Yearly Archives: 2011

ميمو گيٹ ۔ تازہ خبر

سپریم کورٹ نے میمو اسکینڈل کیس کے خلاف پٹیشنز کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کر دیا ہے ۔

سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بنچ نے میمو گیٹ اسکینڈل کے خلاف مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف اور پارٹی رہ نماؤں اسحاق ڈار، خواجہ آصف سمیت دیگر مدعيان کی درخواستوں کی سماعت کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پٹیشنز قابل سماعت ہیں، عدالت نے میمو اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے
بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 4 رکنی عدالتی کمیشن قائم کر دیا ہے
کميشن کے باقی 3 اراکين يہ ہيں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمید الرحمان،
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم
اسلام آباد کے سیشن جج جسٹس جواد عباس

عدالتی کمیشن کو 4 ہفتوں میں تحقیقات مکمل کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے
میشن اسلام آبا دہائی کورٹ میں کام کرے گا
عدالتی کمیشن ایڈووکیٹس اور فرانزک ماہرین کی خدمات حاصل کرسکے گا
صوبائی چیف سیکریٹریز ، برطانیہ اور کینیڈا میں پاکستانی ہائی کمیشنز کو عدالتی کمیشن سے معاونت کا پابند بنایا گیا ہے
سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن لاجسٹک سپورٹ دے گا
امریکا میں پاکستانی سفیر، داخلہ، خارجہ اور کابینہ امور کے وفاقی سیکریٹریز، ڈی جی ایف آئی اے اورتمام آئی جیز پولیس کو کمیشن کی معاونت کا حکم دیا گیا ہے
کمیشن کو بیرون ملک سے بھی تحقیقات کرانے کا اختیار ہو گا
عدالتی کمیشن منصور اعجاز اور حسين حقانی کے درمیان ہونے والے بلیک بیری سے 89 ای میلز اور میسیجز کی بلیک بیری کمپنی سے تصدیق کرائے گا
حسين حقانی عدالتی اجازت کے بغیر بیرون ملک نہیں جائیں گے
میمو پٹیشنز کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے صدر مملکت نے کوئی جواب داخل نہیں کیا
عدالت نے اپنے یکم دسمبر کے فیصلے کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے خلاف بھی حکم جاری کیا ہے ۔ عدالت نے بابراعوان اور وزراء کی تنقیدی نیوزکانفرنس کا تفصیلی تحریری متن طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحقیقاتی عدالتی کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد اس کیس کو دیکھا جائے گا

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔3 ۔ مشاہدہ اور تجزيہ

ميں اس سے قبل پہلا سوال ۔ دوسرا سوال ۔ ذرائع اور معلومات لکھ چکا ہوں

مشاہدہ

1970ء کے اليکشن ميں ذولفقار علی بھٹو کی پيپلز پارٹی اکثريت حاصل نہيں کر سکی تھی اور اس نے مغربی پاکستان ميں سادہ اکثريت حاصل کی تھی جو مغربی پاکستان کے کُل ووٹوں کے 33 فيصد کی حامل تھی اور مغربی پاکستان کی بقيہ 67 فيصد ووٹ لينے والی آدھی درجن جماعتوں کا اتحاد ٹوٹنے کا نتيجہ تھی

مجيب الرحمٰن کی عوامی ليگ جو مشرقی پاکستان میں بھاری اکثريت سے جيتی تھی نے قومی سطح پر بھی اکثريت حاصل کر لی تھی اسلئے قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس مشرقی پاکستان ميں بُلايا گيا تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور جلسہ عام ميں کہا تھا کہ “جو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس ميں شريک ہونے کيلئے جائے گا ہم اُس کی ٹانگيں توڑ ديں گے”۔ اور مزيد کہا تھا “اُدھر تم اور ادھر ہم”۔

جب يحیٰ خان تنازعہ کے حل کيلئے مشرقی پاکستان ميں مجيب الرحمٰن سے بات چيت کر کے واپس آ رہے تھے تو ڈھاکہ ايئر پورٹ پر اُنہوں نے واضح الفاظ ميں کہا تھا کہ
“ميں مجيب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت دوں گا”۔
مغربی پاکستان پہنچنے پر يحیٰ خان ذوالفقار علی بھٹو سے ملے ۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان ميں فوجی کاروائی شروع ہو گئی جو ناقابلِ فہم تھی

ميں دسمبر 1971ء کے شروع ميں ايک اہم قومی کام کے سلسلہ ميں پروازيں بند ہونے کے باعث ٹرين پر راولپنڈی سے کراچی روانہ ہوا ۔ ٹرين ڈھائی دن بعد کراچی پہنچی ۔ ميرا قيام فوج کے ٹرانزٹ کيمپ ميں رہا جہاں فوجی افسران کے ساتھ تبادلہ خيال ہوتا رہا ۔ باخبر رہنے کيلئے ميں ايک اچھی قسم کا ٹرانسسٹر ريڈيو ساتھ لے کر گيا تھا جس پر ميں صبح 6 بجے سے رات 12 بجے تک خبريں سُنتا رہتا تھا ۔ اعلان ہوا کہ 12 دسمبر کو صدرِ پاکستان محمد يحیٰ خان قوم سے خطاب کريں گے ۔ نہ صدر کی تقرير نشر ہوئی اور نہ کسی نے تقرير نشر نہ کرنے کے متعلق کوئی اعلان کيا
مگر ڈھاکہ پر 16 دسمبر کو بھارت کا قبضہ ہونے کے بعد صدر يحیٰ خان کی ايک تقرير نشر کی گئی جو حالات سے کوئی مطابقت نہ رکھتی تھی ۔ اس ميں يہ بھی کہا گيا تھا کہ “پاکستان کے دفاع کيلئے ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا ديں گے” ۔
اگر اس تقرير کو 16 دسمبر سے قبل يا يوں کہيئے کہ جيسا کہ اعلان ہوا تھا 12 دسمبر کو ہی نشر کيا جاتا تو يہ تقرير وقت کے مطابق نہائت موزوں ہوتی

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے نمائندہ کے طور پر اقوامِ متحدہ ميں جنگ بند کروانے کيلئے گئے مگر زکام کا بہانہ کر کے ہوٹل ميں پڑے رہے
اقوامِ متحدہ ميں شايد پولينڈ نے ايک قراداد پيش کی تھی جو پاکستان کے حق ميں تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو اجلاس ميں گئے بھی تو اداکاری کرتے ہوئے ايسے ہی کوئی کاغذ پھاڑ کر يہ تاءثر ديا کہ اُنہوں نے قرارداد پھاڑ دی ہے اور غصہ دکھاتے ہوئے اجلاس سے باہر نکل گئے

يہاں ذکر کرنا بيجا نہ ہو گا کہ کچھ سالوں سے وطنِ عزيز ميں بڑے ماہرانہ انداز ميں ڈھاکہ يونيورسٹی کے طلباء سے خطاب کے حوالے سے ايک غلط واقعہ پھيلايا جا رہا ہے جو کہ کبھی ہوا ہی نہيں کہ ”مشرقی پاکستان کی عليحدگی کا عمل تو اُس وقت شروع ہو گيا تھا جب محمد علی جناح نے بنگاليوں پر اُردو زبان تھوپ دی تھی“۔
يہ يقينی طور پر پاکستانيوں کو گمراہ کرنے کی معاندانہ کوشش ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل ہی بنگال سے چوٹی کے 3 رہنما قائد اعظم کے پاس بمبئی ميں پہنچے اور اُن سے درخواست کی کہ وفاق کو مضبوط رکھنے کيلئے يہ ضروری ہے کہ اُردو کو قومی زبان بنايا جائے کيونکہ يہی ايک زبان ہے جسے مسلمانانِ ہند کے مجوّزہ وطن کے تمام علاقوں ميں سمجھا جاتا ہے ۔ ميں اس وقت متعلقہ دستاويزات پيش نہيں کر سکتا ۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ اس سلسلہ ميں مولانا محمد علی جوہر کا ايک مضمون بھی ہے جو 1970ء کی دہائی اور شائد 1980ء کی دہائی ميں بھی ۔ اُردو کے تعليمی نصاب کا حصہ تھا ۔ 3 دہائياں قبل اس سلسلہ ميں تحقيق کے بعد ميں نے بھی ايک مضمون لکھا تھا ۔ کاش اُس کا مسئودہ مجھے مل جائے

