Monthly Archives: March 2010

بيوياں

“اے بھلے لوگو ۔ آپ کی بيوياں آپ کی محبت کی حقدار ہيں ۔ يہ محبت کا مجسمہ ہيں ۔ اِن سے پيار کا سلوک رکھا کرو ۔ يہ نرم دل رکھتی ہيں ۔ ان سے سخت بات نہ کيا کرو ۔ اگر کوئی اُونچی نيچی بات کہہ ديں تو غُصہ نہ کيا کرو مُسکرا ديا کرو ۔ ان کی ضروريات کا خيال رکھا کرو ۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات ہوتی ہيں ۔ جائز طريقہ سے پوری ہوتی ہوں تو پوری کر ديا کرو ورنہ بعد میں آرام سے سمجھا ديا کرو”

ميں نے اللہ کے فضل سے شادی شُدہ زندگی کے 42 سال 4 ماہ اس پر عمل کيا ہے ليکن يہ الفاظ ميرے نہيں ہيں بلکہ مولوی عبدالعزيز کے ہيں جو اُنہوں نے ايک جمعہ کے دن سب مقتديوں کو مخاطب کر کے کہے تھے اور ميں بھی مقتديوں ميں شامل تھا

ہاں جناب ۔ وہی عبدالعزيز جسے پرويز مشرف نے دہشتگرد ظاہر کرتے ہوئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوج کشی کا حُکم ديا تھا پھر امريکی ڈرون نے تصاوير لے کر بتايا کہ عمارت کے اندر کہاں کہاں انسان موجود ہيں پھر سينکڑوں بے قصور انسانوں کو بھُون کے رکھ ديا تھا ۔ ان ميں بھاری اکثريت 4 سے 17 سال کی يتيم و نادار بچيوں کی تھی اور عبدالعزيز کی بوڑھی والدہ ۔ 17 سالہ بيٹا اور ايک بھائی بھی شامل تھا ۔ عبدالعزيز کے بھائی کے علاوہ کسی کی لاش بھی نہ مل سکی تھی ۔ صرف کيپيٹل ڈويلوپمنٹ اتھارٹی کے غير مسلم خاکروبوں اور دوسرے مزدوروں کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ اُنہيں بھاری معاوضہ کے عوض رات کے وقت ڈيوٹی پر بُلايا گيا تھا اور اُنہوں نے ہاتھوں پر تھيلے چڑھا کر اور ناک پر کپڑا باندھ کر لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں جلی ہوئی لاشوں اور ہڈيوں کو سميٹ کر رات کے اندھيرے ميں ٹرکوں پر لادا تھا مگر اُنہيں يہ معلوم نہيں تھا کہ وہ ٹرک کہاں گئے تھے

تاريخ ۔ مُولد النبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم

ميں اس سے قبل اس سلسلہ ميں مندرجہ ذيل تحارير لکھ چکا ہوں ۔ تاریخ ولادت سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے متعلق تاريخی خلاصہ نقل کر رہا ہوں
ربيع الاول ہی نہيں ہر ماہ ہر دن
عشقِ رسول
جشنِ عيد ميلادُالنبی کی تاریخ

اميرالدين مدرسہ تعليم القرآن نواں شہر ملتان ۔ سيرت طيّبہ ۔ ص76 ۔ لکھا ہے کہ قول مختار يہ ہے کہ 5 ربيع الاول کو آپ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

زادالمعاد ۔ ج 1 ص 68 مترجم رئيس احمد جعفری ۔ حافظ ابن قيم متوفی 751ھ نے لکھا ہے کہ جمہور قول يہ ہے کہ 8 ربيع الاول کو آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی

رحمت للعالمين ۔ قاضی سليمان منصور پوری ۔ ج 1 ص 43 ۔ لکھا ہے کہ ہمارے نبی موسم بہار دوشنبہ کے دن 9 ربيع الاول کو پيدا ہوئے

تاريخ اسلام ۔ اکبر شاہ نجيب آبادی ۔ حصہ اول ص 72 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول 571ء بروز سوموار بعد از صبح صادق اور قبل از طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

تاريخ اسلام ۔ معين الدين احمد ندوی ۔ ج 1 ص 25 ۔ لکھا ہے کہ عبداللہ کی وفات کے چند مہينوں بعد عين موسم بہار اپريل 571ء 9 ربيع الاول کو عبداللہ کے گھر فرزند تولد ہوا ۔ بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پيدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لے جا کر اس کيلئے دعا مانگی

محبوب خدا ۔ چوہدری افضل حق ۔ ص 20 ۔ لکھا ہے کہ 20 اپريل 571ء بمطابق 9 ربيع الاول دوشنبہ کی مبارک صبح کو قدسی آسمان پر جگہ جگہ سرگوشيوں ميں مصروف تھے کہ آج دعائے خليل اور نويد مسيحا مجسم بن کر دنيا ميں ظاہر ہو گی

رسول کامل ۔ ڈاکٹر اسرار احمد ۔ ص 23 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا

قصص القرآن ۔ حفظ الرحمٰن سوہاری ۔ ج 4 ص 9 ۔ لکھا ہے کہ 9 ربيع الاول کو پيدائش کا دن ٹھہرايا

الطبقات الکبری لا بن سعد ۔ 1/100مطبوعہ بيروت ۔ لکھا ہے کہ ماہ ربيع الاول کی 10 راتيں گذری تھيں کہ دو شنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم پيدا ہوئے

دين مصطفٰی ۔ محمود احمد رضوی ۔ ص 84 ۔ لکھا ہے کہ واقعہ فيل کے پچپن روز بعد 12 ربيع الاول مطابق 20 اپريل 571ء حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کی ولادت ہوئی

ضياء القرآن ۔ پير کرم شاہ الازہری ۔ ج 5 ص 665 ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کو حضور صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم رونق افروز گيتی ہوئے

تبرکات صدرالافاضل مرتبہ حسين الدين سواداعظم لاہور ۔ لکھا ہے کہ 12 ربيع الاول کی صبح صادق کے وقت مکہ مکرمہ ميں آپ کی ولادت ہوئی

چودہ ستارے ميں سيّد نجم الحسن کراروی ۔ص 28 ، 29 میں لکھا ہے کہ نے پيدائش کا دن 17 ربيع الاول ہے

البشر لاہور ہادی انسانيت نمبر فروری 1980 ص 50 مضمون چودہ معصومين کے مطابق فقہ جعفريہ کے علماء کے نزديک طے شدہ تاريخ ولادت 17 ربيع الاول ہے

[مندرجہ بالا حوالوں کے مطابق تاریخ ولادت مبارک ربی الاول کی 5 يا 8 يا 9 يا 10 يا 12 يا 17 ہے يعنی درست تاريخ کا تعيّن مشکل ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ عادت

ایک کچھوا دریا میں تیر رہا تھا کہ اسے “بچاؤ بچاؤ” کی آواز آئی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بچھو ڈُبکیاں کھاتا بہتا جا رہا ہے ۔ کچھوے نے بڑھ کر اُسے اپنی پیٹھ پر اُٹھا لیا اور دریا کے کنارے کی طرف تیرنے لگا ۔ لمحے بعد کچھوے کو ٹُک ٹُک کی آواز آئی تو پوچھا “یہ میری کمر پر کیا مار رہے ہو ؟” بچھو نے کہا “ڈنک مارنا میری عادت ہے”۔ کچھوے نے کہہ کر”اور میری عادت ڈُبکی لگانا ہے” ڈُبکی لگائی اور بچھو ڈوب گیا

شیخ سعدی

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter
” پچھلے ساڑھے پانچ سال سے معاشرے کے کچھ بھیانک پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے

جشنِ عيد ميلادُالنبی کی تاریخ

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اکرم سيّدنا محمد صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے وصال [12 ربيع الاول 632ء] کے بعد کم از کم 500 سال تک ميلادُالنبی بطور محفلِ ميلاد یا جلوس نہيں منايا گيا ۔ مُختلف تحارير سے اکٹھی کی گئی چيدہ چيدہ معلومات مندرجہ ذيل ہيں

تاريخ ابن خلکان ج 3 ص 274 ۔ ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی عيد منانے کا آغاز 604ھ ميں ملک المعظم مظفرالدين کوکبوری نے کيا جو 586ھ ميں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا تھا ۔ شاہ اربل مجلس مولود کو ہر سال شان و شوکت سے مناتا تھا ۔ جب اربل شہر کے ارد گرد والوں کو خبر ہوئی کہ اس نے ايک مجلس قائم کی ہے جس کو وہ بڑی عقيدت اور شان و شوکت سے انجام ديتا ہے تو بغداد ۔ موصل ۔ جزيرہ سجادند اور ديگر بلادِ عجم سے گويّے ۔ شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کيلئے ناچ گانے کے آلات لے کر ماہ محرم ہی سے شہر اربل ميں آنا شروع ہو جاتے ۔ قلعہ کے نزديک ہی ايک ناچ گھر تعمير کيا گيا تھا جس ميں کثرت سے قبے اور خيمے تھے ۔ شاہ اربل بھی ان خيموں ميں آتا گانا سُنتا اور کبھی کبھی مست ہو کر ان گويّوں کے ساتھ رقص بھی کرتا

حسن المقصد فی عمل المولد ۔ تحرير امام سيوطی ۔ جب محفلِ ميلاد کا چرچا ہوا تو کمزور ايمان والے خوشامدی اکٹھے ہو گئے ۔ عُلمائے سُو کا گروہ ہر دور ميں موجود رہا ۔ اس وقت بھی ايک مشہور عالمِ دين ابن وحيہ تھا ۔ وہ خراسان جا رہا تھا کہ اربل شہر سے گذرا ۔ اسے پتہ چلا کہ يہاں کے بادشاہ نے ايک مجلس ميلاد ايجاد کی ہے جس سے اسے انتہائی رغبت ہے ۔ ابن وحيہ نے مال و دولت کے لالچ ميں ميلاد کی تائيد کيلئے ايک رسالہ “التنوير فی مولد السراج المنير” لکھا پھر بادشاہ تک رسائی حاصل کی اور دربار ميں پڑھ کر سنايا ۔ شاہ اربل نے خوش ہو کر ايک ہزار اشرفی بطور انعام دی

عصرِ حاضر کے ميلادُالنبی منانے والے زعماء کيا کہتے ہیں

ماہنامہ ضيائے حرم دسمبر 1989ء زيرِ سر پرستی محمد کرم شاہ الازہری ۔ يہ درست ہے کہ جس بڑے پيمانے پر آجکل ميلادُالنبی منائی جاتی ہے اس طرح صحابہ کرام يا تابعين يا تبع تابعين کے زمانہ ميں نہيں منائی گئی بلکہ کئی صديوں تک اس کا نشان نہيں ملتا ۔ تاريخی نقطہ نگاہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے يہ ماننا پڑتا ہے کہ مجالسِ ميلاد يا مجالسِ ذکر و شغل کی طرف مسلمانوں کی زيادہ تر توجہ اس وقت ہوئی جب ضروريات اسلام سے فراغت پا کر مسلمان اپنی حکومت اور اسلامی ترقيات سے بہرہ ور ہو کر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے اور غير اقوام کے ميل جول نے ان کو اس عمل کی طرف مجبور کيا کہ جس طرح وہ لوگ اپنے اسلاف کی يادگاريں قائم کرتے ہيں اسی طرح ان کے دوش بدوش مسلمان بھی اسلامی شان و شوکت کا اظہار کريں

مقدمہ سيرت رسول عربی از عبدالحکيم اشرف قادری جامعہ نظاميہ رضويہ لاہور ۔ بارہ ربيع الاول کو عام طور پر بارہ وفات کہا جاتا تھا ۔ يہ حضرت علامہ توکلی کی کوششوں کا نتيجہ ہے کہ گورنمنٹ کے گزٹ ميں اسے عيد ميلادُالنبی صلی اللہ عليہ و سلم کے نام سے منظور کروايا

منہاج القرآن ستمبر 1991ء ص 19 ۔ شہنشاہانِ دنيا ميں سب سے پہلے اربل کے بادشاہ نے ميلاد شريف منانے کا اہتمام کيا اور وہ بزرگ اور سخی حکمرانوں ميں سے تھا ۔ شيخ ابن وحيہ نے ميلادُالنبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے موضوع پر ايک رسالہ التنوير فی مولد البشير النذير لکھ کر بادشاہ کو پيش کيا تو اس نے اسے ايک ہزار دينار انعام ديا ۔ ايک شخص ايک دفعہ شاہ اربل کے پاس ميلاد کے دسترخوان پر حاضر ہوا تو اس نے بيان کيا کہ اس دسترخوان پر 5 ہزار بھُنے ہوئے بکرے 10 ہزار روسٹ مُرغياں ايک لاکھ نان ايک لاکھ کھانے سے بھرے ہوئے مٹی کے پيالے اور 30 ہزار مٹھائی کی طشتریاں تھيں اور بادشاہ ہر سال محفلِ ميلاد پر 30 لاکھ دينار خرچ کرتا تھا

[خليفہ دوم اميرالمؤمنين عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نامور سپہ سالار اور صحابی خالد بن وليد رضی اللہ عنہ کو اسلئے معزول کر ديا تھا کہ اُنہوں نے جہاد سے واپسی پر دس بارہ ہزار دينار بخشيش کئے تھے]

روزنامہ کوہستان لاہور عيد ميلاد ايڈيشن 22 جولائی 1964ء۔ لاہور میں ميلادُنبی صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کا جلوس سب سے پہلے 5 جولائی 1933ء بمطابق 12 ربيع الاول 1352ھ کو نکلا اور 1940ء تک باقاعدگی سے نکلتا رہا

