زخم خود بولتے ہيں

لاہور ۔ جمعرات 27 جنوری 2011ء قريب پونے 3 بجے بعد دوپہر چوک مزنگ چونگی کی عابد مارکیٹ کے قریب امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے دونوں نوجوانوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دونوں نوجوانوں کے جسموں میں پیوست ہونے والی گولیوں کی تفصیلات يہ ہیں

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی لاہور کے شعبہ طب شرعی کے ڈاکٹرز نے اس واقعہ میں ہلاک ہونیو الے فیضان حیدر اور فہیم شمشاد کا پوسٹ مارٹم کیا ۔ نوجوان فہیم شمشاد کی موقع پر ہی 2 بج کر 45 منٹ پرگولیاں لگنے سے موت واقع ہو ئی ۔ جس کی لاش کا پوسٹ مارٹم تقریبا 22 گھنٹے 30 منٹ بعد کیا گیا ۔ فہیم کے جسم پر زخموں کے4 نشان تھے ۔ اس کے جسم پر گولیاں بھی 4 لگیں ۔ فہیم کو ایک گولی سر کے پیچھے دائیں طرف دوسری سامنے سے پیٹ پر جو آر پار ہو ئی تیسری گولی کمر پر بائیں جانب چوتھی بائیں کلائی پر لگی جو فہیم کی بائیں ٹانگ کی ران کو چھو کر گزر گئی

دوسرے نوجوان فیضان حیدر کی موت واقعہ کے ایک گھنٹے 35 منٹ بعد اسپتال میں ہوئی ۔ اسکی لاش کا پوسٹ مارٹم 19 گھنٹے 55 منٹ بعد شروع ہوا ۔ فیضان کے جسم پر زخموں کے 6 نشانات پائے گئے جن میں 5 گولیوں کے جبکہ ایک آپریشن کا ہے ۔ فیضان کو ایک گولی سامنے سے چھاتی کے دائیں طرف جبکہ دوسری بائیں کولہے سے آر پار ہوئی تیسری گولی کمر کی بائیں جانب عقب سے اور دو گولیاں بائیں ران سے چھو کر گزر گئیں

پوسٹ مارٹم رپورٹ سے واضح ہواہے کہ دونوں کو صرف ایک ایک گولی فرنٹ سے لگی اور دونوں کو باقی گولیاں عقب سے ماری گئیں

تو کيا ریمنڈ ڈیوس نے يہ سب گولياں اپنے دفاع ميں چلائی تھيں ؟
خيال رہے يہ معمولی سوال نہيں ہے
اگر دونوں نوجوان ڈاکو تھے اور ریمنڈ ڈیوس کو لوٹنے لگے تھے تو گولياں سب سامنے کی طرف سے لگنا چاہئيں تھيں
ايک خيال يہ بھی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس سيکرٹ ايجنٹ ہے ۔ جب مقتول نوجوانوں نے حسبِ عادت ریمنڈ ڈیوس کی طرف ايک سے زيادہ بار ديکھا کہ “يہ گورا يہاں کيا کر رہا ہے”۔ تو ریمنڈ ڈیوس کو شک ہوا کہ انہوں نے اُسے پہچان ليا ہے چنانچہ اُنہيں ہلاک کر ديا

This entry was posted in خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

20 thoughts on “زخم خود بولتے ہيں

  1. عنیقہ ناز

    ڈان ٹی وی سے ابھی میں نے ایک فوٹیج دیکھی۔ جو کہ مبینہ طور پہ ریمنڈ ڈیوس کے کار میں لگے کیمرے کی ہے۔ جس کے مطابق دونوں لڑکے تین کلو میٹر کے فاصلے سے اس کا تعاقب کر رہے تھے۔ انکے پاس اسلحہ تھا۔ فوٹیج میں انکے پاس پستول کی نال نظر آ رہی ہے جو کہ کار کمیرے سے دیکھی جا رہی تھی۔ اب ایک آدمی ان حالات میں کیا کہے۔

  2. عدنان مسعود

    نہایت افسوسناک واقعہ ہے ، آپ اور ہم فورنسک ایکسپرٹ نہیں‌لہذا تحقیقات مکمل ہونے تک میری ناقص رائے میں تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی مرحومین کی مغفرت فرمائے اور قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔

  3. خرم

    اطلاعات ہیں‌کہ “مقتولین” نے اسی روز کہیں‌اور بھی واردات کی تھی۔ اس بارے میں تفصیلات کا انتظار رہے گا۔ ویسے امریکہ میں‌اسلحہ رکھنا ایک بنیادی حق ہے (اسلام میں‌بھی ہے لیکن پاکستان میں‌نہیں) اور اسلحہ چلانے والے کا سیکرٹ ایجنٹ ہونا ضروری نہیں۔

  4. تانیہ رحمان

    امریکہ کا شہری پاکستان میں ملازم تھا ۔ اگر وہ سب کچھ اس نے اپنے دفاع کے لیے کیا ہے ۔۔۔۔ چاہئے یہاں کوئی بھی ہوتا ۔ اس کے پہچے یوں کوئی تعاقب کرتا ہوا نظر آتا ۔ تو کیا پولیس کا انتظار کیا جاتا کہ پولیس آ ککر بچائے ۔۔۔اگر یہی امریکہ میں ہوا ہوتا ، یعنی اگر اس کے پاس ڈوپلومیٹ پاسپورٹ ہے تو پھر اس پر اس ملک کا قانون لاگو نہیں ہو گا ۔۔۔ بات پھر آ کر وہی ختم ہو جاتی ہے کہ اب دیکھیں ہمارا قانون کیا کہتا ہے ۔۔

  5. گمنام ڈرپوک

    کیا بات کہی خرم نے! امریکی کا اسلحہ رکھنا بنیادی حق ہے جبکہ پاکستانی کا لائسنس یافتہ اسلحہ رکھنا کوئی حق نہیں۔

  6. گمنام ڈرپوک

    نام اس لیے نہیں ظاہر کر رہا کہ کہیں اگلا نمبر میرا نہ لگ جائے صرف اس شک کی بنیاد پر کہ یہ شخص امریکی کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ یقیناً طالبان کا ساتھی ہوگا۔ :lol:

  7. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنيقہ ناز صاحبہ
    تعاقب ثابت نہيں ہوتا ۔ بھرے شہر ميں تھے جہان سب رواں دواں ہوتے ہيں ۔ لاہور کراچی سے چھوٹا سہی ليکن شہر کے ايک سرے سے دوسرے تک جاتے ہوئے عام حلات مين ڈيڑھ گھنٹہ اور بھيڑ کے وقت ڈھائی سے تين گھنٹے لگتے ہيں ۔ ہم نے کبھی بار ديکھا ہے کہ کوئی گاڑی يا موٹر سائيکل آٹھ دس کلو ميٹر ہمارے ساتھ ہی رہا
    چھپايا ہوا اسلحہ ايکدم نکالنا تو خطرناک ہے مگر کسی کی پيٹی ميں لگا ہوا پستول کوئی خطرے والی بات نہيں ۔ سو کيمرے ميں پستول کا نظر آ جانا خطرناک نہ تھا ۔ البتہ قاتل کے دل ميں چور تھا جس کے نتيجہ ميں اس نے قتل کر ديا ۔
    آپ نے اس پر غور نہيں کيا کہ جس علاقہ ميں قاتل گاڑی چلا رہا تھا وہاں کسی غير ملکی کو بالخصوص امريکی کو جانے کی اجازت نہيں ۔ قاتل کے پاس اسلحہ تھا جسے اپنے ساتھ رکھنے کا اجازت نامہ اس کے پاس نہ تھا ۔ قاتل نے جن گوليوں سے دو نوجوان قتل کئے وہ اقوامِ متحدہ کے قانون کے مطابق ان کا بنانا اور استعمال کرنا کئی دہائياں پہلے ممنوعہ قرار ديا جا چکا ہے

  8. گمنام ڈرپوک

    قاتل کی اندھا دھند حمایت کرنے والے بھی بڑے دلچسپ لوگ ہیں۔ان کی کچھ دلچسپ باتیں۔
    ۱۔ مقتولین کے اس پستول پر تو خوب زور دیتے ہیں جو لائسنس یافتہ تھا جبکہ اس غیر قانونی اسلحے کی انہیں کوئی پروا نہیں جو قاتل لے کر گھوم رہا تھا۔
    ۲۔ اگر کبھی کوئی مضمون پاکستان میں غیر ملکی ایجنسیوں کے کرتوتوں پر لکھا جائے تو ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے نکتے کا ثبوت مانگتے ہیں جبکہ مقتولین پر ڈاکو ہونے کا الزام لگانے کے لیے انہیں کسی ٹھوس ثبوت کی ضرورت نہیں۔ انہی لوگوں کی اڑائی ہوئی افواہیں کافی ہیں جو تیونس میں انقلاب کے بعد جب وہاں جاتے ہیں تو کہتے ہیں “او میرے خدا! انہوں نے تو سارے شراب خانے بند کر دیے ہیں۔”
    ۳۔ اس بات کی بھی ان کو پروا نہیں کہ وہ امریکی وہاں قانون کی اتنی زیادہ خلاف ورزیاں کرتے ہوئے کر کیا رہا تھا۔
    ۴۔ اگر اس امریکی کو صرف اسلحہ دیکھ کر محض شک کی بنیاد پر دو افراد کو قتل کر دینے کا حق ہے تو ہمیں اس کو صرف اس کا اسلحہ دیکھ کر قتل کر دینے کا کوئی حق کیوں نہیں (جبکہ وہ اسلحہ بھی غیر قانونی ہے)؟
    اور باقی دلچسپ نکات تو آپ پہلے ہی اٹھا چکے ہیں۔
    یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی اس انداز میں کسی امریکی کو محض شک کی بنیاد پر قتل کر دیتا تو ان شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفا داروں کے الفاظ کیا ہوتے۔

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خرم صاحب
    جس اطلاع کا آپ نے ذکر کيا ہے وہ زمين نہيں پکڑ سکی کيونکہ اُسے گھڑنے والوں نے وقت کا حساب نہيں لگايا تھا ۔ اُس وقت وہ اُس جگہ ہو ہی نہيں سکتے تھے جس جگہ پر واردات ہونے کا ذکر کيا گيا
    امريکا کا قانون پاکستان پر کب سے لاگو ہونا شروع ہوا ؟ ۔ پاکستان ميں کسی غير ملکی کو اسلحہ ساتھ رکھ کر سڑکوں پر پھرنے کی اجازت نہيں ۔ سيکرٹ ايجنٹ ہونا تو قاتل کی کار سے ملنے والی اشياء سے ہوتا ہے اور اس اسلحہ سے بھی جو قاتل نے استعمال کيا

  10. Pingback: Tweets that mention زخم خود بولتے ہيں -- Topsy.com

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    تانيہ رحمان صاحبہ
    آپ کيسی بات کر رہی ہيں ۔ صوبہ خيبر پختونخوا ميں سب لوگ اسلحہ لے کر چلتے ہيں تو کيا ان سب کو ہلاک کر ديا جائے کہ پيچھا کر رہتے ؟ يہ کيسے ثابت ہوا کہ پيچھا کر رہا تھا يا ڈاکو تھا ؟ ميری دعا ہے کہ اللہ مجرم کو سزا اس دنيا ميں بھی دے

  12. عنیقہ ناز

    شراب خانے تو سعودی عرب میں بھی بند ہیں بغیر کسی انقلاب کے۔ لیکن اسکے اصل قدرداں وہیں پائے جاتے ہیں۔ اور ایران میں انقلاب کے بعد بھی خواتین جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع کے لئے شاعر کہتا ہے کہ
    مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
    من اپنا پرانا پاپی تھا ، برسوں میں نمازی بن نہ سکا

