Monthly Archives: May 2011

شکريہ محترم شکريہ

ميں نے اپنے طور پر محمد علی مکی صاحب سے ايک سوال کھُلے عام نہيں بذريعہ ای ميل پوچھا اور اُنہوں نے شايد عوام الناس کی بہتری کی خاطر اسے مُشتہر کر ديا کيونکہ ہمارے مُلک ميں سب کام عوام کی بہتری کيلئے ہوتے ہيں ڈاکے ڈالنا لاشيں گرانا سميت ۔ مجھے محمد علی مکی صاحب سے کوئی گلہ نہيں کيونکہ ميں عام آدمی ہوں اور عام آدمی صرف برداشت کرنے کيلئے ہوتا ہے

البتہ محمد علی مکی صاحب کا شکريہ ميرے متعلق تحرير لکھنے کا ۔ کسی نے کہا تھا “بدنام ہوں گے تو کيا نام نہ ہو گا ؟”
مزيد ميں محمد علی مکی صاحب کا مشکور ہوں کہ اُنہوں نے مجھے محترم اور چچا جيسے القاب سے نوازا ۔ گو بات کچھ ايسی ہے “محترم ۔ ميں آپ کا سر پھوڑنے کی گستاخی کر لوں”
اور محمد علی مکی صاحب کا ايک بار پھر شکريہ مجھے لينکس بنا کر بھيجنے کا ۔ اب تک تو ميں اپنی علالت کی وجہ سے اس سے استفادہ حاصل نہ کر سکا تھا مگر محمد علی مکی صاحب کی سيکولرزم کی تھيوری کے تحت مجھے اس بارے ميں سوچنا پڑے گا ۔ اگر محمد علی مکی صاحب کی بنائی ہوئی لينکس استعمال کرتا ہوں تو ميں بھی محمد علی مکی صاحب جيسا ہو جاؤں گا جو محمد علی مکی صاحب کيلئے سُبکی کا باعث ہو گا ۔ کہاں وہ علم و ذہانت کا سمندر اور کہاں ميں 2 جماعت پاس عام سا آدمی

محمد علی مکی صاحب نے ميرے متعلق لکھا ہے کہ “ان کے بلاگ کے مطابق ان کا مقصد اپنی زندگی کے تجربات نئی نسل تک پہنچانا ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے تجربات کم اور نظریات زیادہ پہنچانا چاہتے ہیں”

محمد علی مکی صاحب صرف ميرے بلاگ کو جانتے ہيں اور وہ بھی جزوی ۔ نہ کبھی مجھے ملے ہيں نہ کبھی ٹيليفون پر مجھ سے بات کی ہے تو پھر انہيں ميرے نظريات سے کيسے واقفيت ہوئی ؟ ہاں ۔ سنا ہے کہ اعلٰی ذہن کے لوگ بند لفافہ ديکھ کر اندر پڑے خط کا مضمون سمجھ جاتے ہيں ۔ ويسے ميرے بلاگ پر مختلف نظريات کی تحارير موجود ہيں جن سے ميرا مُتفق ہونا ضروری نہيں

محمد علی مکی صاحب کی ذہانت بھی قابلِ تعريف ہے کہ ميرے سوال کا جواب تو ديا نہيں مگر کمال ہوشياری سے توپوں کا رُخ ميری طرف موڑ ديا اور مجھ پر خود ساختہ ليبل بھی چسپاں کر ديئے ۔ يہی عصرِ جديد کا طرّہ امتياز ہے

محمد علی مکی صاحب خود تو خدا کی ہستی کو متنازعہ بنانے کيلئے اپنا سارا عِلم اور ذہانت بروئے کار لاتے ہيں اور ميرے سوال کے جواب ميں اُسی خدا کی کتاب سے ايک آيت اور اسی کے رسول کا ايک فرمان نقل کئے ہيں جو مجھے اپنی جان سے زيادہ محترم ہيں مگر ميرے سوال کا جواب کسی صورت نہيں بنتے ۔ محمد علی مکی صاحب کا زور پھر بھی اسی پر رہا ہے کہ مجھے يا مجھ جيسے کو بہر صورت اور بہر طور سيکولر ثابت کريں جبکہ اُن کے سيکولرزم کی بنياد ہی ناقص ہے

