Monthly Archives: September 2010

کشميريوں کی آواز کب تک نظرانداز کی جائے گی

جموں کشمير کے مسلمان اپنا انسانی اور پيدائشی حق خود ارادی مانگ رہے ہيں جو نہ صرف اقوامِ متحدہ کی چارٹر ميں شامل ہے بلکہ جنوری 1948ء ميں بھارتی حکومت کی درخواست پر منظور ہونے والی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ہے ۔ مگر بھارتی حکومت گذشتہ 63 سالوں سے ايک طرف لچھے دار بيانات دے کر اس انسانی مسئلے کو ملتوی کرتی چلی آ رہی ہے اور دوسری طرف جموں کشمير ميں ظُلم تشدد جاری رکھا ہوا ہے

متذکرہ بالا قراردادوں کے تحت تمام ارکان بالخصوص سلامتی کونسل کے ارکان جموں کشمير ميں آزادانہ رائے شماری کرانے کے پابند ہيں کہ جموں کشمير کے لوگ پاکستان ميں شامل ہونا چانتے ہيں يا بھارت ميں ليکن انسانيت کے يہ نام نہاد علَمبردار ذاتی مطلب برآری کيلئے بھارتی حکومت کی پشت پناہی کرتے آ رہے ہيں

تفصيل يہاں کلک کر کے پڑھيئے

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس

پيش لفظ
ميں نے کچھ مہربان قارئين کی فرمائش بلکہ چند کے اصرار پر جد و جہد آزادی جموں کشمير کا خلاصہ پيش کرنا شروع کيا تھا ۔ ابھی مندرجہ ذيل تحارير لکھی تھيں کہ ملک شديد سيلاب کی زد ميں آ گيا جس نے ترجيحات بدل کے رکھ ديں ۔ اب تاريخ کے ان ابواب کا باقی حصہ دہرانا شروع کرتا ہوں ۔ اللہ تو فيق دے اور ہمارے ملک کو ترقی دے

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ تاريخی پس منظر اور آغاز
ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی اور قراداد الحاق پاکستان
کيا حريت کانفرنس ميں تفرقہ ہے ؟
پاکستان کو تباہ کرنے کا منصوبہ
جموں ميں ہندو ۔ برہمن ۔ تعليم اور سياست

رياست کا جغرافیہ اور مُسلم کانفرنس
تین بڑے دریا سندھ ۔ جہلم اور چناب جموں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے دریا بھی ہیں جن میں نیلم اور توی قابل ذکر ہیں ۔ جموں کشمیر کے شمالی پہاڑوں میں مندرجہ ذیل دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ہیں
کے ٹو 8611 میٹر ۔ نانگا پربت 8125 میٹر ۔ گاشربرم ايک 8068 میٹر ۔ گاشربرم دو 8065 میٹر ۔ چوڑی چوٹی 8047 میٹر ۔ دستغل سار 7882 میٹر ۔ راکا پوشی 7788 میٹر اور کنجت سار 7761 میٹر

شیخ عبداللہ کانگرس کے نرغے میں

ميں لکھ چکا ہوں کہ 13 جولائی 1931ء کو ڈوگرہ پوليس کی سرينگر ميں مسلمانوں پر بلا جواز اور بغير وارننگ فائرنگ ميں 22 مسلمان شہيد ہوئے ۔ اس کے بعد جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء 1938ء 1942ء اور شروع 1946ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر جیتتی رہی

شیخ عبداللہ 1939ء میں اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے جھانسے میں آ گئے اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا ۔ شیخ عبداللہ کو 13 جولائی 1931ء کو کہے ہوئے ایک شہید کے آخری الفاظ بھی یاد نہ رہے کہ”ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں” ۔

مسلم کانفرنس کی بحالی

شیخ عبداللہ سے مایوس ہو کر 1941ء میں چوہدری غلام عباس اور دوسرے مخلص مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کو بحال کیا تو تقریباً سب مسلمان اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ اس وقت اعلان کیا گیا کہ ریاست کی تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا حصہ ہے

قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1944ء میں جموں کشمیر گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا جس کے دوران وہاں کے سیاستدانوں بشمول شیخ عبداللہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں ۔ 26 جون 1944ء کو سرینگر میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ “مسلمان اپنی قومی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریک جاری رکھیں” اور چوہدری غلام عباس کو مخاطب کر کے کہا “ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں”

نُکتہ دانوں کيلئے ۔ اسلامی معاشرے کا ايک نمونہ

مندرجہ ذيل ای ميل محمد سلیم صاحب نے شانتو- چين سے متعدد لوگوں کو بھيجی تھی ۔ اُن کے مطابق اُنہی نے اس واقعہ کا اُردو ميں ترجمہ کيا تھا ۔ يہ ميرے سميت کئی لوگوں کو پہنچی ۔ اس ای ميل ميں درج واقعہ کے متن کو کچھ بلاگز پر شائع کيا جا چکا ہے ۔ جہاں سے ميرے علم ميں آيا کہ ان بلاگرز کو جن لوگوں نے يہ ای ميل نقل کر کے بھيجی اصل بھيجنے والے کا نام حذف کر ديا ۔ ميرا اپنے بلاگ پر اس ای ميل کو دہرانے کا بنيادی مقصد محمد سلیم صاحب کی دعا کی درخواست قارئين تک پہنچانا ہے
ميں نے ای ميل کی تھوڑی سی تدوين کر دی ہے کہ قاری کو سمجھنے ميں آسانی رہے

محمد سليم صاحب کی ای ميل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

نوٹ: اس ایمیل کو پڑھتے ہوئے کسی لمحے آپکو اپنی آنکھوں میں نمی سی محسوس ہو تو جہاں
اپنی مغفرت کی دعاء کیجئے وہان اس خاکسار کو بھی یاد کر لیجیئے گا۔ محمد سلیم

‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –

ایسے لوگ اب پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے

دو نوجوان عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسکی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں “یا عمر یہ ہے وہ شخص”
عمر رضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں ” کیا کیا ہے اس شخص نے ؟”
“یا امیر المؤمنین ۔ اس نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں “کیا کہہ رہے ہو ۔ اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں ” کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “ہاں امیر المؤمنین ۔ مجھ سے قتل ہو گیا ہے انکا باپ”
عمر رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں ” کس طرح قتل کیا ہے ؟”
وہ شخص کہتا ہے “یا عمر ۔ انکا باپ اپنے اُونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا ۔ میں نے منع کیا ۔ باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا ”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” پھر تو قصاص دینا پڑے گا ۔ موت ہے اسکی سزا ”

نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں ۔ نہ ہی اس شخص سے اسکے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے ۔ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کی تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں ۔ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے ؟ ان سب باتوں سے بھلا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ۔ کیونکہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمر رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ کو روک سکتا ہے۔ حتٰی کہ سامنے عمر کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو ۔ قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے ” ا ے امیر المؤمنین ۔ اس کے نام پر جس کے حُکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں مجھے صحرا میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجئے تاکہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے ۔ میں اسکے بعد واپس آ جاؤں گا
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ” کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس بھی آ جائے گا ؟”

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اسکا نام تک بھی جانتا ہو۔ اسکے قبیلے ۔ خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے ۔ کون ضمانت دے اسکی ؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے ؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔ اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمر رضی اللہ عنہ سے اعتراض کرے یا پھر اس شخص کی سفارش کیلئے ہی کھڑا ہو جائے اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے

محفل میں موجود صحابہ پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے ۔ اس صورتحال سے خود عمر رضی اللہ عنہ بھی متأثر ہیں۔ کیونکہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کیلئے چھوڑ دیئے جائیں ؟ یا پھر اسکو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا

خود عمر رضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں ۔ اس صورتحال پر سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں ” معاف کر دو اس شخص کو ”
نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں ” نہیں امیر المؤمنین ۔ جو ہمارے باپ کو قتل کرے اسکو چھوڑ دیں ۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں ” اے لوگو ۔ ہے کوئی تم میں سے جو اس کی ضمانت دے ؟”
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں ” میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی”
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “ابوذر ۔ اس نے قتل کیا ہے”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں “چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو”
عمر رضی اللہ عنہ “جانتے ہو اسے ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” نہیں جانتا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ ” میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے یہ جھوٹ نہیں بول رہا ۔ انشاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا ”
عمر رضی اللہ عنہ ” ابوذر دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تیری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا ”
ابوذر رضی اللہ عنہ اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں ” امیر المؤمنین ۔ پھر اللہ مالک ہے”
عمر رضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے ۔ کچھ ضروری تیاریوں کیلئے ۔ بیوی بچوں کو الوداع کہنے ۔ اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے اور اس کے قصاص کی ادائیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے

اور پھر تین راتوں کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے ۔ انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا ۔ عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے ۔ نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے ۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں
عمر رضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں ” کدھر ہے وہ آدمی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں “مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین”
ابوذر رضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ محفل میں ہُو کا عالم ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے ؟
یہ سچ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمرؓ رضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمر رضی اللہ عنہ دیر نہ کریں کاٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں ۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے ۔ اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے ۔ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا ۔ نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے ۔ حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے
مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے ۔ بے ساختہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے۔ ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے
عمر رضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ” اے شخص ۔ اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا۔ نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا ”
وہ بولا ” امیر المؤمنین ۔ اللہ کی قسم ۔ بات آپکی نہیں ہے بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے ۔ دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں ۔ اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحرا میں تنہا چھوڑ کر ۔ جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان ۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں ۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے”
عمر رضی اللہ عنہ نے ابوذر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا ” ابوذر ۔ تو نے کس بنا پر اسکی ضمانت دے دی تھی ؟”
ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا ” اے عمر ۔ مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے”
سید عمرؓ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دو نوجوانوں سے پوچھا کہ کیا کہتے ہو اب؟
نوجوانوں نے جن کا باپ ميرا تھا روتے ہوئے کہا ” اے امیر المؤمنین ۔ ہم اس کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں ۔ ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے”

عمر رضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی ڈاڑھی کو تر کرتے نیچے گر نے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمايا ۔ ۔ ۔
” اے نوجوانو ۔ تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے”
” اے ابو ذر ۔ اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے”
” اور اے شخص ۔ اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے”
” اور اے امیر المؤمنین ۔ اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے”
‘ – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – – –
اور اے اللہ، جزائے خیر دے اپنے بے کس بندے محمد سلیم کو، جس نے ترجمہ کر کے اس ایمیل کو اپنے احباب تک پہنچایا۔
اور اے اللہ، جزائے خیر دینا انکو بھی، جن کو یہ ایمیل اچھی لگے اور وہ اسے آگے اپنے دوستوں کو بھیجیں ۔ آمین یا رب العالمین۔

آپکی دعاؤں کا طالب ہوں ۔ محمد سلیم/ شانتو – چائنا

کيا خُوب کہی ؟

بحوالہ اين آر او کے متعلق سپريم کا فيصلہ اور صدر کے خلاف سوٹزرلينڈ کيس

گزشتہ روز یہاں سینٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ
اگر ادارے ہماری عزت کریں تو ہم اداروں کی عزت کریں گے
صدر کو آصف زرداری آئین کے تحت استثنیٰ حاصل ہے جب تک وہ صدر کے منصب پر فائز ہیں ان کے خلاف بیرون ملک اور اندرون ملک کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا
صدر مملکت آرمڈ فورسز کے سپریم کمانڈر ہیں اور پارلیمینٹ کے 442 ارکان نے انہیں صدر پاکستان منتخب کیا اور وہ پارلیمینٹ کا حصہ ہیں، پارلیمینٹرین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمینٹ کی عزت کروائیں

ايک سوال ۔ کوئی ہے جو بتائے کہ آصف علی زرداری کے پاس سوٹزرلينڈ کے بنکوں ميں ايک ارب ڈالر سے زائد کيش اور پاکستان سے باہر کئی اربوں کی قيمتی جائيداد کہاں سے آئی ؟

