Monthly Archives: February 2011

احوالِ قوم ۔ 9 ۔ بُغض ۔ نفاق ۔ حسد ۔ تکبّر

وہ دِیں جس نے اُلفت کی بنیاد ڈالی۔ ۔ ۔ کِیا طبعِ دوراں کو نفرت سے خالی
بنایا اجانب کو جس نے موالی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر اک قوم کے دل سے نفرت نکالی
عرب اور حبش تُرک و تاجِک و ویلم۔ ۔ ۔ ہوئے سارے شِیر و شکر مِل کے باہم
تعصب نے اس صاف چشمہ کو آکر۔ ۔ ۔ ۔ کیا بُغض کے خار و خَس سے مکدّر
بنے خصم جو تھے عزیر اور برادر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نفاق اہلِ قِبلہ میں پھیلا سراسر
نہیں دستیاب ایسے اب دس مسلماں۔ ۔ کہ ہو ایک کو دیکھ کر ایک شاداں

ہمارا یہ حق تھا کہ سب یار ہوتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مصیبت میں یاروں کے غمخوار ہوتے
سب ایک اِک کے باہم مددگار ہوتے۔ ۔ ۔ عزیزوں کے غم میں دل افگار ہوتے
جب الفت میں یوں ہوتے ثابت قدم ہم۔ ۔ تو کہہ سکتے اپنے کو خیرُ الاُمَم ہم
اگر بھولتے ہم نہ قولِ پیمبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ہیں سب مسلمان باہم برادر
برادر ہے جب تک برادر کا یاور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معین اس کا ہے خود خداوندِ داور
تو آتی نہ بیڑے پہ اپنے تباہی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقیری میں بھی کرتے ہم بادشاہی

مجالس میں غیبت کا زور اس قدر ہے ۔ ۔ ۔ کہ آلودہ اس خون میں ہر بشر ہے
نہ بھائی کو بھائی سے یاں درگزر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہ مُلا کو صوفی کو اس سے حذر ہے
اگر نشئہ مے ہو غیبت میں پنہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہشیار پائے نہ کوئی مسلماں
جنہیں چار پیسے کا مقدور ہے یاں۔ ۔ ۔ سمجھتے نہیں ہیں وہ انساں کو انساں
موافق نہیں جن سے ایامِ دوراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں دیکھ سکتے کسی کو وہ شاداں
نشے میں تکبر کے ہے چُور کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسد کے مرض میں ہے رنجور کوئی

اگر مرجعِ خلق ہے ایک بھائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ظاہرا جس میں کوئی برائی
بھلا جس کو کہتی ہے ساری خدائی۔ ۔ ہر اک دل میں عظمت ہے جس کی سمائی
تو پڑتی ہیں اس پر نگاہیں غضب کی۔ ۔ ۔ کھٹکتا ہے کانٹا سا آنکھوں میں سب کی

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

محبت جب ہو جائے ۔ ۔ ۔

سعودی عرب ميں رہائش پذير ایک شخص نے یہ واقعہ سنایا

میں اور میرے ماموں نے حسب معمول مکہ حرم شریف میں نماز جمعہ ادا کی اورگھر کو واپسی کیلئے روانہ ہوئے۔ شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے کچھ فاصلے پر ایک بے آباد سنسان مسجد آتی ہے، مکہ شریف کو آتے جاتے سپر ہائی وے سے بارہا گزرتے ہوئے اس جگہ اور اس مسجد پر ہماری نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ ادھر سے ہی گزر کر جاتے ہیں مگر ايک دن جس چیز نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنگ کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی، چند لمحے تو میں سوچتا رہا کہ اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام مگر اگلے لمحے میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی کار کو رفتار کم کرتے ہوئے مسجد کی طرف جاتی کچی سائڈ روڈ پر ڈال دیا، میرا ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتا ہے اس نے بھی اپنی آنکھوں کو وا کرتے ہوئے میری طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا ” کیا بات ہے ؟ ادھر کیوں جا رہے ہو؟”

