Monthly Archives: September 2010

حالتِ زار

ميں نے ايک فلاحی سلسلہ “چھوٹی چھوٹی باتيں” شروع کيا تھا جو اللہ کے کرم سے جاری ہے
اب اللہ کے فضل سے ميں اس کے ساتھ ہی ايک اور سلسلہ “احوالِ قوم” کے عنوان سے شروع کر رہا ہوں جو قوم کا درد رکھنے والے اللہ کے ايک معروف بندے محترم خواجہ الطاف حسین حالی [1837ء تا 1914ء] کے کلام سے ہے

ايک مثال

کسی نے یہ بقراط سے جاکے پوچھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دُکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں۔ ۔ ۔ ۔ کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سُجھائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تشخیص میں سو نکا لیں خطائیں
دوا اور پر ہیز سے جی چرائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یو نہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ

ہماری قوم [ہند و پاکستان کے مسلمان]

یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دُور اور طوفان بَپا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس وپیش منڈلارہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چَپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں ۔ رعونت وہی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ۔ ۔ نہ رَشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں۔ ۔ ۔ ۔ کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلّت سے نفرت ۔ نہ عزت کا ارماں۔ ۔ ۔ ۔ نہ دوزخ سے ترساں ۔ نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انہوں نے۔ ۔کیا دینِ برحق کو بدنام انہوں نے

معافی نامہ ۔ سيلاب اور نوشہرہ

ميں نے بہتوں کا بھلا ہو گا کے عنوان سے تحرير لکھی اور اس ميں محمد سعد صاحب کی طرف سے اُٹھائے گئے صرف سوال اور اس کے جواب کی بجائے محمد سعد صاحب کی پوری چِٹھی اور اس کا ميری طرف سے پورا جواب نقل کر ديا ۔ مجھے ايسا نہيں کرنا چاہيئے تھا بلکہ صرف محمد سعد صاحب کا سوال اور اس کا جواب نقل کرنا چاہيئے تھا ۔ ايسا عمل غلط تھا ۔ اپنے اس غلط عمل پر شرمندہ ہوں ۔ اسلئے سب قارئين کے سامنے اپنی اس غلطی پر محمد سعد صاحب سے معافی کا طلبگار ہوں

سيلاب اور نوشہرہ

چونکہ ميں نے اپنی متذکرہ بالا تحرير ميں صرف محمد سعد صاحب کے سوال کا جواب ديا تھا اسلئے نوشہرہ کے سيلاب کی وجہ اور اس کے سدِ باب کی کوئی تجويز شامل نہ کی تھی ۔ چنانچہ اب اس کا مختصر بيان

نوشہرہ کے درميان ميں سے دريائے کابل گذرتا ہے جو کافی آگے جا کر جنوب کی طرف مُڑتا ہوا خيرآباد کے قريب دريائے سندھ ميں شامل ہو جاتا ہے ۔ دريائے سندھ خير آباد پہنچنے سے بہت پہلے تربيلہ کی جھيل ميں سے گذر کر آيا ہوتا ہے ۔ تربيلا ڈيم کے جنوب کی طرف اور مغرب کی طرف پشاور بلکہ حيات آباد تک ہموار علاقہ ہے ۔ نوشہرہ اس رقبہ کے درميان ميں واقعہ ہے ۔ يہاں دريائے کابل مشرق سے مغرب کی طرف بہتا ہے ۔ نوشہرہ پہنچنے سے قبل دريائے سوات اور ديگر تين چار ندی نالے دريائے کابل ميں شامل ہوتے ہيں ۔ ان کے علاوہ نوشہرہ کے بعد مگر قريب ہی دريائے کلپانی شمال سے دريائے کابل ميں شامل ہوتا ہے

پنجاب اور سندھ کے صوبوں ميں ہموار علاقوں کو سيلاب سے محفوظ رکھنے کيلئے درياؤں کے دونوں کناروں پر پُشتے بنائے گئے ہيں جنہيں حفاظتی بند کہا جاتا ہے ۔ نوشہرہ کا زيادہ حصہ دريائے کابل کی سطح کے برابر ہے جبکہ کچھ حصہ دريا کی سطح سے بھی نيچے ہے مگر شہر کو سيلاب سے بچانے کيلئے دريا کے کنارے پر حفاظتی پُشتے نہيں بنائے گئے ۔ حاليہ بارشيں کچھ اس طرح سے ہوئيں کہ دريائے کابل اور اس ميں ملنے والے تمام درياؤں اور ندی نالوں ميں صدی کی سب سے بڑی طغيانی آئی ۔ نتيجہ ظاہر ہے

