پتھر دل

جی ہاں ۔ مجھے يہ احساس دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ميں بقلم خود فدوی “پتھر دل آدمی ہوں” ۔

“کل [شبقدر ميں] خُود کُش حملے ميں 80 پاکستانی ہلاک ہوئے اور طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی ۔ آپ اس پہ افسوس یا مذمت کب کریں گے ؟” ۔ يہ تبصرہ ميری تحرير ” افغانستان ۔ پاکستان ۔ اُسامہ بن لادن ۔ تاريخ کا ايک ورق” پر کيا گيا گو وہاں اس طرح کی کوئی بات نہ تھی

ميں نے جواب ميں لکھا “آپ صرف افسوس اور مذمت کی بات کر رہی ہيں ۔ ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”
ميرے اس جواب پر ايک صاحب نے دُکھ کا اظہار کيا
اور سوال کرنے والے کی طرف سے دوسرا سوال آيا ” اگر آپکے پاس رونے کے لئے آنسو نہیں تو ایم کیو ایم پہ بہانے کے لئے کہاں سے آتے ہیں ؟”

مزيد کہا گيا کہ لياری ميں 2 جوئے کے اڈوں پر دستی بم پھينکے گئے ۔ متعدد لوگ مارے گئے ۔ ميں نے اس پر کچھ نہيں لکھا

ميں نہ صحافی ہوں اور نہ کسی اخبار يا ٹی وی چينل کا نمائندہ ۔ پھر ميری ذمہ داری ميں يہ کيسے شامل ہوا کہ ميں ہر خبر پر تبصرہ کروں ؟
ميں تو اپنا روزنامچہ لکھتا ہوں ۔ کوئی پڑھ کر فيض حاصل کرے تو ميری خوش قسمتی ہے ۔ اگر ناراض ہو تو اُس کی خوشی ہے

تعليم يافتہ مسلمان جو اللہ کو بھی بغير تحقيق نہيں چھوڑتے ان کے شہر ميں جوئے کے اڈے شريعت کے مطابق ہی ہوں گے شايد ؟

مجھ سے کوئی قسم کرا لے کہ ميں الطاف حسين يا اُس کے مريدوں پر کبھی رويا ہوں ۔ جن کی مجھے آج تک سمجھ ہی نہ آسکی کہ وہ کہتے کيا ہيں اور چاہتے کيا ہيں ؟ اُن پر رونا سوائے آنکھوں کے ستياناس کے اور کيا ہو سکتا ہے ؟

اب واقعی بے تحاشہ رونا آ رہا ہے ۔ کسی آدمی پر نہيں بلکہ ” اُردو اسپيکنگ” کہلانے والوں کے دماغ ميں اُردو کے مر جانے پر ۔ ميں نے تو محاورہ استعمال کيا تھا اپنے زيادہ غم و اندوہ کے اظہار کيلئے يعنی ” ميرے پاس تو اب رونے کيلئے آنسو بھی نہيں بچے”

کہاں ہيں وہ “ديا جلائے رکھنا والے” خرم ابن شبير صاحب جو ہميں اُردو لُغت سمجھاتے رہتے ہيں ؟
اور کہاں ہيں وہ خامہ کی صرير والے محمد وارث صاحب جو اُردو کے اُستاذ ہيں ؟
ان حضرات کو معلوم ہو کہ وارث سوئے ہوئے ہيں اور صرف خامہ ہی خامہ رہ گيا ہے صرير پر
ميری پياری اُردو کے سر پر ايسا چپت ايک اُردو والے نے مارا ہے کہ ميری پياری اُردو بيہوش پڑی ہے
جلدی سے ميری پياری اُردو کو طاقت کا ٹيکہ لگايئے کہيں گذر گئی تو ميں بہاؤں گا کيا ؟ ميرے آنسو تو پہلے ہی خُشک ہو چکے ہيں

ويسے کيا لياری پنجاب ميں ہے ؟ ميں تو آج تک يہی سمجھتا رہا کہ لياری کراچی ميں ہے ۔ قتل لياری ميں ہو يا ناظم آباد ميں ۔ شاہ فيصل کالونی ميں ہو يا لياقت آباد ميں ۔ عزيز آباد يا غريب آباد ميں ہو يا سعدی ٹاؤن يا نارتھ کراچی ميں ۔ ملير ميں ہو يا بولٹن مارکيٹ ميں ۔ وغيرہ وغيرہ ۔ يہ سب ہوتے تو کراچی ميں ہيں

اگر کراچی يا سندھ کی حکومت اس قتال کو نہيں روک سکتی تو اس ميں مجھ نحيف کا کيا قصور ؟ ميں نہ کسی حکومت ميں شامل ہوں نہ کسی سياسی جماعت ميں