ہم نے اپنی کار کو مسجد سے دور کچھ فاصلے پر روکا اور پیدل مسجد کی طرف چلے، مسجد کے نزدیک جانے پر اندر سے کسی کی پرسوز آواز میں سورۃ الرحمٰن تلاوت کرنے کی آواز آ رہی تھی، پہلے تو یہی ارادہ کیا کہ باہر رہ کر ہی اس خوبصورت تلاوت کو سنیں ، مگر پھر یہ سوچ کر کہ اس بوسیدہ مسجد میں جہاں اب پرندے بھی شاید نہ آتے ہوں، اندر جا کر دیکھنا تو چاہیئے کہ کیا ہو رہا ہے؟

ہم نے اندر جا کر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جاء نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لئے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ بلکہ ہم نے تو احتیاطا ادھر ادھر دیکھ کر اچھی طرح تسلی کر لی کہ واقعی کوئی اور موجود تو نہیں ہے۔
میں نے اُسے السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا، اس نے نظر اُٹھا کر ہمیں دیکھا، صاف لگ رہا تھا کہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی
اُس نے ہمیں جواب ميں وعلیکم السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہا
میں نے اس سے پوچھا، عصر کی نماز پڑھ لی ہے کیا تم نے، نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو وہ نوجوان قبلہ کی طرف رخ کئے مسکرا رہا تھا، کس بات پر یا کس لئے یہ مسکراہٹ، مجھے پتہ نہیں تھا۔ عجیب معمہ سا تھا۔
پھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ بولا کہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے،
نوجوان کسی کو کہہ رہا تھا “مبارک ہو ۔ آج تو باجماعت نماز ہوگی”

میرے ماموں نے بھی مجھے تعجب بھری نظروں سے دیکھا جسے میں نظر انداز کر تے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھا کہ مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی۔
دماغ میں بار بار یہی سوال آ رہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کرتا ہے، مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ و بشر نہیں ہے، مسجد فارغ اور ویران پڑی ہے۔ کیا یہ پاگل تو نہیں ہے؟
میں نے نماز پڑھا کر نوجوان کو دیکھا جو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔
میں نے اس سے پوچھا، بھائی کیا حال ہے تمہارا؟ جسکا جواب اس نے ــ’بخیر و للہ الحمد‘ کہہ کر دیا۔
میں نے اس سے پھر کہا، اللہ تیری مغفرت کرے، تو نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔
“وہ کیسے ؟” نوجوان نے حیرت سے پوچھا۔
میں نے جواب دیا “جب میں اقامت کہہ رہا تھا تو نے ایک بات کہی مبارک ہو، آج تو باجماعت نماز ہوگی”
نوجوان نے ہنستے ہوئے جواب دیا “اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے ؟”
میں نے کہا “ٹھیک ہے کہ اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں ہے مگر تم بات کس سے کر رہے تھے آخر؟”
نوجوان میری بات سن کر مسکرا تو ضرور دیا مگر جواب دینے کی بجائے اس نے اپنی نظریں جھکا کر زمین میں گاڑ لیں، گویا سوچ رہا ہو کہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔
میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا “مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو، تمہاری شکل بہت مطمئن اور پُرسکون ہے، اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے”۔
اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر مجھے دیکھا اور کہا “میں مسجد سے بات کر رہا تھا”

اس کی بات میرے ذہن پر بم کی کی طرح گری، اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔
میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا “کیا کہا ہے تم نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے؟ تو پھر کیا اس مسجد نے تمہیں کوئی جواب دیا ہے؟”
اُس نے پھرمسکراتے ہوئے ہی جواب دیا “مجھے ڈر ہے تم کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کر دو”
میں نے کہا “مجھے تو ایسا ہی لگ رہا ہے، یہ فقط پتھر ہیں، اور پتھر نہیں بولا کرتے”
اُس نے مسکراتے ہوئے کہا “آپکی بات ٹھیک ہے یہ صرف پتھر ہیں”
ميں نے کہا “اگر تم یہ جانتے ہو کہ یہ صرف پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟”
نوجوان نے نظریں پھر زمین کی طرف کر لیں، جیسے سوچ رہا ہو کہ جواب دے یا نہ دے۔
اور اب کی بار اُس نے نظریں اُٹھائے بغیر ہی کہا “میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں، جب بھی کوئی پرانی، ٹوٹی پھوٹی یا ویران مسجد دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں ۔ مجھے اُنایام خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد میں نمازیں پڑھا کرتے ہونگے۔ پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ اب یہ مسجد کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے، کوئی تو ہو جو اس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے۔ میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو ادھر آ کر تسبیح و تحلیل کرے، کوئی تو ہو جو آ کر چند آیات پڑھ کر ہی اس کی دیواروں کو ہلا دے۔ میں تصور کر سکتا ہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔ کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی اداکر جائے اس میں۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر، یا راہ چلتا انسان آ کر ایک اذان ہی بلند کرد ے۔ پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم، میں ہوں جو تیرا شوق پورا کرونگا۔ اللہ کی قسم میں ہوں جو تیرے آباد دنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔ پھر میں ایسی مسجدمیں داخل ہو کر دو رکعت پڑھتا ہوں اور قرآن شریف کے ایک سیپارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔ میرے بھائی، تجھے میری باتیں عجیب لگیں گی، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتا ہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں”۔

میری آنکھيں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس بار میں نے اپنی نظریں زمین میں ٹکا دیں کہ کہیں نوجوان مجھے روتا ہوا نہ دیکھ لے، اُس کی باتیں ۔ ۔ ۔ اُس کا احساس ۔ ۔ ۔ اُسکا عجیب کام ۔ ۔ ۔ اور اسکا عجیب اسلوب ۔ ۔ ۔ کیا عجیب شخص ہے جسکا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہے ۔ ۔ ۔ میرے پاس کہنے کیلئے اب کچھ بھی تو نہیں تھا ۔ صرف اتنا کہتے ہوئے کہ اللہ تجھے جزائے خیر دے میں نے اسے سلام کیا، مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا ۔ مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی

نوجوان نے پیچھے سے مجھے آواز تو میں دروازے سے باہر جاتے جاتے رُک گیا ۔ نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جُھکی تھیں اور وہ مجھے کہہ رہا تھا “جانتے ہو جب میں ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو کیا دعا مانگا کرتا ہوں ؟”

میں نے صرف اسے دیکھا تاکہ بات مکمل کرے ۔ اس نے اپنی بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا ” میں دعا مانگا کرتا ہوں کہ ’ اے میرے پروردگار ، اے میرے رب ۔ اگر تو سمجھتا ہے کہ میں نے تیرے ذکر ، تیرے قرآن کی تلاوت اور تیری بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تَو اس کے بدلے میں تُو میرے باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دے کیونکہ تو ہی رحم و کرم کرنے والا ہے‘ ”

مجھے اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی، اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دیا

محترمات قاريات و محترم قارئين

کیا عجیب تھا یہ نوجوان اور کیسی عجیب محبت تھی اسے والدین سے اور کس طرح کی تربیت پائی تھی اس نے ؟
اور ہم کس طرح کی تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو ؟
ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ ؟

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے اور ہمارا نیکی پر خاتمہ کرے

کیا جموں کشمیر کے لوگ پاکستانی ہیں ؟

میں نے جب بھی تحریک آزادی جموں کشمیر کی بات کی مجھ سے کچھ سوال پوچھے گئے اور مجھ پر کچھ اعتراضات کئے گئے ۔ ایک عام اعتراض کچھ اس طرح تھا کہ جموں کشمیر کے لوگ اگر اپنے آپ کو جموں کشمیر کا باشندہ سمجھتے ہیں تو پاکستان سے چلے جائیں ۔ جب دھوکہ دہی سے صوبہ جموں کے مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر اُن کا قتلِ عام کیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو پاکستان دھکیل دیا گیا تو پاکستان میں ان لوگوں کو پہلے شہروں سے باہر کیمپوں میں رکھا گیا اور پھر شہروں کے اندر کچھ خالی متروکہ بڑی عمارات میں رکھا گیا ۔ کئی لوگوں کو اُن کے رشتہ دار اپنے گھروں میں لے گئے جو کیمپوں میں رہے اُن کو شروع میں مفت آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ دالیں مہیا کئے گئے ۔ جو بتدریج گھٹتے گھٹتے چند سال بعد صرف آٹا رہ گیا

جو لوگ مفت کا راشن پسند نہیں کرتے تھے وہ مختلف شہروں اور قصبوں میں منتقل ہو کر روزگار کی تلاش میں لگ گئے ۔ جو باقی رہ گئے اُن کو کچھ سال بعد حکومت پاکستان نے 25 کنال فی خاندان کے حساب سے غیر آباد بارانی زمینیں بغیر مالکانہ حقوق کے دیں کہ زمین کو قابلِ کاشت بنا کر اپنی گذر اوقات کریں اور مفت راشن بند کر دیا گیا ۔ اس طرح الاٹ کی گئی زیادہ تر زمینوں پر وڈیروں یا پیروں یا جرائم پیشہ لوگوں کی اجارہ داری تھی ۔ ان لوگوں نے یا تو جموں کشمیر کے لوگوں کو آباد ہی نہ ہونے دیا یا ان بے خانماں لوگوں کی ذاتی محنت میں سے زبردستی حصہ وصول کرتے رہے ۔ کچھ زمینیں پتھریلی تھیں اور اس علاقہ میں بارش بھی بہت کم ہوتی تھی اس لئے کاشت کے قابل نہیں تھیں ۔ کچھ ایسے خاندان تھے جن کی سربراہ بیوہ خواتین تھیں اور بچے چھوٹے تھے اس لئے اُن کو دی گئی زمینیں آباد نہ ہو سکیں ۔ قبضہ کرنے والے پیروں میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن کے آستانوں پر ہر سال عرس میں ہزاروں عقیدتمند شریک ہوتے ہیں

جموں کشمیر کے لوگوں کو کیمپوں ہی میں بتایا گیا تھا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور آپ نے اپنے گھروں کو واپس جانا ہے ۔ فی الحال عارضی طور پر ہم آپ کا بندوبست کر دیتے ہیں ۔ اس مہمان نوازی کے جموں کشمیر کے لوگوں پر مندرجہ ذیل ضمنی نتائج مرتّب ہوئے

پاکستان کے صرف چند محکموں میں اور وہ بھی بہت تھوڑا کوٹہ بھرتی کا مقرر تھا اس سے زائد کسی سرکاری دفتر میں ملازمت نہیں مل سکتی تھی
پاکستان کی تینوں افواج میں بھرتی کی ممانعت تھی باوجود یکہ پاکستان بننے سے پہلے جو جموں کشمیر کے لوگ افواج میں بھرتی ہوئے تھے وہ موجود تھے ۔ ایئر مارشل اصغر خان اس کی اہم مثال ہے
آزاد جموں کشمیر کی فوج اور سول محکموں میں بھرتی کی اجازت تھی مگر ان کا درجہ اور تنخواہ پاکستان کی ملازمت سے کم تھی
پروفیشل کالجوں میں داخلہ کے لئے کوٹہ مقرر تھا جو اتنا کم تھا کہ جموں کشمیر کے بہت سے ہائی میرٹ والے طلباء و طالبات پروفیشل کالجوں میں داخلہ سے محروم رہ جاتے تھے
جموں کشمیر کے لوگ غیر منقولہ جائیداد یعنی زمین ۔ مکان ۔ دکان ۔ کارخانہ ۔ وغیرہ نہیں خرید سکتے تھے ۔ میرے والد صاحب نے نہ مفت راشن لیا نہ کوئی اور مراعات ۔ وہ اپنے ساتھ فلسطین سے جو روپیہ لائے تھے اُس سے 1948ء میں ایک کارخانہ قائم کرنا چاہا تو پتا چلا کہ وہ غیر منقولہ جائیداد نہیں خرید سکتے ۔ ایک مقامی آدمی نے اپنی زمین اِس شرط پر استعمال کرنے کی پیشکش کی کہ وہ گھر بیٹھے 25 فیصد منافع کا حصہ دار ہو گا گو زمین کی مالیت پروجیکٹ کاسٹ کا دسواں حصہ بھی نہ تھی ۔ والد صاحب کو ماننا پڑا ۔ جب کارخانہ تیار ہو کر مال تیار ہونا شروع ہوا تو منڈی میں مال کی طلب دیکھ کر وہ شخص کہنے لگا “مجھے منافع کا 50 فیصد کے علاوہ مینجمنٹ کے اختیارات بھی دو بصورت دیگر اپنا کارخانہ میری زمین سے اٹھا کر لے جاؤ” ۔ والد صاحب کے نہ ماننے پر اس نے دعوی دائر کر دیا ۔ یہ 1949ء کا واقعہ ہے ۔ کمپنی جج نے رشوت کھا کر فیصلہ کیا کہ میرے والد کارخانہ چھوڑ کر چلے جائیں اور اس کے بدلے 30000 روپیہ لے لیں جبکہ والد صاحب نے اُس کارخانہ کی عمارت اور پلانٹ پر ایک لاکھ روپے سے زائد خرچ کیا تھا ۔ وہ شخص تھوڑا تھوڑا کر کے30 سالوں میں 20000 روپیہ دے کر فوت ہوگیا ۔ 10000روپیہ اس کے بیٹے نے میرے والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد 1992ء میں مجھے ادا کیا ۔ جو کارخانہ یا کوٹھی یا زمین 1949ء میں 30000 روپے میں خریدی جاسکتی تھی وہ 1992ء میں 30 لاکھ روپے میں بھی نہیں ملتی تھی

