Monthly Archives: April 2010

راجہ داہر اور گاندھی کن کے ہيرو ہيں

پچھلے دنوں ايک نئے اُردو بلاگر اطہر ہاشمی صاحب نے حاجی عديل صاحب کے راجہ داہر کو ہيرو کہنے کا ذکر کيا ۔ اتفاق سے ميں اس کے متعلق ايک تاريخ دان کی تحرير نقل کرنے ہی والا تھا ۔ سو حاضر ہے

غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوچکی تو ایک روز حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبدالرحمن اپنے والد گرامی سے ملے اور کہنے لگے کہ بدر کے میدان میں ایک موقع پر آپ کی گردن میری تلوار کی عین زد میں آگئی تھی لیکن میں نے آپ سے رشتے کا احترام کرتے ہوئے تلوار کا رخ موڑ دیا ۔ ظاہر ہے کہ اس وقت تک عبدالرحمن نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، چنانچہ وہ کفار کی جانب سے میدان میں اترے تھے ۔ یہ بات سن کر حضرت ابوبکر نے ایسا جواب دیا جس نے رشتوں کے درمیان حد فاصل کی وضاحت کردی ۔ آپ نے کہا کہ صاحبزدے اگر تمہاری گردن میری تلوار کی زد میں آجاتی تو خدا کی قسم میں اسے کاٹ کر تن سے جدا کردیتا

خون کے رشتے مذہب کے رشتوں کے مقابلے میں باطل ٹھہرے اور یہی وہ بات ہے جو ہمارے ان روشن خیال، سیکولر ازم پر فخر کرنے والے ا ور
نام کے مسلمان دانشوروں، لکھاریوں اور نام نہاد مؤرخین کو سمجھنی چاہيئے جو ہر وقت یہ رٹ لگاتے پائے جاتے ہیں کہ ہم اور ہندو اور سکھ ایک ہی نسل سے ہیں، اس لئے اختلافات اور علیحدگی چہ معنی ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ اگر قائد اعظم بھی ہمارے ان روشن خیال اور سیکولر دانشوروں کی مانند ہوتے تو وہ کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کا بہترین حصہ اس موقف کی وضاحت پر صرف نہ کرتے کہ مسلمان ہر لحاظ، تعریف اور معیار کے مطابق ایک الگ قوم ہیں اس لئے وہ ایک الگ وطن چاہتے ہیں ۔ قائد اعظم اپنے مذہب اور عقیدے کی روح سے شناسا تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب ان کی اکلوتی اور نہایت چہیتی بیٹی دینا جناح نے ایک پارسی نوجوان سے شادی کرنے کا ارادہ کیا تو بقول سیٹنلے والپرٹ (جناح آف پاکستان) قائد اعظم نے دینا کو بلایا، نہایت محبت سے اسے سمجھایا اور کہا کہ ہندوستان میں کروڑوں مسلمان نوجوان ہیں جو تم سے شادی کرنے پر فخر محسوس کریں گے ، تم کسی بھی مسلمان نوجوان کو اپنا جیون ساتھی منتخب کر لو میں اس پرراضی ہوں گا لیکن اگر تم نے کسی غیر مسلم نوجوان سے شادی کی تو میری اور تمہاری راہیں جداجدا ہوجائیں گی ۔ اولاد اور پھر اکلوتی اولاد کو چھوڑنا قیامت سے کم نہیں ہوتا ۔ کسی صاحب اولاد سے پوچھو کہ یہ کتنا کٹھن اور دردناک فیصلہ ہوتا ہے؟ جو قائد اعظم نے اپنے مذہب اور دین کی خاطر کیا ۔ یہ بھی نہیں کہ قائد اعظم انسانی کمزوریوں سے ماوراء تھے ۔ ان میں بھی کمزوریاں تھیں لیکن ان کی دیانت، حق گوئی اور اعلیٰ کردار ان کی زندگی کے ایسے شعبے ہیں جن کا اعتراف ان کے بدترین دشمن بھی کرتے ہیں اور جس کی تصدیق اب تاریخ نے بھی کردی ہے

جب ایسی شخصیت پر حاجی عدیل آف اے این پی نے کیچڑ اچھالا تو مجھے نہایت صدمہ ہوا اور میں فقط یہی سمجھ سکا کہ گویا ابھی تک آنر بیل خان عبدالغفار خان کے سیاسی جانشینوں نے قائد اعظم کا پاکستان قائم کرنے کا جرم معاف نہیں کیا، گویا ابھی تک ان کے باطن میں نہرو اور گاندھی سے عقیدت و وفاداری کے بت موجود ہیں ۔ میں نے عمر بھر نیپ اور پھر اے این پی کی جمہوریت پسندی کی حمایت کی ہے اور عمر بھر یہ لکھتا رہا ہوں کہ ان علاقائی سیاسی قوتوں کو قومی دھارے میں شامل اور ضم کرکے ہی جمہوری عمل کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے لیکن حاجی عدیل کے پے در پے قلبی انکشافات کے بعد مجھے تشویش ہے کہ کیا کبھی پاکستان اور قائد اعظم مخالف قوتیں قومی دھارے میں ضم ہوں گی ؟ کیا ان کی موجودہ نسلیں جو وقتاً فوقتاً قائد اعظم کے قائم کردہ پاکستان میں اقتدار کے ”لوشے“ لوٹتی رہتی ہیں اپنے ذہنوں اور دلوں کے چوکھٹوں میں گاندھی کی جگہ قائد اعظم کی تصویر سجائیں گی ؟ میرا خیال تھا کہ تقسیم ہند سے نفرت کا ورثہ سرحدی بزرگوں کے ساتھ دفن ہوچکا لیکن لگتا ہے کہ یہ محض ہمارا حسن ظن تھا

اس حوالے سے مجھے قائد اعظم کے وہ ا لفاظ یاد آتے ہیں جو انہوں نے 20 اپریل1948ء کو پشاور کے جلسہ عام میں کہے تھے ۔ ہماری نوجوان نسلوں کو علم نہیں کہ قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل پاکستان 18,17,16اپریل 1948ء کو صوبہ سرحد کا دورہ کیا تھا ۔ پشاور کے قیام کے دوران وہ مسلسل دو دن خان عبدالغفار خان سے ملے اور انہیں پاکستان کے قومی دھارے میں شریک کرنا چاہا اور پھر مایوس ہو کر 20 اپریل کو جلسہ عام میں یہ اعلان کیا کہ اے قوم یہ لوگ قابل اعتماد نہیں ۔ جو دوست اس موضوع پر تفصیل پڑھنے کی خواہش رکھتے ہوں وہ میری کتاب درد آگہی کا آخری باب ملاحظہ فرمائیں

قائد اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار جن شخصیتوں کے بارے میں کیا تھا وہ اللہ کو پیاری ہوچکیں لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی ورثہ حاجی عدیل جیسے وفاداروں کے ذہنوں پر آج تک چھایا ہوا ہے حاجی عدیل صاحب کے ذہنی رہنما اور سیاسی گرو کو اپنے سرحدی گاندھی ہونے پر فخر تھا اور گاندھی کی سوچ کیا تھی اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ وہ قائد اعظم سے خط و کتابت اور ملاقاتوں میں فرمایا کرتے تھے کہ میں کیسے مان لوں کہ کچھ مذہب تبدیل کرنے والے (Converts) علیحدہ قوم بن گئے ہیں

مسلمانوں سے حقارت اس قدر کہ ایک بار مسلمانوں کے نام کھلی چھٹی لکھی کہ تمہارے ڈرپوک بزرگ اور نگزیب کی تلوار سے ڈر کر
مسلمان ہوگئے تھے ۔ تم واپس ہندو دھرم میں آجاؤ ۔ جمیل الرحمن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گاندھی نے اپنے رسالے میں لکھا
ہندوستان کے مسلمانوں سے نپٹنے کے دو طریقے ہیں ۔ اول ان کو واپس ہندو دھرم میں لایا جائے، دوم جو اس کے لئے تیار نہ ہوں انہیں ملک
بدر کردیا جائے ۔ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں سرآغاخان کی آٹو بائیو گرافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ گول میز کانفرنس لندن کے دوران
سر آغا خان نے گاندھی سے کہا کہ آپ ہندوستان کے باپو کہلاتے ہیں کیا آپ مسلمانوں کے باپو بھی بن سکتے ہیں ۔ گاندھی کا جواب نفی میں تھا ۔ وہ گاندھی جو مسلمانوں سے اتنی”محبت“ بہ وزن ”حقارت“ کرتا تھا اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو سرحدی گاندھی کہلوانا اور قیام پاکستان کی ڈٹ کر مخالفت کرنا بذات خود پاکستان اور قائد اعظم سے ”محبت“ کے واضح ثبوت ہیں لیکن اس کے باوجود ہم جیسوں کو خوش فہمی تھی کہ شاید قیام پاکستان کے وقت پیدا ہونے والی نسل اپنا قلبی و ذہنی قبلہ تبدیل کرکے ماضی کے سیاسی ورثے سے تائب ہوجائے کہ انہیں پاکستان نے بے حد عزت و احترام دیا ہے لیکن میرے ممدوح حاجی عدیل صاحب تو چند قدم مزید آگے چلے گئے اور یہ بیان دے کر اپنی”اصل“ آشکارا کردی کہ میرا ہیرو راجہ داہر ہے نہ کہ محمد بن قاسم ۔ بے شک انہوں نے گاندھی کے سچے پیروکار اور ذہنی چیلے ہونے کا ثبوت دے دیا اور ظاہر ہے کہ ان کا ہیرو راجہ داہر ہی ہونا چاہئے تھاکیونکہ وہ اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالنے والے محمد بن قاسم کو کیسے اپنا ہیرو مان سکتے ہیں ؟ اسی طرح بانی پاکستان ان کا ہیر و کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ راجہ داہر کے مریدوں کا ہیرو تو صرف گاندھی ہی ہوسکتا ہے

محمد بن قاسم کا اصل قصور کچھ اور تھا وہ 712 ء میں ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور اسلامی مملکت کی بنیاد رکھ کر 715ء میں واپس چلا
گیا ۔ 997ء سے لے کر 1030ء تک محمود غزنوی نے ہندوستان پر تیرہ حملے کئے لیکن اس نے اسلامی مملکت کی بنیاد ہرگز نہیں رکھی ۔ اس کے باوجود 1192ء میں جب غوری اور پرتھوی راج کے درمیان جنگ ترائن ہوئی تو تاریخ فرشتہ کے مطابق شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو جو خط لکھا اس میں واضح کیا کہ سندھ پنجاب اور سرحد میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہیں اس لئے یا تو یہ علاقے مجھے دے دو یا پھر جنگ کے لئے تیار ہوجاؤ

یہ محمد بن قاسم سے لے کر محمود غزنوی اور غوری تک کا اعجاز تھا کہ ان علاقوں میں مسلمان مقابلتاً اکثریت میں ہوئے جس میں صوفیاء
اکرام اور اولیاء اکرام نے بے حد اہم کردار سرانجام دیا ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ جغرافیائی حوالے سے ایک دوسرے میں پیوست علاقوں میں مسلمان اکثریت میں ہوئے جس کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کا مطالبہ کیا ۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان ملحقہ علاقوں میں اسلام محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور غوری اور مسلمان صوفیاء اکرام کے سبب پھیلا اور اسی لئے وہ ہمارے ہیرو ہیں جبکہ کچھ حضرات ان کے مخالفین کو اپنا ہیرو مانتے ہیں اور ہندو مؤرخین کی پیروی کرتے ہوئے ان کی کردار کشی کرتے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ مسلمان ہونے پر شرمندہ ہوں ؟

بشکريہ ۔ جنگ

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عوامی دور

عوامی دور کیا ہوتا ہے ؟ میں سمجھنے سے قاصر رہا اس کا سبب میری کم تعلیم یا کم عقلی بھی ہو سکتا ہے اور میرا ناقص مشاہدہ بھی

ایک چھوٹا سا واقعہ عوامی دور کا

اُس زمانہ میں بین الاقوامی ایئرپورٹ صرف کراچی میں تھی ۔ ميں 1976ء میں ملک سے باہر جا رہا تھا ۔ دساور کو يہ ميرا پہلا سفر نہيں تھا بلکہ چوتھا تھا ۔ ميرے پاس سرکاری پاسپورٹ تھا اور ميں جا بھی سرکاری کام کيلئے تھا ۔ ميرے پاس فرسٹ کلاس کا ٹکٹ تھا ۔ کراچی ایئرپورٹ پر میں بورڈنگ کارڈ لے کر آگے بڑھا تو راستہ بند تھا۔ مسافروں کی لمبی قطار لگی تھی ۔ وہاں پاکستان آرمی کے ایک میجر تھے جو چیکنگ کر رہے تھے ۔ قطار میں کھڑے آدھ گھنٹہ گذرگیا مگر قطار میں معمولی حرکت بھی نہ ہوئی مجھ سے آگے والا شخص دیکھ کر آیا اور بتایا کہ میجر صاحب میموں سے گپ لگا رہے ہیں ۔ میں جا کر کاؤنٹر کے قریب کھڑا ہو کر دس منٹ دیکھتا رہا کہ میجر صاحب دو گوریوں کے ساتھ صرف خوش گپیاں کر رہے تھے

میں نے معذرت مانگ کر کہا “میجر صاحب ۔ پرواز میں آدھ گھنٹہ رہ گیا ہے اور ابھی لمبی قطار انتظار میں ہے”۔ میجر صاحب نے کہا ” آپ کی باری ہے ؟” میں نے بتایا کہ میں قطار کے آخر میں ہوں ۔ کچھ دیر بعد میجر صاحب نے لوگوں کو اس طرح فارغ کرنا شروع کیا کہ کئی لوگوں پر اعتراض لگا دیا کہ وہ نہیں جا سکتے ۔ جب میری باری آئی میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ لیا اور کہیں چلے گئے ۔ پی آئی اے کا سٹيشن منيجر تو پہلے ہی پريشان پھر رہا تھا جب پرواز میں 10 منٹ رہ گئے تو مجھے بھی پریشانی ہوئی

پی آئی اے کے منيجر نے مجھے کہا ” خا کر ايئر پورٹ منيجر کو بتائيں”۔ ميں نے جا کر ایئرپورٹ منیجر سے مدد کی درخواست کی ۔ تو وہ جا کر کہیں سے میرا پاسپورٹ اور ٹکٹ لے آیا ۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ایئرپورٹ منیجر پاکستان آرمی کا اُس میجر سے سينيئر افسر تھا

سچ

ميرے انگريزی والے بلاگ کا عنوان ہے “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے“۔ مختصر کہيں تو ” کڑوا سچ “۔ آج ايک مضمون سے کچھ اقتباسات

” سچ یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنی پسند کا سچ سننے اور کہنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ جو سچ ہمیں پسند نہ آئے اسے جھوٹ قرار دینے کے لئے ہم ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ کچھ سچ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کہنے یا لکھنے کی جرأت ہم میں نہیں ہوتی ۔ جب کوئی دوسرا یہ سچ بول دیتا ہے تو ہم پر ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور ہم سچ میں سازش کے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں ”

کیا کوئی پاکستانی تحقیقاتی ادارہ یہ کہنے کی گستاخی کرسکتا تھا کہ 27دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے جائے شہادت کو دھونے کا حکم اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز نے دیا تھا؟ یہ وہ سچ ہے جو ہم نہیں بول سکتے تھے، یہ وہ سچ ہے جو ہم میں سے کئی لوگ سننا بھی نہیں چاہتے کیونہ یہ سچ ان کی پسند کا نہیں لیکن سچ تو سچ ہے اور یہ سچ تو اب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے

پرویز مشرف نے 29 نومبر 2007ء کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کو نیا آرمی چیف مقرر کیا تاہم تین اہم خفیہ اداروں کے سربراہ وہی رہے جو پہلے سے تھے۔ 27دسمبر 2007ء کو جب سانحہ لیاقت باغ پیش آیا تو جنرل کیانی کو آرمی چیف بنے صرف ایک ماہ گزرا تھا

عام طور پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس ہر اہم حکم آرمی چیف کی مرضی سے جاری کرتا ہے لیکن میجر جنرل ندیم اعجاز کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ وہ 1999ء میں کرنل تھے اور اسی زمانے سے براہ راست جنرل مشرف سے ہدایات لیا کرتے تھے ۔ کرنل کی حیثیت سے انہوں نے لاہور کے مختلف تھانوں میں جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق اور سینیٹر پرویز رشید پر وحشیانہ تشدد کیا اور اٹک قلعے مں نواز شریف کی حوالات کے اردگرد سانپ چھوڑ دیئے ۔ انہی موصوف نے رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی زیادتی کروائی اور تشدد کے بعد رانا صاحب کو عالم بے ہوشی میں موٹر وے پر پھینک دیا گیا

مسلم لیگ (ق) کی تشکیل میں ندیم اعجاز نے اہم کردار ادا کیا اور انہی خدمات کے صلے میں انہیں لاہور ہی میں بریگیڈیئر اور پھر میجر جنرل بنادیا گیا ۔ ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بننے کے بعد انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ نواب اکبر بگٹی کو راستے سے ہٹادیا ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین نے مذاکرات کے ذریعہ بگٹی صاحب کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکال لیا تھا لیکن ندیم اعجاز نے ان مذاکرات کو کامیاب نہ ہونے دیا

بگٹی صاحب کی شہادت کے بعد ایک اجلاس میں پرویز مشرف نے کہا کہ اب محمود خان اچکزئی کی باری ہے لیکن اس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ معاملات بگڑگئے اور یوں اچکزئی بچ گئے ۔ جسٹس افتخار سے استعفیٰ لینے کا مشورہ بھی ندیم اعجاز کا تھا ۔ جب وکلاء تحریک شروع ہوگئی تو پھر ندیم اعجاز نے میڈیا میں سے مشرف دشمن عناصر کو ملک دشمن قرار دینا شروع کیا اور جس کسی نے ان کی بات نہ مانی اسے اغوا کروایا، تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ غداری کے مقدمات بنانے کی دھمکیاں بھی دیں

چوہدری پرویز الٰہی اعتراف کرچکے ہیں کہ5مئی 2007ء کو جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جسٹس افتخار اور اعتزاز احسن پر فائرنگ کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ افسوس کہ چوہدری صاحب کے انکشاف کے بعد بھی کوئی ادارہ حرکت میں نہ آیا، اگر حرکت میں آجاتا تو بہت پہلے پتہ چل جاتا کہ نہ صرف 5 مئی بلکہ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار بھی ندیم اعجاز تھا ۔ صرف یہ پتہ کرلیجئے کہ 2 مئی اور 12 مئی 2007ء کے درمیان ندیم اعجاز بیرون ملک کس کے پاس گیا اور واپس آکر کس کس کو ملا؟

بشکريہ ۔ جنگ

السلام عليکم کے کئی معنی

مسلمان کے مسلمان کو ملنے پر السلام عليکم کہنے کا حُکم اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ديا ہے ۔ السلام عليکم کا مطلب جيسا کہ سب جانتے ہيں “آپ پر سلامتی ہو”۔ ليکن ہمارے معاشرے ميں جو شکُوک کا شکار ہو چکا ہے اتنے اچھے الفاظ کے پسِ پردہ معنی تلاش کئے جاتے ہيں

ديکھا گيا ہے کہ ايک شخص ايک گروہ يا محفل ميں آتا ہے اور پُرتپاک طريقہ سے السلام عليکم کہتا ہے ۔ سلام بھيجنے والے کے دل ميں کيا ہے سوائے اللہ کے اور کوئی نہيں جانتا مگر مختلف مخاطب افراد اس سلام کو مختلف طريقہ ميں وصول کرتے ہيں جس کی کچھ صورتيں يہ ديکھنے ميں آئی ہيں

“اچھا خوش اخلاق شخص ہے”
“آج بہت خوش نظر آ رہا ہے ؟”
“اتنے تپاک سے سلام ۔ ضرور کوئی ذاتی غرض ہو گی”
“دال ميں ضرور کچھ کالا ہے”

کچھ ايسے بھی ہوتے ہيں جن پر سلام کا کوئی اثر نہيں ہوتا

دراصل کسی بھی اطلاع يا خبر رسائی کا ادراک يا شعور سامع کی نہ صرف تعليم و تربيت اور ماحول بلکہ اس خاص لمحہ پر اُس کی ذہنی حالت پر بھی منحصر ہوتا ہے ۔ سلام بھی ايک اطلاع يا خبر ہوتی ہے ۔ چنانچہ سلام خواہ کتنے ہی پُرخلوص جذبات کا حامل ہو مخاطب افراد کی عِلمی سطح ۔ تربيّت اور ماحول سلام کرنے والے سے مختلف ہو تو سلام کا ردِ عمل کم ہی درست ہو گا

