کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

جب سے سيلاب زدگان کی مدد کے متعلق بات شروع ہوئی ہے ” کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟ ” کافی سننے ميں آيا ۔ دريں اثنا مجھے ايک قول ياد آيا ” تعليمی سند اس بات کا اشارہ ہے کہ اب عملی زندگی ميں قدم رکھا جا سکتا ہے”

يہ ايک مسلمہ حقيقت ہے کہ تجربہ کا کوئی نعم البدل نہيں ۔ مثال کے طور پر ايک آدمی تيراکی کے جتنے بھی تحريری امتحان پاس کر لے جب تک پانی ميں ڈبکی نہيں لگائے گا تيرنا نہيں سيکھ سکتا ۔ آج ہم جن لوگوں کو سائنس کا اُستاد مانتے ہيں اُنہوں نے يہ مقام اسناد کی وجہ سے حاصل نہيں کيا تھا بلکہ يہ مقام اُنہوں نے محنت اور تجربے سے حاصل کيا

چنانچہ بجائے فلسفہ شروع کرنے کے بہتر ہو گا کہ جو تجربہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی دی ہوئی توفيق اور اللہ ہی کی رہنمائی سے ہميں اکتوبر 2005ء کے زلزلہ کے بعد امداد کے سلسلہ ميں حاصل ہوا اور اب سيلاب زدگان کی امداد کيلئے اسے اللہ کے فضل سے بخير و خُوبی استعمال کيا جا رہا ہے بيان کيا جائے

زلزلہ کی تباہی کے بعد ہم نے امداد کی پہلی کھيپ انجمن ہلالِ احمر کے حوالے کی ۔ دو دن گذرنے کے بعد بھی کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ امداد بھيجی بھی گئی ہے کہ نہيں ۔ امداد کا حجم ايک ٹرک سے زيادہ ہونے کے باعث کسی کونے کھدرے ميں تو چھپ نہيں سکتی تھی

اس کے بعد ہمارے علم ميں آيا کہ جامعہ فريديہ اسلام آباد والے بندوبست کر رہے ہيں ۔ ميں نے لال مسجد جاکر حالات معلوم کئے ۔ اُنہوں نے کہا ” وہاں نہ چولہا ہے نہ ديگچی نہ رکابی نہ پيالہ ۔ اسلئے بھنے ہوئے چنے ۔ کھجوريں ۔ چھوہارے ۔ بسکٹ وغيرہ کا بندوبست کريں ۔ دوسرے دن مجھ سے چھوٹا بھائی ايک سوزوکی پک اپ بھر کر لال مسجد پہنچا ۔ ميں کار ميں براہِ راست وہاں پہنچا ۔ يک دم جامعہ فريديہ کے چند اساتذہ اور طلباء آ گئے اور بورياں اُٹھا کر لے گئے ۔ آخری بوری مرحوم عبدالرشيد غازی نے اٹھائی تھی ۔ يہ عبدالرشيد غازی صاحب سے ميری دوسری اور آخری ملاقات تھی

دوسرے دن معلوم کيا تو وہ لوگ خود سوچ ميں پڑے تھے کہ خالی ٹرک واپس کيوں نہ آيا ۔ انہوں نے تين ٹرک اور بھيجے اور ساتھ ايک ايسے آدمی کو بھيجا جس کے پاس موبائل فون تھا ۔ اس نے بھی رات تک رابطہ نہ کيا ۔ اگلے دن اس کا فون آيا کہ متاثرہ علاقے تک جا نہيں سکتے اور نہ وہاں موبائل کام کرتا ہے کيونکہ سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ وہ واپس مانسہرہ شہر آ کر ٹيليفون کر رہا ہے ۔ اس نے بتايا کہ ٹرک کھڑے کر کے سامان کندھوں پر لاد کر ميلوں پيدل چل کے پہنچايا جا رہا ہے

اس پر ہم لوگوں نے سوچا کہ کيوں نا ہم خود ايک ايسی جماعت تشکيل ديں جس ميں کندھوں پر سامان رکھ کر پہنچانے والے بھی ہوں اور کم از کم ايک آدمی ايسا شامل ہو جو علاقہ سے اچھی طرح واقف ہو ۔ مينجمنٹ ميرے سب سے چھوٹے بھائی جو راولپنڈی ميڈيکل کالج ميں پروفيسر اور ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر ہسپتال راولپنڈی ميں سرجری يونٹ کا سربراہ ہے نے اپنے ذمہ لی ۔ تين دنوں ميں خيموں ۔ لوہے کی چادروں ۔ پينے کے پانی سے بھرے ہوئے پلاسٹک کے 10 لٹر والے کينوں اور کھانے کا خشک سامان سے لدے تين ٹرک تيار ہو گئے اور ميرا بھائی اپنی کار پر قافلے کی کمان کرتا ہوا روانہ ہوا ۔ ايک پک اپ ميں چند لوگ آگے بھيج ديئے کہ جا کر صورتِ حال کا جائزہ لے کر امدادی سامان کا خيال رکھتے ہوئے متاثرين کے ناموں کے ساتھ فہرست تيار کر ليں کہ کس کی کيا ضروت ہے ؟ اور انہيں بتا ديں کہ انہيں کوئی تکليف کرنے کی ضرورت نہيں ۔ جہاں وہ بيٹھے ہيں وہيں انہيں مطلوبہ چيزیں مل جائيں گی جو فی الحال تھوڑی ہيں بعد ميں اِن شاء اللہ اور آ جائيں گی

