Monthly Archives: September 2011

عجب اتفاق

جب سمندر سکون ميں ہو تو کبھی کبھی کوئی مچھلی اچانک پانی ميں سے اُچھل کر فضا ميں بلند ہونے کے بعد واپس پانی ميں گر جاتی ہے ۔ مچھلی کا يہ عمل لمحہ بھر کيلئے ہوتا ہے ليکن اس کے اس عمل سے سمندر کی سطح پر پيدا ہونے والا ارتعاش کئی منٹ تک قائم رہتا ہے

مچھلی کے اس فعل کا سبب تو مچھلی ہی جانتی ہو گی ليکن يہی عمل کچھ انسان بھی دہراتے ہيں اور جديد دنيا کی بڑے بڑے حکومتی اور نجی ادارے يا تنظيميں مخصوص مقاصد کی برآوری کيلئے اس عمل کا استعمال باقاعدہ منصوبہ بندی سے کرتے رہتے ہيں ۔ وطنِ عزيز ميں بھی يہ عمل وقفوں سے ديکھنے ميں آتا رہتا ہے ۔ کوئی شخص ايسا عمل يا بات کرتا يا کرتی ہے جس سے معاشرے ميں کسی حد تک ارتعاش پيدا ہوتا ہے جس کا مقصد شايد صرف ارتعاش پيدا کرنا يا اپنے وجود کا احساس دلانا يا اپنی کسی خامی سے توجہ ہٹانا ہوتا ہے

وطنِ عزيز ميں کبھی کبھی کوئی شخصِ واحد بھی ايسا عمل يا بات کرتا يا کرتی ہے جس سے معاشرے ميں کسی حد تک ارتعاش پيدا ہوتا ہے جس کا مقصد شايد صرف ارتعاش پيدا کرنا يا اپنی کسی خامی سے توجہ ہٹانا يا اپنے وجود کا احساس دلانا ہی ہوتا ہے

يہ سطور لکھتے ہوئے ميں ماضی کو دہرانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ وائے حادثہ جس نے سر پر شديد چوٹ لگا کر ميری ياد داشت گُم کر دی ۔ کچھ حوالہ ياد نہ آيا ۔ پھر وَيب گردی کی ۔ چند واقعات سامنے آئے جن ميں سے ايک سب پر حاوی تھا ۔ عجب اتفاق ہے کہ يہ واقعہ ايک بلاگر [جو محفل گرم رکھنے کے سلسلہ ميں مشہور ہيں] سے مماثلت رکھتا ہے ۔ ممکن ہے کہ دونوں کردار ايک ہی آدمی ہو ۔ واقعہ کا خلاصہ کچھ يوں ہے

“مئی 2007ء ميں فيڈرل اُردو يونيورسٹی آف آرٹس سائنس اينڈ ٹيکنالوجی کراچی کی ايک سابقہ پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ نے ہيومن رائٹس کميشن آف پاکستان سے شکائت کی کہ يونيورسٹی کے اعلٰی عہديدار ” مرد ” اُس کے کام ميں روڑے اٹکاتے تھے اور اس کے خلاف سِنڈيکيٹ ميں ايک خط پيش کيا گيا جس ميں اس پر ناشائستہ حرکات يا بد انتظامی کا الزام لگايا گيا تھا ۔ اس طرح اسے پريشان کر کے مستعفی ہونے پر مجبور کيا گيا تھا ۔ متذکرہ پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ کے مطابق وجہ يہ تھی کہ وہ تعليم کے متعلق ترقی پسند رويّہ رکھتی ہيں
سِنڈيکيٹ کے ايک رُکن نے رابطہ کرنے پر بتايا کہ متذکرہ بالا پروفيسر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ کے ساتھ کسی قسم کا امتياز نہيں برتا گيا اور ان کی ملازمت مروجہ قوانين کے مطابق ختم کی گئی

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں 6 ستمبر 1965ء کو؟
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب ميجر عبدالعزيز بھٹی توپوں سے درست نشانے لگوانے کيلئے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے 3 دن اُونچی جگہ پر کھڑے ہو کر نشانے لگواتا رہا اور بالآخر شہيد ہو گيا
جب ايک پاکستانی طيّار ايم ايم عالم نے بھارت کے 11 طيارے مار گرائے تھے
جب ايک پاکستانی طيّار بھارت ميں ايمونيشن سے بھری ٹرين کا درست نشانہ لينے کيلئے اتنا نيچے چلا گيا تھا کہ ٹرين کے دھماکے کے ساتھ وہ خود بھی شہيد ہو گيا
جب بھارت کے دندناتے طياروں کو لاہوريئے اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کے للکارتے تھے
جب لوگ پلاؤ وغيرہ کی ديگيں محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا “آپ جو کام کر رہے ہيں وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں”
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا
جب بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا

جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچی ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

يا اللہ ۔ وہ دن پھر سے لادے ۔ يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

