Monthly Archives: March 2011

کيا يہ جھوٹ ہے ؟

نيچے نقل کی گئی خبر پڑھيئے ليکن پہلے اس سے متعلق ميرا سوال
“کيا يہ جھوٹ ہے ؟”

اگر يہ جھوٹ ہے تو سچ کيا ہے ؟
وہ جو امريکی حکومت کہتی ہے ؟
کيونکہ امريکا کے سابق صدر جارج واکر بُش نے کہا تھا “حقيقت وہ ہے جو ہم کہتے ہيں [Reality is that what we say]” ؟

امريکا کی سچائی کے تو ہر طرف جھنڈے گڑے ہيں
1 ۔ امريکا کو ناجائز قبضہ ۔ ظُلم اور قتلِ عام نہ فلسطين ميں اسرائيلی فوج کا نظر آتا ہے اور نہ جموں کشمير ميں بھارتی فوج کا
2 ۔ امريکا نے ڈبليو ايم ڈی کا سوانگ رچا کر عراق کے تيل پر قبضہ کيا جو جاری ہے
3 ۔ امريکا کا جھوٹ ۔ ورلڈ ٹريڈ سينٹر پر حملے کی دريافتيں اور پھر اس کے بہانے افغانستان پر حملہ اور قبضہ
4 ۔ امريکا کے صدر اوباما اور سيکريٹری خارجہ امور ہيلری کلنٹن نے کہا ” اسرائيل فلسطين کی زمين پر مزيد کالونی نہ بنائے”۔ اسرائيل نے کالونی بنانے کا کام شروع کر ديا تو کچھ ممالک نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل ميں اس کے خلاف قرار داد پيش کی جسے امريکا نے وِيٹو کر ديا
5 ۔ يمن ميں حکومتی افواج نے لبيا سے کئی گنا احتجاج کرنے والے ہلاک کر ديئے ۔ امريکا کو نظر نہيں آئے
6 ۔ بحرين ميں حکومت نے احتجاج کرنے والوں پر لبيا کی نسبت زيادہ ظُلم کيا ۔ وہاں عوام کا ساتھ دينے کی بجائے امريکا نے سعودی عرب اور يو اے ای کو کہا کہ بحرين ميں اپنی فوجيں داخل کريں [بحرين کی حکومت کی مدد کيلئے]
7 ۔ لبيا کے لوگوں کو آزادی دلانے کے بہانے لبيا کے تيل پر بھی قبضہ کرنے کا منصوبہ [يہ بھی پڑھيئے “لبيا پر حملہ شرانگيز“]

کيا کيا لکھوں ؟ فہرست طويل ہے

خبر
چند روزقبل کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدرحامدکرزئی نے کہا تھا کہ طالبان افغان بچوں کے تعلیمی اداروں کو بموں سے اڑارہے ہیں

افغان صدر حامد کرزئی کے جواب ميں ایک سینئر صحافی کو طالبان کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کی طرف سے بھیجے گئے ای میل میں افغانستان میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر مجاہد نے اپنے پشتو بیان میں کہا ہے کہ “طالبان کبھی بھی افغان عوام کیلئے بنائے گئے تعلیمی اداروں ۔ اسپتالوں اور عوامی مقامات کو بموں سے اُڑانے کا تصور نہیں کر سکتے ۔ ایسا کرنے والوں کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ۔ بموں سے اُڑانے والے افغانوں کے دُشمن ہیں یا پھر دُشمنوں کے ایجنٹ ہیں جو طالبان کو بدنام اور افغانستان کو تباہ کرنے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ دشمن طالبان کو بدنام کرنا چاہتے ہیں”

مُلا عمر نے افغان حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ طالبان تعلیمی اداروں یا اسپتالوں کو بم سے اڑاتے ہیں تو وہ سامنے لائیں ۔ نیٹو ۔ افغان حکومت کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کسی طالبان کو اسکول ۔ مدرسے یا اسپتال میں بم رکھتے ہوئے گرفتار کیا ہو

مُلا عمر کا کہنا ہے کہ طالبان تعلیم و تربیت کی اہمیت کو جانتے ہیں اور وہ دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ عِلم کے حصول ہی کو سمجھتے ہیں ۔ مُلا عمر نے مزيد کہا کہ طالبان دہشت گردی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتے ہیں