اٹک خورد صوبہ پنجاب ميں ہے اور خير آباد صوبہ خيبر پختونخوا ميں اور يہ دونوں ايک دوسرے کے متصل دريائے سندھ کے آر پار واقع ہيں ۔ يہ دونوں پہاڑی علاقے ہيں اور ان کے مغرب اور جنوب کی طرف دُور تک پہاڑی علاقہ ہے جو جنوب ميں ميانوالی تک جاتا ہے جس ميں کالا باغ واقع ہے ۔ نقشہ ميں خير آباد يا اٹک خورد کے بعد دريائے سندھ کی چوڑائی بہت کم ہو جاتی ہے ايسا پہاڑی علاقہ کی وجہ سے ہوتا ہے

نوشہرہ اور کالا باغ ڈيم

نوشہرہ کے جنوب ميں دس بارہ کلو ميٹر سے پہاڑی علاقہ شروع ہوتا ہے جو کالا باغ پر جا کر ختم ہوتا ہے ۔ ان ميں مشرق سے مغرب کا رُخ رکھتے ہوئے بلند پہاڑ شامل ہيں ۔ کالا باغ نوشہرہ کے جنوب جنوب مغرب ميں ہے ۔ نوشہرہ سے کالا باغ تک سيدھی لکير کھينچی جائے تو کالا باغ کا فاصلہ تقريباً 125 کلو ميٹر ہو گا ۔ نوشہرہ کی بلندی کالا باغ سے 100 ميٹر يا 328 فٹ ہے ۔ کالا باغ ڈيم سے بننے والی جھيل کا پانی نوشہرہ ميں اُس صورت ميں پہنچ سکتا ہے کہ ڈيم کی بلندی 100 ميٹر سے زيادہ ہو ۔ اگر کالا باغ ڈيم کی اونچائی 100 ميٹر سے کم [فرض کريں 90 ميٹر] رکھی جائے تو نوشہرہ تک کسی صورت ميں پانی نہيں پہنچ سکتا اور درميان ميں کوئی خاص آبادی نہيں ہے ۔ مگر کالا باغ ڈيم بننے کی وجہ سے صوبہ خيبر پختونخوا کا ڈيرہ اسمٰعيل خان سميت بڑا علاقہ ۔ جنوبی پنجاب اور صوبہ سندھ مستقبل ميں سيلاب کی نذر ہونے سے بچ جائيں گے

رہی يہ بات کہ نوشہرہ کا کيا ہو تو اس کيلئے ايک ہی حل نظر آتا ہے کہ دريائے کابل کے کنارے مٹی سے حفاظتی پُشتے بنائے جائيں

بہتوں کا بھلا ہو گا

ہمارا ملک اور ہماری قوم تاريخ کے بد ترين سيلاب سے دوچار ہيں جس نے پونے دو کروڑ ہموطنوں کو متاءثر کيا ہے اور ملک کے بہترين زرعی علاقہ کو تباہ کر ديا ہے ۔ کھڑی فصليں ۔ برداشت کے بعد ذخيرہ کی گئی لاکھوں ٹن اجناس اور ہزاروں مويشی بھی سيلاب کی نذر ہو گئے ہيں ۔ اللہ کی طرف سے ہماری اجتماعی غلطيوں پر سرزنش ايک طرف مگر ہميں يہ نہيں بھولنا چاہيئے کہ انسان خود اپنی تباہی کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ ہماری بے راہ روی تو سزا کی مستحق ہے ہی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم صرف اپنے ماضی پر روتے اور گذر جانے والے اور موجود اپنے مفروضہ مخالفوں کو کوستے رہے مگر اپنے مستقبل کيلئے سوائے اپنی ذاتی جيبيں بھرنے کے کچھ نہ کيا

اب وقت ہے جاگنے کا اور دوسروں پر الزام دھرنے کی بجائے خود محنت کرنے کا ۔ يہ وقت بھی لد گيا تو پھر تباہی کے سوا کچھ نہيں