بے علم ہوتے ہوئے بھی ميں اتفاق سے علم کی اہميت سے واقف ہوں ۔ ميں جہاں پی ايچ ڈی سے سيکھنے کی کوشش کرتا ہوں وہاں اَن پڑھ لوگوں سے بھی سيکھتا ہوں ۔ ميں بزرگوں سے سيکھتا ہوں اور بچوں سے بھی ۔ ميں نے چوپايوں اور پرندوں سے بھی سيکھا ہے اور حشرات الارض سے بھی ۔ ميں نے محمد علی مکی صاحب کے عِلم کے خزانوں سے بھی استفادہ کی کوشش کی مگر مايوسی کے سوا کچھ نہ ملا

کتابيں ميں نے بھی بہت پڑھی ہيں ۔ زمين کے متعلق آدمی لاکھ کتابيں پڑھ لے مگر جب تک پاؤں زمين پر نہ رکھے اُسے احساس نہيں ہو گا کہ زمين سخت ہے ۔ نرم ہے ۔ پتھريلی ہے ۔ ريتلی ہے يا دلدل يا يہ سخت زمين ۔ نرم زمين ۔ پتھريلی زمين ۔ ريتلی زمين يا دلدل ہوتی کيا ہے ؟ اسلئے تجربے کو اہميت دی جاتی ہے اور اسی لئے ايک عالمی شہرت يافتہ مفکر نے کہا تھا

عمل سے زندگی بنتی ہے جہنم بھی
يہ خاکی اپنی فطرت ميں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اللہ تعالٰی محمد علی مکی صاحب کو جزائے خير دے اور مجھے سيدھی راہ پر قائم کرے

انسانيت اور حقوق کے پرچارک کا اصل رُوپ

آج پاکستانی عوام اپنے مُلک کے اندر اپنے ہموطنوں کی امريکی ڈرون حملوں سے ہونے والی درجنوں بلکہ سينکڑوں ہلاکتوں کا بے بسی سے نظارہ کر رہے ہيں ۔ پاکستانيوں کيلئے لئے تو يہ نئی بات ہو سکتی ہے ليکن امريکا کا يہ پرانا کارو بار اور شرمناک دھندہ ہے جو انسانيت اور بھائی چارے کی چادر تان کر پچھلی سوا صدی سے شد و مد کے ساتھ جاری ہے ۔ فرق صرف يہ ہے کہ دوسرے ممالک ميں اُن کے حکمرانوں کے تعاون يا اجازت کے بغير بيگناہوں کا کُشت و خون اور غير ممالک کی املاک پر قبضہ کيا گيا ليکن پاکستان ميں يہ ڈرون حملے اور دراندازی ملک کے صدر [پہلے پرويز مشرف اور 3 سال سے آصف علی زرداری] کے تعاون سے جاری ہے

امريکا کا دعوٰی ہے کہ القاعدہ ايک دہشتگرد تنظيم ہے ۔ امريکا کا يہ بھی دعوٰی ہے کہ دہشتگردوں کے خاتمہ کيلئے القاعدہ کا خاتمہ ضروری ہے ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ ميں امريکا اب تک 9 لاکھ سے زيادہ انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ اپنے اس مؤقف کے برعکس امريکا لبيا کی حکومت کے خلاف جن لوگوں کو دولت اور اسلحہ مہياء کر رہا ہے وہ القاعدہ ہی کے لوگ ہيں ۔ امريکی وزيرِ خارجہ ہيلری کلنٹن لبيا کی جنگ کے متعلق لبيا کے باغيوں کے جس سربراہ “محمود جبريل” سے ملاقاتيں کرتی رہتی ہيں وہ القاعدہ کا نمائندہ “محمود جبريل” ہی ہے

پچھلے 121 سالوں ميں امريکا نے انسانيت اور حقوق کے نام پر 50 ممالک ميں کم از کم 130 بار جارحانہ دخل اندازی کی جس کا اصل مقصد وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنا يا کم از کم امريکی اجاراداری قائم کرنا تھا ۔ اس شيطانی مقصد کے حصول کيلئے لاکھوں بے قصور شہريوں کو بے دردی سے ہلاک کيا گيا جن ميں بوڑھے عورتيں اور بچے بھی شامل تھے