مایوسی حرام ہے

میری ساری زندگی غموں اور دُکھوں سے بھری تھی ۔
کوئی حل بھی تو نظر نہیں آتا تھا ۔ بس خود کشی کا ہی ایک راستہ باقی تھا کہ چھلانگ لگاؤں یا نہ لگاؤں؟ ميں کيا کرتی ۔ بالآخر میں نے واقعی دسویں منزل سے چھلانگ لگا دی
۔
۔
۔
۔
۔
۔

نویں منزل

ارے یہ تو وہ دونوں میاں بیوی ہیں جن کی آٓپس کی محبت اور خوشیوں بھری زندگی کی ہماری عمارت میں مثال دی جاتی تھی ۔ یہ تو آپس میں لڑ رہے ہیں ۔ گويا یہ کبھی خوش و خرم نہیں تھے
۔
۔
آٹھویں منزل

یہ تو ہماری عمارت کا مشہور ہنس مُکھ نوجوان ہے جو روتے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا تھا ۔ یہ تو خود بیٹھا رو رہا ہے
۔
۔
۔

ساتویں منزل

کیا یہ ہماری بلڈنگ کی وہ عورت نہیں جو اپنی شوخی، چنچل پن اور چستی و چالاکی کی وجہ سے مشہور تھی ۔ یہ تو اسکا مختلف رُخ دکھائی دے رہا ہے ۔ اتنی ساری دوائیں ؟ یہ تو دوائیوں کے سہارے زندہ ہے ۔ بیچاری اتنی زیادہ بیمار ہے کیا ؟
۔
۔

چھٹی منزل

یہ تو ہمارا انجینیئر ہمسایہ لگتا ہے ۔ بیچارے نے 5 سال قبل انجیئرنگ مکمل کی تھی اور تب سے روزانہ اخبار خرید کر ملازمت کیلئے اشتہارات دیکھتا رہتا ہے بے چارہ
۔
۔
۔
۔

پانچویں منزل

یہ ہمارا بوڑھا ہمسایہ ہے ۔ بیچارہ انتظار میں ہی رہتا ہے کہ کوئی آ کر اسکا حال ہی پوچھ لے ۔ اپنے شادی شدہ بیٹے اور بیٹیوں کے انتظار میں رہتا ہے لیکن کبھی بھی کسی نے اس کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا ۔ کتنا اُداس دکھائی دے رہا ہے بیچارہ
۔

چوتھی منزل

ارے یہ تو ہماری وہ خوبصورت اور ہنستی مسکراتی ہمسائی ہے ۔ بیچاری کے خاوند کو مرے ہوئے تین سال ہو گئے ہیں ۔ سب لوگ سمجھ رہے تھے کہ اسکے زخم مندمل ہو چکے مگر یہ تو ابھی بھی اپنے مرحوم خاوند کی تصویر اٹھائے رو رہی ہے

دسویں منزل سے کودنے سے پہلے تو میں نے یہی سمجھا تھا کہ میں ہی اس دنیا کی سب سے غمگین اور اُداس آدمی ہوں ۔ یہ تو مجھے اب پتہ چلا ہے کہ یہاں ہر کسی کے اپنے مسائل اور اپنی پریشانیاں ہیں اُفوہ ۔ میرے مسائل تو اتنے گمبھیر نہ تھے

کُودنے کے بعد زمین کی طرف آتے ہوئے، جن لوگوں کو میں دیکھتے ہوئے آئی تھی وہ اب مجھے دیکھ رہے ہیں ——>

کاش ہر شخص یہی سوچ لے کہ دوسروں پر پڑی ہوئی مصیبتیں اور پریشانیاں اُن مصیبتوں اور پریشانیوں سے کہیں زیادہ اور بڑی ہیں جن سے وہ گزر رہا ہے تو وہ کس قدر خوشی سے اپنی زندگی گزارے اور ہمیشہ اپنے رب کا شکر گزار رہے

مایوس نہ ہوا کریں کہ یہ دنیا فانی ہے ۔ اس دنیا میں موجود ہر شۓ اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پَر کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی اور جان لیجئے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