آزاد دنيا اور اس کا ميڈيا

6 ہفتے قبل ايک غير مُسلم گورے نے اوسلو [ناروے] ميں پہلے بم دھماکہ کيا اور پھر ڈيڑھ گھنٹہ فائرنگ کرتا رہا جس کے نتيجہ ميں 93 افراد ہلاک ہوئے ۔ اُس کے متعلق ميڈيا نے کيا کہا

رائٹر نے کہا ۔ حملہ آور [an ‘Assailant’, ‘Attacker’]
بی بی سی نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
سی اين اين نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
الجزيزہ نے کہا ۔ اسلحہ بردار [a ‘Gunman’]
امريکا کا سرکاری بيان ۔ زيادتی کا عمل[an ‘Act of Violence’]

26 دن قبل امريکی ریاست اوہائیو کے کوہلی ٹاؤن شپ کے علاقے میں ایک مسلح شخص [غير مُسلم گورے] نے پہلے اپنی گرل فرینڈ کو گولی ماری ۔ اس کے بعد وہ اپنے محلے میں واقع ایک گھر میں داخل ہوا جہاں اس نے اپنی گرل فرینڈ کے بھائی سمیت 6 افراد کو ہلاک کيا ۔ ملزم فائرنگ کرتے ہوئے ایک اور گھر میں داخل ہوا جہاں فائرنگ سے اس نے ایک اور شخص کو ہلاک کر ديا ۔ ہلاک ہونے والوں ميں ايک 11 سالہ لڑکا بھی شامل ہے ۔ اسے کسی نے دہشتگردی تو کيا انتہاء پسندی بھی نہيں کہا ۔ پولیس کے مطابق واقعہ گھریلوں تنازع کا شاخسانہ ہے اور ميڈيا نے بھی اسے ذاتی معاملہ قرار ديا

25 دن قبل جو فساد برطانيہ ميں شروع ہوا اُسے بھی کسی نے دہشگردی يا انتہاء پسندی نہيں کہا

کيا دہشتگرد کا لفظ صرف مسلمانوں کيلئے مخصوص ہے ؟
کيا يہ صريح منافقت نہيں ہے ؟

اس نام نہاد آزاد دنيا کی چکا چوند ميں عقل کھونے والے مسلمانوں ۔ ہوش ميں آؤ

اللہ کے بندے

بہت مخلص اور پاک بندے خدا کے ۔ نشاں جن سے قائم ہیں صدق و صفا کے
نہ شہرت کے خواہاں نہ طالب ثنا کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نمائش سے بیزار دشمن ریا کے
ریاضت سب ان کی خدا کیلئے ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشقت سب ان کی رضا کیلئے ہے
کوئی ان میں ہے حق کی طاعت پہ مفتوں ۔ کوئی نامِ حق کی اشاعت پہ مفتوں
کوئی زہد و صبر و قناعت پہ مفتوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی پند و وعظِ جماعت پہ مفتوں
کوئی موج سے آپ کو ہے بچاتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی ناؤ ہے ڈوبتوں کی تراتا

کسی پر سختی صعوبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کسی کو غم و رنج کلفت ہے ان پر
کہیں ہو فلاکت مصیبت ہے ان پر ۔ ۔ ۔ ۔ کہیں آئے آفت قیامت ہے ان پر
کسی پر چلیں تیرا آماج ہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لٹے کوئی رہ گیر تاراج ہیں یہ
یہ ہیں حشر تک بات پر اڑانے والے ۔ یہ پیماں کو میخوں سے ہیں جڑنے والے
یہ فوجِ حوادث سے ہیں لڑنے والے ۔ ۔ ۔ یہ غیروں کی ہیں آگ میں پڑے والے
اُمنڈتا ہے رکنے سے اور ان کا دریا ۔ جنوں سے زیادہ ہے کچھ ان کا سودا

جماتے ہیں جب پاؤں ہٹتے نہیں یہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑھا کر قدم پھر پلٹتے نہیں یہ
گئے پھیل جب پھر سمٹتے نہیں یہ ۔ جہاں بڑھ گئے بڑھ کے گھٹتے نہیں یہ
مُہم بِن کئے سر نہیں بیٹھتے یہ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اُٹھتے ہیں اُٹھ کر نہیں بیٹھتے یہ
خدا نے عطا کی ہے جو ان کو قوت ۔ سمائی ہے دل میں بہت اس کی عظمت
نہیں پھیرتی ان کا منہ کوئی زحمت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں کرتی زیر ان کو کوئی صعوبت
بھروسے پہ اپنے دل و دست و پا کے ۔ سمجھتے ہیں ساتھ اپنے لشکر خدا کے

تُمہِیں اپنی مشکل کو آساں کروگے ۔ ۔ تُمہِیں درد کا اپنے درماں کرو گے
تُمہِیں اپنی منزل کا ساماں کرو گے ۔ ۔ کروگے تُمہِیں کچھ اگر یاں کروگے
چھپا دست ہمت میں زور قضا ہے ۔ مثل ہے کہ ہمت کا حامی خدا ہے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی