Monthly Archives: April 2010

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ مسلک

وسط فروری 2010ء ميں ہم يعنی مياں بيوی علامہ اقبال ايئرپورٹ پر بيٹی کو لينے گئے جو ايک عشرہ کيلئے دبئی اپنے بھائی کے پاس گئی تھی ۔ ہم بين الاقوامی آمد والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے کہ کچھ دير بعد درجن بھر سبز پگڑيوں والے باريش لوگ آئے جن کے ہاتھوں میں سبز ریشمی کپڑے کے گوٹہ لگے جھنڈے بھی تھے ۔ وہ گانے لگے جو مجھے سمجھ آیا وہ يہ تھا ۔ نبی کا جھنڈا پيارا جھنڈا ہمارا جھنڈا ۔ نبی کی آمد مرحبا ۔ رسول کی آمد مرحبا ۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی کہہ رہے تھے جو کچھ مجھے سمجھ نہيں آيا اور کچھ بھول گيا ہوں ۔ وہ اس طرح سے گا رہے تھے کہ شور محسوس ہوتا تھا ۔ ایک گھنٹہ بعد ہمارے وہاں سے واپس آنے تک وہ متواتر گا رہے تھے صرف عشاء کی اذان کيلئے خاموش ہوئے

میری بیٹی کا بارہويں جماعت کا سالانہ امتحان ہو رہا تھا [1990ء]۔ دفتر سے چھٹی ہوئی میں گھر پہنچا تو شور کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہ ديتی تھی ۔ گھر میں داخل ہوا تو کھڑکيوں کے شيشے کھڑکھڑا رہے تھے ۔ بيٹی نے آنسوؤں کے ساتھ ميرا استقبال کرتے ہوئے کہا “ابو ۔ کل ميرا پرچہ ہے اور صبح سے اس شور کی وجہ سے ایک لفظ نہیں پڑھ سکی”۔ اندازہ لگانے کيلئے کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے گھر کے پائیں باغ میں نکلا ۔ دیکھا کہ پيچھے آفيسرز میس کے ملازمین کے کوراٹروں کے ساتھ جو چھوٹی سی مسجد بنی ہے اس کے چھوٹے سے مينار پر چار لاؤڈ سپیکر لگے ہیں اور اُس پر فلمی گانوں کی نقل نعتیں پڑھی جا رہی ہيں ۔ آواز اتنی اوُنچی کہ میں دونوں کانوں کو اپنی ہتھيليوں سے بند کرنے کے بعد سجھ سکا کہ گايا کيا جا رہا ہے

اس 8 فٹ چوڑی 7 فٹ لمبی اور 8 فٹ اُونچی مسجد کی تاریخ يہ ہے کہ آفيسرز ميس جی ايم ہاؤس کے پيچھے آٹھ دس سرونٹ کوارٹر بنے ہوئے تھے جن ميں آفيسرز ميس کے ملازمين رہتے تھے ۔ 1972ء ميں پيپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اُن دنوں جی ايم ہاؤس ميں پروجيکٹس کے دفاتر بنے ہوئے تھے جو عارضی تھے مگر اس کی وجہ سے سرونٹ کوارٹرز خالی تھے ۔ اُوپر سے حُکم آيا کہ يہ کوارٹر لوگوں کو الاٹ کر ديئے جائيں ۔ جن کی سفارش کی گئی تھی وہ ہر جماعت ميں اپنا نام لکھانے والے کھڑپينچ تھے ۔ ايک دو سال بعد اُنہوں نے اپنے کوارٹروں کے ساتھ سرکاری زمين پر يہ مسجد بنا لی حالانکہ اس علاقے کی بڑی مسجد وہاں سے صرف تين منٹ کی پيدل مسافت پر تھی