تجزيہ

گرچہ بُت ہيں جماعت کی آستينوں ميں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا اِلَهَ اِلاَلله

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا کہنا ”جو مشرقی پاکستان اسمبلی کے اجلاس ميں شريک ہونے کيلئے جائے گا اُس کی ہم ٹانگيں توڑ ديں گے“ اور ”اُدھر تم اور ادھر ہم“۔ کيا ہر قيمت پر بادشاہ بننے کی خواہش نہ تھی ؟

يحیٰ خان شرابی اور زانی تھا ايک الگ بات ہے ليکن اُسے جاننے والوں اور 2 بار ميرا اُن سے سرکاری طور پر واسطہ پڑا کے مطابق وہ بھولنے والا شخص نہيں تھا اور بات کا پکّا تھا ۔ جب اس نے اعلان کر ديا تھا کہ ”ميں مجيب الرحمٰن کو حکومت بنانے کی دعوت دوں گا“ تو پھر اپنا قول نبھانے کی بجائے مشرقی پاکستان ميں فوجی کاروائی کيوں کی ؟ اس کا جواب صرف مجبوری ہی ہو سکتا ہے

ذوالفقار علی بھٹو کی اتنی زيادہ بات کيوں مانی گئی ؟ ظاہر ہے کہ اُس کے پيچھے کوئی ايسی طاقت تھی جس نے يحیٰ خان جيسے آدمی کو قابو کيا ہوا تھا ۔ آخر وہ کون تھا يا تھے؟

12 دسمبر کے بعد صدرِ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے کمانڈر اِن چيف يحیٰ خان کہاں تھے ؟ خيال رہے چيف آف آرمی سٹاف کے ماتحت صرف آرمی ہوتی ہے جبکہ کمانڈر اِن چِيف کے ماتحت تمام افواجِ پاکستان ہوا کرتی تھيں

جيسا کہ ب ۔ 6 سے بھی اخذ کيا جا سکتا ہے واضح طور پر يحیٰ خان 12 دسمبر 1971ء سے صدر نہيں رہے تھے
يحیٰ خان کو 12 دسمبر کو گرفتار کر ليا گيا تھا ۔ گرفتار کرنے والے 6 سِنيئر جرنيل تھے [4 آرمی کے اور 2 ايئر فورس کے] ۔ يہ سب مرزائی تھے ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو اقوامِ متحدہ کے اجلاس کيلئے صدر يحیٰ خان نے نہيں بلکہ ان قابض جرنيلوں نے بھيجا تھا
بھٹو صاحب امريکا پہنچ کر زکام کے بہانے ہوٹل ميں اسلئے پڑے رہے کہ ڈھاکہ پر بھارت کا قبضہ ہو جانے تک اقوامِ متحدہ کی کاروائی نہ ہو سکے ۔ بعد ميں جب اجلاس ميں قرارداد پيش کی گئی جس کی ايک شق يہ تھی کہ فوجيں اپنی حدود ميں جائيں پھر بنگلہ ديش کا حل تلاش کيا جائے تو بھٹو صاحب گرمی دکھا کر اجلاس سے باہر نکل آئے تاکہ بنگلہ ديش کا معاملہ پکا ہو جائے اور اُن کو آدھے پاکستان کی بادشاہی مل سکے
انہی جرنيلوں نے بعد ميں ذوالفقار علی بھٹو [ايک سوِلين] کو ملک کا چيف مارشل لاء ايڈمنسٹريٹر بنايا جو کسی قانون کے مطابق جائز نہ تھا

اگر بھٹو سانحہ مشرقی پاکستان ميں ملوّث نہيں تھے تو حمود الرحمٰن کميشن رپورٹ اور کمشنر ڈھاکہ کی کتاب کا مسؤدہ کيوں ضائع کئے ؟

سانحہ مشرقی پاکستان کا آخر کوئی تو ذمہ دار تھا ۔ ذمہ دار فوجی يا سويلين کے خلاف کاروائی کيوں نہ کی گئی ؟

ميرے متذکرہ بنگالی دوست آرتھوپيڈک سرجن تھے اور 1971ء ميں پاکستان آرمی ميں ميجر تھے اور جنوری 1972ء سے بنگلہ ديش آرمی ميں ۔ ميرے اس بنگالی دوست نے مجھے 1978ء ميں کہا تھا ”مشرقی پاکستان کو بنگلہ ديش بنانے کی سازش ميں 3 ليڈر شريک تھے جن میں 2 پاکستانی تھے ۔ ایک کو اُس کی فوج کے ميجر نے ہلاک کر ديا (شيخ مجيب الرحمٰن) اور دوسرے کا حال اِن شاء الله ان سے بھی بُرا ہو گا“۔
ميں نے کہا ” دوسرا یحیٰ خان ؟“
جواب ملا ”ذوالفقار علی بھٹو“۔

آج ميں سوچتا ہوں کہ بنگالی ڈاکٹر نے درست پيشين گوئی کی تھی
ذرا غور فرمايئے
ذوالفقار علی بھٹو کو بطور قاتل پھانسی ہوئی
چھوٹا بيٹا اچانک کيسے مر گيا آج تک واضح نہيں ہوا
بڑے بيٹے کو اس کے اپنے بہنوئی اور ذوالفقار علی بھٹو کے داماد نے ہلاک کروا ديا
بڑی بيٹی کو اس کے خاوند [ذوالفقار علی بھٹو کے داماد] کی ملی بھگت سے ہلاک کر ديا گيا
بيوی کو سونے کيلئے ٹيکے سالہا سال لگائے جاتے رہے بالآخر وہ اس دنيا کو چھوڑ کر سُکھی ہوئی
چھوٹی بيٹی باپ کی جائيداد سے محروم پرديس ميں بيٹھی بمشکل اپنے اور اپنے بچوں کے اخراجات پورے کر رہی ہے
پوتی اور پوتا دادا کی ہر قسم کی وراثت سے محروم خوف ميں زندگی بسر کر رہے ہيں

آخر ميں يہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہماری قوم [گُستاخی معاف ۔ قوم تو ہے ہی نہيں ۔ ايک بے ہنگم ہجوم ہے] نے اس اتنے بڑے سانحہ سے کوئی سبق نہيں سيکھا ۔ لوگ آج کہيں سندھی ۔ کہيں پختون ۔ کہيں پنجابی ۔ کہيں مہاجر ۔ کہيں خدائی خدمتگار ۔ کہيں آزاد خيال ۔ کہيں لاشاری ۔ کہيں بھٹو ۔ کہيں سيّد ۔ کہيں گُوجر ۔ کہيں طالبان ۔ کہيں کسی اور قوميت کا رولا رَپا ڈالے ہوئے ہيں
کوئی پاکستانی خال خال ہی نظر آتا ہے
کيا يہ لوگ مُلکی حالات کو سابق مشرقی پاکستان کے حالات سے زيادہ خراب نہيں کر چکے ؟