امريکا کی جارحانہ دخل اندازيوں کی فہرست

پاناما ميں 8 بار ۔ 1895ء ۔ 1901 تا 1904ء ۔ 1908ء ۔ 1912ء ۔ 1918 تا 1920ء ۔ 1958ء ۔ 1964ء اور 1989ء
نکاراگوآ ميں 7 بار ۔ 1894ء ۔ 1896ء ۔ 1898ء ۔ 1899ء ۔ 1907ء ۔ 1910ء اور 1912ء سے 1933ء
ہنڈوراس ميں 7 بار ۔ 1903ء ۔ 1907ء ۔ 1911ء ۔ 1912ء ۔ 1919ء ۔ 1924ء تا 1925ء اور 1983ء تا 1989ء
چين ميں 7 بار ۔ 1894ء تا 1895ء ۔ 1898ء تا 1900ء ۔ 1911ء تا 1914ء ۔ 1922ء تا 1926ء ۔ 1927ء تا 1934ء ۔ 1948ء تا 1949ء اور 1958ء
کيوبا ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1902ء ۔ 1906ء تا 1906ء ۔ 1912ء ۔ 1917ء تا 1933ء ۔ 1961ء اور 1962ء
ڈومينيکن ريپبلک ميں 6 بار ۔ 1903ء تا 1904ء ۔ 1914ء ۔ 1916ء تا 1924ء اور 1963ء تا 1966ء
يوگوسلاويہ ميں 6 بار ۔ 1919ء ۔ 1946ء ۔ 1991ء تا 1992ء اور 1993ء تا 1994ء
فليپينز ميں 6 بار ۔ 1898ء تا 1910ء ۔ 1948ء تا 1954ء ۔ 1989ء اور 2002ء
ايران ميں 5 بار ۔ 1946ء ۔ 1953ء ۔ 1980ء ۔ 1984ء اور 1987ء تا 1988ء
ہيٹی يا ہائٹی مين 4 بار ۔ 1891ء ۔ 1914ء تا 1934ء ۔ 1987ء تا 1994ء اور 2004ء تا 2005ء
کوريا 3 بار ۔ 1894ء تا 1896ء ۔ 1904ء تا 1905ء اور 1945ء تا 1953ء
گوآٹے مالا ميں 3 بار ۔ 1920ء ۔ 1954ء اور 1966ء تا 1967ء
يمن ميں 3 بار ۔ 2000ء ۔ 2002ء اور 2004ء
لائيبيريا ميں 3 بار ۔ 1990ء ۔ 1997ء اور 2003ء
چلّی ميں کم از کم 2 بار ۔ 1891ء اور 1964ء تا 1974ء
ميکسيکو کم از کم 2 بار ۔ 1913ء اور 1914ء تا 1918ء
پورٹو ريکو ميں 2 بار ۔ 1898ء اور 1950ء
السلويڈور ميں 2 بار ۔ 1932ء اور 1981ء تا 1982ء
جرمنی 2 بار ۔ 1948ء اور 1961ء
لاؤس ميں 2 بار ۔ 1962ء اور 1971ء تا 1973ء
سوماليہ کم از کم 2 بار ۔ 1992ء تا 1994ء اور 2006ء
عراق ميں 6 بار ۔ 1958ء ۔ 1963ء ۔ 1990ء تا 1991ء اور 1991ء تا 1993ء جو ابھی تک جاری ہے
افغانستان ميں 2 بار ۔ 1998ء اور 2001ء جو ابھی تک جاری ہے
لبيا ميں 3 بار ۔ 1981ء ۔ 1986ء تا 1989ء اور 2011ء جو جاری ہے

مزيد يہ کہ امريکی افواج نے دونوں عظيم جنگوں ميں مندرجہ ذيل ممالک کے خلاف بھر پور حصہ ليا ۔ ارجنٹائن ۔ ساموآ ۔ روس ۔ گوآم ۔ ترکی ۔ يوروگوئے ۔ يونان ۔ ويتنام ۔ انڈونيشيا ۔ کمپوچيا ۔ عمان ۔ ميسی ڈونيا ۔ شام ۔ ہندوستان ۔ بوليويا ۔ ورجن آئی لينڈز ۔ زائر [کانگو] ۔ سعودی عرب ۔ کويت ۔ لبنان ۔ غرناطہ ۔ انگولا ۔ سوڈان ۔ البانيہ ۔ بوسنيا اور کولمبيا

استفادہ مندرجہ ذيل کُتب ۔ بشکريہ دی نيوز

A briefing on the history of US military interventions by Dr Zoltan Grossman

From wounded knee to Libya: A Century of US military interventions by Dr Zoltan Grossman
A brief history of US interventions: 1945 to Present by William Blum
Killing Hope: US Military and CIA Interventions Since World War II by William Blum

William Blum writes:
The unending American quest for supremacy has continued unabated since its first involvement in the affairs of Argentina in 1890.

