قومی حميت ابھی باقی ہے

خواجہ الطاف حسين حالی صاحب کے مندرجہ ذيل اشعار ميں نے بہت پہلے نقل کر کے مسؤدہ محفوظ کيا اور شائع کرنے کی فہرست ميں لگا ديا تھا ۔ ان کو شائع کرنے کی تاريخ آئی تو بلا وجہ خيال ہوا کہ ملتوی کيا جائے ۔ اس طرح دو بار ملتوی کيا اور بات مہينوں پر جا پڑی

پچھلے ہفتے ان کو شائع کرنے کی حتمی تاريخ 27 جولائی 2011ء مقرر کر دی ۔ سُبحان اللہ ۔ اللہ کا کرنا ديکھيئے کہ آج کا دن ان کيلئے ميرے خالق و مالک نے مُلک ميں وقوع پذير ہونے والے واقعات کے حوالے سے موزوں بنا ديا ہے ۔ سُبحان اللہ

نہیں قوم میں گرچہ کچھ جان باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ نہ اس میں وہ اسلام کی شان باقی
نہ وہ جاہ وحشمت کے سامان باقی ۔ ۔ ۔ پر اس حال میں بھی ہے اک آن باقی
بگڑنے کا گو ان کے وقت آگیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس بگڑنے میں بھی اک ادا ہے
بہت ہیں ابھی جن میں غیرت ہے باقی ۔ ۔ ۔ ۔ دلیری نہیں پر حمیت ہے باقی
فقیری میں بھی بوئے ثروت ہے باقی ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ تہی دست ہیں پر مروت ہے باقی
مٹے پر بھی پندار ہستی وہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکاں گرم ہے آگ گو بجھ گئی ہے

سمجھتے ہیں عزت کو دولت سے بہتر ۔ ۔ ۔ فقیری کو ذات کی شہرت سے بہتر
گلیمِ قناعت کو ثروت سے بہتر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ انہیں موت ہے بارِ منت سے بہتر
سر ان کا نہیں در بدر جھکنے والا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود پست ہیں پر نگاہیں ہیں بالا
مشابہ ہے قوم اس مریضِ جواں سے ۔ کیا ضعف نے جس کو مایوس جاں سے
نہ بستر سے حرکت نہ جبنش مکاں سے ۔ اجل کے ہیں آثار جس پر عیاں سے
نظر آتے ہیں سب مرض جس کے مزمن ۔ نہیں کوئی مُہلک مرض اس کو لیکن

بجا ہیں حواس اس کے اور ہوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طبعیت میں میل خور و نوش قائم
دماغ اور دل چشم اور گوش قائم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جونی کا پندار اور جوش قائم
کرے کوئی اس کی اگر غور کامل ۔ ۔ ۔ ۔ عجب کیا جو ہو جائے زندوں میں شامل
عیاں سب پہ احوال بیمار کا ہے ۔ کہ تیل اس میں جو کچھ تھا سب جل چکا ہے
موافق دوا ہے نہ کوئی غذا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہزالِ بدن ہے زوالِ قویٰ ہے
مگر ہے ابھی یہ دیا ٹمٹماتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بجھا جو کہ ہے یاں نظر سب کو آتا

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

This entry was posted in پيغام, روز و شب, سبق, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

One thought on “قومی حميت ابھی باقی ہے

  1. Pingback: قومی حميت ابھی باقی ہے | Tea Break

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.