہے، لیکن اردو نہ آنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ غلامی کی نشانی ہے۔“
    ”تو کیا ہم لوگ غلام ہیں۔ انگریزی بولنے سے آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
    ”انگریزی بولنے سے نہیں، انگریزی بول کر فخر کرنا اور اردو نہ جاننے پر شرمندگی محسوس کرنا ذہنی غلامی کی نشانی ہے۔“
    ”کیا انگلش ڈریس پہننے سے بھی آدمی غلام ہو جاتا ہے؟“
    ”کیوں نہیں، جب ہمارا اپنا لباس موجود ہے تو ہم انگریزوں کا لباس کیوں پہنیں۔ کیا انگریز ہمارا لباس پہنتے ہیں؟“
    ”پاپا! آپ تو بہت کنزرویٹیو ہیں!“
    ”نہیں بیٹا! میں وہ آزاد ہوں جو غلاموں میں پیدا ہو گیا ہے۔“
    ”غلاموں کو آزاد کرنے کا کیا طریقہ ہے پاپا۔“
    ”اپنی زبان، اپنا لباس اور اپنی ثقافت اختیار کرنے سے آدمی آزاد ہو جاتا ہے۔“
    ”پھر تو ہم کبھی آزاد نہیں ہوں گے۔“
    ”نہیں وہ دن ضرور آئے گا۔ آج نہیں تو کل۔“
    ”ہماری آپ کی زندگی میں تو ایسا نہیں ہو سکے گا۔“
    ”نہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خدا مایوسی کو پسند نہیں کرنا۔“
    ”تو پھر خدا ہماری Help کیوں نہیں کرتا؟“
    ”جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے خدا بھی ان کی مدد نہیں کرتا۔“
    ”ہمیں اپنی Help خود کیسے کرنی چاہیے؟“
    ”جو بات صحیح ہے، ہم اسے اختیار کرلیں، اس پر ڈٹ جائیں۔“
    ”It means آپ آزاد ہیں اور میں غلام ہوں۔ آزاد باپ کی غلام بیٹی۔“
    ”جس دن تم نے میری باتوں پر عمل کیا، تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔“
    ”پاپا! مجھے اسی سوسائیٹی میں Survive کرنا ہے۔“
    ”تم عقل مند ہو، اپنی عمر سے بڑی باتیں کر لیتی ہو۔ تم چاہو تو تمہیں آزاد ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ معاشرہ بھی نہیں۔“
    ”چلیے آج سے میں انگریزی میں باتیں نہیں کروں گی۔“
    ”انگریزی بولنے اور پڑھنے سے میں تمہیں منع نہیں کر رہا۔ انگریزی بین الاقوامی زبان ہے۔ اس میں سارے علوم کا خزانہ موجود ہے۔ اسے سیکھنا ضروری ہے، لیکن انگریزی کو برتر اور اردو کو کم تر سمجھنا بری بات ہے۔“
    ”ابو! آپ نے آج مجھے بہت اچھی باتیں بتائیں۔ میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔“
    ”ہاں پھر تو تم بھی آزاد ہو جاؤ گی۔ آزاد باپ کی آزاد بیٹی!“

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.