ٹرک جہاں تک جا سکتے تھے گئے ۔ وہاں پہلے بھيجے گئے نمائندوں ميں سے ايک آدمی اپنی پک اپ کی بجائے ايک بڑی پک اور اس کے ڈرائيور کے ساتھ کھڑا تھا جو علاقہ سے اچھی طرح واقف اور ماہر ڈرائيور تھا ۔ اس پک اپ والے نے کہا کہ “صرف ڈيزل آپ ڈلواتے رہيں ميں مزدوری نہيں لوں گا”۔ اسے جذبہ کہا جاتا ہے ۔ ميرا بھائی پک اپ پر پہلے پھيرے ميں گيا ۔ سامان پک اپ پر لاد کر دو دن ليجاتے رہے کيونکہ راستے ختم ہو چکے تھے پہاڑ کے اوپر نيچے جان ہتھيلی پر رکھے ہوئے سفر کرتے رہے

وہاں اپنا آدمی فہرست کے ساتھ موجود تھا وہ پک اپ کا سامان ديکھ کر بتاتا جاتا کہ يہ فلاں کو دے ديں يہ فلاں کو ۔ اگر کوئی از خود سامان لينے آگے بڑھتا تو اسے نہائت تحمل سے کہا جاتا کہ “جن کے نام لکھے گئے ہيں ان سب کو ملے گا ۔ صرف اپنا سامان اٹھانے ميں آپ ہماری مدد کر سکتے ہيں”

تيسرے دن ان کی واپسی ہوئی ۔ اس کے بعد ايک ايک ہفتہ کے وقفہ سے مزيد دو پھيرے لگائے گئے جن ميں ايک بار ميرا دوسرا بھائی بھی ساتھ گيا اور ايک بار ميری بھابھی بھی ساتھ گئيں تاکہ عورتوں کی مخصوص بيماريوں کے سلسلہ ميں ان کا معائنہ کر سکيں ۔ وہ ڈاکٹر ہيں ۔ مردوں اور عورتوں کی عام بيماريوں کے سلسہ ميں ميرا بھائی ہی انہيں ديکھتا رہا

اللہ کی مہربانی سے سيلاب کے سلسہ ميں بھی متذکرہ بالا تجربہ دہرايا گيا ہے اور کسی قسم کی بھيڑ چال نہيں ہوئی ۔ سب نے بڑے تحمل کے ساتھ سامان وصول کيا

زلزلہ کے سلسلہ ميں راستہ بہت دشوار گزار ہو گيا تھا اور وہاں فوری طور پر عارضی گھر بنانے کی ضرورت تھی کيونکہ ٹھنڈا علاقہ تھا اور موسم بھی سرد تھا ۔ سيلاب کے اثر سے راستہ زيرِ آب ہو گيا ہے اور پک اپ کی بجائے کشتی سے کام لينا پڑتا ہے

امدادی اداروں کے متعلق استفسار کيا جاتا ہے ۔ زلزلہ کے بعد سب سے زيادہ اور محنت سے امدادی کام ان لوگوں نے کيا جہنيں ہماری حکومت اور بہت سے ہموطن انتہاء پسند کہتے ہيں ۔سب سے آگے جماعت الدعوہ اس کے بعد جماعت اسلامی کا الخدمت ۔ چھوٹی چھوٹی جماعتيں مثال کے طور پر الشمس ۔ البدر ۔ اور ہم جيسے لوگوں نے بھی حصہ ڈالا

اب سيلاب ميں سب سے آگے پاکستان کے فوجی ہيں پھر وہی لوگ پيش پيش ہيں جنہيں انتہاء پسند کہا جاتا ہے اور ہم جيسے لوگ اپنی ہمت کے مطابق کام کر رہے ہيں ۔ رفاہی اداروں ميں جماعتِ اسلامی کا الخدمت اور فلاحِ انسانيت قابلِ ذکر ہيں

اگر لوگ باجماعت ہو کر مربوط طريقہ سے خود جا کر امداد کريں تو اس سے جو لُطف اور اطمينان حاصل ہو گا وہ کرنے کے بعد ہی پتہ چلے گا اور اس کا اجر بھی سب سے زيادہ ہے