ہم پہلے راولپنڈی میں کرایہ کے مکان میں رہے ۔ اس مکان میں بجلی اور پانی کا بندوبست نہیں تھا ۔ چند ماہ بعد ایک متروکہ مکان ایک شخص سے قیمت دے کر لیا مگر مالکانہ حقوق نہ ملے ۔ بعد میں جب مالکانہ حقوق دینے کا فیصلہ ہوا تو 1962ء میں دوسری بار اس کی قیمت حکومت پاکستان کو ادا کی

پاکستان بننے کے 15 سال بعد 1962ء میں ایک مارشل لاء ریگولیشن جاری ہوا جس میں قرار دیا گیا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کو تمام معاملات میں پاکستانیوں کی برابر سمجھا جائے گا ۔ اس کے بعد جموں کشمیر کے لوگوں کو غیر منقولہ جائیداد خریدنے کی اجازت مل گئی اور ان کے بچوں کو جس صوبہ میں وہ رہتے تھے اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی بنیاد پر داخلے ملنے لگے ۔ لیکن اب بھی جموں کشمیر کے رہنے والے پاکستانی شہری نہیں ہیں ۔ یہ فیصلہ جموں کشمیر کے فیصلہ سے منسلک ہے ۔ بھارت نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں کشمیر کے بھارت میں ادغام کا اعلان کر کے وہاں کے باشندوں کو بھارتی قرار دے دیا ہوا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہتے اُن کو بھارتی حکومت پاکستان کے درانداز کہہ کر روزانہ قتل کرتی ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ چیونٹی چال

ہر شخص نے ہزاروں چیونٹیاں ادھر اُدھر رينگتی دیکھی ہیں ۔ اللہ نے بچپن سے ہی ہر چیز پر غور کرنے کی عادت مجھے عطا کی ۔ فارغ وقت میں چرندوں ۔ پرندوں اور زمین پر رینگتی چیونٹیوں کو ديکھتا رہتا کہ وہ کیا کرتی ہیں ۔ آج ذکر چيونٹيوں کا

پہلی چیز جو میں نے دیکھی یہ تھی کہ چیونٹی جس راستے سے آتی ہے بالکل اُسی راستے کی لکیر پر چلتی ہوئی واپس جاتی ہے ۔ اگر وہ جاتے ہوئے ایک میز پر چڑھی تھی اور دوسری طرف سے اُتری تھی تو واپسی پر بھی وہ دوسری طرف سے میز پر چڑھے گی اور واپس اس طرف اُتر کر آئے گی جس طرف سے وہ چڑھی تھی ۔ اگر وہ ایسا نہ کرے یعنی چیونٹی کے دوسری طرف اُتر جانے کے بعد میز ہٹا دی جائے تو چیونٹی پریشانی میں اِدھر اُدھر بھاگ کر اپنا راستہ تلاش کرے گی ۔ میں نے بچپن میں اس کو چیونٹی چال کا نام دیا تھا

سبق

چيونٹی کی حدِ نظر بہت قليل ہوتی ہے اسلئے وہ اپنے راستہ کے نشانات مقرر کر ليتی ہے تاکہ بھٹک نہ جائے
انسان کو بھی اصول بنانا اور اُن پر کاربند رہنا چاہیئے تاکہ آگے بڑھنے کیلئے اُسے خود مشقت اُٹھانا پڑے تو اُٹھا لے لیکن دوسرں کیلئے مشکل کا باعث نہ بنے

میں سب جانتا ہوں

ہمارے مُلک میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو کہتے رہتے ہیں “میں سب جانتا ہوں”۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہماری قوم کے انحطاط کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے جس کے نتیجہ میں لوگ کچھ سیکھتے نہیں یا پھر صحیح طور سیکھ نہیں پاتے ۔ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا ۔ میں نے بی ایس سی انجنیئرنگ کی سند حاصل کرنے تک یہ فقرہ نہیں سُنا تھا ۔ 1962ء میں ملازمت شروع کی اور پہلی بار یہ فقرہ میں نے 1964ء میں ایک مستری سے سُنا جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا ۔ اُس دور میں اس قسم کے لوگ بہت کم تعداد میں تھے اسلئے کوئی پریشانی نہ ہوئی ۔ 1967ء کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگی اور 1972ء کے بعد تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی ۔ فی زمانہ یہ حال ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت کا یہی دعوٰی ہے کہ اُنہیں سب کچھ معلوم ہے ۔ حال یہ ہے کہ جس نے عِلم حاصل نہیں کيا یا حاصل کیا تو اسے عملی طور پر استعمال نہیں کیا مگر دعوٰی ہے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے

اُن دنوں رائفل جی ۔ 3 کا پروجیکٹ شروع تھا ۔ انچارج تھے ورکس منیجر صاحب مگر وہ الیکٹریکل انخنیئر تھے [یہ انگریزوں کا کمال تھا اِن شاء اللہ پھر کبھی بیان کروں گا] اسلئے ساری مغز کھپائی مجھے ہی کرنا پڑتی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے ماتحت فورمین حضرات سمجھدار اور محنتی تھے ۔ متعلقہ فورمین کے مشورے پر میں نے ایک مستری کو جی ۔ 3 پراجیکٹ کا کوئی کام نہیں دیا تھا ۔ اُس نے میرے ورکس منیجر سے شکائت کی تو جواب ملا کہ “بھوپال صاحب سے بات کرو” تو اُس نے میرے جنرل منیجر [جسے اُس دور میں سپرنٹنڈنٹ کہا جاتا تھا] سے کہا کہ اُس کا علم اور تجربہ ضائع ہو رہا ہے ۔ جنرل منیجر صاحب کے کہنے پر میں نے اُس مستری کو بُلایا اور کام سمجھانے لگا تو وہ بولا “صاب ۔ کیا بات کر رہے ہیں مجھے سب پتہ ہے ۔ میرا 25 سال کا تجربہ ہے ۔ بس یہ ڈرائینگ مجھے دے دیں”۔ میں نے اُسے ڈرائینگ دے کر کہا “یہ کام ایک ہفتہ کا ہے لیکن آپ نے ایک ہفتہ بعد مجھے دِکھانا ہے اور پھر دو ہفتہ کے اندر مکمل کرنا ہے”۔

میری چھٹی حِس نے کہا کہ اس کام کا متبادل بندوبست کر لو ۔ کہیں مستری یہ جُوگاڑ [fixture] نہ بنا سکے اور اس کے بعد والا سارا کام رُکنے کی وجہ سے پراجیکٹ کی تکمیل میں تاخیر ہو ۔ میں نے ایک نیم ہُنرمند مزدور [semi skilled worker] جو فارغ تھا کو بھی وہی کام دیا اور کہا “جتنا جتنا میں بتاتا جاؤں اتنا اتنا کرتے جاؤ “۔ ایک ہفتہ بعد اُس نیم ہُنرمند نے کامیابی سے جُوگاڑ بنا لی ۔ میں نے اُسے ایک ترقی کا وعدہ دیا اور اگلے کام پر لگا دیا ۔ پھر میں اُس مستری کے پاس گیا اور کام کا پوچھا تو جواب ملا “صاب ۔ میں نے ڈرائینگ سٹڈی [study] کر لی ہے اور یہ بیس پلیٹ [base plate] بنا لی ہے”۔ میں نے پلیٹ اُٹھا کر دیکھی اور مستری کو چڑانے کیلئے کہا “اس میں تو ٹیپر [taper] ہے”۔ مستری بولا “کتنا”۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا “دو تین تھَو [between 0.002 and 0.003 inch] کا”۔ مستری بولا “کیا کہہ رہے ہیں تھَو آنکھ سے کہاں نظر آتے ہیں ؟” میں نے کہا “نکالو پریسیشن کمپیریٹر [precision comparator] ۔ ناپ لیتے ہیں”۔ کہتے ہیں کہ نیت نیک ہو تو اللہ مدد کرتا ہے ۔ ناپا تو پورے 2 تھَو کا فرق نکلا چوڑائیوں میں ۔ مزيد دو ہفتے تک وہ کام مکمل نہ کر سکا اور ميں نے اُسے واپس بھيج ديا

سو یہ ہے داستان اُس آدمی کی جسے سب کچھ معلوم تھا ۔ اس کے ذہنی انحطاط کا سبب اُس کا غرور اور یہ استدلال تھا کہ وہ سب کچھ جانتا تھا لیکن اللہ نے ایسا کیا کہ اُس دن کے بعد وہ میرے سامنے آنکھ اُونچی نہ کر سکا

اللہ ہمیں اس “میں” سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

کسی کو خبر بھی نہ ہوئی

ہاں جی ۔ قاريات و قارئين ۔ اپ کو خبر بھی نہ ہوئی ۔ ہم نے 12 فروری کو لاہور ميں رختِ سفر باندھنا شروع کيا اور 14 فروری کو سارا سامان روانہ کرنے کے بعد ہم 15 فروری کو اللہ کے فضل و کرم سے اسلام آباد پہنچ گئے ۔ کل کمپيوٹر وغيرہ کے ڈبے کھولے تھے ۔ آج کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ کہ اپنے ابھی تک زندہ ہونے کی خبر نشر کی جائے

“اتنے دن کيا کرتے رہے ؟”
“جناب ہم آئے تو گيس کی ترسيل بند تھی ۔ پلمبر کو بلايا تو اُس نے سارے گھر کی پائپ لائين کا معائنہ کر کے بتايا کہ ميٹر سے آگے گيس نہيں آ رہی ۔ ہيلپ لائن پر اطلاع کی ۔ ميٹر بدلانے والے آئے تو معلوم ہوا ميٹر کا نمبر کچھ اور ہے اور بل پر ميٹر کا نمبر کچھ اور لکھا ہے ۔ جس پر پہلے اس تفاوت کو درست کروانے کا حکم ملا ۔ فدوی نے دو دن سوئی نادرن گيس پائپ لائنز لمٹڈ کے ہيڈ آفس ميں گذارے ہين اور بغير جنرل منيجر عامر نسيم صاحب کے حکم دينے کے بات آگے نہيں بڑھ رہی تھی ۔ آج ميں جا نہيں سکا ۔ اب پير کو جا کر وہاں سے درست ميٹر نمبر والی بل کی کاپی نکلوا کر لاؤں گا اور پھر ہيلپ لائن والوں سے رابطہ کروں گا”

