لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے

شعيب صفدر صاحب نے وکالت کا لطيفہ لکھ کر سب کو صلاح دی ہے کہ اپنے اپنے پيشہ سے متعلق لطيفہ لکھيں ۔ مجھے تين واقعات ياد آئے ہيں جو لطيفے کی مد ميں آتے ہيں ۔ ايک انجنيئرنگ کالج ميں تعليم کے زمانہ کا ۔ ايک ملازمت کے زمانہ کا اور ايک اُن کا جو سب کچھ جانتے ہيں

ڈاکٹر مبشر حسن جو ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور ميں وزير ماليات تھے نے پڑھاتے ہوئے بتايا کہ “نہر ميں مٹی يا ريت پانی کی سطحی تہہ ميں سب سے کم اور سب سے نچلی تہہ ميں سب سے زيادہ ہوتی ہے ۔ يہ مٹی يا ريت نہر ميں بيٹھ جاتی ہے جس سے بہنے والے پانی کا راستہ کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے” ۔ [In canal, silt is minimum in the upper most layer of water and maximum in the lowest layer. This silt settles down at bottom of the channel thus reducing flow channelاچانک اُنہوں نے پوچھا کہ “اس کا حل کيا ہونا چاہيئے ؟” ايک طالب علم بولا “سب سے نچلی تہہ کو ہٹا ديا جائے” [Lowest layer of water should be removed]

پاکستان آرڈننس فيکٹری ميں نئے چيئرمين آئے فيکٹری کے دورے کے بعد اُنہوں نے سٹورز کا بھی دورہ کيا ۔ ايک سٹور ميں انہوں نے ديکھا کہ کچھ ميٹيريل[material] زنگ آلود [rusty] ہے ۔ وجہ پوچھی تو بتايا گيا کہ گريس [greese] نہيں لگائی اسلئے زنگ لگ گيا ۔ چيئرمين صاحب نے حکم ديا کہ “سب ميٹيريل کو گريس لگائی جائے”۔ اگلے ماہ چيئرمين صاحب کے پاس گرائنڈنگ وہيلز [grinding wheels] کی درآمد کی منظوری کيلئے ايک بہت بڑا مطالبہ پہنچا ۔ چيئرمين صاحب نے پريشان ہو کر پوچھا کہ “سٹور ميں اتنے زيادہ گرائنڈنگ وہيلز ميں نے خود ديکھے تھے ۔ وہ کيا ہوئے ؟” جواب ملا کہ “ان کو گريس لگی ہوئی ہے اسلئے وہ گرائندنگ کا کام نہيں کرتے”

واہ کے دورہ پر آئے ہوئے کراچی کے ايک وفد کو اُن کی خواہش پر پاکستان آرڈننس فيکٹريز فيکٹری کی سير کرائی گئی جس ميں اُنہيں صرف بندوق کے کارتوسوں کے خول [cartridge cases] بنتے دکھائے گئے تھے ۔ ميں کراچی گيا اور اپنے ماموں کے پاس قيام کيا جو اُن دنوں پی ای سی ايچ ايس ميں رہتے تھا ۔ شام کو اُن کے ساتھ سنٹرل ہوٹل کے مالک اپنے ايک عزيز بزرگ مرحوم عبدالکريم صاحب سے ملنے گئے ۔ اُنہيں ميں چچا کہتا تھا ۔ چچا کے پاس کچھ اُن کے مقامی دوست بيٹھے تھے ۔ جب چچا نے ميرا تعارف کرايا تو ايک صاحب بولے “آپ کی فيکٹری لِپ سٹِک پاؤڈر کے علاوہ اور تو کچھ بنا نہ سکی”۔ ميں نے پہلے اُن کی طرف پھر چچا کی طرف ديکھا تو چچا مُسکرا کر بولے “ہاں ۔ ان کے سوال کا جواب دو”۔ ميں نے کہا “جناب پی او ايف اسلحہ بنانے کا کارخانہ ہے آپ کو کس نے بتايا ہے کہ وہاں لِپ سٹِک پاؤڈر بنتا ہے ؟” بولے “ميرے گھر پر ثبوت موجود ہے ۔ ميں وہاں گيا تھا اور لِپ سٹِک کا ايک خول اُٹھا لايا تھا”۔ اُس زمانہ ميں لِپ سٹِک کا خول بھی پيتل کا ہوتا تھا ۔ موصوف نے کارتوس کے خول کو لِپ سٹِک کا خول سمجھ ليا تھا

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

12 thoughts on “لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے

  1. عثمان

    ہا ہا ہا
    آپ کو کہہ دینا چاہیئے تھا کہ جناب۔۔۔ہم صرف خول بناتے ہیں۔ بارود آپ لگاتے ہیں۔ :-D

  2. Pingback: Tweets that mention What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » لطيفے شعبہ انجنئرنگ کے -- Topsy.com

