Monthly Archives: September 2011

دماغ کيلئے نقصان دہ عادات

1 ۔ ناشتہ نہ کرنے يا بہت دير سے کرنے سے خون ميں شکر کی سطح [blood sugar level] معمول سے کم ہو جاتی ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کو افزائشی مواد [nutrients] ميں کمی ہو جاتی اور دماغ ميں بگاڑ [brain degeneration] پيدا ہوتا ہے

2 ۔ زيادہ کھانے [overeating] سے دماغ کی شريانيں [brain arteries] سخت ہو جاتی ہيں جس کے نتيجہ ميں دماغی صلاحيت کو بيماری لاحق ہو جاتی ہے

3 ۔ تمباکو نوشی [Smoking] متعدد دماغی سُکڑاؤ [multiple brain shrinkage] پيدا کرتی ہے جس کے نتيجہ ميں الزائمر کی بيماری [Alzheimer disease] ہو سکتی ہے

4 ۔ زيادہ شکر والی خوراک کے استعمال کی زيادتی سے خون ميں شکر کی سطح مطلوب مقدار سے بڑھ جاتی ہے جو لحميات اور افزائشی مواد [proteins and nutrients] کے انجذاب [absorption] کو روکتی ہے جس سے اصل غذائيت ميں کمی [malnutrition] ہوتی ہے اور اس کا دماغ کی نشو و نما پر بُرا اثر پڑتا ہے

5 ۔ انسان کے بدن ميں دماغ باقی عضاء کی نسبت زيادہ آکسيجن ليتا ہے ۔ آلودہ ہوا ميں سانس لينے سے دماغ آکسيجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کی صلاحيت يا کارکردگی ميں کمی آتی ہے

6 ۔ مناسب نيند کرنے سے دماغ کو آرام ملتا ہے اور اس کی افزائش مناسب ہوتی ہے ۔ نہ سونا يا بہت کم سونا دماغ کے خُليئوں کے فنا ہونے ميں سُرعت پيدا کرتا ہے

7 ۔ 6 سے 8 گھنٹے رات ميں اور ايک گھنٹہ دن ميں سونا بہت ہوتا ہے ۔ زيادہ سونے سے جسم اور پھر دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے جو دماغ کو کمزور کرتی ہے

8 ۔ بيماری کے دوران دماغ کا زيادہ استعمال يعنی زيادہ باتيں کرنے يا کتاب پڑھتے رہنے سے دماغ کی تاثير [effectiveness] کم ہوتی ہے اور دماغ پر مزيد بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں

9 ۔ نشاط انگيز [stimulation] غور و فکر دماغ کی غذا ہے ۔ اس سے احتراز دماغ کو سُکيڑ ديتا ہے

آدمی کی پہچان

جو نہ جانے اور نہ جانے کہ وہ نہ جانے
وہ بيوقوف ہے ۔ اس سے دُور رہيئے

جو جانے مگر نہ جانے کہ جانے ہے
وہ سويا ہے ۔ اسے جگا ديجئے

جو نہ جانے اور جانے ہے کہ وہ نہ جانے
سادہ طبيعت ہے ۔ اسے تعليم ديجئے

جو جانے ہے اور جانے ہے کہ جانے ہے
وہ عقلمند ہے ۔ اس کی تقليد کيجئے

واويلا اور حقيقت

دورِ جديد واويلے کا دور ہے ۔ جتنا زيادہ اور جتنا بلند آواز واويلا کيا جائے اتنا ہی کامياب رہتا ہے ۔ عصرِ حاضر کا تعليم يافتہ آدمی جو کمپيوٹر کے ذريعہ دنيا بھر کی تمام معلومات رکھنے کا اپنے تئيں بھرم رکھتا ہے وہ بھی اس واويلے کے سامنے ڈھير ہو جاتا ہے اور وہی آوازيں لگانا شروع کر ديتا ہے ۔ سياسيات تو ايک طرف اس واويلے سے ادارے اور عدالتيں بھی محفوظ نہيں