ميں آفيسرز ميس پہنچا ۔ مسجد کے اندر کوئی لاؤڈ سپیکر نہيں لگايا گيا تھا کيونکہ بغير سپيکر کے مسجد کے اندر بولنے والے کی آواز مسجد کے باہر پہنچ سکتی تھی آفيسرز ميس کے دوسری طرف جا کر تاکہ شور کم ہو اور ايک دوسرے کی بات سُنی جا سکے منتظم کو بلایا ۔ مُنتظم آئے ۔ وہ اسسٹنٹ منيجر ايڈمن تھے جو ماسٹر اِن ايڈمن سائنس [Master in Admin Science] تھے منتظم سے میں نے کہا ” مسجد میں امام ظہر اور عصر کی نماز آواز کے ساتھ نہیں پڑھاتے ۔ اب عصر کی نماز ہونے والی ہے ۔ اس مسجد میں ايک لاؤڈ سپيکر کی بھی ضرورت نہیں اور آپ نے اُوپر چار لگا رکھے ہیں اور وہ بھی فُل واليوم پر صبح سے اب تک متواتر محلہ والوں کو بيزار کئے ہوئے ہیں ۔ کوئی مريض آرام کرنا چاہتا ہے ۔ کوئی طالب علم امتحان کی تياری کرنا چاہتا ہے”
جملہ آيا “آپ کا مسلک دوسرا ہے”
میں نے کہا “آپ کو کيسے معلوم ہوا کہ ميرا مسلک کیا ہے ؟ آپ تو مجھے زندگی میں پہلی بار مل رہے ہیں”
جواب میں خاموشی
میں نے سوال کیا ” يہ مسلک کيا ہوتا ہے اور آپ کا مسلک کيا ہے ؟”
جواب ملا ” میں بریلوی ہوں ”
میں نے کہا “احمد رضا بریلوی صاحب کی وہ کتاب دکھايئے جس میں لکھا ہے کہ اس طرح محلہ والوں کو بيزار کرو”
جواب میں خاموشی
میں نے پوچھا “آپ نے احمد رضا صاحب کی کونسی کتاب پڑھی ہے ؟”
جواب ملا “کوئی نہيں”
میں نے التجا کی “پھر يہ لاؤڈ سپیکر بند کر ديجئے”
جواب ملا “يہ نہيں ہو سکتا”

اسی دوران ايک اسسٹنٹ منيجر فنانس جو مجھے جانتے تھے آ کر کھڑے ہو چکے تھے ۔ اُنہوں نے اپنے ساتھی کو مخاطب کر کے کہا ” جانتے ہو یہ کون ہیں ؟ اگر يہاں آنے کی بجائے يہ ایک ٹیلیفون کر ديتے تو سب کچھ اب تک بند ہو چکا ہوتا”
مگر اُن صاحب پر کوئی اثر نہ ہوا

ميرے پاس سوائے اپنی سرکاری حيثيت استعمال کرنے کے کوئی چارہ نہ رہ گيا تھا ۔ میں نے گھر پہنچ کر چيف ايڈمن آفيسر اور اسٹیشن کمانڈر دونوں کو ٹیليفون کیا جس کے بعد آدھے گھنٹہ کے اندر لاؤڈ سپيکر خاموش ہو گئے

سوتيلا بيٹا يا سوکن

بجلی کی ڈیمانڈ اورشارٹ فال کم ہونے کے باوجود لوڈ شيڈنگ کے دورانیہ میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ لاہور سمیت پنجاب بھر میں 11 سے 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے ۔ پیپکو کے اعداد و شمار کے مطابق بجلی کی پیداوار 10 ہزار 3 سومیگا واٹ جبکہ موسم میں بہتری سے ڈیمانڈ کم ہوکر 14 ہزار 6 سو میگا واٹ پر آ گئی ہے اور شارٹ فال 4 ہزار 6 سومیگا واٹ ہوگیا ہے ۔ لاہور میں ہر گھنٹے بعد ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے جبکہ آج 7 سے زائد گرڈ اسٹیشنز کو مرمت کے نام پر 10 گھنٹے سے زائد بند رکھا جا رہا ہے

Jang Online Updated at 1500 PST on April 19, 2010

پنجاب پنجاب پنجاب

ہر طرف سے آواز اُٹھتی رہتی ہے ۔ پنجاب کھا گيا ۔ پنجاب پی گيا ۔ پنجاب يہ ۔ پنجاب وہ

جب تک ميں اسلام آباد ميں تھا ميں بھی سمجھتا رہا کہ پنجاب والے زيادتی کرتے ہوں گے ۔ اللہ کا کرنا ايسا ہوا کہ ميں 18 جولائی 2009ء کو پنجاب کے صدر مقام اور بقول شخصے پاکستان کے دِل لاہور ميں آ بسا ۔ کچھ ماہ تو اپنے جھنجھٹ نبيڑنے ميں لگے پھر آہستہ آہستہ گِرد و پيش کا جائزہ شروع ہوا

ميں بجلی کی ترسيل کے بارے ميں ہميشہ کراچی والوں پر ترس کھاتا رہا تھا ۔ جب اپنے پر بنی تو سمجھ آئی کہ لاہور ميں بجلی بڑھ چڑھ کر اپنا ہاتھ دکھاتی ہے ۔ لاہور ميں قيام کے دوران 24 ميں سے 10 سے 16 گھنٹے بجلی کے بغير گذارنے پڑے جبکہ ہم لاہور کے بہترين علاقہ ميں رہ رہے ہيں ۔ بہت سے لوگوں کے يو پی ايس جواب دے گئے ۔ اس دوران مجھے بھی ايک نئی بيٹری مبلغ 7500 روپے ميں خريدنا پڑی کيونکہ جو بيٹری 2008ء ميں خريد کی تھی وہ مر گئی تھی ۔ جب درجہ حرارت 40 سے 45 درجے سيلسيئس [Celcius] ہو اور بجلی غائب تو ہوش ٹھکانے آ جاتے ہيں ۔ اور اس حال ميں جب ملتان ہو جہاں درجہ حرارت 50 درجے سيلسيئس تک پہنچ جاتا ہے تو اس بارے ميں قدير احمد جنجوعہ صاحب ہی بہتر بتا سکتے ہيں ۔ کراچی کا درجہ حرارت کبھی 33 درجے سيلسيئس سے اُوپر نہيں گيا ۔ لاہور ميں پچھلے کچھ دنوں سے ميرے سونے کے کمرہ ميں جس کی کسی ديوار يا چھت پر دھوپ نہيں پڑتی درجہ حرارت دن رات کا اکثر حصہ 32 سے 33.5 درجے ہوتا ہے

بجلی کے بارے ميں 17 اپريل 2010ء کو اسلام آباد ميں ايک اجلاس بُلايا گيا ۔ شائد ” پنجاب کھا گيا ” کے شور شرابے کے زيرِ اثر صرف پنجاب کے وزيرِ اعلٰی کو بلايا گيا تھا ۔ وزير اعظم يوسف رضا گيلانی صاحب ۔ وزير پانی و بجلی اُس وقت حقا بقا رہ گئے جب وزير اعلٰی پنجاب محمد شہباز شريف نے کہا “جو صوبہ بجلی کے سلسلہ ميں واپڈا کے واجبات باقاعدگی سے ادا کرتا ہے وہاں پر لوڈ شيڈنگ زيادہ کی جا رہی ہے اور جن صوبوں کے ذمہ واپڈا کے اربوں روپے واجب الادا ہيں وہاں بجلی کی لوڈ شيڈنگ کم کی جا رہی ہے ۔ آخر ايسا کيوں ہے ؟ ہونا تو اس کا اُلٹ چاہيئے”۔ [آجکل بجلی کی ترسيل لاہور ميں قائم واپڈا يا پيپکو کی بجائے اسلام آباد ميں قائم سينٹرل کنٹرول اتھارٹی کنٹرول کر رہی ہے]

وزير اعظم صاحب نے واپڈا کے اعلٰی عہديدار سے دريافت کيا تو معلوم ہوا کہ نہ پنجاب کے کسی سرکاری محکمہ کے ذمہ واپڈا کا ايک پيسہ واجب الادا ہے اور نہ پنجاب کے نجی اداروں کے ذمہ کوئی بِل واجب الادا ہے جبکہ باقی تينوں صوبوں کے سرکاری محکموں کے ذمہ اربوں روپے کے بِل واجب الادا ہيں ۔ اس پر وزير اعظم صاحب نے پير 19 اپريل کو اجلاس جاری رکھنے اور باقی تين صوبوں کے وزراء اعلٰی کو اجلاس ميں حاضر ہونے کا حُکم ديا ۔ اب ديکھتے ہيں نتيجہ کيا نکلتا ہے

عورت کا دماغ کيسے کام کرتا ہے

مجھے اپريل 2010ء کے شروع میں دو برقی پيغامات آئے جن ميں سے ايک بين الاقوامی آن لائن اخبار کی طرف سے تھا اور دوسرا ايک خاتون کی طرف سے جو تعليميافتہ اور شادی شدہ ہيں اور پاکستان ميں سرکاری افسر بھی رہ چکی ہيں چند سالوں سے بيرونِ مُلک ہيں ۔ دونوں نے عورت کے دماغی عمل کی وضع کاری بھيجی ہے جسے ميں فی الحال سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس کا آخری حصہ غور طلب ہے

ايک خيال

کہتے ہيں کہ ميرے ہموطن بہت ذہين ہوتے ہيں اور بڑے بڑے معرکے سر کر ليتے ہيں گو مجھے سوائے مال کمانے کے کچھ نظر نہيں آيا

کوپن ہیگن [ڈنمارک] میں قائم ایک Five Star Hotel, Crowne Plaza نے اپنے مہمانوں کو پیشکش کی ہے کہ 15 منٹ تک ورزشی سائیکل کی پیڈلنگ کرنے پر انہیں 36 ڈالر تک مفت کھانے کی سہولت حاصل ہو گی ۔ سائیکل چلانے والے اپنا موٹاپا ۔ کوليسٹرال اور شوگر کم کرنے کے ساتھ کھانا بھی مفت کھا سکتے ہيں

کتنی اچھی پيشکش ہے ؟

دراصل اس ہوٹل نے ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کا طریقہ کار اپناتے ہوئے ان ورزشی سائیکلوں کے ساتھ جنریٹر منسلک کئے ہوئے ہیں جو بجلی پیدا کرتے ہیں ۔ ايک آدمی 15 منٹ سائيکل چلا کر 10 watt-hour بجلی پيدا کرتا ہے يعنی ايک سائيکل سے ايک گھنٹہ ميں 40 watt-hour بجلی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ اس طریقہ کار کے ذریعے ماحو ل کاربن ڈائی آکسائیڈ سے محفوظ رہیگا

يہ طريقہ ہمارے مُلک کی اہم ضرورت ہے پھر کيوں ہمارے ہاں ايسا خيال کسی کو نہيں آتا ؟

بھارتی حکومت کا سيکولرزم ؟

مقبوضہ جموں کشمير ميں ایس ایم ایس پر پابندی
جموں و کشمیر میں پری پیڈ موبائل فون سرو س [Prepaid Mobile Phone Service] پر ڈھائی ماہ کی پابندی کے بعد حکومت ہندوستان نے ریاست میں اب ایس ایم ایس سروس پر پابندی عائد کرنے کے احکامات صادر کر ديئے ہیں ۔ مواصلاتی کمپنیوں [Telecom companies] سے کہا گیا ہے کہ وہ صارفین کو ایس ایم ایس سروس بند کرکے سرکاری احکامات پر فوری عمل درآمد شروع کریں جو 16 اور 17 اپريل کی درمیانی رات سے لاگو ہو چکے ہيں ۔ اس دوران پری پیڈ موبائل سے جموں کشمير ميں رہنے والوں کو بھیجے جانے والے پیغامات کو بھی محدود کردیا گیا ہے چنانچہ مواصلاتی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ بھارت اور دنیا کے دیگر خطوں سے بھی جموں و کشمیر کی حدود میں کو ئی ایس ایم ایس موصول نہیں ہونا چاہيئے

تفصيل پڑھنے کيلئے يہاں کلِک کيجئے

بينظير کا قتل ۔ چند حقائق

ميں نے کبھی پی پی پی کو ووٹ نہيں ديا ليکن 27 دسمبر 2007ء کو ساڑھے پانچ بجے شام مجھے اُس کے قتل کی خبر موبائل فون پر ملی تو برملا ميرے منہ سے نکلا “ظُلم ۔ ظُلم ۔ بہت بڑا ظُلم “۔ ميرے ارد گرد اجنبی لوگ ميری طرف سواليہ نظروں سے ديکھنے لگے ۔ ميں نے جب اُنہيں خبر بتائی تو اُنہوں يقين نہيں آ رہا تھا

پچھلے سوا دو سال ميں بہت کچھ پڑھا اور سنا جا چکا ہے اور اب اقوامِ متحدہ کے خاص کميشن کی رپورٹ کے کچھ حصے بھی سامنے آ چکے ہيں ۔ کميشن کی رپورٹ کے مطابق “27 دسمبر 2007ء کو کيا ہوا” پڑھنے کيلئے يہاں کلک کيجئے

جو حقائق ميرے علم ميں تھے اور مجھے ابھی تک ياد ہيں

سرکاری اہلکاروں کے ساتھ ميٹنگ ميں فيصلہ ہوا تھا کہ بينظير مری روڈ سے لياقت روڈ کے راستے لياقت باغ ميں داخل ہو نگی اور جلسہ ختم ہونے پر لياقت باغ سے باہر نکل کر داہنی طرف مُڑ کر آنے والے راستہ پر جانے کی بجائے بائيں طرف مُڑ کر لياقت روڈ پر سے ڈی اے وی کالج چوک سے بائيں مُڑ کر گوالمنڈی کے راستہ واپس جائيں گی ۔ مگر جب جلسہ کے بعد اُن کی گاڑی لياقت باغ سے باہر نکلی تو بائيں طرف لياقت روڈ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھيں چنانچہ خلافِ توقع داہنی طرف مُڑنے کی وجہ سے گاڑی کو مُڑنے ميں زيادہ وقت لگا اور لوگ اکٹھے ہو گئے

لياقت روڈ کے دوسرے سرے پر راجہ بازار کے پاس ڈسٹرکٹ ہيڈ کوارٹر ہسپتال لياقت باغ سے صرف دو منٹ کی ڈرائيو پر تھا جہاں تمام عملہ عام قوانين کے تحت ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کيلئے تيار تھا مگر اُس طرف کا راستہ بند کر ديا گيا

رحمان ملک بينظير کا سيکيورٹی ايڈوائزر تھا اور بينظير کی ملکيت اُس بُلٹ پروف گاڑی ميں سوار تھا جو کسی بھی ايمرجنسی کی صورت ميں بينظير نے استعمال کرنا تھی ۔ لياقت باغ آتے ہوئے يہ گاڑی اُس گاڑی کے پيچھے چلتی رہی جس ميں بينظير سوار تھيں مگر لياقت باغ سے واپسی پر وہ گاڑی سب سے پہلے لياقت باغ سے نکلی اور جب تک بينظير کی گاڑی لياقت باغ سے نکل کر داہنی طرف مڑ رہی تھی رحمان ملک زرداری ہاؤس ايف 8 اسلام آباد پہنچ چکا تھا

ضروری شواہد اکٹھے کئے بغير اور کسی قسم کی تفتيش کے بغير جائے وقوعہ کی دھلائی کر کے تمام نشانات مٹا ديئے گئے

پوليس مقتول کا پوسٹ مارٹم ہر صورت ميں کراتی ہے اور اس سلسلہ ميں کبھی مقتول کے ورثاء کی رائے نہيں لی جاتی مگر بينظير کا پوسٹ مارٹم کرنے کيلئے ہسپتال کے ڈاکٹر اسرار کرتے رہے مگر پوليس نے پوسٹ مارٹم نہ کرنے دیا

آصف زرداری ۔ بلاول زرداری يا پی پی پی ميں سے کسی نے اس قتل کی ايف آئی آر کٹوانے کيلئے پوليس کو درخواست نہ دی جو عمل سمجھ سے باہر ہے

پی پی پی کی حکومت بن جانے کے بعد بھی کوئی تحقيقات يا تفتيش نہ کروائی گئی

پی پی پی کی حکومت نے يہ جانتے ہوئے کہ اقوامِ متحدہ قاتل کا تعين نہيں کرتی عوام پر ٹيکس لگا کر وصول کئے گئے لاکھوں ڈالرز کے عوض تحقيقات اقوامِ متحدہ کے حوالے کیں ۔ پھر اقوامِ متحدہ کے کميشن کو متعلقہ عہديداران سے تفتيش بھی نہ کرنے دی گئی اور رپورٹ کو جلد مکمل ہونے سے روکنے کيلئے بار بار روڑے اٹکائے گئے

سوال يہ ہے کہ بينظير کو قتل کروانے والے کون ہيں ؟ حقيقت تو اللہ جانتا ہے يا قتل کروانے والے جانتے ہيں مگر حالات و واقعات تو پرويز مشرف اور آصف علی زرداری کی طرف اشارہ کرتے ہيں