Monthly Archives: December 2010

توّکل

عام ديکھا گيا ہے کہ جو کام کسی آدمی کے بس ميں نہ ہو تو اُسے کر کے کہتا ہے ” اللہ توّکل کر ديا ہے”
حقيقت يہ ہے کہ اللہ پر توّکل کرنا مسلمان پر واجب ہے
يہاں ميں يہ واضح کر دوں کہ ہند و پاکستان ميں الفاظ “فرض” اور “واجب” کا استعمال غلط العام ہے ۔ آجکل لوگ انگريزی کا زيادہ استعمال کرتے ہيں اسلئے انگريزی کے ذريعہ ہی بتانے کی کوشش کرتا ہوں
“فرض” ہوتا ہے “ڈِيوٹی [Duty]”
واجب ہوتا ہے “کمپلسری [Compulsory]”
ہند و پاکستان کے جو لوگ عرب دنيا ميں يا ايران ميں کچھ عرصہ رہے ہيں اور انہوں نے عربی يا فارسی زبان سيکھنے کی کوشش کی ہے وہ ميری بات کو بآسانی سمجھ جائيں گے
عام کہا جاتا ہے کہ فجر ميں 2 ۔ ظہر ميں 4 ۔ عصر ميں 4 ۔ مغرب ميں 3 اور عشاء ميں 4 فرض ہيں اور عشاء ميں 3 واجب يعنی وتر ہيں
ہميں ڈيوٹی سے چھُوٹ [چھُٹی] ايک دن سے چند ماہ تک کی بلکہ بعض اوقات سال بھر کی چھُٹی مل سکتی ہے مگر جو کام کسی کيلئے کمپلسری قرار ديا گيا ہو اس کی چھُوٹ نہيں مل سکتی
چنانچہ جنہيں فرض کہا جاتا ہے وہ بھی در اصل سب واجب ہيں کيونکہ ان کی چھُوٹ کسی حال ميں بھی نہيں ہے

کتنی بدقسمتی ہے کہ آج کا مسلمان باپ ۔ بھائی ۔ بيٹے يا دولت پر تو توّکل کر ليتا ہے مگر اللہ پر صرف بحالتِ سخت مجبوری

ميں نے 5 ستمبر 2010ء کو ذاتی مشاہدہ کی بناء پر لکھا تھا
“توكل پرندوں سے سيكھيئے كہ جب وہ شام كو اپنے گھونسلوں يا بسيروں کو واپس جاتے ہيں توان كی چونچ ميں اگلے دن كے لئے كوئی دانہ نہيں ہوتا”

چند دن قبل ميری بيٹی پوچھنے لگی ” ابو ۔ يہ ذرا سمجھا ديجئے کيا لکھا ہے ؟”

وہ بابا بُلھے شاہ کے پنجابی کلام کا يہ قطع تھا

ويکھ بَنديا اسماناں تے اُڈدے پنچھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھ اے انسان آسمانوں پر اُڑتے پرندے]
ويکھ تے سہی کی کردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [ديکھو تو سہی کيا کرتے ہيں]
نہ اور کردے رِزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[نہ وہ کريں رزق کا ذخيرہ]
نہ او بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [نہ وہ بھُوکے مرتے ہيں]
کدی کسے نے پنکھ پکھيرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[کبھی کسی نے پرندوں کو]
بھُکھے مردے ويکھے نے ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[بھُوکے مرتے ديکھا ہے ؟]
بندہ ای کردا رزق ذخيرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [انسان ہی کرتے ہيں رزق ذخيرہ]
بندے ای بھُکھے مردے نے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔[انسان ہی بھُکے مرتے ہيں]

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ محکمانہ انصاف

روائت ہے کہ دوسری جنگ عظيم ميں برطانيہ فاتح تو رہا مگر مُلکی معيشت کا ديواليہ نکل گيا تھا ۔ چند فکر رکھنے والے لوگوں نے وقت کے وزيرِ اعظم کے پاس جا کر اپنی تشويش ظاہر کی