Dr Zoltan Grossman also writes:
“How American policy makers have been intervening in other countries for a long time, the backgrounds of these actions and the loss of civilian lives as a result of these military offensives.”

He further write, “Since the September 11 attacks on the United States, most people in the world agree that the perpetrators need to be brought to justice, without killing many thousands of civilians in the process. But unfortunately, the US military has always accepted massive civilian deaths as part of the cost of war. The military is now poised to kill thousands of foreign civilians, in order to prove that killing US civilians is wrong.”

He writes in an article published in the “Z magazine” of US in October 2001, “The media have told us repeatedly that some Middle Easterners hate the US only because of our “freedom” and “prosperity.” Missing from this explanation is the historical context of the US role in the Middle East, and for that matter in the rest of the world. This basic primer is an attempt to brief readers who have not closely followed the history of US foreign or military affairs, and are perhaps unaware of the background of US military interventions abroad, but are concerned about the direction of our country toward a new war in the name of “freedom” and “protecting civilians.”

Dr Zoltan Grossman maintains, “The United States military has been intervening in other countries for a long time. In 1898, it seized the Philippines, Cuba, and Puerto Rico from Spain and in 1917-18 became embroiled in World War I in Europe. In the first half of the 20th century it repeatedly sent Marines to “protectorates” such as Nicaragua, Honduras, Panama, Haiti, and the Dominican Republic. All these interventions directly served corporate interests, and many resulted in massive losses of civilians, rebels, and soldiers.”

Grossman goes on to write,” In the early 1960s, the US returned to its pre-World War II intervention role in the Caribbean, directing the failed 1961 Bay of Pigs exile invasion of Cuba, and the 1965 bombing and Marine invasion of the Dominican Republic during an election campaign. The CIA trained and harboured Cuban exile groups in Miami, which launched terrorist attacks on Cuba, including the 1976 downing of a Cuban civilian jetliner near Barbados. During the Cold War, the CIA would also help to support or install pro-US dictatorships in Iran, Chile, Guatemala, Indonesia and many other countries around the world.”

He asserts, “Even when the US military had apparently defensive motives, it ended up attacking the wrong targets. After the 1998 bombings of two US embassies in East Africa, the US “retaliated” not only against Osama Bin Laden’s training camps in Afghanistan, but a pharmaceutical plant in Sudan that was mistakenly said to be a chemical warfare installation. Bin Laden retaliated by attacking a US Navy ship docked in Yemen in 2000. After the 2001 terror attacks on the United States, the US military is poised to again bomb Afghanistan, and possibly move against other states it accuses of promoting anti-US “terrorism,” such as Iraq and Sudan.”

In one of the concluding paragraphs of his afore-cited article, Dr Grossman views,” Such a campaign will certainly ratchet up the cycle of violence, in an escalating series of retaliations that is the hallmark of Middle East conflicts.

Afghanistan, like Yugoslavia, is a multiethnic state that could easily break apart in a new catastrophic regional war. Almost certainly more civilians would lose their lives in this tit-for-tat war on “terrorism” than the 3,000 civilians who died on September 11.”

بھٹو کے خط کا عکس

ميں نے پچھلے ماہ ايک تحرير “معترف ۔ چاپلوس يا منافق ؟” کے عنوان سے شائع کی تھی ۔ اس ميں ذوالفقار علی بھٹو کے اس وقت کے صدرِ پاکستان سکندر علی مرزا کے نام ايک خط کا ترجمہ اور خط کا انگريزی متن نقل کيا تھا ۔ اتفاق سے مجھے اُس خط کا عکس دستياب ہو گيا ہے جو نيچے ديکھا جا سکتا ہے ۔ يہ خط حکومتِ پاکستان کے محافظ خانہ ميں موجود ہے طلب اور ہمت ہو تو ديکھا جا سکتا گو موجودہ حکومت کے دور ميں بہت مشکل کام ہے