بحوالہ يو ايس ايڈ

کیری لوگر بل کے ایک محرک اور انڈیانا سے منتخب ہونے والے سینیٹر رچرڈ لوگر نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کو دی گئی 133 ملین ڈالر کی نقد امداد اپنے مقصد کے مطابق سوات اور مالاکنڈ کے بے گھرہونے والے افراد کو نہیں پہنچ پا ئی ۔ سینیٹر لوگر نے امریکی انسپکٹر جنرل کی رپورٹ مجریہ 2009ء کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ 44 ملین ڈالر کی نقد رقم بے گھر افراد کو نہیں پہنچ سکی۔ سینیٹر رچرڈ لوگر نے رواں برس شروع ہونے والی 89 ملین ڈالر نقدر رقوم کی منتقلی کے حوالے سے اسی قسم کے تحفظات کا اظہار کیا

زرداری يا زورداری

گزشتہ روز وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو لکھے گئے استعفیٰ میں پروفیسر رانا ایم شمیم نے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ موجودہ ناموافق حالات میں کام جاری نہیں رکھ سکتے لہٰذا وہ پروفیسر اور ڈین کی حیثیت سے مستعفی ہورہے ہیں اور وائس چانسلر ان کا استعفیٰ منظور کرلیں
ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت نے رانا ایم شمیم کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ صدر آصف علی زرداری پر تشدد کرنے کے الزام میں ملوث سیکریٹری پراسیکیوشن پنجاب رانا مقبول کی وکالت سے دستبردار ہوجائیں کیونکہ رانا مقبول کی وکالت کرنا صدر آصف علی زرداری کی مخالفت کرنے کے برابر ہے لہٰذا رانا مقبول کی وکالت چھوڑ دیں یا پھر وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے ڈین اور پروفیسر کی حیثیت سے استعفیٰ دے دیں
ہفتہ کو نمائندہ جنگ سے بات کرتے ہوئے رانا ایم شمیم نے بتایا کہ وہ رانا مقبول کی وکالت کرنا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ ان کاحق ہے کہ وہ کسی کی وکالت کرتے ہیں اور کسی کی نہیں لہٰذا انہوں نے وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو استعفیٰ بھیج دیا ہے

دوستی

ايک شخص فارم ہاؤس پر رہتا تھا ۔ اُس نے بلی پال رکھی تھی ۔ ايک دن اُس نے ديکھا کہ ايک ہرن بلی کے پاس کھڑا ہے ۔ اس نے اس پر توجہ دينا شروع کی تو اسے معلوم ہوا کہ ہرن تقريباً روزانہ بلی کے پاس آتا ہے اور دونوں کچھ ديرکھيلتے ہيں پھر ہرن واپس چلا جا تا ہے ۔ آخر اس نے تصويريں لينے کا سوچا





سائنس اور سَينس

ايک “سائنس [Science]” ہوتی ہے اور ايک “سَينس [Sense]” ۔ سائنسدان [Scientist] سمجھ نہ آنے والی چيز کو “نان سَينس [Non-sense]” کہتا ہے اور جب وہی چيز اُسے سمجھ آ جائے تو کہتا ہے “اِٹ ميکس سَينس [It makes sense]”

جب ارشمِيدس [Archimedes] نہاتے ہوئے ننگا بھاگ نکلا اور بآوازِ بلند کہتا جا رہا تھا “پا ليا ۔ پا ليا [Got it, got it]”۔ اُس وقت لوگوں کيلئے وہ نان سَينس تھا مگر اُسے احساس نہ تھا کہ وہ کيا کر رہا ہے کيونکہ اُس کيلئے نان سَنس جو تھی وہ سائنس بن گئی تھی

ايک ايجاد [Invention] ہوتی ہے اور ايک دريافت [Discovery]۔ ايجاد وہ ہوتی ہے جو پہلے نہ تھی اور کسی نے نئے سرے سے بنا دی جبکہ دريافت وہ ہوتی ہے جو پہلے سے موجود تھی مگر معروف نہ تھی