وزيرِ اعظم نے پوچھا “سرکاری محکمے انصاف کر رہے ہيں ؟”
وہ بولے “ايسا ہو رہا ہے”
پھر وزيرِ اعظم نے پوچھا “لوگ سمجھتے ہيں کہ انصاف مل رہا ہے ؟”
وہ بولے ” جی ۔ بالکل”
وزيرِ اعظم نے کہا ” پھر کوئی فکر کی بات نہيں سب ٹھيک ہو جائے گا”

تاريخ گواہ کہ سب ٹھيک ہو گيا ۔ يہ کرامت ہے جمہوريت کی ۔ ہمارے ملک ميں بھی سُنا ہے کہ جمہوريت ہے ۔ ميں نے تو بہت تلاش کی مگر وہ شايد مجھ سے پردہ کرتی ہے اسلئے نظر نہيں آئی ۔ ليکن ميں بات کروں کا “اصلی تے وڈی” جمہوريت کی جس کا نام عوامی جمہوريت تھا اور جس کی عظمت کے نعرے آج بھی لگائے جاتے ہيں

خود ساختہ قائدِ عوام نے1973ء ميں انتظامی اصلاحات [Admnistrative Reforms] کے نام پر سرکاری ملازمين کيلئے نئے قوانين نافذ کئے ۔ نعرہ لگايا گيا تھا کہ” ڈکٹيٹروں نے 4 کلاسز [Classes] بنا رکھی ہيں ۔ ميں سب کو ايک کلاس کر دوں گا اور پھر چپڑاسی بھی فيڈرل سيکريٹری بن سکے گا”۔ مگر 4 کی بجائے 23 کلاسز بنا دی گئيں ۔ چپڑاسی تو کيا فيڈرل سيکريٹری بنتا ۔ ڈپٹی سيکريٹری کيلئے بھی فيڈرل سکريٹری بننا مشکل بنا ديا گيا ۔ البتہ بادشاہ سلامت جب چاہتے جسے چاہتے چپڑاسی کی کرسی سے اُٹھا کر فيڈرل سيکريٹری بنا ديتے اور جو فيڈرل سيکٹری حکم عدولی کرتا اسے ايسا ہٹاتے کہ نہ پنشن نہ گريچوئيٹی ملتی ۔ چنانچہ ايک ايسے ہی فيڈرل سيکريٹری نے بھوک ننگ سے تنگ آ کر اپنے بيوی بچوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کُشی کر لی ۔ يہ تو بڑی بڑی باتيں ہيں ۔ انتظامی اصلاحات نافذ ہونے والے بے شمار واقعات ميں سے ميں اُس ادارے کے اعلٰی انصاف کے صرف 3 واقعاتِ سپردِ قلم کر رہا ہوں کہ ميں جس ميں ملازم تھا ۔ ان ميں سے تيسرا واقعہ سب سے بُلند ہے

پہلا واقعہ ۔ سعودی عرب کے ايک اعلٰی عہديدار 1970ء کی دہائی کے اوائل ميں گريڈ 18 کے کچھ انجنير ہمارے ادارے سے لينے کيلئے آئے ۔ اُنہيں انٹرويو نہ کرنے ديا گيا اور کچھ گريڈ 19 اور ايک گريڈ 17 کا انجينئر دے ديا گيا ۔ ان ميں سے ہر ايک نے ملازمت کے ذاتی کنٹريکٹ پر دستخط کئے اور تين تين سال کی بغير تنخواہ چھٹی لے کر چلے گئے جس کی بعد ميں ناجانے کس قانون کے تحت 9 سال تک روسيع ہو گئی ۔ سعودی عرب ميں يہ لوگ سعودی انٹظاميہ کے ماتحت تھے اور سعودی عرب سے ہی براہِ راست تنخواہ ليتے تھے ۔ اس کے باوجود گريڈ 17 والے انجنيئر وہيں بيٹھے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی پا گئے اور 9 سال بعد واپس آنے پر انہيں گريڈ 20 پر ترقی دے دی گئی ۔ قانون يہ ہے کہ جو شخص ملک سے باہر ہو اس کی ترقی واپس آنے پر ہو گی