سندھ کا گورنر سالہا سال سے ايم کيو ايم کا ۔ وزيرِ اعلٰی 3 سال سے پی پی پی کا ۔ سندھ کے وزراء پی پی پی اور ايم کيو ايم کے ۔ مرکزی حکومت ميں بھی پی پی پی اور ايم کيو ايم دونوں شامل ہيں ۔ پی پی پی اور ايم کيو ايم کی حکومت کا تو يہ حال ہے کہ عوام کے قتال کو روکنا تو درکنار سعودی عرب [جس سے درپردہ اب تک امداد لے کر جی رہے ہيں] کے کراچی ميں کونسليٹ پر 11 مئی کو گرينيڈ پھينکے گئے مگر حکومت مست رہی اور [اپنی غفلت سے مجبور] مستقبل کی فکر نہ کی ۔ نتيجہ يہ کہ 16 مئی کو سعودی سفارتکار اپنے قونصلیٹ جار رہے تھے کہ ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوئی اور سعودی سفارتکار حسن گابانی جاں بحق ہوگئے ۔ سندھ حکومت اور مرکزی حکومت قتل و دہشتگردی کے ہر واقعہ کو طالبان يا القاعدہ کے ذمہ ڈال کر پھر لوٹ مار ميں مشغول ہو جاتی ۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتيں مل کر اپنے گھر [سندھ بالخصوص کراچی] کی بہتری نہيں کر سکتيں تو ميری طرف سے مذمت و افسوس کيا معنی ؟

This entry was posted in روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

11 thoughts on “پتھر دل

  1. Pingback: پتھر دل | Tea Break

  2. محمد احمد

    اجمل صاحب،

    اردو کو زندہ رکھنے والے ابھی زندہ / موجود ہیں اس کی آپ فکر نہ کریں پھر اگر اردو نہ رہی تو آپ بلاگ کس زبان میں لکھا کریں گے۔ سو آپ سے گذارش ہے کہ کسی ذاتی معاملے میں اردو کو بیچ میں ہرگز نہ لایا جائے۔

    رہی بات آپ کی اصل بحث کی تو مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں ہے، بلکہ مجھے تو اس بات پر رہ رہ کر افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے بلاگرز ایسے موضوعات پر اپنا وقت کیوں صرف کررہے ہیں جو کسی بھی طرح پاکستان کے لئے اور پاکستانیوں کے لئے مفید نہیں ہے۔

    کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ دائیں بازو اور بائیں بازو والوں میں کیا کوئی ایک بات بھی یکساں نہیں ہے کہ اختلافات سے بچ کر پاکستان کے لئے کچھ کیا جا سکے۔

  3. محمد احمد

    ویسے میرا خیال ہے کہ پتھر دل کوئی نہیں ہوتا سب کو ہی ہموطنوں کی ناحق موت کا دکھ ہوتا ہے سو آپ بھی نہیں ہیں۔

    کبھی کبھی ہم لوگ ایک دوسرے کی مخالفت میں کسی معاملے پر زیادہ زور دے دیتے ہیں اور کسی پر کم۔ کوشش کرکے ہم سب کو اس سے بچنا چاہیے اور اس طرح حق کی بات کرنی چاہیے کہ کوئی آپ پر جانبداری کا الزام نہ لگا سکے۔ یہ سب باتیں میں عمومی پیرائے میں کہہ رہا ہوں اور اس سے میری مراد کوئی خاص شخص، یا افتخار اجمل صاحب نہیں ہیں۔

    پھر بھی اگر خاکسار کی کوئی بات طبیعت پر گراں گزری ہو تو در گزر سے کام لیجے گا۔

  4. خرم

    انکل ۔ معذرت آپ کو میری بات سے دُکھ ہوا۔ مجھے آپ سے ایک مبہم بیان کی توقع نہ تھی اس لئے اس پر دُکھ کا اظہار کیا تھا۔ یقیناً یہ بلاگ آپ کی ذاتی آراء اور تجربات کے اظہار کے لئے ہے اور اس حقیقت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

  5. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم! آپ کی یہ بات میں سمجھ گیا تھا کہ قوم کہ درد و غم کی وجہ سے اسقدر آنسو بہائے ہیں کہ اب آنسو بھی ختم ہوگئے ہیں۔ یعنی جسے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ قوم کے متواتر درد اور غم سے اسقدر آنسو بہے کہ سوتے خشک ہوگئے۔ مزید آنسو نہیں بچے۔ یہاں تک تو بات درست تھی۔ مگر خرم بھائی کا یہ گلہ کہ بی بی کی بات کا جواب یوں نہیں دینا چاہئیے تھا ۔ اس سے میں یہی سمجھا کہ شاید انھیں بھی با کے مہفوم کا پتہ نہیں چلا۔ اور وہ مروت میں بی بی کی حمایت کر رہے ہیں۔