  3. Md

    لطیفے شائستہ ھیں اوراچھے ھیں- آپ کی تحریروں سے اندازہ ھوتا ھے کہ آپکو سچائ اورحقیقت جاننے کا عشق ھے اور اسی کیلئے سرگرداں رھتے ھیں-آپ نے اسرائیل پر شاندار تحقیقی مضمون لکھاھے -اُس مضمون میںآپ نے لفظ اسرائیل کے معنیٰ عبدللہ یا اللہ کا بندہ لکھا ھے میرے خیال میں آپ نے جس زریعے سے یہ معنی حاصل کئے ھیں وہ معتبر نہیں ھے– بائبل میں اسطرح ھے-اچانک اندھیرا چھا گیا -پھر یعقوب (ع( نے اپنے آپ کو ایک آدمی سے گتھم گتھا پایا رات بھر کُشتی ھوتی رھی صُبح آدمی نے کہا اب مجھے جانے دو -یعقوب (ع( کو شک ھوگیا کہ یہ خدا ھے-یعقوب (ع( نے کہا مُجھے برکت دو پھر میں تمہیں چھو ڑوں گا-تو خُدا نے کہا جاوء آج سے تُمھارا لقب اسرائیل ھے یعنی” خُدا سے کُشتی کر نے والا “- یہودی اس بات پر فخر کرتے ھیں کہ-ھم ویسے ھی ایمان نہیں لاےء بلکہ خُدا سے کُشتی کرکے ایمان لاےء ھیں-شُکریہ-

  4. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ايم ڈی صاحب
    يہ من گھڑت کہانی ہے جس کو سچا ثابت کرنے کيلئے اسراءيل کا غلط ترجمہ کيا گيا ہے ۔ ميں نے اس سلسلہ ميں کئی دہائياں مطالعہ کيا اور کچھ عيسائيوں کی لکھی ہوئی کُتب سے بھی استفادہ کيا ۔ انہوں نے بھی يہی ترجمہ لکھا ہے جو ميں نے لکھا ہے

  5. Md

    محترم افتخار بھائ آپ بجا فرمارھے ھیں -چونکہ آپ سچ کی تلاش میں سرگداں رھتے ھیں-اسلئے میں نے سوچا کہ بائبل کا حوالہ کوٹ کروں کہ اس سے معتبر زریعہ کیا ھوگا-لیکن آپ کا کہنا ھے کہ آپ کے زرایعے زیادہ معتبر ھیں توبات ھی ختم ھوگئ – میں بحث سے دُور بھاگتاھوں ‘ میرا نعرہ ھے” ھار قبول بحث سے دور’ اسکی وجہ یہ ھے کہ بحث میں رنجش کے علاوہ ھاتھ کچھ نھیں آتا ھے- افتخار بھائ میں یھاں دو حوالے اور دے رھا ھوں ھو سکے تو ان کو دیکھ لیجےء گا- آپ کے معیار پر پُورے اُتریں تو قبول کریں ورنہ رد کردیں- یہ حوالے میں اسلیئے دے رھا ھوں کہ آپ سچ کی تلاش میں رھتے ھیں – مشہور محقیق کیرن آرم سٹرانگ کتاب- اے ھسٹری آف گاڈ-،دوسرے محقیق رابرٹ ونسٹن- کتاب دی اسٹوری آف گاڈ- دونوں کتابوں میں آپکو خُدا سے کُشتی کے حوالے اور لفظ اسرائیل کے معنی مل جائیں گے-شُکریہ-

  6. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ايم ڈی صاحب
    بحث ميں بھی پسند نہيں کرتا اگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہو ۔ جس انجيل کا آپ ذکر کر رہے ہيں اُس ميں لکھا ہے کہ سيّدنا عيسٰی عليہ السلام کو نعوذ باللہ من ذالک سولی پر چڑھايا گيا اور وہ اللہ کے بيٹے تھے ۔ کيا آپ اس پر بھی يقين کر ليں گے جبکہ اللہ تعالٰی نے قرآن شريف ميں بتا ديا کہ اُنہوں نے کتاب ميں تحريف کی ۔ عيسائيوں اور يہوديوں نے جو مطلب لکھے ہيں ۔ ميں نمونے کے طور پر چار روابط دے رہا ہوں
    http://www.christinyou.net/pages/israel.html
    http://www.babynamesfamily.com/meaning_of_names/hebrew_name_Israel.html
    http://www.babyhold.com/list/Hebrew_Baby_Names/Israel/details/
    http://www.abarim-publications.com/Meaning/Israel.html

  7. پھپھے کٹنی

    آپ بھی واہ فيکٹری ميں تھے ميرے ابا حضور بھی وہاں کام کرتے تھے ليکن وہ افسر نہيں تھے شايد آپ انہيں جانتے نہ ہوں

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اسماء بتول صاحبہ
    يہ جان کر خوشی ہوئی کہ جس فيکٹری ميں ميں نے مزدوری کی اُس ميں آپ کے والد محترم بھی تھے ۔ کيا معلوم ان سے ملاقات ہوئی ہو ۔ ميں تو اُلٹی حرکتيں کرنے والا آدمی ہوں ۔ شيطان کی طرح مشہور تھا ۔ آپ کو کس نے کہا ميں افسر تھا ۔ افسر ہوتا تو لندن ميں ميرا گھر ہوتا ۔ ميں تو اپنا مکان بھی نہ بنوا سکا اور نہ مجھے جہيز ميں ملا ۔ افسر اگر خود مالدار نہ ہوں تو ان کی بيوياں کروڑ پتی ہوتی ہيں
    :roll:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.