بشکريہ ۔ محمد سليم صاحب ۔ شانتو ۔ چين

ہے کوئی جو بتائے

آج لاہور ہائیکورٹ میں امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہونیوالے فیضان اور فہیم کے ورثا کی بازیابی کیلئے دائر درخواست کی سماعت ہوئی ۔ پنجاب حکومت نے مقتولین فہیم اور فیضان کے ورثا کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا اور لاہور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ ورثا کے بارے میں وفاقی حکومت سے جواب طلب کریں

سماعت کے دوران اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ریمنڈڈیوس اور مقتولین کے ورثا کے درمیان سمجھوتہ وفاقی حکومت نے کروایا تھا ۔ وفاقی حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ ورثا باہر گئے یا نہیں

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ریمنڈ ڈيوس کا پاسپورٹ صوبائی حکومت کے پاس ہے ۔ یہ وفاقی حکومت ہی بتا سکتی ہے کہ وہ ملک سے باہر کیسے گیا

عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو یکم اپریل تک نوٹس جاری کر دیا اور انہیں حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ سے ہدایات لیکر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے فیضان اور فہیم کے ورثا کی راولپنڈی میں موجودگی کا بیان دینے پر صوبائی وزیر قانون سے بھی جواب طلب کر لیا

سيمی فائنل بيگم کو دکھانا پڑے گا

ميری بيگم نے کبھی کرکٹ ميچ نہيں ديکھا تھا ۔ وجہ کہ اُس کے پاس اتنا وقت ہی نہيں ہوتا ۔ گو گھر کا کام کرنے کيلئے ملازمہ رکھی ہوئی ہے مگر اُس کی نگرانی کہ درست کام کر رہی ہے لازمی عمل ہے ۔ نماز يں فرض والی کے ساتھ نفلی بھی پڑھتی ہيں ۔ ترجمہ تفسير بھی پڑھانا ہوتا ہے ۔ بعض اوقات دوسرے مضامين بھی بچيوں کو پڑھاتی ہيں ۔ اخبار ہمارے ہاں دی نيوز روزانہ آتا ہے اور ڈان ہر اتوار کو ۔ پہلے دونوں روزانہ آتے تھے ۔ بيگم صاحبہ مدير کی ڈاک سميت تمام خبريں اور مضامين پڑھ کے دم ليتی ہيں ۔ ٹی وی پر خبريں اور کوئی اچھا مذاکرہ ہو تو ديکھنا ہوتا ۔ دن بھر خبريں نہ بھی سُنيں تو 9 بجے کی خبريں جو گھنٹہ بھر کی ہوتی ہيں ضرور سُنتی ہيں

حکومتی اہلکاروں کی مہربانی کہ جيو سُپر کے ساتھ گڑبڑ کی تو کرکٹ ورلڈ کپ کی مشہوری ہوئی ۔ پھر وزير صاحب پانی و بجلی نے اعلان داغ ديا کہ ميچ کے دوران بجلی بند نہيں کی جائے گی تو ہم بڑے جوش کے ساتھ دوپہر ايک بجے ہی ٹی وی لگا کر بيٹھ گئے ۔ حُسنِ اتفاق کہ بيگم صاحبہ بھی تسبيح پھيرتے پھيرتے آ کر بيٹھ گئيں

جب ويسٹ انڈيز کی پہلی وکٹ گری تو بيگم بوليں “الحمداللہ” جب دو سری گری تو بوليں “ماشاء اللہ”۔ پھر يہ ورد تسبيح کے ساتھ ساتھ جاری رہا تو ہميں بہت اُميد ہوئی کہ پاکستان جيتے ہی جيتے اور اللہ کے کرم سے وہی ہوا

اب 30 مارچ کو کسی طرح ہم نے اپنی بيگم کو مائل کرنا ہے کہ وہ اپنی خوشی سے ميچ ديکھنے بيٹھ جائيں اور پھر اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان بھارت کو ہرا کر فائنل کھيلنے کا حقدار بن جائے