    البتہ لیاری میں یا کراچی میں یا پاکستان کے کسی بھی حصے میں مراے جاناے والوں کا صدمہ تو سبھی کو ہوتا ہے۔ مگر دوسروں کی بھی یہ سمجھنا چاہئیے کہ اگر کسی خاص ایک واقعہ پہ بات ہوری ہو تو اس کو اگر خاص اس موضوع پہ مرکوز رکھا جارہا ہو تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ بدقسمتی سے پاکستان کے طول و عرض میں ہر روز درجنوں بلکہ سینکڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردئیے جانے والی جانوں کا افسوس نہیں ہوتا۔ انکا بھی بہت افسوس اور دکھ ہوتا ہے ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے ان موت اور بے کی و بے بسی پہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔ مرنے والا ایک خبر نہیں ہوتی۔ ایک ہندسہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک جیتا جاگتا انسان تھا جسے زمین میں اتاد دیا گیا ۔ وہ اپنے پیچھے اپنے پیارے چھوڑ جاتا ہے۔ کتنے لوگوں کو بے سہارا اور یتیم کر جاتا ہے۔ کتنی محرومیوں اور کہانیوں کو جنم دے جاتا ہے۔ درد اور دکھ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہر واقعے اور ہر قتل اور ظلم پہ محض اسلئیے ضروری لکھنے کی شرط عائد کردی جائے تو پھھر کوئی بھی اسے نہ لکھ سکے کہ یہ عملا ناممکن ہے۔

  6. خرم

    جاوید بھائی مجھے انکل کی بات تو سمجھ آگئی تھی لیکن میں “اس طرح کی حرکات کرنے والے یقیناً پاکستان اور اسلام کے دشمن ہیں” وغیرہ جیسے کسی جملے کا متلاشی تھا۔جو افتخار انکل نے کہا وہ دُکھ کا اظہاریہ یقیناً تھا لیکن اس میں غصہ کا عنصر مفقود تھا جو ایسی کسی بھی خبر کے سُننے کے بعد مجھ میں پیدا ہوتا ہے۔ شائد یہ میری جذباتی طبیعت ہے لیکن میں افتخار انکل کو ایک جذبات سے بھرپور انسان کے طور پر جانتا ہوں اور مجھے محسوس ہوا کہ شائد وہ دانستہ اپنے آپ کو طالبان کہلانے والے ان درندوں کی مذمت/مخالفت سے کترا گئے ہیں۔ اس لئے دکھ کا اظہار کیا تھا۔

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خُرم صاحب
    ميرا کوئی بھائی يا ممير يا چچير يا پھوپھير يا خالير طالبان کا لاحقہ نہيں رکھتا ۔ ميرے خاندان ميں تو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ميں جوانی ميں پہاڑوں ۔ جنگلوں اور صحراؤں کی نوردی کيا کرتا تھا ۔ ميرے ساتھ جو بھی ہوتا وہ کہتا “يار ۔ بندوق لے لو اپنی حفاظت کيلئے ۔ يہ تمہارے شوق بڑے خطرناک ہيں”۔ اُن کے پاس اسلحہ ہوتا تھا مگر اپنے ساتھ ساتھ ميری بھی حفاظت کرنا پڑتی تھی ۔ ميں نے ايک بار والد صاحب سے کہہ ديا تو جواب ملا “کان کھول کر سُن لو ۔ اسلحہ اس گھر ميں نہيں آئے گا”
    اب آتے ہيں اُن کی طرف جنہيں طالبان کہا جاتا ہے ۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ يہ طالبان قسم کی کھُمبياں اچانک کيسے اُگ کھڑی ہوئيں ؟ ميری جس تحرير پر عنيقہ ناز صاحبہ نے متعلقہ تبصرہ کيا تھا آپ اُس تحرير کے شروع ميں ديئے روابط پر ميری تحارير پڑھيئے جو ميرا خيال نہيں ہيں بلکہ مصدقہ تاريخ ہے ۔ اس کے بعد ميری متعلقہ تحرير پڑھيئے جو کہ ميری تحرير نہيں ہے بلکہ قاضی حسين احمد صاحب کی آپ بيتی ہے
    شايد آپ کو کچھ سمجھ آ جائے کہ طالبان اتنے بھی دہشتگرد نہيں ہيں جتنا ہم امريکا کی ايماء پر اُنہيں کہتے ہيں ۔ يہ نام نہاد انتہاء پسند ۔ جنگجو يا دہشتگرد امريکا کے کی دہشتگردی کا ردِ عمل ہيں ۔ ہماری شامت اسلئے آئی ہوئی ہے کہ ہم امريکا کے فرماں بردار غلام ہيں
    آپ ہی بتايئے کہ ميں کسی گھرانے کے 10 ميں سے گھر ميں بيٹھے 8 افراد کو جن ميں عورتيں اور بچے بھی شامل ہوں ميزائل مار کر ہلاک کر دوں تو جو 2 افراد بچ جائيں گے وہ ميرے لئے کيا پھولوں کے ہار لے کر آئيں گے ؟ يا لوڈڈ مشين گن ؟