کسی سيانے کہا تھا
عقلمند دوسروں کے تجربہ سے سبق ليتا ہے
عام آدمی اپنے تجربہ سے سبق ليتا ہے
احمق اپنے تجربہ سے بھی سبق نہيں ليتا

ميرے ہموطن فلمی کہانيوں اور ناولوں پر تو يقين کر ليتے ہيں ۔ سيانوں کی باتوں کو قابلِ غور نہيں سمجھتے

دعا

اے ميرے الله تو ہی ہے بنانے والا ۔ امان دینے والا ۔ پناہ میں لینے والا۔ زبردست دباؤ والا۔ صاحب عظمت ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل سے فانی طاقتوں کا خوف نکال کر اپنی اطاعت بھر دے
اے ميرے الله مہربان رحم کرنے والے ۔ قادر و کريم ۔ تو ہی بادشاہ ہے اور پاک سب عیبوں سے ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل ميں مادی محبت کی جگہ اپنے رسول کی محبت بھر دے
اے ميرے الله تو ہی صورت گری کرنے والا اور زبردست حکمتوں والا ہے اور جانتا ہے جو پوشیدہ ہے اور جو ظاہر ہے ۔ ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل سے نفاق کو نکال کر اللہ کے بندوں کی محبت بھر دے
اے ميرے الله ميرے اور کُل کائنات کے خالق ۔ مالک ۔ رازق اور حازق ۔ سب کی دعائيں سننے والے ۔ ميری اور ميرے ہموطنوں کی تمامتر خاميوں سے درگذر فرماتے ہوئے يہ عاجزانہ عرض سُن لے
ميرے اور ميرے ہموطنوں کے دل ميں اپنے اس وطن کی جو آپ ہی نے عطا کيا تھا خدمت کا جذبہ پھر سے جگا دے

يہ بھی پڑھ ليجئے


DAWN, 25th March, 2004, Thursday, 03 Safar, 1425
BD: who cast the first stone?


By Akhtar Payami

The sky lit up with fire-balls amidst the deafening sound of gun-shots. The dark night was pierced by multi-coloured searchlight leaving no room even for a shadow to escape.

Simultaneously, microphones blared to announce that an indefinite curfew had been imposed on the unfortunate city of Dhaka. It was a full-fledged battle against invisible enemies. Nobody cared to count the dead. This happened about the midnight of March 25, 1971. The following day, on March 26, the independence of Bangladesh was proclaimed by word of mouth and through a clandestine radio broadcast. This was the beginning of the end.

It is not yet known who cast the first stone. Sheikh Mujibur Rahman’s daughter and former prime minister of Bangladesh, Sheikh Hasina, claims that the announcement was contained in a hand- written press statement by the Sheikh himself.

Thereafter copies of the statement were distributed all over East Pakistan. On the other hand, General Ziaur Rahman’s party, the Bangladesh Nationalist Party, maintains that it was the general who proclaimed independence.

It is one of those secrets with which Pakistan’s chequered history is littered. It is not yet clear who drafted the Lahore Resolution which is a major historical document.

Chaudhry Khaliquzzaman and Nawab Ismail are said to be the two persons who generally drafted all resolutions of the All-India Muslim League. But none of them was present when the resolution was for the first time presented before the March 23 meeting in Lahore.

It is still believed by some that the term ‘states’ mentioned in the original resolution was a typographical mistake which was later corrected by Muslim League legislators in 1946. But were the legislators competent to amend a resolution adopted by the Muslim League Council? This is another story.

Similarly the authorship of Sheikh Mujib’s famous Six Points is still shrouded in mystery. Several unconfirmed stories are in circulation. The text of the Six Points was amended several times as tension mounted in the unhappy relationship between East Pakistan and the central government.

The Awami League leaders insisted on maximum autonomy for the eastern wing. Even at that stage when a revolutionary situation was already in the making nobody talked of independence. Sheikh Mujib’s famous speech of March 7 at the Race Course ground fell short of a call for independence.

But it would be presumptuous to think that the people of the former East Pakistan had launched a movement for the implementation of the Lahore Resolution.

The issue was never raised by the leading politicians of the eastern wing. They had their own grievances, some of which were genuine and should have been thoroughly examined. At a much later stage, however, the Lahore Resolution did provide an impetus to the people of East Pakistan in their struggle for independence.

When the people and the rulers were locked in confrontation and all top leaders of the Awami League had left for Calcutta where they had formed a government in exile, Sheikh Mujib chose to stay back in his Dhanmandi house. He waited for the Pakistan Army and offered no resistance. He was promptly arrested and taken to West Pakistan.

The widely reported famous dialogue between Zulfikar Ali Bhutto and Mujib further strengthens the argument that Mujib believed in the federal structure of Pakistan and sought constitutional remedy of the problem. When Bhutto informed the Sheikh (he had been in solitary confinement for a long time) that he (Bhutto) was the president of Pakistan, Mujib replied: “How can you be the president of Pakistan? I am the leader of the majority party.” Till that moment, it can be argued, Mujib had faith in the unity of the country and did not know that Bangladesh had already emerged as an independent state.

Although Mujib was personally grateful to India for all the assistance that it had offered to his people in their hour of trial, in his heart of hearts, he nursed a feeling of bitterness for New Delhi. He had told some trusted journalists that he could easily achieve freedom with India’s support, “but I would never go to a banya (trader).”

Even after liberation, there were fewer Hindu ministers in his first cabinet than were in the Pakistan days. The Indian army, after its victory, had plans for a longer stay in Bangladesh. But Mujib felt the pulse of the people who were opposed to the presence of the conquering army.

He rushed to New Delhi, met Mrs Indira Gandhi and expedited an early withdrawal of Indian troops. Even when National Awami Party leader Maulana Abdul Hamid Khan Bhashani had strongly advocated complete independence, the Awami League did not endorse his views. Maulana Bhashani had a much better understanding of the people’s choice.

He knew that in this unpredictable situation, nothing less than independence would satisfy them. It was a struggle against the injustices meted out to the people of the eastern wing over more than two decades. It is a fact that they suffered neglect and apathy at the hands of those who wielded power in West Pakistan.

On one occasion when East Pakistan chief minister Ataur Rahman Khan returned from Rawalpindi, he told correspondents at Dhaka airport that he could not get approval for an important project from the central government “as it was easy to convince the minister but difficult to please the section officer.” Such was the hostile relationship between the administrations in the two wings.

It was only during the brief period of General Yahya Khan that some measures were contemplated and taken for ameliorating the conditions of East Pakistan.The headquarters of several government corporations were shifted to Dhaka. A few promotions were made in the superior services cadre. But these measures were much too late and could not serve any purpose.

The army action of March 25 put the final seal on the fate of united Pakistan. It created a bitterness which was not easy to remove. In that hostile environment, it was impossible to think that the situation would improve with the help of any military intervention. Even at that time many sensible people had warned the authorities against taking harsh actions.

The situation needed political measures. Instead a harsh policy was devised. The only political step taken was to hold by- elections for the seats vacated en masse by the elected representatives of the people in East Pakistan. It was indeed a futile exercise as the voters completely boycotted it.

When a full-scale war began in December 1971, the Pakistan Army had to confront the entire population of East Pakistan. And those who did not join the “rebels” were termed collaborators by the new power wielders of the eastern wing and “Muslims of Indian origin” by successive governments in Pakistan.