کامیاب شادی کے پہلے 7 اصول

1 ۔ يقين
شادی کا سب سے اہم عنصر خاوند اور بيوی کا اعتقاد ہے جس کی ہم آہنگی شادی کے بندھن کو مضبوط بناتی ہے ۔ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی تمنا خاوند اور بيوی کو ايک دوسرے کا احترام اور محبت کرنے پر اُکساتی ہے

2 ۔ درگذر
کسی کی طرف سے کی گئی زيادتی پر چشم پوشی عام طور پر زيادتی کرنے والے کو دوست بنا ديتی ہے ۔ خاوند اور بيوی اگر ايک دوسرے کی لغزش پر درگذر کا رويہ اختيار کريں تو اُن کی محبت ميں اضافہ ہوتا ہے

3 ۔ بھُلانا
اگر خاوند اپنی بيوی کو يا بيوی خاوند کو اُس کی غلطياں ياد کرائے تو اس کا مطلب ہے کہ غلطی پر درگذر نہيں کيا گيا ۔ گذری باتوں کو ماضی کے ساتھ ہی دفن کر دينا چاہيئے کيونکہ ان کا دہرانا نئے زخم لگاتا ہے جو مندمل ہونے ميں اصل وقت سے زيادہ مدت ليتے ہيں

4 ۔ صبر و تحمل
صبر و تحمل ايک ايسی خوبی ہے جو انسان کو اعلٰی مرتبہ پر پہنچاتی ہے ۔ بہت سے مسائل اور جھگڑے بے صبری اور چلبلے پن سے پيدا ہوتے ہيں ۔ اسلئے انسان کو صبر اور تحمل سے کام لينا چاہيئے ۔ بہت سی بری لگنے والی باتوں پر صبر اور تحمل کے ساتھ غور کيا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ اتنی بری نہ تھيں جتنا محسوس ہوئی تھيں

5 ۔ رواداری
بہت سے جوڑوں ميں چپکلش کا سبب اُن کا جمود ہوتا ہے يعنی وہ اپنے آپ ميں يا اپنی عادت ميں تبديلی نہيں لا سکتے يا لانا نہيں چاہتے ۔ حقيقت يہ کہ شادی سے پہلے جس زندگی کے خواب ديکھے ہوتے ہيں يا جو کچھ کہانيوں ميں پڑھا ہوتا ہے شادی کے بعد وہ زندگی نہيں ہوتی ۔ شادی کے بعد محبت صرف خوبصورتی اور تعريفوں کا نام نہيں رہ جاتا بلکہ ايک دوسرے کيلئے وقت کے مطابق ہمدردی اور ايثار بن جاتا ہے ۔ رواداری اس بندھن کو قائم رکھنے کيلئے انتہائی ضروری ہے

6 ۔ دوستی
اصل دوستی شادی کے بعد شروع ہوتی ہے ۔ آپس ميں دوستی کو قائم کرنا ۔ ہر آدمی اپنے دوست کی عزت کرتا ہے ۔ اس پر اعتماد کرتا ہے ۔ اس پر بھروسہ رکھتا ہے ۔ اس کا خيال رکھتا ہے باوجوديکہ دوستوں ميں باہمی اختلافات بھی ہوتے ہيں ۔ خاوند اور بيوی ميں دوستی کا رشتہ ہموار ہو جائے تو پھر اُن پر بيرونی عوامل اثر انداز نہيں ہو پائيں گے

7 ۔ دوستانہ نقطہ نظر
دوستانہ نقطہ نظر رکھنے کا مطلب ہے کہ دونوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے سب لوگوں کے ساتھ دوستانہ رويہ رکھا جائے ۔ اس ميں خاوند کيلئے بيوی کے اور بيوی کيلئے خاوند کے والدين اور بہن بھائی اول حيثيت رکھتے ہيں ۔ يہ حقيقت بھولنا نہيں چاہيئے کہ شادی دو افراد کا نہيں دو خاندانوں کو بندھن ہوتا ہے ۔ يہ تعلقات ۔ احترام و محبت ايک دن ميں تو جنم نہيں ليتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ پيدا ہونے چاہئيں