  8. خرم

    انکل طالبان کی تخلیق کے متعلق جو بھی دلائل دئیے جاتے ہیں ان کا میرے پاس تو صرف ایک ہی جواب ہے۔ شائد یہ رومانوی خیال ہے عملی نہیں لیکن میں اس بات کا شدت سے قائل ہوں کہ ایک قوم کو Disciplined ہونا چاہئے۔ انفرادی طور پر نہیں اجتماعی طور پر۔ اگر آپ کی حکومت نے امریکہ سے تعاون کا فیصلہ کیا ہے تو آپ کو اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکانے خواہے آپ کے ذاتی نظریات کچھ بھی ہوں۔ ایک منظم طریقہ سے پہلے اپنی حکومت بدلیں اور پھر پالیسی اور پھر اس پر عمل کریں۔ یہ کہ جی یہ میرے مامے، چاچے، وغیرہا ہیں اور میں نے ان کے ساتھ لڑنا ہے ہر ایک کے ساتھ، جہالت کے نظریات ہیں اور ڈسپلن سے روگردانی کے ویسے ہی بہانے جیسے ہماری فوج “نظریاتی” سرحدوں کی حفاظت کے لئے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے۔ دونوں ہی رویے ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں۔ اگر آپ اپنی حکومت کے دشمنوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دیں گے تو آپ کے گھر میزائل نہیں گریں گے۔ جب آپ ایک ایسے بندے کو پناہ دیتے ہیں، خواہے کسی وجہ سے، جو مطلوب میزائل ہے، تو پھر آپ نے جانتے بوجھتے یہ سودا کیا ہے اور جب سودا غلط کیا جائے تو پھر وصولی پر غصہ نہیں کیا کرتے اپنی عقل کا ماتم کیا کرتے ہیں۔ تو جو مرتے ہیں میزائل کے حملوں میں ان کا خون انہی کے سر ہیں جو ان میزائل میگنٹس کو اپنے درمیان رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں پہلے کون سا کام سائنس کے مطابق ہورہا ہے جو اس بات پر اصول پسندی کا سوچا جائے؟

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    ميں انفرادی بات کر رہا تھا ۔ اگر حکومت کی بات کرتے ہيں تو آپ پورے پاکستانيوں کو کيوں نظر انداز کرتے ہيں ؟ جبکہ اللہ کا قانون ہے
    سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے
    سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

    جو لوگ لُٹيرون اور قاتلوں کو ووٹ ديتے ہيں ۔ جو لوگ غير مُلکيوں کو اپنا رہنما صرف مانتے ہی نہيں اس کيلئے مارنے مرنے پر تيار ہو جاتے ہيں ۔ کيا وہ محبِ وطن ہيں يا مطلب پرست خود پسند ؟
    لاہور کے وہ شہری ہيں محبِ وطن جنہوں نے ريمنڈ ڈيوس کو بھاگنے کا موقع نہ ديا اور پوليس کو اُسے گرفتار کرنے پر مجبور کيا ۔ اگر باقی پاکستانی بھی آپا دھاپی چھوڑ کر اسی قسم کا رويہ اختيار کريں تو بہتر ورنہ اپنا منہ بند رکھيں اور قدرت کا تماشہ ديکھتے جائيں

  10. خرم

    انکل حب الوطنی وقتی کیفیت کا نام نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کو پکڑنا وقتی جذباتیت ہے، حب الوطنی ہے اپنے حصہ کا ٹیکس بلا چوں و چراں ادا کرنا۔ گواہی دینا اللہ کے لئے۔ انصاف کی حمایت کرنا، معاشی اور معاشرتی دونوں سطح پر۔ حب الوطنی کا کینوس بہت بڑا ہے۔ جس ملک کے لوگ ٹیکس تو نہ دیں لیکن بڑھکیں لگائیں خود مختاری کی، اس ملک کے نصیب میں میزائل، 2 مئی اور تئیس مئی ہی آتے ہیں۔

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    از راہِ کرم کسی کو حُب الوطنی کا سبق يا کوئی دوسرا کوئی سبق پڑھانے سے قبل اس کا مطالعہ کر ليا کيجئے ۔ يہ آپ کے لئے ہی بہتر ہو گا ۔
    آپ بتا سکتے ہيں آپ نے اس حُب الوطنی کو قائم کرنے کيلئے کتنے سال محنت کی ہے ؟ اور اس کوشش ميں کيا کيا تکاليف يا نقصانات اُٹھائے ہيں ؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.