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔2 ۔ معلومات

ميں اس سے قبل پہلا سوال اور دوسرا سوال اور ذرائع لکھ چکا ہوں ۔ اب ان ذرائع [الف] سے حاصل ہونے والی معلومات [ب] کا خلاصہ پيشِ خدمت ہے

ب ۔ 1 ۔ جن بنگالی پروفيسر صاحبان سے ميری 1957ء ميں ملاقات رہی مشرقی پاکستان کی جامعات کے پروفيسر صاحبان تھے جو لندن سے سائنس ميں پی ايچ ڈی کی اسناد يافتہ تھے ۔ يہ لوگ بہت مُشفق ۔ مُنکسر اور مُحِبِ وطن پاکستانی تھے ۔ ہم نے ان سے اچھے آداب ۔ تعليم سے لگن اور مُلک و قوم کيلئے محنت کا سبق سيکھا

ب ۔ 2 ۔ بنگالی انجنيئر جو ميرے زيرِ تربيت رہے محبِ وطن پاکستانی تھے اور محنت سے کام سيکھتے تھے ۔ وہ 1970ء ميں واپس مشرقی پاکستان چلے گئے تھے ۔ جب مُکتی باہنی کا شور شرابا زوروں پر تھا ان ميں سے ايک پر مُکتی باہنی کی طرف سے الزام عائد کيا گيا کہ وہ غدار ہے اور اگر نہيں تو بنگلا ديش کا جھنڈا اُٹھا کر جلوس کے آگے چلے ۔ وہ شادی شدہ اور ايک چند ماہ کے بچے کا باپ تھا ۔ مُکتی باہنی کے لوگوں سے ڈر کر ايک جلوس ميں جھنڈہ اُٹھا ليا ۔ اس کی بناء پر ايک فوجی افسر نے اُسے اُس کی بيوی چند ماہ کے بچے اور فيکٹری کے افسران کے سامنے گوليوں کی بوچھاڑ سے ہلاک کروا ديا ۔ اُس کی بيوی نے فوجی افسر کے پاؤں پکڑ کر رو کر فرياد کی کہ ميرے خاوند کو نہ مارو ۔ مجبور انسان کو مت مارو ۔ مگر گولی چلانے کا حکم دے ديا گيا ۔ ديکھنے والے افسران ميں مغربی پاکستان سے گئے ہوئے سويلين افسران بھی موجود تھے وہ خاموش رہے ۔ يہ واقعہ اُنہوں نے ہی مجھے سنايا

ب ۔ 3 ۔ ميرے دوست سِول انجينئر نے بتايا کہ مشرقی پاکستان ميں ساہوکاروں کا راج تھا جن کی بھاری اکثريت ہندو تھی ۔ بھارت سے آئے ہوئے بہاری مسلمان جو مالدار تھے ہندو ساہوکاروں سے پيچھے نہ تھے ۔ مچھيرے جو ساری زندگی مچھلياں پکڑ کر ساہوکاروں کی تجورياں بھرتے تھے اُنہيں مچھلی پکڑنے کی اجازت تھی کھانے کی نہيں ۔ مچھيروں کی کشتياں ساہوکار کی ملکيت تھيں ۔ ساہوکاروں کا قرض کبھی ختم نہيں ہوتا تھا ساری عمر سود ادا کرتے بيت جاتی تھی

ڈھاکہ يونيورسٹی ميں ہندو پروفيسر کافی تھے اور بارسوخ تھے ۔ وہ جو زہر بنگالی مسلمان نوجونوں کے کانوں ميں گھولتے رہے اس نے اُنہيں اپنے ہی ملک سے متنفّر کيا ہوا تھا مگر انتظاميہ اپنی عياشيوں ميں مگن تھی ۔ اُس کے سنائے ہوئے واقعات ميں سے 2 لکھ رہا ہوں ۔ ميرے دوست نے بتايا “ميں مشرقی پاکستان پہنچنے کے بعد ڈھاکہ کے ايک ہوٹل ميں ٹھہرا تھا ۔ اگلے روز ايک درميانی عمر کا آدمی اپنے ساتھ ايک جوان لڑکی لئے ہوئے آيا اور بولا ۔ ‘صاب ۔ يہ لڑکی آپ کا سب کام کرے گی ۔ ہر قسم کا کام ۔ آپ کے پاس ہی رہے گی ۔ ميں نے اُسے ٹال ديا ۔ بات ميری سمجھ ميں آ گئی تھی ۔ ميں نے وہاں فيلڈ ايريا يعنی ديہات ميں ديکھا کہ عام عورتوں کے پاس ايک چادر جسے وہ ساڑھی کی طرح باندھ ليتيں تھيں کے علاوہ پہننے کو کوئی اور لباس نہ تھا اور نہ دھونے کيلئے صابن ۔ وہ جوہڑ يا دريا ميں گھس کر ساڑھی اُتار ديتيں اور پانی ميں مَل کر پھر وہی گيلی ساڑھی زيبِ تن کر کے باہر نکل آتيں”۔

ب ۔ 4 ۔ ميرے نائب مشرِ ماليات دوست جو 1968ء ميں مشرقی پاکستان گئے تھے 3 سال بعد وسط 1971ء ميں واپس آئے ۔ اُنہوں نے بتايا “مشرقی پاکستان ميں سير اور اپنی اصلاح کی غرض سے تبليغ والوں کے ساتھ جانا شروع کيا اور بہت علاقوں کے متعلق معلومات حاصل ہوئيں ۔ ” ايک گھنٹہ سے زيادہ متواتر بولتے ہوئے جو کچھ اُنہوں نے بتايا تھااُس کا خلاصہ يہ ہے

ڈھاکہ يونيورسٹی ميں کچھ ہندو پروفيسر تو 1947ء سے ہی موجود تھے مگر 1965ء کے بعد مزيد ہندو نمعلوم کہاں سے آتے رہے اور پروفيسر تعينات ہوتے رہے ۔ يہ لوگ ناپُختہ ذہن طلباء ميں بنگالی قوميت جگاتے اور مغربی پاکستان کے خلاف رائے ہموار کرتے ۔ شيرِ بنگال ٹيپو سلطان کی جگہ رابندر ناتھ ٹيگور کی مداح سرائی کرتے اور علامہ اقبال کی جگہ ايک مسلمان نام کے دہريئے شاعر [اس وقت نام ميرے ذہن ميں نہيں آ رہا] کی حُبُ البنگلہ کو اُجاگر کرتے ہوئے بنگالی قوميت اُبھاری جاتی تھی ۔ 1970ء کے شروع سے ہی محبِ وطن بنگالی مسلمانوں نے آواز اُٹھانا شروع کی کہ ڈھاکہ يونيورسٹی ميں اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے ۔ وہ 1971ء کے شروع ميں خود کچھ طلباء کے ساتھ ڈھاکہ يونيورسٹی ہوسٹل گئے جہاں کے رہائشی طلباء نے بڑے وثوق سے کہا کہ “فلاں فلاں کمروں ميں بہت اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے ۔ اُن کی شکائت پر يونيورسٹی انتطاميہ نے کچھ نہيں کيا ۔ ايسا کيوں ہو رہا ہے ؟ اُن کی سمجھ ميں نہيں آرہا تھا ۔ ڈھاکہ کی انتظاميہ اور حکومت مشرقی پاکستان بھی اس کی طرف کوئی توجہ نہيں دے رہی تھی”۔