اگست 2010ء ميں صوبہ پنجاب کے شہر سيالکوٹ ميں دو بھائيوں مغيث اور منيب کو بر سرِ عام زد و کوب کيا گيا تھا جس کے نتيجہ ميں دونوں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس پر صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے واويلا شروع ہوا جو سارے سندھ ميں پھيلنے کے بعد اسلام آباد ميں بھڑک اُٹھا تھا ۔ اسلام آباد کے ہلکارے اسے لے کر پنجاب کے شہر شہر ميں بھی تقسيم کرتے رہے تھے ۔ “اپنی مثال آپ” قائد نے تو فوجی کاروائی کا سنديسہ بھی دے ديا تھا

سيالکوٹ ميں مغيث اور منيب کی ہلاکت کے مقدمہ ميں انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت کے جج نے فیصلہ سنایا جس کے مطابق 7 ملزموں کو چار چار بار سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ 6 ملزموں کو چار چار مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ۔ سابق ڈی پی او وقار چوہان ۔ سابق ایس ایچ او رانا الیاس اور دیگر 7 اہلکاروں کو تین تین سال قید اور پچاس پچاس ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے ۔ کُل 28 ملزموں میں سے 22 کوسزا سنائی گئی ہے، 5 ملزم بری کئے گئے ہیں جبکہ ایک ملزم کی چند دن قبل دوران حراست طبعی موت واقع ہو گئی تھی

دوسری طرف صوبہ سندھ کے شہر کراچی ميں امن و امان کی حالت دِگرگُوں تھی اور سال بھر اُس وقت تک دِگرگُوں رہی جب تک عدالتِ عظمٰی کراچی ہی ميں نہ بيٹھ گئی مگر مُجرموں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی عمل ميں نہيں لائی گئی اور عدالتِ عظمٰی کے سامنے ٹسوے بہانے کئے جا رہے ہيں

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی ٹارگیٹ کلنگ ازخود نوٹس کیس میں کہا ہے کہ بھتہ مافیا اب بھی سرگرم ہے ۔ عدالت میں ایس ایچ او کی روز مرہ کی تیار کردہ رپورٹ پیش کی جا رہی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں ۔ ہمیں نتیجہ خیز رپورٹ چاہيئے ۔ عدالت کو وہ رپورٹس نہیں چاہئیں جو آرمی میں سِک رپورٹس [Sick Reports] کہلاتی ہیں ۔ عدالت یہ جاننا چاہتی ہے کہ کتنے ملزمان پولیس کی تحویل میں ہیں ؟ اور کتنوں کو جیل بھیجا گیا ؟ اور کتنے مقدمات میں پیشرفت ہوئی ہے ؟ پولیس تمام سیاسی مصلحتوں سے آزاد ہوکر ملزمان کے خلاف کارروائی کرے ۔ ہمیں اس طرح کی تفتیش چاہيئے جیسے سانحہ سیالکوٹ میں کی گئی ۔ 85 فیصد مقدمات میں درست خطوط پر تفتیش نہ ہونے کے باعث ملزمان بچ جاتے ہیں پولیس میں بھرتیوں کے عمل کو شفاف بنایا جائے

ميرا مزاج بچپن سے عاشقانہ ہے

امريکا کے عراق ۔ پھر افغانستان اور اُس کے بعد لبيا پر حملوں کا جواز انسانی ہمدردی اور جمہوری ترجيح کو بتايا جاتا ہے ليکن حقيقت ميں يہ سب کچھ صرف مال جمع کرنے کے لالچ سے زيادہ کچھ نہيں اور يہ کوئی نئی بات نہيں امريکا ہميشہ سے ايسا ہی کرتا آيا ہے

ميرے اس خيال کا ايک اور ثبوت اللہ سُبحانُہُ و تعالی نے مہياء کر ديا ہے ۔ پڑھنا جاری رکھيئے

امریکا میں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جسے اس روئے زمین کا سب سے زیادہ ”خطرناک اور حساس “ انکشاف قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکومت کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1930ء میں برطانیہ پر کیمیائی ہتھیاروں اور بمباری کا بڑا منصوبہ بنایا تھا

برطانیہ کے خلاف جنگ کا یہ خفیہ منصوبہ چینل 5 پر پہلی بار ڈاکیو منٹری کی صورت میں سامنے آیا ہے جسے امریکی فوج کا اب تک کا سب سے خفیہ اور حساس منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے ۔ خفیہ دستاویز کے مطابق منصوبے پر عمل درآمد کیلئے 570 ملين [5 کروڑ 70 لاکھ] ڈالر کی رقم بھی مختص کی گئی تھی جو اس زمانے میں بہت بڑی رقم تصور کی جاتی تھی

سُرخ مملکت پر جنگ [General Douglas MacArthur] کے نام سے بنائے گئے اس منصوبے میں کینیڈا اوردیگر اہم جگہوں پر موجود برطانوی فوجی اڈوں اور صنعتی اور تجارتی مراکز کو نشانہ بنانا شامل تھا ۔ دستاویز کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی منصوبے کا حصہ تھا

اس خفیہ منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر کسی چھوٹے موٹے فوجی افسر کے نہیں بلکہ اس زمانے کے افسانوی غازی [Legend] سمجھے جانے والے جنرل ڈگلس ميک آرتھر [War on the Red Empire] کے دستخط ہیں

امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق 1930ء میں امریکی معیشت کی اَبتری اور غیر یقینی سیاسی صورت حال کے باعث امریکی حکام ایسا منصوبہ بنانے پرمجبورہوئے

تفصيل يہاں کلِک کر کے پڑھيئے

لڑکے سو لڑکے ۔ لڑکياں سُبحان اللہ

ايک ضرب المثل سکول کے زمانہ ميں پڑھی تھی “بڑے مياں سو بڑے مياں ۔ چھوٹے مياں سُبحان اللہ”۔ آجکل ويسے تو ميرے ہموطنوں کی اکثريت کا يہ طريقہ ہے کہ قوانين پر عمل کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے ان کی اپنی نہيں مگر اس ميدان ميں لڑکياں بھی لڑکوں سے پيچھے نہيں ہيں ۔ بلکہ ٹريفک قوانين کے لحاظ سے دو ہاتھ آگے ہی ہيں

بروز پير 12 ستمبر 2011ء کو ميں مغرب کے بعد کسی کام سے اپنی کورے کار ميں گھر سے نکلا ۔ گلی نمبر 30 سے ہوتا ہوا ايف 8 مرکز کی طرف جا رہا تھا ۔ سيدھا مرکز ميں داخل ہونے کا راستہ بند کيا گيا ہے اسلئے جوہر روڈ پر بائيں مُڑ کر پھر داہنی طرف گھومنا تھا ۔ ميرے آگے دو گاڑياں انتظار ميں تھيں ۔ جب سامنے سے گاڑياں آنا بند ہوئيں تو ميرے آگے والی گاڑياں حرکت ميں آئيں جن کے پيچھے ميں بھی چل پڑا ۔ جب ميں داہنی طرف موڑ کاٹ چکا تھا تو ايک زور دار اور لمبا ہارن سُنا ۔ آئينہ ميں پيچھے ديکھا تو کچھ فاصلے پر ايک سياہ کرولا کار فراٹے بھرتی آ رہی تھی جبکہ وہاں حدِ رفتار 25 کلوميٹر فی گھنٹہ ہے ۔ چند لمحے بعد اُس نے ميرے داہنے ہاتھ گذرتے ہوئے ميری طرف ديکھ کر ايک بار پھر سخت غُصے ميں زور سے ہارن کے بٹن پر ہاتھ مارا اور لمبا ہارن بجا کر فراٹے بھرنے لگی ۔ وہ ايک جوان لڑکی يا عورت کار ميں اکيلی تھی

کچھ عرصہ قبل ميں ايف 10 سے اپنے گھر ايف 8 آ رہا تھا ۔ خيابانِ جناح [پرويز مشرف نے جسےجناح ايونيو بنا ديا] پر ايف 9 کے بعد بائيں جانب مُڑنے کا اشارہ دے کر مُڑنے کيلئے گاڑی آہستہ کر لی ۔ چند لمحے بعد لمبے ہارن سنائی دينے لگے ۔ ميں حيران تھا کہ ميرے داہنی طرف دو گاڑياں گذر سکتی ہيں ۔ بائيں طرف سے ايک اور ميرے داہنے يا بائيں کوئی گاڑی نہيں اور ميں نے ابھی مڑنا بھی شروع نہيں کيا تو يہ ہارن کيوں ؟ اگلے لمحے جو کار ميرے پيچھے تھی وہ ميری داہنی طرف سے گذر کر سيدھی چلی گئی اور اُس کو چلانے والی جوان عورت مجھے اپنا مُکا دکھاتی گئی ۔ وہ کار ميں اکيلی تھی