احوالِ قوم ۔ ماضی اور حال

سعادت بڑی اس زمانہ کی یہ تھی
کہ جھکتی تھی گردن نصحیت پہ سب کی
نہ کرتے تھے خود قول حق سے خموشی
نہ لگتی تھی حق کی انہیں بات کڑوی
غلاموں سے ہو جاتے تھے بند آقا
خلیفہ سے لڑتی تھی ایک ایک بڑھیا
نبی نے کہا تھا انہیں فخرِ امت
جنہیں خلد کی مل چکی تھی بشارت
مسلم تھی عالم میں جن کی عدالت
رہا مفتحر جن سے تختِ خلافت
وہ پھرتے تھے راتوں کو چھپ چھپ کے دردر
وہ شرمائیں اپنا کہیں عیب سن کر
مگر ہم کہ ہیں دام و درہم سے بہتر
نہ ظاہر کہیں ہم میں خوبی نہ مضمر
نہ اقران و امثال میں ہم موقر
نہ اجداد و اسلاف کے ہم میں جوہر
نصحیت سے ایسا برا مانتے ہیں
کہ گویا ہم اپنے کو پہچانتے ہیں

ہوئی ان کی بچپن میں یوں پاسبانی
کہ قیدی کی جیسے کٹے زندگانی
لگی ہونے جب کچھ سمجھ بوجھ سیانی
چڑھی بھوت کی طرح سر پر جوانی
بس اب گھر میں دشوار تھمنا ہے ان کا
اکھاڑوں میں تکیوں میں رمنا ہے ان کا
نشہ میں مئے عشق کے چور ہیں وہ
صفِ فوجِ مژگاں میں محصور ہیں وہ
غمِ چشم و ابرو میں رنجور ہیں وہ
بہت ہات سے دل کے مجبور ہیں وہ
کریں کیا کہ ہے عشق طینت میں ان کی
حرارت بھری ہے طبعیت میں ان کی
اگر شش جہت میں کوئی دلربا ہے
تو دل ان کا نادیدہ اس پر فدا ہے
اگر خواب میں کچھ نظر آگیا ہے
تو یاد اس کی دن رات نامِ خدا ہے
بھری سب کی وحشت سے روداد ہے یاں
جسے دیکھيئے قیس و فرہاد ہے یاں

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

مجھے سمجھائے کوئی

اس دنيا ميں ميرے جيسا کم عِلم ہونا بھی ايک مُشکل کام ہے ۔ جب محفلِ اجارا داراں جو اپنے آپ کو يو اين سيکيوريٹی کونسل کہتی ہے نے قراداد منظور کی کہ لبيا کو “نَو فلائی زَون” قرار دے ديا گيا ہے تو ميں سمجھا کہ اب ليبيا کی فضا ميں کوئی جہاز نہيں اُڑے گا

مگر عملی طور پر اس کا مطلب يہ نکلا کہ امريکا اور اس کے ساتھی دہشتگردوں کے جہاز لبيا کی فضا ميں نہ صرف پرواز کريں گے بلکہ بے شمار مزائل اور بم بھی لبيا کے مختلف علاقوں ميں گرائيں گے ۔ اس دہشتگردی کے نتيجہ ميں جتنے انسان ہلاک ہوں گے اُنہيں ظالم کہا جائے گا ۔ مزيد يہ کہ تباہی اتنی مچائی جائے گی کہ لبيا کا اپنا کوئی ہوائی جہاز برسوں نہ اُڑ سکے

چنانچہ “نَو فلائی زون” کا مطلب يہ نکلا کہ لبيا کا يہ حال کر ديا جائے کہ لبيا کا کوئی جہاز اگلے کئی سالوں تک نہ اُڑ پائے اور پھر کوئی اور الزام لگا کر لبيا کے تيل کے ذخائر پر قبضہ کر ليا جائے جيسے “ڈبليو ايم ڈی [Weapons of Mass Destruction]” کا الزام لگا کر عراق پر قبضہ کيا تھا اور اوسامہ بن لادن [جو شايد عرصہ قبل طبعی موت مر چکا] کا بہانہ بنا کر افغانستان پر قبضہ کيا تھا جو قبضے آج تک جاری ہيں اور ختم ہونے کی کوئی اُميد نہيں ہے