دوسرا واقعہ ۔ 4 انجنيئروں کو 1976ء ميں لبيا بھيجا گيا جن ميں ايک گريڈ 17 کا اور باقی 3 گريڈ 18 کے تھے ۔ انہيں تنخواہ پاکستان کا سفارتخانہ ديتا تھا جس ميں سے جی پی فنڈ ۔ پنشن کنٹری بيوشن اور سروس چارجز کاٹ لئے جاتے تھے ۔ يہ لوگ انتظامی لحاظ سے پاکستان ميں اپنے ادارے کے ماتحت تھے جو سفارتخانے کی معرفت انہيں احکامات بھيجتا تھا ۔ ان ميں جو انجيئر سب سے سينئر تھا اُسے يہ کہہ کرترقی نہ دی گئی کہ مُلک سے باہر ہے جب واپس آئے گا تو ديکھا جائے گا اور اس طرح 6 سال کے اندر 24 اس سے جونيئر انجيئروں کو ترقی دے دی گئی ۔ بايں ہمہ جو انجيئر گريڈ 17 ميں تھا اسے لبيا ميں بيٹھے بٹھائے پہلے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی دے دی گئی اور وہ اپنی ٹيم کے سب سے سينئر سے سينئر ہو گيا

تيسرا واقعہ اور بھی نرالا ہے ۔ ايک گريڈ 16 کے افسر چھٹی لے کر گئے اور واپس نہ آئے ۔ کئی سال اُن کو بُلايا جاتا رہا مگر کوئی جواب نہ آيا ۔ وہ ليبا چلے گئے ہوئے تھے اور وہاں کسی پرائيويٹ کمپنی کی ملازمت کر رہے تھے ۔ کيس چلتا رہا اور کوئی جواب نہ آنے پر اُنہيں مفرور [absconder] قرار دے ديا گيا [وزارتِ دفاع کا مفرور] ۔ مزيد چند سال گذر گئے تو اُن کی گريڈ 17 ميں ترقی کا نوٹی فيکيشن جاری ہو گيا جبکہ اُس وقت بھی وہ مفرور تھے

سُنا تھا کہ “جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے”۔ ہمارے مُلک ميں “انصاف وہ جو سر پھوڑ کے بولے”

امن ۔ مگر کيسے ؟ ؟ ؟

نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ ساری دنيا ڈھنڈورہ پيٹتی ہے کہ جنوبی ايشا ميں امن قائم ہونا چاہيئے ۔ مگر يہ امن کيسے قائم ہو ؟
امن کی چابی موجود ہے مگر اسے گھماتا کوئی نہيں
مندرجہ ذيل ربط پر کلِک کر کے پڑھيئے کہ امن کيسے قائم ہو سکتا ہے

The Only Guarantee for Peace

قصوروار کون ۔ حکمران يا قوم يا دونوں ؟

ہمارے حکمران بشمول وزير اعظم اور بالخصوص صدر آئے دن برملا جھوٹ بولتے ہيں ۔ عوام ميں اتنا دم خم ہی نہيں کہ اس کا سدِ باب کر سکيں ۔ آج صرف ايک جھوٹ کا ذکر ہو گا جو صرف ہمارے صدر آصف علی زرداری ہی درجن سے زائد بار بر سرِ عام بول چکے ہيں ۔ وہ جھوٹ ہے “ہم نے ايک آمر پرويز مشرف کو کرسی چھوڑنے پر مجبور کيا”۔ حقيقت کھل کے سامنے آ رہی ہے آہستہ آہستہ

پہلا ثبوت
امريکا کے پچھلے صدر جارج ڈبليو بُش نے ” Decision Points ” کے نام سے ايک کتاب لکھی ہے ۔ اس کے صفحہ 217 پر لکھا ہے کہ “ميں نے اواخر 2007ء ميں پرويز مشرف سے کرسی چھوڑنے کا کہا اور اس نے وعدہ پورا کيا

دوسرا ثبوت
حاضر سروس کرنل الياس نے بتايا کہ وہ صدر کے ساتھ تعينات تھا اور صدر آصف علی زرداری نے اُسے بطور چيف سکيورٹی آفيسر ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کيا ہوا ہے ۔ کرنل الياس نے مزيد بتايا کہ اس کے علاوہ چار پانچ اور فوجی عہديدار بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ يہ لوگ اُن چار فوجی عہديداروں کے علاوہ ہيں جو جنرل اشفاق پرويز کيانی نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ کرنل الياس نے يہ بھی انکشاف کيا کہ ان سب کے علاوہ چار ايس ايس جی کے کمانڈوز بھی ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں جنہوں نے اب ريٹائرمنٹ لے لی ہے ۔ کرنل الياس نے وضاحت کی کہ ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ حاضر سروس فوجی عہديدار صرف اتنے ہی تعينات کئے ہوئے ہيں البتہ ان کے علاوہ سويلين عہديدار ۔ ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور اور ايک پکاؤتا [Cook] صدر آصف علی زرداری نے ريٹائرڈ جنرل پرويز مشرف کے ساتھ لندن ميں تعينات کئے ہوئے ہيں ۔ ان سب کو حکومتِ پاکستان تنخواہ ديتی ہے

سابق صدر رفيق تارڑ صاحب نے بتايا کہ ان کے ساتھ کوئی فوجی نہيں ہے ۔ قانون کے مطابق ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک پکاؤتا اور ايک پوليس گارڈ سابق صدر کو ديئے جاتے ہيں

مرحوم سابق صدر فاروق لغاری صاحب کے رشتہ داروں نے بھی يہی بتايا ہے ۔ مگر بتايا گيا ہے کہ يہ سٹاف صرف پاکستان ميں مہيا کيا جاتا ہے ۔ اگر سابق صدر ملک سے باہر رہے تو اُسے سٹاف دينے کا کوئی قانون نہيں ہے

سابق آرمی چيف مرزا اسلم بيگ نے بتايا ہے کہ سابق آرمی چيف کو ملک کے اندر بھی کسی قسم کا سٹاف مہيا کرنے کا کوئی قانون موجود نہيں ہے ۔ ملک کے باہر تو سوال ہی پيدا نہيں ہوتا ۔ اُنہوں نے بتايا کہ ماضی ميں آرمی چيف کو ريٹائرمنٹ کے بعد ايک پرسنل سٹاف آفيسر ۔ ايک ڈرائيور ۔ ايک بيٹ مين [Batman] اور ايک ٹيليفون ديا جاتا تھا مگر بينظير بھٹو جب دوبارہ وزير اعظم بنيں تو اُنہوں نے آرمی چيف جہانگير کرامت کو حکم ديا کہ ايسی مراعات واپس لے لی جائيں ۔ يہ حکمنامہ آج تک نافذ العمل ہے ۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ موجودہ قوانين کے مطابق کوئی فوجی آفيسر يا جوان سابق آرمی چيف کے ساتھ تعينات نہيں کيا جا سکتا

سابق آرمی چيف عبدالوحيد کاکڑ کی پوتی نے بتايا کہ اُنہيں بھی اس قسم کی کوئی سہولت نہيں دی گئی

آخر ايسا کيوں ہے ؟

اس کا سبب صرف ايک ہے کہ قوم کی اکثريت خود بھی جھوٹ بولنا اور سننا پسند کرتے ہيں ۔ اسلئے ان ميں اتنی جراءت نہيں کہ کسی بھی جھوٹ کے خلاف آواز اُٹھا سکے

اللہ کا قانون اٹل ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کم از کم قرآن شريف کو سچ سمجھے اور اس ميں ديئے گئے احکامات پر عمل کرے ۔ جب حشر کا سماں بندھے گا تو اس وقت کوئی مدد گار نہ ہو گا اور اپنے ہاتھ پاؤں بھی کہ جن کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کيا تھا اپنے ہی خلاف گواہی ديں گے