ميں کار ميں بيٹھا سڑک پر جا رہا ہوں ۔ اچانک گاڑيوں کی رفتار کم ہو جاتی ہے ۔ پھر ايک لمحہ پاؤں اکسلريٹر پر دوسرے لمحہ بريک پر ۔ ميرے آگے گاڑياں ميرے بائيں گاڑياں ۔ ميرے داہنے گاڑياں ۔ سب آہستہ آہستہ آگے کو کھِسکنے لگتے ہيں ۔ پيچھے سے ايک گاڑی کے ہارن کی آواز وقفے وقفے سے شروع ہو گئی ہے اور پہلے سے تنے اعصاب پر بھاری محسوس ہونے لگی ہے ۔ يا اللہ يہ کيا ہے ؟ کوئی ہارن کو ہارمونيم سمجھ کر بجا رہا ہے کيا ؟ بيزار دل کے ساتھ آئينے ميں ديکھتا ہوں ۔ ميری کار سے پچھلی کار ميں ايک جوان لڑکی يا عورت نے ہارن پر ہاتھ رکھا ہوا ہے ۔ چہرے پر غُصہ ہے ۔ اُس کی کار ميں اور کوئی سوار نہيں ہے

ميں سوچتا رہ گيا کہ کيا يہ دنيا مردوں کی ہے ؟

اظہارِ خيال کی آزادی

مندرجہ ذيل ايک خط کا متن ہے جو ہندوستان ميں اَوکھِل چندر سَين نے صاحب گنج ڈويزنل ريلوے آفس کو 1909ء ميں لکھا تھا ۔ يہ خط نئی دہلی [بھارت] ميں ريلوے عجائب گھر ميں رکھا ہوا ہے

“I am arrive by passenger train Ahmedpur station and my belly is too much swelling with jackfruit. I am therefore went to privy. Just I doing the nuisance that guard making whistle blow for train to go off and I am running with ‘lotah’in one hand and ‘dhoti’ in the next when I am fall over and expose all my shocking to man and female women on plateform. I am got leaved at Ahmedpur station. This too much bad, if passenger go to make dung that dam guard not wait train five minutes for him. I am therefore pray your honour to make big fine on that guard for public sake. Otherwise I am making big report to papers.”

آخر اس خط کی اتنی کيا تاريخی اہميت ہے کہ عجائب گھر ميں اس کی نمائش کی گئی ہے ۔ يقينی طور پر اس کا سبب اَوکھِل چندر سَين کی کمزور انگريزی نہيں ہے ۔ اس خط نے اُس وقت کی حکومتِ برطانيہ کو جن کا ہندوستان پر راج تھا مجبور کيا کہ ٹرين کے ڈبوں کے اندر ہی بيت الخلاء بنائے جائيں کيونکہ اُس وقت تک کسی ٹرين ميں بيت الخلاء کی سہولت موجود نہ تھی

کوئی تجويز يا خيال جو ذہن ميں آئے خواہ کتنا ہی احمقانہ لگے اس کا اظہار ايک عمدہ عمل کا پيش خيمہ ہو سکتا ہے ۔ اظہار خيال کی آزادی کا يہی مطلب و مقصد ہے جو بدقستی سے دوسروں کی پگڑياں اُچھالنا سمجھ ليا گيا ہے

چنانچہ کہہ دينا چاہيئے جو دل ميں آئے بشرطيکہ اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہوتی ہو
شرمانا چاہيئے جہاں شرم کی بات ہو مگر اس لئے نہيں کہ “لوگ کيا کہيں گے”
جائز تکليف کا اظہار کرتے ہوئے شرم نہيں کرنا چاہيئے