ايک درخواست ہے کہ متاءثرين کی بھاری تعداد کھاتے پيتے لوگ تھے ۔ از راہِ کرم اُنہيں پرانے کپڑے دے کر ان کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کيجئے ۔ زلزلہ کے بعد پرانے کپڑے پہنچانے سے نہ صرف متاءثرين کی عزتِ نفس اتنی مجروح ہوئی کہ زيادہ تر لوگوں نے آنسو بہاتے ہوئے لينے سے انکار کرديا بلکہ ڈھيروں کے ڈھير کپڑے ضائع ہوئے

This entry was posted in ذمہ دارياں, روز و شب, طور طريقہ, معلومات on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

8 thoughts on “کيا کريں ؟ کيسے کريں ؟

  1. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جزاک اللہ خیر۔ سیلاب زدگان کی خدمت اس وقت سب سےاہم ضرورت ہے۔ بلکہ ہرطریقےسےان کی خدمت کرنی چاہیے۔اللہ تعالی آپ کواورہمت وحوصلہ دے۔ آمین ثم آمین

    والسلام
    جاویداقبال

  2. کاشف نصیر

    آپکی تحریر پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپکا خاندان اس قدر فعال اور خدا ترس ہے۔ ہمارے خاندان والے ماشاء اللہ سب صاحب ثروت اور اسٹیبل ہیں لیکن پھوٹی کوڑی خرچ کرتے ہوئے بھی جان جاتی ہے، البتہ قربانی بڑے شوق سے کرتے ہیں کہ لاکھوں کا جانور گراتے ہیں اور عمرہ و حج پر بھی ہر سال جاتے ہیں۔ الحمد اللہ والد محترم اور چھوٹے چچا مگر مختلف تھے، پورے خاندان میں دین اور خداترسی کو صرف ان گھروں میں زندہ رکھا گیا۔ والد محترم کا پچھلے برس انتقال ہوگیا اب گھر میں صرف افراد رہ گئے ہیں، میں ہمشیرہ اور والدہ اس لئے وہ سب کچھ نہیں کرسکتا جو پہلے آرام سے کر لیا کرتا تھا۔
    عبدل رشید غازی اور لال مسجد کا زکر کرکے آپ نے ابدیدہ کردیا، آپ کو معلوم ہوگا کہ جامعہ حفصہ میں شہید ہونے والی کئی درجن طالبات کا تعلق مالاکنڈ، ہزارا اور کشمیر زلزلہ متاثرین سے تھا جنہیں ام حسان اپنی سگی بیٹیوں کی طرح پال رہی تھیں ۔
    مجھے افسوس ہے کہ میں سیلاب زدگان کی اس طرح امداد نہ کرسکا جس طرح زلزلہ کے وقت کیا تھا، اس میں کچھ میری کمزوری بھی ہے اور مشقت روزگار اور تعلیمی سلسلہ کا قصور بھی۔ بہر

  3. محمد سعيد بالن بوري

    تقبل الله عملكم و جهدكم و سعيكم،
    ووفقكم لما يحب و يرضي، و جعل آخرتكم خيرا من الاولي، و اسأل الله للباكستانيين العفو و العافية في الدنيا و الآخرة.

  4. م بلال

    بہت اچھی تحریر اور بہت اچھا طریقہ بتایا ہے۔ زلزلہ زدگان کی امدادی کاروائیوں میں ایسے جماعت کی صورت میں کام کرنے والوں کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔ میری نظر میں یہ سب سے بہتر طریقہ ہے اس سے امداد بھی ہو جاتی ہے اور اس بات کا یقین بھی ہو جاتا ہے کہ حق والوں کو ان کا حق مل گیا ہے۔
    یوں تو جماعت اسلامی، جماعت دعوہ اور دیگر چند جماعتوں سے میری سوچ نہیں ملتی اور مجھے ان سے کئی اختلافات ہیں لیکن زلزلہ زدگان کی امداد کے حوالے سے ان کے کام اور کوششیں واقعی قابل تعریف ہیں اور یہ سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی بات ہے۔

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    کاشف نصير صاحب
    اللہ آپ کے والد محترم کو جنت الفردوس ميں جگہ عطا فرمائے
    جامعہ حفصہ ميں شہيد کی جانے والی بچوں کی بھاری تعداد زلزلہ سے بچ جانے والی لاوارث بچياں تھيں اور انہيں عبدالرشيد غازی صاحب نے گود ليا تھا اور ان کی ديکھ بھال عبدالعزيز صاحب کی بيوی اُم حسّان صاحبہ کرتی تھيں ۔ باقی بچياں بھی نادار يا يتيم تھيں ۔ ام حسان صاحبہ نے باہر نکلنے سے قبل انہيں کہا تھا کہ سب باہر چليں ليکن انہوں نے کہا کہ کہاں جائيں ہمارا اس دنيا ميں کوئی نہيں ہے ۔ ان کا بيٹا 17 سالہ حسّان ان بچيوں کا خيال رکھنے کيلئے اندر ہی رہا اور وہ بھی شہيد ہو گيا ۔ حسّان ہماری آنکھوں کے سامنے پلا بڑھا تھا ۔ دل روتا ہے اس واقعہ کو ياد کر کے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.