کوئی بھی کہا گيا جُملہ دو زمرات ميں رکھا جا سکتا ہے ۔ ايک ۔دعوٰی ۔ اور دوسرا ۔ توضيع ۔ اور ايک ہی دعوٰی کی کئی توضيعات ہو سکتی ہيں جن کا انحصار مخاطبين کی اقسام يا جذباتی کيفيات پر ہوتا ہے ۔ انسانی تعلقات ميں خبر رسائی ايک اہم مقام رکھتی ہے ۔ اگر مخاطبين کی اکثريت دعوٰی کی درست توضيع کرنے سے قاصر رہے تو اچھے تعلقات استوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اور اسی بناء پر کج فہمی اور انتشار جنم ليتے ہيں اور معاشرہ بگاڑ کی راہ پر چل نکلتا ہے

وجہ خواہ غير مساوی تعليم ہو يا ناقص تربيت مختلف افکار رکھنے والے افراد ايک ہجوم تو بن سکتے ہيں مگر قوم نہيں ۔ ہجوم کو جوش يا طيش دِلا کر اس سے بربادی کا کام تو ليا جا سکتا ہے مگر تعميری کام نہيں ليا جا سکتا ۔ ہم ايک مضبوط قوم تھے ليکن پۓ در پۓ حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی اور قوم کی لاپرواہی کے نتيجہ ميں ہم افراد کا ہجوم بن چکے ہيں ۔ اللہ کرے وہ وقت پھر آئے جب ہمارے اربابِ اختيار انگوٹھے اور کلائی کے زور کی بجائے دماغی سوچ سے کام لينے لگيں

يہ خلاصہ ہے ميرے ايک تحقيقاتی مقالے کے تين ابواب ميں سے ايک کا جو ميرے دس سالہ تجربہ اور وسيع مطالعہ اور کئی سرويز [surveys] پر مبنی تھا اور مارچ 1975ء ميں غور اور اطلاق کيلئے حکومتِ پاکستان کے متعلقہ محکمہ کے حوالے کيا گيا تھا ۔ شايد ايسے کئی تحقيقاتی مکالے اُن کی الماريوں ميں پڑے ديمک کی خوراک بن چکے ہوں گے

سياسی کلچر

میں صدر مملکت کا کوئٹہ میں خطاب سن رہا تھا۔ صدر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ وہ جسٹس نسیم حسن شاہ کو بھٹو کا قاتل سمجھتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ فرمایا کہ وہ چار فٹ تین انچ کا شخص لاہور میں آزاد پھر رہا ہے۔ ان کے کہنے کا مقصد تو اپنی فراخدلی ظاہر کرنا تھا اور بتانا تھا کہ پی پی پی انتقام پر یقین نہیں رکھتی لیکن ان کی تقریر کے یہ فقرے سن کر مجھے لگا جیسے وہ سوئے ہوئے زخموں کو کرید کر تازہ کر رہے ہیں اور لاہور کے پی پی پی کے جیالوں کو یاد دلا رہے ہیں کہ تمہارے بھٹو کا قاتل کون ہے اور کہاں ہے؟

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ایسی باتیں صدر صاحب کو زیب نہیں دیتیں اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ شاید صدر صاحب سپریم کورٹ کے این آر او پر فیصلے سے توجہ ہٹانے کے لئے ایسی باتیں کر رہے ہیں جبکہ چودھری اعتزاز احسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ بھٹو کو جسٹس مولوی مشتاق حسین اور جسٹس انوار الحق نے پھانسی چڑھایا تھا

جسٹس نسیم حسن شاہ کے الفاظ قابل غور تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھٹو صاحب کے وکیل یحییٰ بختیار غصہ نہ دلاتے تو شاید سپریم کورٹ انہیں موت کی سزا نہ دیتی۔ جنرل کے ایم عارف کی کتابیں اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہیں کہ جنرل ضیاء الحق نے بہرحال بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا اور عدالت عالیہ نے وہی کرنا تھا جو آمر مطلق چاہتا تھا۔ رہا غصہ تو عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ جب بھٹو صاحب پر ہائیکورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا تو وہ مختلف طریقوں سے جسٹس مولوی مشتاق حسین کا تمسخر اڑاتے اور اسے غصہ دلاتے تھے

جسٹس مولوی مشتاق نے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی اور چوہدری ظہور الٰہی نے صدر ضیاء الحق سے وہ قلم مانگ لیا جس سے صدر صاحب نے پھانسی کی تصدیق کی تھی چنانچہ چوہدری ظہور الٰہی کو کار میں سفر کرتے ہوئے ماڈل ٹاؤن موڑ لاہور پر قتل کر دیا گیا، کیا یہ انتقام نہیں تھا؟ نہ جانے کیوں میں صدر زرداری صاحب کی تقریر سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا کہ ان کے ان الفاظ سے پی پی پی کے جیالے پھر طیش میں آئیں گے اور پھر خدا جانے کیا ہو

دراصل ہر سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کا ایک مزاج ہوتا ہے جسے میں اس جماعت کا کلچر کہتا ہوں۔ عام طور پر سیاسی جماعت میں یہ مزاج یا کلچر اس کی قیادت پیدا کرتی ہے

ضیاء الحق کے مارشل لا لگانے کے بعد ایک عرصے تک ضیاء الحق بھٹو صاحب کو ”سر“ کہہ کر مخاطب کرتا رہا، وہ ان کا بے حد احترام کرتا تھا اور اس کا ہرگز ا رادہ بھٹو صاحب کو پھانسی چڑھانے کا نہیں تھا جس روز بھٹو صاحب نے مختصر سی حراست سے رہائی کے بعد یہ بیان دیا کہ وہ اقتدار میں آکر جرنیلوں کو پھانسی چڑھا دیں گے، اسی لمحے ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں کا موڈ بدلنے لگا اور احترام کی جگہ تصادم نے لینی شروع کر دی

آپ غور کریں تو محسوس کریں گے کہ پی پی پی کا کلچر جارحیت کا کلچر ہے اور اس کی قیادت جارحیت پر یقین رکھتی ہے۔ پی پی پی کے دانشور اسے مزاحمت کہتے ہیں جبکہ دراصل پی پی پی کے مزاج اور خمیر میں جارحیت پوشیدہ ہے اور وہ مزاحمت نہیں بلکہ تصادم کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل خود زرداری صاحب کے بیانات اور خاص طور پر نوڈیرو والی تقریر اور یہ کہ اسٹبلشمنٹ نہ ہی صرف ان کے اقتدار بلکہ ان کی جان کے در پے ہے یہ ساری حکمت عملی اور انداز ان کے جارحانہ سیاسی کلچر کی غمازی کرتا تھا۔ اسی طرح راجہ ریاض کی تقریروں میں لاشیں گرانے اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سندھ کی علیحدگی کی دھمکیاں اور پھر پی پی پی کے کارکنوں کا نہ صرف میاں نواز شریف کا پتلا جلانا بلکہ سڑکوں پر ماتم کرنا، پی پی پی کے جارحانہ انداز کو بے نقاب کرتا ہے۔

بظاہر وزیراعظم صاحب چیف جسٹس کے سامنے سرنگوں ہو چکے ہیں لیکن مجھے یہ تصادم سے نکلنے کی وقتی مصلحت اور حکمت عملی لگتی ہے کیونکہ پی پی پی کی حکومت این آر او پر فیصلے کے صدر صاحب سے متعلقہ حصے اور خاص طور پر سوئس اکاؤنٹس پر مقدمات ری اوپن کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوگی۔ گزشتہ دنوں آپ نے دیکھا کہ کس طرح ججوں کو ملغوف دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور کس طریقے سے ان کی دیانت پر شکوک کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ماضی کی مانند اب بھی پیپلز پارٹی کو جارحیت مہنگی پڑے گی لیکن کیا کیجئے کہ جارحیت جیالوں کے مزاج کا حصہ ہے۔ کس قدر فکر انگیز اور حکمت سے لبریز ہے حضرت علی کا یہ فرمان کہ ”ہر شخص کی شخصیت اس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے“

تحرير ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ اعلٰی معیار

جو محنت کرتا ہے ۔ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے
جو دیانتداری کرتا ہے ۔ وہ قابلِ اعتماد بنتا ہے
جو اچھائی کرتا ہے ۔ وہ مقبول ہوتا ہے
جو درگذر کرتا ہے ۔ وہ موافقت حاصل کرتا ہے
جو عاجزی اختیار کرتا ہے ۔ وہ بڑھائی پاتا ہے
جو استقامت یا استقلال اختیار کرتا ہے ۔ وہ قناعت و اطمینان پاتا ہے
جو اللہ پر ایمان یا یقین رکھتا ہے ۔ وہ سب کچھ پا لیتا ہے

