Monthly Archives: November 2010

احوالِ قوم ۔ 3 ۔ تنزّل

رہے جب تک ارکانِ اِسلام برپا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چلن اہلِ دیں کا رہا سیدھا سادا
رہا مَیل سے شہد صافی مصفّا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رہی کھوٹ سے سِیمِ خالص مبرا
نہ تھا کوئی اسلام کا مردِ میداں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم ایک تھا شش جہت میں درافشاں

پہ گدلا ہوا جب کہ چشمہ صفا کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گیا چھوٹ سررشتہ دینِ ھدیٰ کا
رہا سر پہ باقی نہ سایہ ہُما کا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پورا ہوا عہد جو تھا خدا کا
کہ ہم نے بگاڑا نہیں کوئی اب تک۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بگڑا نہیں آپ دنیا میں جب تک
بُرے ان پہ وقت آکے پڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دنیا میں بس کر اُجڑنے لگے اب
بھرے ان کے میلے بچھڑنے لگے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنے تھے وہ جیسے بگڑنے لگے اب
ہری کھیتیاں جل گئیں لہلہا کر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھٹا کھُل گئی سارے عالم پہ چھاکر
نہ ثروت رہی ان کی قائم نہ عزت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گئے چھوڑ ساتھ ان کا اقبال و دولت
ہوئے علم و فن ان سے ایک ايک رخصت۔ ۔ مِٹیں خوبیاں ساری نوبت بہ نوبت
رہا دین باقی نہ اسلام باقی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

ملے کوئی ٹیلہ اگر ایسا اونچا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ آتی ہو واں سے نظر ساری دنیا
چڑھے اس پہ پھر اک خرد مند دانا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ قدرت کے دنگل کا دیکھے تماشا
تو قوموں میں فرق اس قدر پائے گا وہ۔ ۔ ۔ ۔ کہ عالم کو زیر و زبر پائے گا وہ
وہ دیکھے گا ہر سو ہزاروں چمن واں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت تازہ تر صورتِ باغِ رضواں
بہت ان سے کمتر پہ سر سبز و خنداں۔ ۔ ۔ ۔ بہت خشک اور بے طراوت ۔ مگر ہاں
نہیں لائے گو برگ و بار اُن کے پودے۔ ۔ ۔ ۔ نظر آتے ہیں ہونہار اُن کے پودے

پھر اک باغ دیکھے گا اُجڑا سراسر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں خاک اُڑتی ہے ہر سو برابر
نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہری ٹہنیاں جھڑگئیں جس کی جل کر
نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل۔ ۔ ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل
جہاں زہر کا کام کرتا تھا باراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاں آکے دیتا ہے رُو اَبر نیساں
تردّد سے جو اور ہوتا ہے ویراں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں راس جس کو خزاں اور بہاراں
یہ آواز پیہم وہاں آرہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اسلام کا باغِ ویراں یہی ہے

کلام ۔ خواجہ الطاف حسين حالی

غريب قوم کا مال

اعداد و شمار اکٹھے کر کے اس تحرير کا مسؤدہ 28 ستمبر 2010ء کو تيار کيا تھا تاکہ ايک دو دن بعد شائع کيا جائے مگر 28 ستمبر کی شام ميں حادثہ ميں زخمی ہو گيا

پچھلے 40 سال سے غريب قوم کا مال دونوں ہاتھوں سے لُوٹا اور لُٹايا جا رہا ہے

منگل بتاريخ 28 ستمبر 2010ء کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سرکاری بینکوں اور مالیاتی اداروں کے قرض معافی کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ عدالت نے گزشتہ 2 برس میں معاف شدہ قرضوں کی تفصیل طلب کی تو مدعيان کے وکلا نے بتايا کہ ان 2 سالوں ميں 50 ارب[50000000000] روپے کے قرض معاف کئے گئے

اسٹیٹ بینک کے وکیل نے کہا کہ یہ قرض نجی بینکوں نے معاف کئے

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نجی بینک بھی اسٹیٹ بینک کے ماتحت کام کرتے ہیں ۔ وہ خود کیسے قرض معاف کرسکتے ہیں ؟

اسٹیٹ بنک کے وکیل نے مزيد بتایا کہ 1971ء سے دسمبر 2009ء تک بینکوں نے 2 کھرب 56 ارب [256000000000] روپے کے قرض معاف کئے

سپریم کورٹ نے 1971ء سے اب تک ہرسال کے 10 بڑے قرض معافی کیسوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرض معافی سے متعلق اسٹیٹ بینک کے سرکولر 29 کا آئینی جائزہ بھی لیا جائیگا