آج مجھے محمد سعد صاحب کی ايک چِٹھی ملی ۔ جو سوال انہوں نے پوچھا ہے وہ بہت سے ہموطنوں کے ذہنوں ميں کلبلا رہا ہو گا ۔ اس لئے ميں محمد سعد صاحب کی چِٹھی اور اس کا ميری طرف سے جواب نقل کر رہا ہوں

محمد سعد صاحب کی چِٹھی

السلام علیکم۔
کچھ دن پہلے آپ نے کسی کے بلاگ پر وزیرِ اعلیٰ صوبہ خيبر پختونخوا (یا شاید کسی اور عہدیدار) کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ

اگر کالاباغ ڈیم ہوتا تو فلاں فلاں علاقے ڈوب چکے ہوتے۔

اس وقت بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں آئی اور اب تو کافی دن گزر جانے کے باعث مجھے کچھ بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔ ذرا آسان الفاظ میں سمجھا دیجیے گا۔ شکریہ۔
والسلام۔

ميرا جواب

السلام علیکم و رحمة اللہ

جو فقرہ آپ نے مجھ سے منسوب کيا ہے اور ميں نے اسے موٹا اور

سُرخ

کر ديا ہے ۔ ايسا ميں نے نہ کبھی لکھا ہے اور نہ کبھی کہا ہے ۔ وزير اعلٰی خيبر پختونخوا امير حيدر ہوتی صاحب نے کہا تھا کہ “اگر کالا باغ ڈيم بن جاتا تو اس سے بہت زيادہ نقصان ہوتا “۔ اس بيان کا جغرافيائی اور منطقی جواز موجود نہيں ہے

شايد آپ ہی نے کبھی کہا تھا کہ آپ کو اُردو کم کم آتی ہے ۔ سو اب ميں کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو اُردو کی سمجھ کم ہے
اچھا اب ميں آسان طريقہ سے اپنے خيالات لکھتا ہوں

پہلے آپ مندرجہ ذيل ربط پر گوگل نقشہ کھولئے

http://www.nationsonline.org/oneworld/map/google_map_pakistan.htm

اس نقشہ ميں ميانوالی تلاش کيجئے جو ہائی وے اين 60 پر ہے
ميانوالی کے مغرب ميں لکی مروت ہے
لکی مروت کے جنوب ميں ذرا دور ڈيرہ اسمٰعيل خان ہے

اگر کالا باغ ڈيم بن گيا ہوتا تو

1 ۔ صوبہ خيبر پختون خوا ميں شامل ڈيرہ اسمٰعيل خان ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور اس کے شمال ميں لکی مروت تک کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

2 ۔ صوبہ پنجاب ميں ميانوالی ۔ اس کے ارد گرد کا علاقہ اور ڈيرہ غازی خان اور ملتان سميت ميانوالی کے جنوب کا علاقہ سيلابی پانی ميں ڈوبتے سے بچ جاتا

3 ۔ کالا باغ ڈيم بنانے کی وجہ سے سندھ اور بلوچستان سيلاب سے محفوظ رہتے

اب آپ ميانوالی پر نظر رکھتے ہوئے شمال کی طرف جائيں يعنی نقشے کو نيچے کی طرف سرکاتے جائيں تو آپ کو ماڑی انڈس اور کالا باغ آمنے سامنے لکھا نظر آئے گا ۔ مزيد شمال کی طرف جائيں تو پہاڑ ہی پہاڑ ہيں آبادی نہيں ہے

نوشہرہ کالا باغ سے بہت دور ہے ۔ ایک اور اہم حقیقت یہ ہے کہ نوشہرہ کی سطح کالا باغ ڈیم کی اُونچائی کی سطح سے بہر اُوپر ہے ۔ نوشہرا تک تو پانی جائے گا ہی نہیں ۔ فی زمانہ نوشہرہ میں سیلاب آتے ہیں کیا وہ کالا باغ ڈیم کی وجہ سے ہیں ؟

فی امان اللہ
الداعی الخير
افتخار اجمل بھوپال

عيد الفطر مبارک

کُلُ عام انتم بخیر
سب قارئین اور ان کے اہلِ خانہ کو عید الفطر کی خوشیاں مبارک

آیئے ہم سب مل کر مکمل خلوص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیم کے حضور عاجزی سے اپنی دانستہ اور نادانستہ غلطیوں کی معافی مانگیں اور استدعا کریں کہ
مالک و خالق و قادر و کریم رمضان المبارک میں ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرمائے
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے
جو لوگ سيلاب سے متاءثر ہوئے ہيں ان کی مدد فرمائے اور ہميں ان کی ہر طرح سے معاونت کی توفيق عطا فرمائے
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے
ہمارے ملک کو امن کا گہوارہ بنا دے
اور اسے صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین

سائنسدان اور اسلام

سائنس انسان کے مطالعہ اور محنت کا نتيجہ ہے جبکہ اسلام اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فرمان پر عمل کرنے کا نام ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہميں بہت سی ايسی معلومات فراہم کر ديں جو سالہا سال اور بعض اوقات صديوں کی محنت کے بعد انسان کے مشاہدے ميں آئيں

سب جانتے ہيں کہ کہ فرعون کی لاش محفوظ حالت ميں ملی اور اسے عجائب گھر ميں رکھا گيا ہے ۔ کچھ اس حقيقت پر حيران ہوتے ہيں اور کچھ شايد اسے سائنس کا کرشمہ قرار ديں ليکن لازوال حقيقت يہ ہے کہ جو ميرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے کہا وہ ہو گيا

فرعون کی لاش

سُورة ۔ 10 ۔ يُوْنـُس ۔ آيات 90 تا 92
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لاَ إِلِـهَ إِلاَّ الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَاْ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

ترجمہ
اور ہم بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے گئے پس فرعون اوراس کے لشکر نے سرکشی اور ظلم و تعدّی سے ان کا تعاقب کیا ۔ یہاں تک کہ جب اسے [یعنی فرعون کو] ڈوبنے نے آلیا وہ کہنے لگا “میں اس پر ایمان لے آیا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس معبود کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اب مسلمانوں میں سے ہوں”
[جواب دیا گیا کہ] اب [ایمان لاتا ہے]؟ حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ہے اور تو فساد بپا کرنے والوں میں سے تھا
[اے فرعون] سو آج ہم تیرے [بے جان] جسم کو بچالیں گے تاکہ تو اپنے بعد والوں کے لئے [عبرت کا] نشان ہوسکے اور بیشک اکثر لوگ ہماری نشانیوں [کو سمجھنے] سے غافل ہیں

انسان کی پيدائش

رحمِ مادر ميں بچے کی تخليق کے متعلق سائنسدانوں نے جو معلومات بيسويں صدی عيسوی ميں دريافت کيں وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے 14 صدياں قبل ساتويں صدی عيسوی ميں انسانوں کو بتا دی تھيں ۔ مگر يقين نہ کرنے والے کا کيا علاج ؟

سورت 23 الْمُؤْمِنُوْن آيات 12 تا 14
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ
ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

ترجمہ
یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا
پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا
پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا ۔ پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا ۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں ۔ پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ۔ پھر دوسری بناوٹ میں اسے پیدا کر دیا ۔ برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے

دو رنگ کا دريا

نيچے تصوير ميں ايسا سمندر دکھايا گيا ہے جس ميں ہميشہ دو رنگ کا پانی ہوتا ہے جيسے کہ دوجُڑواں سمندروں کے درميان نہ نظر آنے والی ديوار ہو ۔ دوسری دلچسپ خصوصيت يہ ہے کہ ايک حصے کا پانی عام سمندر کی طرح سخت کڑوا ہے اور دوسرے حصے کا پانی ميٹھا ہے ۔ يہ سمندر جنوبی افريقہ ميں کيپ ٹاؤن کے قريب واقع ہے اور اس کی دريافت بيسويں صدی عيسوی کے شروع ميں يعنی صرف ايک صدی قبل ہوئی جبکہ اس کی خبر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے 14 صدياں قبل دی تھی

سورت 55 الرَّحْمَنُ آيات 19 تا 21
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ
بَيْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ
فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

ترجمہ
چلائے دو دریا مل کر چلنے والے
اُن دونوں میں ہے ایک پردہ جو ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرے
پھر کیا کیا نعمتیں اپنے رب کی جھٹلاؤ گے

قرآن شريف کا مطالعہ کرنے کے ساتھ گرد و پيش نظر دوڑائی جائے تو اللہ کا کلام اور سچا ہونے کے کئی ثبوت مل جاتے ہيں ۔ بد بخت ہيں وہ لوگ جو قرآن شريف ميں ديئے گئے اللہ کے احکام پر عمل نہيں کرتے