سب سے بڑا دہشتگرد کون ؟

بقول امريکی اہلکاروں کے اُسامہ بن لادن کو ڈھوندنے اور ہلاک کرنے پر امريکا کے 1.3 ٹريلين يا 13 کھرب ڈالر خرچ ہوئے ۔ لمحہ بھر کيلئے سوچئے کہ انسانی حقوق اور بھائی چارے کا عملبردار مگر دراصل منافقت کا انبار امريکا اگر اس سے آدھی رقم انسانيت کيلئے خرچ کرتا اور اپنی دہشتگردی چھوڑ ديتا تو ساری دنيا امريکا کی گرويدہ بن چکی ہوتی ۔ آج اس کے بر عکس جتنی امريکہ دُشمنی دنيا بھر کے عوام کے دلوں ميں ہے اتنی اور کوئی چيز نہيں

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ثابت کرنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے۔ یہ آسان کام میڈیا کیلئے بہت مشکل ہے کیونکہ میڈیا پر سی آئی اے کاکنٹرول مضبوط ہے۔ اسکی مثال لوئیس پوساڈا ہے جو کیوبا، ونیزویلا اور پانامہ سمیت کئی ممالک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے لیکن سی آئی اے نے اسے اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے اور امریکی میڈیا سی آئی اے کی اس ”دہشت گرد نوازی“ پر چپ سادھے بیٹھا ہے

پوساڈا کیوبا کا ایک باغی ہے جس نے امریکی فوج سے تربیت حاصل کی اور سی آئی اے دستاویزات کے مطابق وہ اس کا تنخواہ دار ہے۔ اس نے 6 اکتوبر 1976ء کوکیوبا کے ایک مسافر بردار طیارے میں 2 ٹائم بم نصب کروا کر طیارے کو تباہ کیا جس میں 73 افراد مارے گئے۔ ونیزویلا کی ایک عدالت میں 2 ملزمان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے پوساڈا کے کہنے پر طیارے میں بم نصب کئے۔ اس اعتراف کے بعد پوساڈا کو ونیزویلا میں گرفتار کر لیا گیا لیکن 1977ء میں وہ جیل سے فرار ہو گیا۔ ونیزویلا کی حکومت نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور اسے دوبارہ گرفتار کر لیا لیکن سی آئی اے نے 1985ء میں بھاری رقم خرچ کر کے پوساڈا کو ایک دفعہ پھر جیل سے بھگا دیا

1997ء میں پوساڈا نے سی آئی اے کی مدد سے کیوبا کے مختلف ہوٹلوں میں بم دھماکے کئے تاکہ کیوبا جانے والے سیاح خوفزدہ ہو جائیں۔ ان دھماکوں میں کئی مغربی سیاح مارے گئے

2000ء میں پوساڈا ایک دفعہ پھر پانامہ میں سینکڑوں کلوگرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار ہو گیا۔ وہ کیوبا کے صدر فیدل کاسترو پر قاتلانہ حملے کیلئے پانامہ آیا تھا جو 40 سال میں پہلی دفعہ پانامہ کے دورے پر آ رہے تھے۔ اس گرفتاری کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش بہت پریشان ہوئے کیونکہ یہ سی آئی اے کی بہت بڑی ناکامی تھی لیکن بُش حکومت نے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ پانامہ کی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس دہشت گرد کو رہا کر دیا جائے۔ آخرکار پانامہ نے2004ء میں پوساڈا کو چھوڑ دیا اور سی آئی اے اسے امریکا لے آئی

ونیزویلا اور کیوبا نے اس دہشت گرد کی امریکا میں آؤبھگت پر شور ڈالا تو 2005ء میں سی آئی اے نے ایک ڈرامہ کیا ۔ امیگریشن قوانین کے تحت امریکا میں غیر قانونی قیام کے الزام میں پوساڈا پر ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ کئی سال تک مختلف عدالتوں میں اس مقدمے کی سماعت ہوتی رہی اور آخرکار 9 اپریل 2011ء کو ٹیکساس کی ایک عدالت نے پوساڈا کو بری کر دیا

ذرا سوچئے کہ پوساڈا کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا اور اس نے بم دھماکے سے فضا میں طیارہ تباہ کر کے 73 افراد کی جانیں نہ لی ہوتیں بلکہ کسی امریکی کو صرف ایک تھپڑ مارا ہوتا تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ شاید وہی ہوتا جو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا جس پر قتل کا کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا لیکن اسے 86 سال قید کی سزا سنائی گئی