جائے گا جب يہاں سے کچھ بھی نہ پاس ہو گا
دو گز کفن کا ٹکڑا ۔ تيرا لباس ہو گا
يہ ٹھاٹھ باٹھ تيرا ۔ يہ آن بان تيری
رہ جائے گی يہيں پر يہ ساری شان تيری
اتنی ہی ہے مسافر بس داستان تيری
مطلب کی ہے يہ دُنيا کيا اپنے کيا پرائے
کوئی نہ ساتھ آيا ۔ کوئی نہ ساتھ جائے
دو دن کی زندگی ہے کر لے جو دل ميں آئے

عبادت کسے کہتے ہيں ؟

زندگی کے دوسرے مشاہدات کے ساتھ ايک مشاہدہ يہ بھی ہوا کہ مختلف لوگ عبادت کا مختلف تصوّ ر رکھتے ہيں ۔ نامعلوم ہمارے لوگ اس سلسلہ ميں کہی سُنی کی بجائے مستند کُتب سے رجوع کيوں نہيں کرتے ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ميں بہت پڑھا لکھا تو نہيں ہوں ۔ مگر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق سے جو سمجھا ہوں وہ درجِ ذيل ہے

“عبادت” فعل ہے “عبد” کا جو وہ بحيثيت “عبد” کر تا ہے ۔ “عبد” کہتے ہيں “بندہ” يا “غلام” کو ۔ غلام کيلئے لازم ہے کہ اپنے آقا کا ہر حُکم مانے ۔ اگر ايسا نہيں کرے گا تو وہ غلام نہيں ہے يا غلام ہوتے ہوئے باغی ہے ۔ عبادت کو اُردو ميں بندگی بھی کہتے ہيں ۔ چنانچہ عبادت يا بندگی کا مطلب يہ ہے کہ انسان اللہ کے ہر فرمان کے مطابق عمل کرے
عبادت صرف نماز نہيں ہے اور نہ ہی صرف نماز ۔ روزہ ۔ زکات اور حج ہيں
انسان کا ہر وہ فعل جو وہ اس لئے انجام دے کہ يہ اللہ کا حُکم يا فرمان ہے عبادت ہے

ايک آدمی راہ جاتے گِر گيا ہے تو اُسے اس خيال سے اُٹھايا جائے يا اُس مدد کی جائے کہ اللہ کا فرمان ہے کہ مشکل کے وقت ميں مدد کی جائے تو يہ عمل عبادت بن گيا
اگر يہ سوچ کر اُٹھايا جائے کہ اس طرح يہ آدمی مجھے اچھا سمجھے گا يا ديکھنے والے اچھا سمجھيں گے تو يہ عبادت نہ ہو گی

کوئی اپنی اولاد کی اچھی تعليم و تربيت اس نظريہ سے کرتا ہے کہ اللہ کا فرمان ہے تو ايک ايسی عبادت کرتا ہے جو اُس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک اس کی اولاد اُس اچھی تربيت کو بروئے کار لاتی رہتی ہے ۔ اس کے ساتھ دنياوی فائدہ يہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو بہتر بناتا ہے اور اپنے لئے اطمينان مہياء کرتا ہے
اگر اولاد کی بہتر تعليم و تربيت اس خيال سے کرے کہ بڑا عہدہ ملے گا يا زيادہ مال کمائے گا يا آسائش کی زندگی گذارے گا يا بڑا نام ہو گا تو يہ عبات نہ ہو گی

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عبادت کو ہمارے لئے اتنا آسان بنايا ہے کہ ہمارا ہر فعل عبادت بن سکتا ہے ۔ يہاں تک کہ لباس پہننا ۔ کھانا پينا ۔ چلنا پھرنا ۔ بات کرنا سب عبادت بن سکتا ہے اگر اس فعل کو اللہ کے حُکم کے مطابق ادا کيا جائے

گويا کوئی بھی اچھا عمل عبادت بن سکتا ہے اور نہيں بھی ۔ اگر نيّت خالص تھی کہ اللہ کی خوشنودی حاصل کی جائے تو عبادت ۔ يہ نيّت نہ ہو تو اچھا عمل دنيا کے لحاظ سے اچھا نظر آتے ہوئے بھی آخرت کا توشہ لانے سے محروم رہتا ہے

يا اللہ ہميں اپنا بندہ بنا لے ۔ ہم سے اپنے بندوں والے کام لے لے