اُميد باندھيں تو کس سے ؟

خاور صاحب نے اپنے کائی تائی کی تفصيل بيان کرتے ہوئے تيل عليحدہ کرنے اور اسے نالی ميں جانے سے روکنےکی بات کر کے مجھے اپنی ملازمت کا زمانہ ياد کرا ديا ۔ بلاشُبہ وہی قوم ترقی کرتی ہے جو اپنے قوانين اور اچھے اصولوں پر عمل کرتی ہيں ۔ جاپان اس کی ايک عمدہ مثال ہے

عام زندگی ميں اور بالخصوص ملازمت کے دوران ميں نے ہميشہ اپنا فرض سمجھا اور اسے نبھانے کی پوری کوشش کی کہ اچھے بُرے جيسے بھی قوانين يا اصول ہوں اُن کی پابندی ۔ ميری کوشش رہی کہ دوسرے بھی قوانين اور اصولوں کے مطابق چليں مگر حوادثِ زمانہ نے سمجھايا کہ اصول صرف اپنے لئے رکھو اور دوسروں پر صرف حتی المقدور نافذ کرو ۔ اصول پسندی نے متعدد بار مجھے مادی نقصان پہنچايا ليکن ميں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی عنائت کردہ ميری اس عادت نے مجھے ہميشہ عزت بخشی ۔ اصولوں کی حالتِ زار جو ہمارے ملک ميں ہے اس کی چند وہ مثاليں جو خاور صاحب کی تحرير پڑھ کر مجھے ياد آئيں

ميں نے جب پروڈکشن منيجر ويپنز فيکٹری کی حيثيت سے جولائی 1969ء ميں چارج سنبھالا تو تمام ورکشاپس کا اندر باہر سے جائزہ ليا ۔ ايک ورکشاپ ميں ديکھا کہ ايک سينٹريفيوج خراب پڑا ہے ۔ بتايا گيا کہ اس ميں لوہے کی کترنيں ڈال کر چلايا جاتا تھا ۔ تيل نُچڑی کترنيں اور تيل جو نکلتا تھا عليحدہ عليحدہ سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کر ديا جاتا ۔ اب کترنيں ايسے ہی پھينک دی جاتی ہيں ۔ ميں نے نئے بہتر سينٹيفيوج کيلئے ٹيکنيکل چيف سے بات چيت کر کے منظوری حاصل کی اور پيشکشوں کيلئے خط جاری کيا ۔ آرڈر کرنے سے قبل ميرے نئے باس آ گئے ۔ انہوں نے مجھے اس اہم کام سے نکال کر ورکشاپ کا انچارج لگا ديا اور ميری جگہ نيا ترقی پانے والا افسر لگا ديا [وجہ ميری اصول پسندی] ۔ بعد ميں سينٹريفيوج کو فالتو خرچہ سمجھ کر آڈر روک ديا ۔ مجھ سے پوچھنا گوارہ نہ کيا اور نہ سوچا کہ ٹيکنيکل چيف نے منظوری دی ہوئی ہے ۔ سال گزرنے کے بعد ورکشاپ کے باہر جو مالٹوں کے درخت لگے تھے وہ سوکھ گئے ۔ مجھے انکوائری کرنے کيلئے کہا گيا ۔ پتہ چلا کہ سينٹريفيوج آرڈر نہيں کيا گيا تھا اور تيل سے آلودہ کترنيں ايسے ہی پھنکی جاتی رہيں ۔ اُن کا تيل بہہ کر درختوں کی جڑوں ميں چلا گيا اور سب درخت سوکھ گئے ۔ اُس کے بعد ارد گرد کی ساری گھاس بھی سوکھ گئی ۔ اُس دن مجھے سمجھ آيا کہ “جڑوں ميں تيل دينا” کا کيا مطلب ہوتا ہے

جب 53 سال کی عمر ميں ريٹائرمنٹ لينے کے بعد مجھے واپس بلا کر ويلفيئر کا سربراہ تعينات کيا گيا تو ميرے ماتحت ايک فيکٹری بھی تھی جس ميں فرنس آئل کی ضرورت ہوتی تھی جو مجھ سے پہلے مارکيٹ سے خريدا جاتا تھا ۔ ايک تو اس تيل کا معيار گھٹيا تھا دوسرے مہنگا تھا تيسرے سپلائی کی ضمانت نہ تھی ۔ فيکٹری کا تجربہ ہونے کے باعث ميں جانتا کہ فيکٹريوں ميں بہت استعمال شدہ تيل ہوتا ہے ۔ ميں نے چيئرمين کانفرنس ميں تمام فيکٹريز کے سربراہان کے سامنے يہ سوال رکھا کہ وہ استعمال شُدہ تيل کا وہ کيا کرتے ہيں ۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا ۔ اُن کی منظوری سے ميں نے بعد ميں اُن کے متعلقہ افسران سے رابطہ کيا تو معلوم ہوا کہ دو فيکٹرياں جو بہت زيادہ تيل استعمال کرتی ہيں ۔ ان ميں سے ايک ميں تيل ناليوں ميں بہا ديا جاتا ہے اور دوسری ميں زمين ميں گڑھے کھود کر اُن ميں ڈال ديا جاتا ہے ۔ جب ميں نے اُن کو قوانين دکھائے جو اُنہوں نے ديکھنے کی کبھی کوشش بھی نہ کی تھی تو مجھ سے مدد مانگنے لگے ۔ قانون کے مطابق يہ تيل ڈرموں ميں بھر کر سٹورز ڈيپارٹمنٹ کے حوالے کرنا تھا

ايک اليکٹرو پليٹينگ ورکشاپ تھی ۔ استعمال شدہ کيميکلز قانون کے مطابق سٹور ڈيپارٹمنٹ کے حوالہ کرنے تھے اور وہ ناليوں ميں اُنڈيلتے رہے جو کہ فيکٹری کے باہر چشموں کے پانی کے ندی ميں گرا دی گئيں ۔ اسی طرح ايک بہت بڑی ايکسپلوسِوز فيکٹری کا فضلہ بھی اسی ندی ميں دالا جاتا رہا ۔ نتيجہ يہ ہوا کہ وہ پانی جو کبھی شفاف ہوا کرتا تھا اور لوگ اس ميں نہايا کرتے تھے اتنا زہريلا بن گيا ۔ پرندے اُسے پی کر مرنے لگے

کسی نے کہا تھا “کونسی رَگ دُکھتی ہے ؟”
جواب مِلا “جہاں بھی اُنگلی رکھو وہی”

This entry was posted in آپ بيتی, تاریخ, روز و شب, طور طريقہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

4 thoughts on “اُميد باندھيں تو کس سے ؟

  1. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے۔۔۔۔ جگر کو روئیں یا۔۔۔ والا معاملہ ہے جب ملک کے بادشاہ کے مطبخ میں بادشاہ کے لئیے نمک کی کمی اردگرد کی بستیوں سے پوری کرنے لگیں تو قسم قسم کے ہرکارے اپنے گھر کے لئیے اناج اور گوشت کے لئیے جانور اردگرد کی بستیوں سے اٹھانے میں آزاد ہوجاتے ہیں۔

    اگر اس ملک کا سیاسی قبلہ درست ہوجائے تو باقی معاملات پہ بھی چیک لگایا جاسکتاہے۔ جو فی الحال ممکن نظر نہیں آتا۔

  2. جاویداقبال

    بہت افسوس ہواہے۔ لیکن میراتوخیال ہےکہ بندےکواچھےاصولوں کوکبھی بھی پس پشت نہیں ڈالناچاہیےتاکہ وہ اپنےضمیرکےہاتھوں کبھی بھی شرمندہ نہ ہو۔

  3. عمران اقبال

    قوانین تو جناب سب کے لیے برابر ہی ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن ان پر عمل لوگ اپنی سمجھ اور علم کے مطابق ہی رکھتے ہیں۔۔۔ ہمارے ہاں کسی بھی پیچیدہ معاملے کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔۔۔ اس کا علم کم ہی ہے۔۔۔ مالکان کو تو ٹیکنکل معاملات کا اتنا علم ویسے بھی نہیں ہوتا اور اس چیز کا فائدہ ملازمین اور افسران اٹھاتے ہیں۔۔۔ کام چوری سمجہ لیں یا بے پرواہی۔۔۔ نقصان تو آخر اپنا ہی ہوتا ہے۔۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.