“تو کھاتے پيتے کيا ہوٹل سے ہيں ؟’
نہيں جناب ۔ اتفاق ميں برکت ہے ۔ اللہ خوش رکھے ميرے بہن بھائيوں کو ۔ ابھی تک چھوٹے بھائی کے گھر کھاتے پيتے ہيں ۔ کل تک سوتے بھی وہيں تھے ۔ ابھی صرف ايک رات اپنے گھر مين سوئے ہيں”

اللہ حافظ
پھر مليں گے اللہ کے حُکم سے

دوغلا پن یا منافقت ؟

آج کی دنیا میں قدریں بدل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب کہا جاتا تھا

سیرت کے ہم غلام ہیں صورت ہوئی تو کیا
سرخ و سفید مٹی کی مورت ہوئی تو کیا

لیکن مادیّت اور دکھاوے نے آدمی کو اتنا گھیر لیا ہے کہ قدریں مٹ چکی ہیں یا خلط ملط ہو کے رہ گئی ہیں۔ آج قابلیت سے زیادہ سندوں کی قیمت ہے اور اس سے بھی زیادہ بے ڈنگ فیشن اور اثر و رسوخ کی۔ آدمی دوغلا پن یا منافقت کا شکار ہو چکا ہے۔ دین کو بھی مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے ۔ آدمی یہ بھول چکا ہے کہ اس کی پیدائش کیسے ہوئی اور وہ کسی کے آگے جواب دہ بھی ہے

کئی سال قبل ایک محلہ دار کے ہاں سے میری بیوی کو دعوت ملی کہ بیٹے کی شادی سے ایک دن پہلے قرآن خوانی کرنا ہے اس لئے آپ بھی آئیں ۔ میری بیوی چلی گئی ۔ میری بیوی واپس منہ پھُلائے گھر آئی تو وجہ پوچھی ۔ کہنے لگی ” قرآن خوانی کے اختتام پر چائے کیک مٹھائی وغیرہ سے تواضع شروع ہوئی اور ساتھ ہی اُونچی آواز میں پاپ موسیقی لگا دی گئی ۔ میں تو ایک دم اُٹھ کے چلی آئی”

ایک محترمہ اپنی عزیز خواتین کے ہمرا ایک کھاتے پیتے تعلیم یافتہ گھرانہ میں اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لینے گئیں اور لڑکی کی ماں سے مخاطب ہوئیں”۔ ہم مذہبی لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔ آپ کا کسی نے بتایا کہ آپ نیک لوگ ہیں تو آ گئے”۔ پھر باتوں باتوں میں کہنے لگیں ” آپ کی بیٹی جسم اور سر اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہے ۔ اچھی بات ہے لیکن دیکھیں نا ۔ میرا بیٹا افسر ہے ۔ اس نے دوستوں سے ملنا اور پارٹیوں میں جانا ہوتا ہے ۔ ہائی سوسائٹی میں تو پھر ان کے مطابق ہی کپڑے پہننا ہوتے ہیں نا ”

ہمارا دورِ حاضر کا معاشرہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا نام لینے والوں کو جاہل اور گنوار کا لقب دیتا ہے ۔ مگر کامیاب وہی ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے محبت کرتا ہے اور اُسی سے ڈرتا ہے ۔ میں ان لوگوں کی حمائت نہیں کرتا جو بظاہر تو مذہبی ہوتے ہیں نماز روزہ بھی کر لیتے ہیں مگر باقی معاملات میں اللہ سُبحانُہُ تعالٰی کے احکام کی پیروی نہیں کرتے

نظر آتے نہیں ۔ بے پردہ حقائق ان کو
آنکھ جن کی ہوئی محکومی و تقلید سے کور

گلستاں میں نہیں حد سے گذرنا اچھا
ناز بھی کر تو باندازہءِ رعنائی کر
پہلے خود دار تو مانند سکندر ہو لے
پھر جہاں میں ہوّسِ شوکتِ دلدائی کر

فروغِ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے
تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ
وہ بزمِ عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس
چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ
کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا
صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئےگل کا سُراغ

علامہ اقبال