پوساڈا پر ونیزویلا میں مقدمہ چلا اور سزا سنائی جا چکی لیکن وہ امریکا کی آنکھ کا تارا ہے۔ ونیزویلا کے صدر ہیوگوشاویز اس دہشت گرد کو امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سی آئی اے دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے لیکن میڈیا پوساڈا کے ساتھ سی آئی اے کی محبت کو سامنے لانے سے کتراتا ہے کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم اپنے ناقد صحافیوں کو مختلف طریقوں سے سبق سکھاتی رہتی ہے

لیبیا کی مثال لے لیجئے۔ معمر قذافی کی حکومت ختم کرنے کیلئے سی آئی اے نے ایسے گروپوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے جو القاعدہ کے حامی ہیں۔ پچھلے دنوں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے پیرس میں قذافی مخالف اتحاد کے رہنما محمود جبریل سے ملاقات کی۔ محمود جبریل ایک ایسے اتحاد کے رہنما ہیں جس میں لبیا اسلامک فائٹنگ گروپ بھی شامل ہے جس نے 2007ء میں کھُلے عام القاعدہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ القاعدہ کے رہنماؤں ابولیث اللبی اور ابو فراج اللبی کا تعلق اسی گروپ سے تھا

اس وقت قذافی کے خلاف امریکی اسلحے سے لڑنے والے باغیوں کے 2 کمانڈر سفیان بن قومو اور عبدالحکیم الحاسدی کا القاعدہ کے ساتھ تعلق خود امریکا کو بھی معلوم ہے۔ سفیان بن قومو 2001ء میں قندوز سے گرفتار ہوا اور اس نے امریکا کی گوانتاناموبے جیل میں 6 سال گزارے۔ وہ 2007ء میں رہا ہوا اور قذافی حکومت نے اسے گرفتار کر لیا۔ عبدالحکیم الحاسدی کو 2002ء میں پاکستانی حکومت نے گرفتار کر کے لیبیا کے حوالے کیا۔ یہ دونوں 2008ء میں قذافی سے معافی حاصل کر کے رہا ہوئے لیکن حالیہ بغاوت کے بعد امریکا کے حمایت یافتہ گروپوں کے ساتھ جا ملے۔ امریکا کو ان کے ماضی سے کوئی غرض نہیں اسے صرف اور صرف معمر قذافی کو ہٹانے سے غرض ہے

سچ یہ ہے کہ امریکا دہشت گردی کا مخالف نہیں بلکہ بین الاقوامی سیاست میں اکثر اہداف کے حصول کیلئے لوئیس پوساڈا اور عبدالحکیم حاسدی جیسے دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے۔ اگر آپ امریکا کے ساتھی بن جائیں تو سب ٹھیک ہے ورنہ آپ دہشت گرد ہیں۔ آج کل امریکا افغان طالبان کو بھی اسی راستے پر لانے کی کوشش میں ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے ذریعے انہیں اپنا دوست بنائے اور پھر اس دوستی کو خطّے میں اپنے دشمنوں کے خلاف استعمال کر سکے

اعداد و شمار اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ جب سے امریکا نے افغانستان میں قدم جمائے ہیں کہاں کہاں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کم ہوئی اور پاکستان میں بڑھ گئی

پاکستان میں جب بھی طالبان سے مذاکرات کی کوشش ہوئی امریکا نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ 27 مارچ 2004ء کو پاکستانی فوج نے شکئی میں مقامی عسکریت پسند نیک محمد کے ساتھ معاہدہ کیا اور 18جون 2004 ء کو امریکا نے اپنے پہلے ڈرون حملے میں نیک محمد کو ختم کر دیا۔ اس ڈرون حملے نے بیت اللہ محسود کو پیدا کر دیا

2005ء میں مجھے شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں نیک محمد کے ایک ساتھی نے بتایا کہ معاہدہ شکئی سے پہلے نیک محمد کو خوست کے راستے سے امریکیوں نے پیغام بھیجا کہ تم پاکستانی فوج کی بجائے ہمارے ساتھ بات کرو تو فائدے میں رہو گے۔ نیک محمد نے انکار کر دیا اور موت اس کا مقدر بنی۔ 30 اکتوبر 2006ء کو باجوڑ میں ایک معاہدہ ہونے والا تھا جس کے بعد اس علاقے میں عسکریت مکمل طور پر ختم ہو جاتی لیکن اسی دن امریکیوں نے ایک مدرسے پر ڈرون حملے میں 90بچّے شہید کر دیئے اور اس حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے جنم لیا

وہ لوگ جو ڈرون حملوں کو پاکستان کیلئے خطرہ نہیں سمجھتے ان کی عقل پر محض ماتم کیا جا سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے صرف اور صرف ڈرون حملوں کے ردّعمل میں جنم لیا۔ یہ پہلو بہت تشویشناک ہے کہ 2006ء میں صرف 2حملوں نے تحریک طالبان پاکستان کو جنم دیا۔ 2007ء میں 4 ڈرون حملے ہوئے، 2008ء میں 33 ۔ 2009ء میں 53 اور 2010ء میں 118ڈرون حملے ہوئے۔ ایک طرف ڈرون حملوں میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف خودکش حملوں میں اضافہ ہوا۔ آپ قبائلی علاقوں میں چلے جائیں اور اگر وہاں عسکریت پسند مل جائیں تو پوچھ لیں کہ تم نے ہتھیار کیوں اٹھائے؟ 90 فیصد عسکریت پسند کہیں گے کہ ڈرون حملوں کی وجہ سے ہتھیار اٹھائے

ڈرون حملوں کے اس کھیل کا اصل مقصد دہشت گردوں کو ختم کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کو ختم کرنا ہے۔ امریکہ دہشت گردی کے خاتمے میں مخلص ہوتا تو لوئیس پوساڈا جیسے دہشت گردوں کی مہمان نوازی نہ کرتا جسے ونیزویلا، امریکہ کا اسامہ بن لادن قرار دیتا ہے

بشکريہ ۔ جنگ

ميں نے کيا ديکھا

جمعہ 29 اپريل کو برطانيہ کے ايک شہزادے وليم کی شادی کی تقريب اکثر قارئين نے ديکھی ہو گی ۔ اُميد ہے کہ قارئين اپنے احساسات ضرور قلمبند کريں گے ۔ ميں نے جو ديکھا وہ حاضر ہے

نکاح سے پہلے اور بعد ميں بائبل سے بہت کچھ پڑھا گيا اور دعائيں کی گئيں ۔ دُلہا دُلہن سميت تمام حاضرين نے اس ميں بيک زبان منظم طريقہ سے حصہ ليا ۔ ايجاب و قبول بھی طويل تھا

لندن کی سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد ميں عوام اپنی ملکہ کے پوتے کی شادی کے شوق ميں نکلے ہوئے تھے اور بڑے نظم اور صبر کے ساتھ کھڑے تھے

شادی پر غيرملکی 600 حکومتی نمائندوں سميت 1900 افراد کو مدعو کيا گيا تھا

اب ايک نظر اپنی طرف

ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہيں ۔ ہمارے ہاں نکاح بہت مختصر ہوتا ہے ۔ اس ميں نکاح خواں چند آيات کی تلاوت کرتا ہے پھر قبوليت کرواتا ہے ۔ ان چند منٹوں کيلئے بھی کوئی خاموش نہيں ہوتا بلکہ چيکڑچاڑا مچا ہوتا ہے ۔ کچھ بزرگ خاموش کراتے تھک جاتے ہيں

کہيں چند سو لوگ اکٹھے ہو جائيں وہ بدنظمی کا اعلٰی ثبوت ہوتے ہيں ۔ پوليس کو بلانا پڑتا ہے

ہمارے لوگ سربراہِ مملکت کے بچے کی شادی ديکھنے کے شوقين نہيں ہوتے ۔ وجہ يہ ہے کہ وہ عوام کے مال سے گلچھڑے اُڑا رہا ہوتا ہے اور عوام کو حقير جانتا ہے ۔ جبکہ ملکہ برطانيہ مقررہ تنخواہ ميں سے اپنے اخراجات پورے کرتی ہے ۔ ہمارے ايک آرمی چيف کی بيٹی کی شادی ہوئی تو کراچی ميں 7000 مہمانوں کو دعوت دی گئی اور راولپنڈی ميں 5000 مہمانوں کو ۔ کراچی ميں لوگوں نے سات نئی کاريں اس کی بيٹی کو تحفہ ميں ديں اور راولپنڈی ميں 3 کاريں دی گئيں

قارئين سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ ميں اپنے احساسات سے مستفيد فرمائيں