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عنيقہ ناز صاحبہ
    ميری تحرير کا شراب خانے اور عورتوں کی جسم فروشی سے دُور کا بھی تعلق نہيں ۔ تبصرہ کرتے ہوئے آپ کے ذہن ميں کيا تھا ؟
    اگر آپ کے تبصرہ پر بات کی جائے تو پہلے اپنے ملک بالخصوص کراچی کی خبر ليجئے پھر چليں گے سعودی عرب اور ايران کو درست کرنے

  14. گمنام ڈرپوک

    عنیقہ بی بی نے میرے تبصرے کے ایک انتہائی خورد بینی حصے پر تبصرہ کیا ہے۔ اور حسبِ معمول موضوع کے متعلق تمام حصے کو نظر انداز کر دیا ہے۔
    ویسے کراچی والا ایک شراب خانہ (ناچ گانے کی سہولیات کے ساتھ) تو میں نے نیشنل جیوگرافک پر دیکھا تھا جہاں مشہورِ زمانہ ہیجڑا بیگم نوازش علی بھی موجود تھا۔ پروگرام کا نام تھا
    Don’t Tell My Mother
    مقام سمندر کے کنارے کہیں تھا۔
    شاید یہاں موجود کسی شخص نے دیکھا ہو۔

  15. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    گمنام!
    Don’t Tell My Mother نامی جس پروگرام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس پروگرام کا کچھ حصہ یعنی نام نہاد روشن خیالی خرافات میں نے بھی دیکھی تھیں۔ جو اسلام سمیت پاکستان میں کسی بھی مذھب سے تعلق رکھنے والوں کی سماجی اور اخلاقی اقدار کے خلاف اور متعفن غیر اخلاقی اقدار و حرکات کو کچھ رزیل لوگوں کی طرف پاکستان میں تبدیلی وغیرہ کے طور پہ پیش کیا گیا تھا۔آج بھی سوچ کر اس پروگرام اور اسمیں شامل لڑکیوں لڑکوں وغیرہ سے گھن آتی ہے۔

  16. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    کسی نے سچ کہا تھا کہ ہمارے ملک پاکستان کے روشن خیالوں کو ایک بڑا مسئلہ ہے کہ انہیں اپنی دوسروں کی آنکھ میں پڑا بال بھی نظر آجاتا ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے کہ انہیں اپنی آنکھ میں پڑا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔

  17. انکل ٹام

    میں نے ایک دفعہ پہلے بھی پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے عنیقہ آنٹی ہمیشہ موضوع کو رجعت پسند سمجھ کر اگنور کر دیتی ہیں اور پھر دوسری بت کی طرف چابی کو گھما دیتی ہیں ۔

  18. گمنام ڈرپوک

    افتخار اجمل صاحب:
    اگر اس وقت میرے گھر بجلی نہ ہوئی یا ٹیلی فون ڈیڈ ہوا تو مجھے وقت پر بھاگنے کے لیے اطلاع کیسے ملے گی؟ نہ جی نہ! میں رسک نہیں اٹھاؤں گا۔ :-P

  19. انکل ٹام

    تعاقب سے ایک بات یاد آگی ایک دفعہ میں اپنے دونوں بھایوں کے ساتھ ایک جگہ جا رہا تھا ہمارے پیچھے پیچھے ایک آنٹی اپنی بیٹیوں کے ساتھ آرہی تھیں راستنہ سنسان تھا لیکن وہ کوی 20 سے 25 منٹ ہمارے تعاقب میں رہیں میرا چھوٹا بھای سمجھ رھا تھا کہ یہ کہیں چڑیل نہ ہوں ہمیں راستے میں کہیں کھا جایں گی ، ہو سکتا ہے میرا بڑا بھای سوچ رہا ہو کہ انکو اپنی بیٹی کے لیے میں پسند آگیا ہوں ، چونکہ میں درمیانہ ہوں اسی نہ میری بچوں والی سوچ تھی نہ بڑوں والی اور میں نے یہ ہی سمجھا کہ یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں ایک ہی راستے سے اپنی اپنی منزل پر گامزن ہیں ۔ :mrgreen:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.