سورت 42 الشّورٰی ۔ آيت 30 ۔ ‏ تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہے ۔ اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے

سورت 13 الرعد ۔ آیت 11 ۔ اللہ اس کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے

سورت 53 النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت 24 النّور ۔ آيت 55 ۔ تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے ، اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں

حق پرست يہودی صيہونيوں کے زيرِ عتاب

يہ تو سب جانتے ہی ہيں کہ فلسطينی باشندے پچھلے 62 سالوں سے اسرائيل کی صيہونی حکومت کے ظُلم و ستم کا نشانہ بنتے آ رہے ہيں ۔ ايک حقيقت جو بہت کم لوگ جانتے ہيں يہ ہے کہ اسرائيل کے حق پرست يہودی باشندوں کو بھی صيہونی حکومت کے جھوٹے مقدموں کا شکار ہيں

يہاں کلک کر کے پڑھيئے اس کی ايک جھلک
Israel’s liberals face state prosecution

گاندھی ۔ نہرو ۔ پٹيل اور جنرل گريسی

وسط اکتوبر 1947ء ميں موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ تین دن کے متواتر کوشش کے بعد کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغير اطلاع اور اجازت کے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اُترنا شروع کر دیا ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ بھارتیہ مہاسبھا اور سکھوں کی اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے پہلے ہی جموں پہنچنا شروع ہو چُکے تھے

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس ڈيوڈ گریسی [Sir Douglas David Gracey] کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حُکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حُکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتا تو ايسا نہ کرتا اور بھارت جموں کشمير پر قبضہ نہ کر پاتا کيونکہ پاکستانی فوج کے جموں کشمير کے داخل ہونے کی خبر سنتے ہی پہلے سے جنگ آزادی لڑنے والے رياستی باشندوں کا ساتھ دينے کيلئے بڑی تعداد ميں رياستی باشندے اُٹھ کھڑے ہوتے

احوالِ قوم ۔ 6 ۔ روّيہ

اگر ہم سے مانگے کوئی ایک پیسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہوگا کم وبیش بار اس کا دینا
مگر ہاں وہ سرمایہءِ دین و دنیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ ایک ایک لمحہ ہے اَنمول جس کا
نہیں کرتے خسّت اُڑانے میں اس کے۔ ۔ ۔ بہت ہم سخی ہیں لُٹانے میں اس کے
اگر سانس دن رات کے سب گنیں ہم۔ ۔ ۔ تو نکلیں گے انفاز ایسے بہت کم
کہ ہو جن میں کل کیلئے کچھ فراہم۔ ۔ یونہی گزرے جاتے ہیں دن رات پیہم
نہیں کوئی گویا خبردار ہم میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ یہ سانس آخر ہیں اب کوئی دم میں
گڈریئے کا وہ حُکم بردار کُتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ بھیڑوں کی ہر دَم ہے رکھوال کرتا
جو ریوڑ میں ہوتا ہے پتّے کا کھڑکا۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ شیر کی طرح پھرتا ہے بھِپرا
گر انصاف کیجئے تو ہے ہم سے بہتر۔ ۔ کہ غافل نہیں فرض سے اپنے دم بھر

بہت لوگ بن کے ہوا خواہِ امت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سفیہوں سے منوا کے اپنی فضیلت
سدا گاؤں درگاؤں نوبت بہ نوبت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے پھرتے ہیں کرتے تحصیلِ دولت
یہ ٹھہرے ہیں اسلام کے رہنما اب ۔ ۔ ۔ لقب ان کا ہے وارثِ انبیا اب
بہت لوگ پیروں کی اولاد بن کر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ذات والا میں کچھ جن کے جوہر
بڑا فخر ہے جن کو لے دے کے اس پر ۔ ۔ کہ تھے ان کے اسلاف مقیولِ داور
کرشمے ہیں جاجا کے جھوٹے دکھاتے ۔ مریدوں کو ہیں لوٹتے اور کھاتے

اقتباس از مسدسِ حالی
مصنف ۔ خواجہ الطاف حسين حالی