روزنامہ کوہستان 1964ء حکيم محمد ايوب حسن کا مضمون راولپنڈی ميں ميلادُ النبی ۔ راولپنڈی ميں يہ سلسلہ ايک مدت سے جاری ہے ۔ اس کی ابتداء اس زمانہ ميں ہوئی جب پٹی ضلع لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ايمان کے ايڈيٹر مولانا عبدالمجيد قريشی نے ايک تحريک شروع کی کہ سارے ملک ميں سيرت النبی صلی اللہ عليہ و سلم کميٹياں قائم کی جائيں

[ميرا ذاتی مشاہدہ ۔ مجھے اچھی طرح ياد ہے کہ کم از کم 1950ء تک بارہ ربيع الاول کو رسول اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلّم کے کو وصال مبارک کی تاريخ 12 ربيع الاول کے حوالے سے بارہ وفات کے نام سے ياد کيا جاتا تھا]

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ بُزدلی اور بہادری

بہادر یا دلیر کا مفہوم وطنِ عزیز میں اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اصل مفہوم عوام کے ذہنوں سے ماؤف ہو چلا ہے ۔ عصرِحاضر میں بہادر مرد اُسے سمجھا جاتا ہے جو کسی کو تھپڑ مار دے ۔ گھونسہ جَڑ دے یا گولی مار دے ۔ اور کچھ نہیں تو کھڑے کھڑے کسی کی بے عزتی کر دے ۔ کچھ ناہنجار تو سڑک پر جاتی لڑکی یا عورت پر آوازہ کسنے يا اُس کے جسم پر ہاتھ پھیرنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ اس کے برعکس کچھ عورتیں مردوں کو کھری کھری سنانا يا بے عزتی کرنے کو بہادی سمجھتی ہیں ۔ کچھ مرد و زن ایسے ہیں کہ دوسرے کو نیچ ذات یا کم عِلم کہنے کو بہادری سمجھتے ہیں ۔ صاحبِ فہم لوگ ان حرکات کو بُزدلی کی نشانی قرار دیتے ہیں اور نفسیات کے ماہرین اسے نفسیاتی مرض احساسِ کمتری سے تعبیر کرتے ہیں گو ايسے لوگوں کو احساسِ برتری ہوتا ہے

سوال پیدا ہوتا ہے کہ بہادری کیا ہے ؟ سب سے بڑی بہادی اپنی غلطی کو بغیر کسی دباؤ کے ماننا اور اگر اُس غلطی سے کوئی متاءثر ہوا ہو تو اُس سے صدق دِل سے غیر مشروط معافی مانگنا ہے ۔ اس سلسلہ میں مجھے دو واقعات یاد آئے ہیں ۔ دونوں کے وقوع پذير ہونے کا عمل ايک ہی تھا جو ہوا تو بے خبری ميں تھا ليکن نتائج بھيانک تھے

پہلا واقعہ بزدلی کا چار دہائیاں پیچھے کا ہے ۔ دفتر میں بیٹھے خبر ملی کہ محکمہ کے ایک سینیئر کلرک نے خود کُشی کر لی ہے ۔ ہوا يوں کہ خفیہ معاملات کی ايک فائل [Secret File] گم ہو گئی تھی جو اُس کلرک کی الماری میں ہوتی تھی ۔ کلرک کو تفتيش کيلئے کسی خفيہ ادارے کے حوالے کيا گيا تھا کہ ايک دن اُس نے خودکُشی کر لی ۔ اُس کے ساتھ کام کرنے والوں سے معلوم ہوا کہ کلرک شریف اور دیانتدار تھا ۔ اُس کا کہنا تھا کہ اُس نے وہ فائل جنرل منیجر صاحب کو دی تھی اور پھر واپس اُس کے پاس نہیں پہنچی تھی ۔ اس ڈر سے کہ اُس کے بیان کو سچ مان لیا گيا تو الزام جنرل منیجر یا کم از کم جنرل منیجر کے کوآرڈینیشن آفیسر پر آئے گا کسی نے جنرل منيجر کے دفتر کی تلاشی لينے کا نہ سوچا ۔ میں نے کوآرڈینیشن آفیسر سے پوچھا کہ “جنرل منیجر کی ميز کی ساری درازیں باہر نکال کر اور میز اُٹھا کر دیکھا تھا” ۔ اُس نے جواب دیا “الماری اور درازيں ديکھی تھيں”۔ خیر مرنے والا مر چکا تھا بات آئی گئی ہو گئی ۔ کچھ ماہ بعد جنرل منیجر کے کمرے میں رنگ روغن کرنے کیلئے میز اُٹھائی گئی تو وہ فائل میز کے نیچے سے نکلی