مشرقی پاکستان کی بھارت کے ساتھ سرحد جنگلوں ۔ نديوں اور دلدلوں کی زمين ہے جہاں سے سرحد پار کرنے والے کو روکنا ناممکن ہے ۔ 1966ء سے بھارت نے تربيت يافتہ جنگجو خُفيہ طور پر مشرقی پاکستان ميں داخل کرنا شروع کر ديئے تھے جنہوں نے مُکتی باہنی بنائی جس ميں مشرقی پاکستان کے مسلمان بہت کم تھے

ان صاحب نے کئی چشم ديد واقعات سنائے جن ميں سے ايک يہ ہے ۔ جب وہ سلہٹ ميں تھے تو فوجی ايک آدمی کی تلاش ميں وہاں پہنچے جس کا اُنہيں صرف نام معلوم تھا چنانچہ وہ اس نام کے ايک جوان کو گرفتار کرنے اُس کے گھر پہنچ گئے ۔ محلہ والوں نے لاکھ سمجھايا کہ يہ جوان تو شريف اور محنتی ہے ۔ گھر سے باہر کبھی نہيں رہا تو دوسرے شہر جا کے اس نے کيسے کاروائی کی ؟ مگر فوجی نہ مانے اور اُسے پکڑ کر لے گئے جس کے بعد اُس کا سراغ نہ ملا ۔ بعد ميں انہی ميں سے ايک فوجی نے آ کر دُکھ کا اظہار کيا کہ اُن سے غلطی ہوئی مگر کمانڈر کا حُکم تھا ہم مجبور تھے

ب ۔ 5 ۔ ميں 1976ء ميں لبيا گيا تھا ۔ وہاں اپنے دوست بنگالی ڈاکٹر سے استفسار کرتا رہتا تھا ۔ اُس نے جو واقعات مجھے کئی ملاقاتوں کے دوران سنائے اُن سے اُوپر ب ۔ 3 کے تحت بيان کی گئی باتوں کی تصديق ہوئی مزيد کا خلاصہ يہ ہے

ہندو ساہوکار وں اور ڈھاکہ يونيورسٹی کے پروفيسروں نے پاکستان بننے کے بعد بھارت کو ہجرت نہ کی بعد ميں ہندو پروفيسروں کی تعداد ميں اضافہ ہوتا رہا

پھر 1969ء ميں خبر عام ہوئی کہ کچھ سالوں سے مشرقی پاکستان ميں بہت سے ايسے لوگ آ کر رہائش پذير ہو رہے ہيں جو کہ بنگالی بولتے ہيں مگر وہ مشرقی پاکستان کے رہنے والے نہيں ہيں ۔ يہ باتيں زبان زدِ عام تھيں اور عوام پريشان تھے مگر انتظاميہ ان سے قطع نظر اپنے آپ ميں مگھن تھی

مُکتی باہنی کے لوگ جن ميں مشرقی پاکستان کے لوگ بہت کم تھے بنگالی قوميت اُبھارتے ۔ مغربی پاکستان کے خلاف پنجابی کہہ کر پروپيگنڈا کرتے اور اس سلسلہ ميں اشتہار لگاتے اور بانٹتے تھے جن ميں10 بے بنياد دعوے تھے ۔ اس وقت مجھے ان دعوں ميں سے يہ ياد ہيں
1 ۔ افسر سب پنجابی ہيں جن کا مغربی پاکستان سے تعلق ہے
2 ۔ چاول سارا بنگال ميں پيدا ہوتا ہے اور اس ميں سے آدھا مغربی پاکستان کو بھيج ديا جاتا ہے جس کے بدلے وہاں سے کچھ نہيں آتا
3 ۔ پاکستان کا سارا زرِ مبادلہ صرف پٹ سن کی برآمد سے حاصل کيا جاتا ہے اور اسے مغربی پاکستان کی ترقی پر خرچ کيا جاتا ہے
4 ۔ مغربی پاکستان والے بنگاليوں کو اچھوت سمجھتے ہيں

مجيب الرحمٰن نے اس پروپيگنڈے سے اور ديہات کے غريب عوام کو دھمکياں دے کر ہی اليکشن جيتا تھا۔ اگر اليکشن سے قبل انتظاميہ اپنا فرض ادا کرتی تو مجيب الرحمٰن مشرقی پاکستان ميں اکثريت حاصل نہيں کر سکتا تھا

يہاں ميں يہ حقيقت بيان کر دوں کہ ايوب خان کی حکومت نے شروع ہی ميں يہ قانون بنايا تھا کہ
1 ۔ جو مغربی پاکستان کا رہنے والا مشرقی پاکستان ميں ملازمت کرے گا يا مشرقی پاکستان کا رہنے والا مغربی پاکستان ميں ملازمت کرے گا اُسے ماہانہ الاؤنس ديا جائے گا جو خاصہ تھا 20 يا 30 فيصد ۔ اس کے علاوہ ہر 3 سال کی ملازمت کے بعد ايک ماہ کی چھُٹی اور پورے خاندان کا ہوائی جہاز اور ريل کے سفر کا کرايہ ديا جائے گا
2 ۔ اسی طرح جو مغربی پاکستان کا رہنے والا مشرقی پاکستان کی لڑکی سے شادی کرے گا يا مشرقی پاکستان کا رہنے والا مغربی پاکستان کی لڑکی سے شادی کرے گا اُسے سپيشل الاؤنس ديا جائے گا
3 ۔ مشرقی پاکستان کے ايل ايس ايم ايف ڈاکٹر کو فوج ميں اُسی طرح بھرتی کيا جائے گا جس طرح مغربی پاکستان کے ايم بی بی ايس ڈاکٹر کو بھرتی کيا جاتا ہے

1970ء ميں يہ خبر پھيل گئی تھی کہ ڈھاکہ يونيورسٹی ميں مکتی باہنی کے نام کی ايک خفيہ جماعت قائم ہو چکی ہے اور يونيورسٹی کے فلاں ہوسٹل ميں اسلحہ اکٹھا کيا جا رہا ہے مگر نہ يونيورسٹی کی انتظاميہ نے اور نہ مشرقی پاکستان کی انتظاميہ نے اس پر کوئی توجہ دی ۔ اس کے نتيجہ ميں مختلف يونيورسٹيوں اور کالجوں کے محبِ وطن طلباء نے شمس اور بدر کے نام سے دو جماعتيں مُکتی باہنی کا مقابلہ کرنے کيلئے بنائيں ۔ 1971ء ميں جب مُکتی باہنی نے دھونس دھاندلی اور محبِ وطن بنگاليوں کا قتل شروع کيا تو شمس اور بدر کے جوانوں نے مُکتی باہنی کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پيش کيا جس کے نتيجہ ميں طلباء کے ساتھ دوسرے محبِ وطن بنگالی جوان بھی شامل ہونا شروع ہوئے ۔ جب فوجی کاروائی شروع ہوئی تو بجائے اس کے کہ شمس و بدر سے مدد لی جاتی يا اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک کيا گيا جو مُکتی باہنی کے ساتھ ہونا چاہيئے تھا
لبيا ميں ميرے ايک پاکستانی ساتھی کو بھارتی ہندو نے ايک وڈيو دی تھی ۔ اس ميں دکھايا گيا تھا کہ ڈھاکہ ميں دوسری منزل کے ايک کمرے ميں خون آلود لاشيں پڑی ہيں اور خون بہتا ہوا سيڑھيوں سے نيچے تک چلا گيا ہے مگر لاشيں گرانے والے جو وہاں سے نکل رہے تھے اُن کے چہرے نہيں دکھائے گئے تھے ۔ ميں نے بنگالی دوست سے اس کا ذکر کيا تو اُس نے کہا “جس علاقے ميں کُشت و خون ہوا وہاں مجيب الرحمٰن کے مخالف لوگ رہتے تھے اور اس علاقہ ميں مکتی باہنی والوں نے قتلِ عام کيا تھا ۔ ايسی وڈيوز ميں دراصل محبِ وطن بنگاليوں کی لاشيں دکھا کر اُنہی کے خلاف پروپيگنڈا کيا گيا تھا
ميں نے پوچھا کہ انتظاميہ اور فوج کيا کر رہے تھے ؟ تو جواب ملا کہ انتظاميہ تو لگتا تھا کہ بزدل تھی اور فوجی اندھا دھند کاروائی کرتے تھے ۔ مجرم تو کاروائی کر کے بھاگ جاتے تھے اور بے قصور ہلاک ہوتے تھے جس سے عوام ميں بھی فوج کے خلاف بد دلی پيدا ہوئی
مجيب الرحمٰن کے بنگلہ ديش بنانے کے بعد بھی بنگاليوں کی اکثريت کی خواہش تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہی رہيں جس کا ثبوت وہ قرار داد ہے جو لاکھوں بنگاليوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھيجی تھی کہ بنگلہ ديش کو منظور نہ کيا جائے

ب ۔ 6 ۔ حمودالرحمٰن کميشن بنايا گيا جس نے اپنی رپورٹ براہِ راست ذوالفقار علی بھٹو کو دينا تھی ۔ رپورٹ دی گئی ۔ اس کا کچھ حصہ ذوالفقار علی بھٹو نے جلا ديا اور باقی رپورٹ بھی بغير کسی اور کے ديکھے غائب ہو گئی

سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جو صاحب وہاں کمشنر تھے ۔ بھارت کی قيد سے رہائی پانے کے بعد جب وہ بقيہ پاکستان ميں پہنچے تو اُنہوں نے ايک کتاب سانحہ مشرقی پاکستان اور اس کی وجوہات پر لکھی ۔ شائع کرنے کی اجازت کيلئے اس کتاب کا مسؤدہ اُنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو ديا ۔ جو اُنہيں نہ واپس ملا اور نہ پتہ چلا کہ وہ کہاں گيا

دسمبر 1971ء کے آخری دنوں ميں ايک اعلٰی سرکاری عہديدار سے معلوم ہوا کہ 16 دسمبر 1971ء کو سکوتِ ڈھاکہ سے 2 دن قبل جنرل امير عبداللہ خان نيازی بار بار ٹيليفون کرتے رہے کہ اُس کی جنرل يحیٰ خان سے بات کرائی جائے مگر يحیٰ خان کا ٹيليفون ايک عورت اُٹھاتی جس کا لہجہ پاکستانی نہيں تھا وہ انگريزی ميں کہتی کہ يحیٰ خان کوئی کال لينا نہيں چاہتے
اپنی 15 دسمبر کو واپسی سے قبل مگر 12 دسمبر کے بعد ميں نے ٹرانزٹ کيمپ کراچی ميں بھی فوجی افسران کو پريشانی سے ايک دوسرے سے استفسار کرتے سُنا تھا کہ “چيف کہاں ہے ؟”

جيسا کہ اوپر ب ۔ 5 ميں ذکر ہے لاکھوں محبِ وطن بنگاليوں کے دستخطوں سے قراداد بذريعہ برطانيہ پاکستان ميں ذوالفقار علی بھٹو کو بنگلہ ديش نامنظور کرنے کيلئے بھيجی گئی تھی ۔ يہ قراداد ملنے کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور ميں پيپلز پارٹی کے ايک بہت بڑے جلسے کا اہتمام کيا ۔ جلسہ شروع ہونے سے پہلے ہی پيپلز پارٹی کے کارکنوں ميں يہ خبر پھيل گئی کہ بنگلہ ديش منظور کيا جائے گا ۔ پيپلز پارٹی کی اکثريت کو يہ منظور نہ تھا ۔ بھٹو صاحب جلسہ گاہ ميں پہنچ گئے مگر حاضريںِ جلسہ نے اُنہيں تقرير نہ کرنے دی ۔ احتجاج ہوتا رہا ۔ 45 منٹ سے زائد کوشش کرنے کے باوجود بھٹو صاحب تقرير نہ کر سکے
اس کے بعد اسلامک کانفرنس کے اجلاس کا پاکستان ميں اہتمام کر کے بھٹو صاحب نے اس ميں بنگلا ديش منظور کرا ليا

معذرت ۔ مضمون کی طوالت کے باعث مجھے ايک اور قسط ميں جانا پڑا ہے جو آخری ہے

سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ۔ قسط ۔1 ۔ دوسرا سوال اور ذرائع

عدنان شاہد صاحب نے سانحہ مشرقی پاکستان کی وجوہات کے متعلق بروقت استفسار کيا تھا ليکن شب و روز محنت کر کے لکھ لينے کے باوجود شائع کرنے ميں تاخير کرنا پڑی جس کا سبب ميں 27 نومبر 2011ء کو بيان کر چکا ہوں ۔ اللہ کی مہربانی سے 16 دسمبر کو ميرا بلاگ نئے ميزبان پر منتقل ہو گيا تھا ليکن اس کی مکمل پڑتال کرنے کيلئے بھی کچھ وقت درکار تھا ۔ بہر کيف آج اس کا آغاز ہو ہی گيا

پہلے سوال کے بعد اب آتے ہيں عدنان شاہد صاحب کے دوسرے سوال پر
شیخ مجیب کے 6 نقاط میں سے وہ نقطہ بیان کیجیے جس کی وجہ سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہوا

شيخ مجيب الرحمٰن کے 7 نقاط تھے ۔اس وقت ميرے ذہن ميں صرف 3 آ رہے ہيں يہ ناقابلِ قبول اور پاکستان توڑنے کے مترادف تھے
1 ۔ خارجہ پاليسی ميں خود مُختاری
2 ۔ دفاع ميں خود مُختاری
3 ۔ کرنسی ميں خود مُختاری

سُنا گيا تھا کہ آخری ملاقات ميں باقی 4 نقاط پر اس وقت کے صدر محمد يحیٰ خان راضی ہوگئے تھے اور مجيب الرحمٰن مندرجہ بالا 3 نقاط کو ملتوی کرنے پر راضی ہو گئے تھے ۔ اِن نقاط سے قطع نظر کرتے ہوئے ميں صرف وہ کچھ مختصر طور پر لکھوں گا جو ميرے علم ميں ميرے ذاتی ذرائع سے آيا مگر ذرائع ابلاغ ميں کم ہی آيا

مناسب ہے کہ پہلے ميں اپنے ذرائع [الف] کا ذکر کروں پھر معلومات [ب] کا جو مجھے ان ذرائع سے حاصل ہوئيں ۔ آخر ميں اِن شاء اللہ اپنا مشاہدہ اور تجزيہ پيش کروں گا

الف ۔ ذرائع

الف ۔ 1 ۔ کسی بنگالی سے ميرا رابطہ پہلی بار 1957ء ميں بلال مسجد ۔ باغبان پورہ لاہور ميں ہوا جہاں انجنيئرنگ کالج کے ہم کچھ طلباء ہر جمعرات کو مغرب اور عشاء کی نمازيں چند ماہ پڑھتے رہے اور ان نمازوں کے درميان تقارير بھی سُنتے تھے جو دين اسلام ۔ دين پر عمل اور دين کيلئے سفر کرنے کے تجربات پر عمدہ عِلم کا ذريعہ ہوتی تھيں