انسان ازل سے ہی ہيرا پھيری کرتا آيا ہے ۔ سائنسدان خود ہی کہتے ہيں کہ مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ اسے فنا کيا جا سکتا ہے البتہ اسے ايک صورت سے دوسری صورت ميں تبديل کيا جا سکتا ہے [Matter can neither be created nor destroyed but it can change its form]۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مادہ ايک بار اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنا ديا اور وہی اسے فنا کر سکتا ہے ليکن سائنسدان “ميں نہ مانوں” پر اَڑ جاتا ہے

خير چھوڑيئے مذہبی بات کو ۔ صرف سيکولر [Secular] بات جاری رکھتے ہيں ۔ اگر مادہ نہ بنايا جا سکتا ہے اور نہ فنا کيا جا سکتا ہے تو پھر ايجادات چہ معنی دارند ؟ جن کو ايجادات کہا جاتا ہے وہ دريافتيں ہی ہوئيں چنانچہ ثابت ہوا کہ انسان نے اپنی بے عِلمی پر پردہ ڈالنے کيلئے دريافت کو ايجاد کہنا شروع کيا

ارشميدس کی مثال ليجئے ۔ وہ ٹب ميں پانی بھر کر نہانے کيلئے اُس ميں گھُسا تو ٹب ميں سے کچھ پانی باہر بہہ گيا ۔ نہ تو وہ پہلی بار نہانے لگا تھا اور نہ وہ بغير ٹب کے نہاتا تھا کيونکہ اس زمانے ميں کميٹی کے نلکے نہيں تھے اور نہ اس کے گاؤں ميں کنواں اور رہٹ تھی کہ نيچے بيٹھ کر نہا ليتا جيسے ہمارے ملک ميں ديہات ميں لوگ نہاتے ہيں ۔ ثابت يہی ہوا کہ ارشميدس پہلے نان سَنس تھا کيونکہ اُس نے پہلے کبھی توجہ ہی نہ دی تھی کہ جب وہ نہانے کيلئے پانی کے ٹب ميں گھُستا تھا تو کچھ پانی ٹب سے باہر بہہ جاتا تھا يا کم از کم پانی کی سطح بُلند ہو جاتی تھی ۔ جب اُسے عِلم ہو گيا تو سائنسدان بن جانے کی خوشی ميں ننگا ہی بھاگ کر لوگوں کے سامنے نان سينس بنا

ميں نے بات طبيعات کی کی ہے کيميا کی نہيں ۔ کيميا کی بات کرتا تو ايووگيڈرو [Avogadro] کو بيچ ميں گھسيٹنا پڑتا اور ايووگيڈڈرو پادری تھا ۔ اس طرح پھر مذہب اور سيکيولرِزم کا دنگل پڑ جاتا

چوروں کے ديس کا قانون

کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر تابش گوہر نے کہا ہے کہ کراچی کے وہ علاقے جہاں بجلی کی چوری بہت کم اور بجلی کے بل بروقت ادا کئے جاتے ہیں ان کو جلدہی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا جائے گا اور جن علاقوں میں بجلی کی بہت زیادہ اور مسلسل چوری اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی تک نہیں کی جاتی ان علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے 4 گھنٹے سے بڑھاکر 6 گھنٹے کردیا جائے گا

تابش گوہر نے کہا کہ چوری کی جانچ کیلئے ہر فیڈر پر میٹر نصب ہیں، ان سے بجلی کی چوری کا پتہ لگایا جاتا ہے، جن فیڈرز پر 40 فیصد سے زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے وہاں لوڈشیڈنگ کے دورانئے میں اضافہ، جن فیڈرز سے 10 فیصد سے کم بجلی کی چوری کی جاتی ہے وہ لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ کردیئے جائیں گے

جملہ معترضہ ۔ کہيں ايسا تو نہيں کہ تابش گوہر صاحب پنجابی ہيں اسلئے خواہ مخوا کراچی والوں کو بدنام کر رہے ہيں

بشکريہ ۔ جنگ