دوسرا واقعہ ایک غیر مسلم کا ہے ۔ مئی جون 1999ء میں امریکا کی ایک ریاست میں ایک اعلٰی معیار کی یونیورسٹی میں سالانہ امتحانات ہوئے ۔ ایک غیر ملکی مسلم طالبعلم کا پرچہ گُم [Answer sheet] ہو گیا ۔ طالبعلم کا مسلک تھا کہ پرچہ حل کرنے کے بعد اُس نے اُسی جگہ پر رکھا تھا جہاں باقی سب نے پرچے رکھے تھے ۔ انکوائری وغیرہ ہوئی ۔ آخر فیصلہ ہوا کہ چونکہ طالبعلم کی پورے سال کی کارکردگی بہت اچھی تھی اسلئے اسے پاس کر دیا جائے لیکن کچھ سزا کے ساتھ

يونيورسٹی چھوڑنے کے بعد طالبعلم امریکا کی کسی اور ریاست میں ملازم ہو گیا ۔ چند ماہ بعد اُسے اُس پروفیسر کی ای میل آئی جس کے مضمون کا پرچہ گم ہوا تھا ۔ اُس نے معذرت کی تھی اور لکھا تھا ۔ “میرے دفتر میں رنگ روغن ہوا تو چیزیں درست کرتے میز کے نیچے سے ایک پرچہ ملا جس کا پہلا صفحہ غائب ہو چکا تھا لیکن میں نے تمہارا رسم الخط پہچان لیا اور میں نے ڈین سے مل کر اس مضمون میں تمہارا گریڈ “ڈی” کی بجائے “اے” کرا دیا ہے ۔ اُن پروفيسر صاحب کو دو ماہ کی پوچھ گچھ کے بعد اُس طالبعلم کا ای میل کا پتہ ملا تھا

پروفيسر صاحب کے متذکرہ عمل کو کہتے ہیں بہادری جو وطنِ عزیز میں مفقود ہوتی جارہی ہے

عشقِ رسول

میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں میڈا ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں،جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد ممبر مُصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں صوم صلاۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
میڈا سانول مٹھڑا شام سلونڑا من موہن جانان وی توں
میڈا مرشد ھادی پیر طریقت شیخ حقائق دان وی توں
میڈی آس امید تے کھٹیا وٹیا تکیہ مانڑ تے ترانڑ وی توں
میڈا دھرم وی توں میڈا بھرم وی توں
میڈی شرم وی توں میڈی شان وی توں
میڈا ڈُکھ سُکھ رووَنڑ کھلنڑ وی توں
میڈا درد وی توں درمان وی توں
میڈا خوشیاں دا اسباب وی توں
میڈے سولاں دا سامان وی توں
میڈا حُسن تے بھاگ سُہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام و نشان وی توں

کلام ۔ خواجہ غلام فرید

يک نہ شُد دو شُد

ميں نے جعلی پاسپورٹوں کا ذکر کيا تھا گو پاسپورٹ ناردا کے ہی ماتحت ہے مگر اب تو نادرا خود ہی قابو آ گيا ۔ کسی نے کہا تھا کہ يہ لفظ نادرا دراصل “نالائق ادارہ”کا مخفف ہے

خبر
گزشتہ ماہ ایک عرب ملک جاتے ہوئے گرفتار کیے جانیوالے عبدالمالک ریگی کے پاس سے نادرا کا جاری کردہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ برآمد ہوا ہے اور ایرانی حکام نے اس بارے میں پاکستان کو آگاہ بھی کردیا ہے لیکن حکومت نے اس بات کو خفیہ رکھا ہے اور نادرا کا کہنا ہے کہ یہ شناختی کارڈ جعلی ہے۔نادرا کی جانب سے وضاحت بھی اس وقت سامنے آئی جب ٹی وی پر اس کی خبر نشر ہوگئی۔عبدالمالک ریگی کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈنادرا کیلیے ایک چیلنج بن چکا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ” اب دھوکا ممکن نہیں“ جب کہ وزارت داخلہ کی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ریگی کے بھائی کے پاس بھی جعلی پاکستانی شناختی کارڈ ہے جو کہ ایرانی شہری ہے۔
واضح رہے کہ چیکنگ کے دوران عبدالمالک ریگی کا شناختی کارڈ اصلی ثابت ہو چکا ہے۔

بشکريہ ۔ جنگ