الف ۔ 2 ۔ ميرا دوسرا واسطہ بنگالی بھائيوں سے 1963ء ميں پڑا جب ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز کی ملازمت اختيار کی ۔ ان ميں سے 2 کے ساتھ ميرے بہت دوستانہ تعلقات بن گئے
پھر 1967ء ميں 3 بنگالی مکينيکل انجينئر ہماری فيکٹری [ويپنز فيکٹری] ميں تعينات کئے گئے جنہيں ميں نے سکھانا اور تربيت دينا تھی تاکہ وہ اُس کارخانے کو چلا سکيں جو ڈھاکہ کے قريب غازی پور ميں بنايا جا رہا تھا
ميں چونکہ ايک اہم پروجيکٹ پر کام کر رہا تھا اسلئے مغربی پاکستان کے رہائشی ميرے ايک سينيئر اور کچھ جونيئر ساتھيوں کو 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا تاکہ وہ مجوزہ کارخانہ کو قائم کر سکيں جو اواخر 1970ء ميں مکمل ہو گيا تھا

الف ۔ 3 ۔ پاکستان پی ڈبليو ڈی ميں کام کرنے والے ميرے ايک دوست سِول انجنيئر کو 1966ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا جس نے ڈھاکہ کے مضافات ميں ديہاتی علاقوں کے ڈويلوپمنٹ پروجيکٹ پر کام کيا

الف ۔ 4 ۔ميرا ايک دوست جو وفاقی وزارتِ ماليات ميں اسسٹنٹ فائيناشل ايڈوائزر تھا اُسے 1968ء ميں 3 سال کيلئے مشرقی پاکستان بھيجا گيا

الف ۔ 5 ۔ ميں جب 1976ء ميں لبيا گيا تو بنگلہ ديش سے ڈيپوٹيشن پر آئے ہوئے ايک بنگالی آرتھوپيڈک سرجن سے دوستی ہو گئی اور يہ دوستی 1981ء ميں اس کی بنگلہ ديش واپسی تک جاری رہی

الف ۔ 6 ۔ سرکاری عہديدار ہونے کے ناطے مختلف متعلقہ حلقوں ميں جانے سے ميرے علم ميں آنے والے ايسے حقائق جو وقتاً فوقتاً اخبار ميں شائع ہوئے

جيسا کہ ميں کہہ چکا ہوں موضوع طويل عبارت کا حامل ہے ۔ ميں اسے کوزے ميں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اس سے زيادہ اختصار مضمون کا مقصد کھو دے گا ۔ باقی اِن شاء اللہ چند دنوں ميں

امتحان

آج ميرا ارادہ سانحہ مشرقی پاکستان کے سلسہ ميں عدنان شاہد صاحب کے سوال کا جواب شائع کرنے کا ارادہ تھا ليکن احمد عرفان شفقت صاحب نے 18 دسمبر کو مطلع کيا کہ 15 دسمبر کے بعد کی ميری تحارير اُردو سيارہ پر نمودار نہيں ہو رہيں ۔ يہ ڈی اين ايس کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے ليکن ميں نے اُسی دن اُردو سيارہ کی انتظاميہ کی توجہ بھی اس طرف مبزول کرا دی تھی ۔ آج کی يہ تحرير ديکھنے کيلئے ہے کہ ميرا بلاگ اُردو سيّارہ پر نمودار ہو گيا ہے يا کہ نہيں

پيپلز پارٹی اور نصرت بھٹو

ايک کھلنڈرا نوجوان قائدِ عوام کيسے بنا ؟
پيپلز پارٹی کس کا تخيل تھا ؟
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پيپلز پارٹی کيونکر قائم رہی ؟
بينظير کو سياست کس نے سکھائی ؟
مرتضٰے بھٹو کيوں قتل ہوا ؟

ميں اپنی پرانی ڈائريوں سے اس پر حقائق کافی حد تک جمع کر چکا تھا کہ ايک مختصر مگر جامع مضمون اسی کے متعلق شائع ہو گيا جو ميری معلومات سے ملتا جُلتا ہے ۔ ملاحظہ فرمايئے

میرا اُن کی شخصیت کے ساتھ پہلا تعارف روزنامہ مساوات میں کام کرنے والے صحافیوں اور کارکنوں کی وساطت سے ہوا۔ وہ اُن دنوں اس ادارے کی چیئرپرسن تھیں اور اُس کے معاملات میں دلچسپی لیتی تھیں۔ ایک روز میں نے اپنے ایک واقفِ کار سے جواسی اخبار میں کام کرتے تھے ۔ بیگم صاحبہ کے مزاج اُن کے رویوں کے بارے میں پوچھا تو اُس نے میری توقع کے بالکل برعکس اُن کی تعریف و توصیف شروع کر دی ۔ مجھے اُن کی باتیں سن کر حیرت انگیز خوشی ہوئی اور میں نے بیگم صاحبہ کی شخصیت کا بھٹو صاحب کی شخصیت سے ہٹ کر مطالعہ شروع کر دیا

اصفہان میں نصرت ایک امیر تاجر کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ اُن کے والد کراچی منتقل ہونے کے بعد صابن سازی کا کارخانہ چلانے لگے۔ ایران کے حوالے سے اس خاندان کے تعلقات اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید سے قائم ہوئے جنہوں نے آگے چل کر نصرت اور بھٹو کو شادی کے بندھن میں پرو دیا ۔ اس طرح جوان سال بھٹو جو امریکہ سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان آئے اُن کے بیگم نصرت بھٹو کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں صدر اسکندر مرزا سے مراسم پیدا ہوئے جن کی بدولت وہ جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے پاکستانی وفد میں شامل کر لیے گئے۔

نصرت بھٹو اپنے شوہر کو سیاسی کردار ادا کرنے کے لیے تیار کر رہی تھیں۔ صدر اسکندر مرزا کے ذریعے مسٹر بھٹو جنرل ایوب خان سے متعارف ہوئے۔ جب اکتوبر 1958ء میں پہلا مارشل لاء لگا تو وہ لندن میں تھے۔ انہیں کابینہ میں شامل ہونے کی دعوت آئی تو نصرت بھٹو نے اُنہیں یہ دعوت قبول کرنے کا مشورہ دیا چنانچہ اُنہی کے اصرار پر وہ کابینہ میں شامل ہوئے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو صاحب کو ایوانِ اقتدار تک پہنچانے میں اُن کی اہلیہ نے ایک خاموش مگر انتہائی فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا جبکہ وہ خود تاریخ کی آنکھ سے چھپی رہی تھیں۔ مسٹر بھٹو ایوب خان کے دور میں وزیرِ خارجہ بنے اور بڑی شہرت پائی۔

اس دوران عائلی زندگی میں کئی نشیب و فراز لیکن نصرت بھٹو نے بڑی دانائی اور فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے کوئی مسئلہ پیدا کیا نہ اپنی جداگانہ شخصیت کا امیج بنانے کی ذرہ برابر کوشش کی۔ ان کی تمام تر توجہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر مرکوز رہی اور اُن کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ بھٹو صاحب عالمی سطح پر بلند پایہ لیڈر کے طور پر پہچانے جائیں اور پھر معاہدہٴ تاشقند کا سخت مرحلہ پیش آیا اور آخر کار صدر ایوب خان اور وزیرِ خارجہ زیڈ اے بھٹو کے راستے جدا ہو گئے اور وہ کابینہ سے نکال دیے گئے۔

آٹھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد اُن کے لیے یہ ایک سخت جاں مرحلہ تھا جس میں بیگم نصرت بھٹو نے اُنہیں دلاسہ دیا اور بدلتے ہوئے ملکی حالات کے پیشِ نظر اپنی سیاسی جماعت بنانے کا مشورہ دیا چنانچہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور تین سال کے اندر
پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور بعد ازاں وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ہونے میں کامیاب رہے۔

بیگم نصرت بھٹو کا پیپلز پارٹی کی تشکیل میں سب سے قابلِ قدر کارنامہ یہ تھا کہ اُنہوں نے اس میں خواتین کا ونگ قائم کیا تحصیل اور ضلع کی سطح پر انتخابات کرائے اور کارکنوں نے اُنہیں قومی سطح پر باقاعدہ منتخب کیا۔ وہ حقیقی معنوں میں جمہوریت کی علمبردار اور اسے سیاسی جماعتوں کے اندر نچلی سطح تک رائج کرنے کی زبردست حامی تھیں۔ اسی ونگ کے ذریعے اُنہوں نے بہت سا فلاحی کام کیااور عام لوگوں کے اندر سیاسی بیداری پیدا کی۔ اُن کے ہاں محبت اور خیر خواہی کا جذبہ گہرا اور ہمہ گیر تھا۔ وہ 1973ء سے 1977ء تک پاکستان کی خاتونِ اوّل رہیں مگر خود نمائی سے پرہیز کیا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ وہ ہر صبح ناشتے کی میز پر مسٹر بھٹو سے ملکی اور عالمی حالات پر تبادلہٴ خیال کرتیں لیکن امورِ ریاست میں مداخلت سے پرہیز کرتی رہیں۔

وہ اپنے شوہر کو سیاسی تقویت پہنچانے کے ساتھ ساتھ اب اپنی بیٹی بے نظیر کی تعلیمی اور ذہنی تربیت پر توجہ دے رہی تھیں جو مغرب کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم تھیں۔

1977ء میں حالات نے ایک بہت بڑا پلٹا اُن کے شوہر کی حکومت ختم ہو گئی اور فوج نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ مسٹر بھٹو گرفتار کر لیے گئے اور پیپلز پارٹی کو کڑی آزمائش نے آ لیا۔ اس انتہائی نازک موقع پر بیگم نصرت بھٹو نے غیر معمولی تدبر تحمل اور فولادی عزم کا ثبوت دیا۔ اُن کی چھپی ہوئی صلاحیتیں بے پناہ توانائیوں کے ساتھ اُجاگر ہوئیں اور اُنہوں نے ظلم اور جبر کا ہر وار بڑی بہادری اور مردانگی سے برداشت کیا اور لازوال جدوجہد کے ذریعے جمہوریت کی شمع روشن رکھی۔ مسٹر بھٹو پر جب قتل کا مقدمہ چلنا شروع تو بیگم صاحبہ نے عدالتوں میں بھی
بڑے حوصلہ مندی سے جنگ لڑی اور سیاسی میدان میں ایک شیر کی طرح غاصبوں پر جھپٹی رہیں۔ اُنہوں نے قائدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کا شیرازہ بکھرنے نہیں دیا اور عوام کے ساتھ اُنہوں نے جو ایک گہرا تعلق پہلے سے پیدا کر رکھا تھا اس کے ذریعے کارکنوں کے اندر مزاحمت کی روح پھونکی اور اُنہیں فوجی آمریت کے مدمقابل ایک مضبوط سیاسی قوت میں ڈھال دیا۔ مسٹر بھٹو کی پھانسی کا صدمہ بھی اُنہوں نے اس طرح برداشت کیا جیسے وہ ہمت و عزیمت کی ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ہوں۔

اُن کی فہم و فراست کا سب سے بڑا شاہکار یہ تھا کہ اُنہوں نے اُن تمام عناصر کو بحالی جمہوریت کی تحریک ایم آر ڈی میں اپنے ساتھ شامل کیا جنہوں نے پی این اے میں مسٹر بھٹو کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ اُنہیں سرطان کا مرض لاحق ہو چکا تھا اس کے باوجود اُنہوں نے تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی۔ سندھ میں ایم آر ڈی ناکام رہیلیکن جنرل ضیاء الحق پر اس قدر دباوٴ بڑھا کہ انہیں انتخابات کرانا پڑے اور یہی انتخابات آگے چل کر 1988ء کے انتخابات پر منتج ہوئے جس میں پیپلز پارٹی نے قومی سطح پر واضح کامیابی حاصل کی۔ یہ کامیابی بیگم نصرت بھٹو کی رہینِ منت تھی مگر اُنہوں نے اقتدار کا تاج اپنی بیٹی بے نظیر کے سر پر رکھا اور خود سینئر وزیر بننے پر اکتفا کیا۔

اُن کا خلوص اور اُن کا ایثارآگے چل کر اقتدار کی کشمکش میں اُن کے لیے بڑی اذیت کا باعث بنا۔ 1993ء میں انتخابات ہوئے تو ماں نے بیٹی سے کہا کہ میرا اصل جان نشین میرا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو ہے جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہا ہے اسے پاکستان میں آنے اور انتخابات میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اُن کی خواہش تھی کہ اسے سندھ کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب ملنا چاہیے مگر وزیرِ اعظم بے نظیر
نے اس خیال کی مخالفت کی تاہم بڑی رودکد کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو پاکستان آگئے اور وہ عظیم اور بیدار مغز ماں جس نے بے نظیر بھٹو کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ ہموار کی وہ اپنی بیٹی کی کرپٹ حکومت سے بیزار ہوتی گئی اور وہ اپنے بڑے بیٹے کی سیاسی حمایت میں اسی طرح سرگرم ہوگئیں جس طرح اُنہوں نے اپنے شوہر کی جان بچانے اور پیپلز پارٹی کو متحد رکھنے کے لیے تگ و دو کی تھی۔

بیگم نصرت بھٹو نے اپنی بیٹی وزیرِ اعظم بے نظیر سے کہا کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے دو مطالبات ہیں۔ ایک یہ کہ پارٹی میں انتخابات کرائے جائیں
اور دوسرا یہ کہ حکومت کو بدترین کرپشن سے پاک صاف کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات درست ہیں اور اُنہیں تسلیم کیا جائے۔ اس دوٹوک اعلان کے بعد 70 کلفٹن کے سامنے میر مرتضیٰ بھٹو گولیوں سے بھون دیئے گئے کیونکہ وہ جناب آصف زرداری اور بے نظیر کے اقتدار کو چیلنج کر رہے تھے

پھر نہ کہيئے گا خبر نہ ہوئی

اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کيا جائے کم ہے کہ ميرا وعدہ بخير و خوبی پورا ہوا ۔ کل ميری بيٹی نے ميرا يہ بلاگ نئے عملی ميزبان [Web Hosting] پر منتقل کر ديا ۔ اُن تمام محترم بہنوں بھائيوں بھتيجيوں بھتيجوں بھانجيوں بھانجوں جنہيں شکائت تھی کہ کبھی ميرا يہ بلاگ کھُلتا ہے اور کبھی نہيں يا بمُشکل کھُلتا ہے سے التماس ہے کہ ميرے بلاگ کو کھول کر ديکھئيے اور از راہِ کرم مندرجہ ذيل ميں سے کسی ايک پتہ پربرقيہ [e-mail] ارسال کيجئے کہ کھُلا يا نہيں تاکہ مجھے اطمينان ہو کہ ميری يہ خدمت رائيگاں نہيں گئی
iftikharajmal@gmail.com
iabhopal@yahoo.com

آپ سب کے تعاون کا طلبگار
افتخار اجمل بھوپال