چنے بوئیں گے تو گندم نہیں کاٹ سکتے
نہ ہی تھور بیجیں تو گلاب اُگتا ہے
جو زندگی کو دیں گے وہی زندگی لوٹائے گی
اسلئے وہی کریں جس کے نتیجہ میں بعد میں پریشانی یا پشیمانی نہ ہو

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” جو ساڑھے پانچ سال سے زائد عرصہ سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر

دکھائيں گے قوم کو رنگ کيسے کيسے

صدر آصف علی زرداری نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے وزیر داخلہ رحمن ملک کی برطرفی کو ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اصول و ضوابط کی یہ کھلی خلاف ورزی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب محترمہ قتل کیس میں ان کے کردار پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ رحمن ملک نے اس حوالے سے خود اپیل دائر کی جبکہ درخواست گزار اپنے باس کے ذریعے یا اس نے اگر سروس چھوڑ دی ہے تو وہ اپنے سابقہ باس کے ذریعے ہی اپیل دائر کر سکتا ہے ۔ سیکرٹری داخلہ نے 17 اپریل 2010ء کو 15 نومبر 2002ء سے اپنے باس کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیاجبکہ رحمن ملک کی پہلی اپیل کو صدر رفیق تارڑ نے 1999ء میں مسترد کر دیا تھا۔ سول سروس رولز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اپیل کا وقت [30 دن] گزر جانے کی وجہ سے ایوان صدر انہیں معافی نہیں دے سکتااور نہ ہی دوبارہ صدر کو اپيل کی جا سکتی ہے ۔ رحمن ملک کو 4 نومبر 1998ء کو حکومت پاکستان کی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا ۔ ان کے خلاف سات نکاتی چارج شیٹ میں غیر قانونی طور پر دو ہنڈا کاروں کا حصول، سرکاری حیثیت کا غلط استعمال، بجلی چوری جیسے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس وقت ان کی معطلی کا معاملہ احتساب عدالت نے ختم کر دیا جبکہ ہنڈا کاروں کے حوالے سے ریفرنس ابھی بھی احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے۔

متروکہ جائيداد ٹرسٹ بورڈ نے 2007ء ميں سکھوں کے گوردواروں سے ملحق زمين ڈی ايچ اے کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنايا اور کيس تيار کر کے وزارتِ اقليتی امور کی رائے لينے کيلئے بھيجا ۔ وزارتِ اقليتی امور نے اس منصوبے پر اعتراضات لگا کر فائل اپنے پاس رکھ لی ۔ پھر مئی 2009ء ميں جب حکومت بھی بدل چکی تھی اور وزارتوں کے سربراہان بھی تو تمام قوانين کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متعلقہ سينکڑوں ايکڑ زمين ڈی ايچ اے کو بيچ دی گئی ۔ اس کی خبر اُس وقت ہوئی جب بھارتی پارليمنٹ ميں اس پر اعتراضات اُٹھائے گئے اور بھارت کی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو لکھا کہ تحقيقت کی جائے

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوا ن نصیر نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت کے پولیس افسر سعود عزیز نے ہمیں سختی سے حکم دیا تھا کہ جلد از جلد جائے حادثہ کو پانی سے دھویا جائے لیکن ریسکیو 1122 نے اس بناء پر کہ جائے شہادت کو دھونے سے تمام شہادتیں اور ثبوت ضائع ہو جائیں گے، یہ کام کرنے سے انکار کردیا جس پر ایس ایس پی سعود عزیز کے حکم پر کارپوریشن کی فائر بریگیڈ گاڑیوں سے جائے شہادت کو دھلوایا گیا تاہم بعدازاں جب ثبوت ضائع ہو گئے تو ریسکیو 1122 نے بھی دھلائی اور صفائی کے کام میں حصہ لیا

ابھی بھی ہماری قوم ميں ايسے افراد موجود ہيں جو کہتے ہيں کہ پرويز مشرف اور زرداری کو بلا وجہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے